امریکا اور چین کے درمیان تجارت کے محاذ پر مناقشہ اب تک جاری ہے۔ یہ سمجھا جارہا تھا کہ بھارت اِس صورتِ حال سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا اور ایسا کرنے میں کامیاب بھی رہے گا، مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوسکا ہے۔ کیوں؟ بھارت اب تک اس مناقشے سے بھرپور فائدہ اس لیے نہیں اٹھا سکا کہ ایک طرف تو اس کی مینوفیکچرنگ کی صلاحیت محدود ہے اور پھر امریکا سے تنازعات بھی اب تک دور نہیں کیے جاسکے ہیں۔
امریکا اور چین کے درمیان یہ مناقشہ نقطۂ عروج پر گزشتہ برس پہنچا جب دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ہاں سے منگوائی جانے والی اشیا پر غیر معمولی شرح سے ڈیوٹیز اور ٹیکس نافذ کیے۔ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان تنازع نے عالمی منڈی کو شدید متاثر کیا۔ بہت کچھ الٹ پلٹ گیا۔ خیر، چین کے پڑوس میں متعدد ممالک نے امریکا سے اس کے تجارتی قضیے کو اپنے لیے ایک بڑے ایڈوانٹیج کے روپ میں دیکھا۔ ان میں بھارت سرفہرست تھا۔
اقتصادی امور کے ماہرین اور سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ بھارت ملینیم کی سب سے بڑی تجارتی جنگ سے فائدہ اٹھانے والوں میں سرفہرست ہوگا۔ یہ خیال دو مفروضوں کی بنیاد پر تھا۔ پہلا مفروضہ یہ تھا کہ چین سے معاملات بگڑنے پر زیادہ سے زیادہ امریکی کمپنیاں چین سے باہر نکل کر بھارت میں سیٹ اپ قائم کریں گی تاکہ امریکا کے نافذ کردہ بلند شرح کے ٹیرف سے بچ سکیں۔ دوسری طرف امریکی کمپنیوں کو مال فراہم کرنے والی چینی کمپنیاں بھی اپنی پروڈکشنز کو شفٹ کرنے پر متوجہ ہوں گی۔
اقتصادی امور کے ماہرین اور سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے کو ایک سال سے زائد مدت گزر چکی ہے مگر اب تک بھارت زیادہ فائدہ اٹھاتا ہوا دکھائی نہیں دیا۔ امریکی محکمہ تجارت اندرونی اور بیرونی تجارت کا پورا ریکارڈ رکھتا ہے۔ پارٹنر ممالک سے تجارت کے اعداد و شمار دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا چین تجارتی مناقشے سے بھارت اگر فائدہ اٹھا بھی سکا ہے تو بہت معمولی۔ ۲۰۱۸ء میں امریکا اور بھارت کے درمیان اشیاء کی تجارت ۹ء۸۷؍ارب ڈالر کی حد تک رہی۔ ۲۰۱۷ء میں یہ معاملہ ۲ء۷۴؍ارب ڈالر کا تھا۔ رواں سال اگست تک دوطرفہ تجارت ۷ء۶۲؍ارب ڈالر کی رہی ہے جبکہ گزشتہ برس جنوری سے اگست تک دوطرفہ تجارت ۲ء۵۸؍ارب ڈالر رہی تھی۔
چین کے پڑوس میں واقع ممالک میں صرف ویتنام اب تک امریکا چین تجارتی مناقشے سے نمایاں حد تک فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بھارت اس پورے معاملے سے بھرپور استفادہ کرنے میں کامیاب کیوں نہیں ہوسکا؟
اِس کی تین بڑی وجوہ ہیں۔
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ چین اور امریکا کے درمیان تجارتی تنازع اگرچہ شدید نوعیت کا دکھائی دیتا ہے اور فریقین نے کئی مواقع پر غیر معمولی بڑھکیں بھی ماری ہیں۔ اس کے باوجود دونوں ممالک میں چند ایک شعبے ہی ہیں جو متاثر ہوئے ہیں، وگرنہ تجارتی حجم میں زیادہ کمی نہیں آئی۔ امریکی محکمۂ تجارت کے مطابق ۲۰۱۸ء کی ابتدا سے اب تک امریکا اور چین کے درمیان اشیا کی تجارت کم و بیش ایک ہزار ارب ڈالر کی رہی ہے۔ اِس مدت کے دوران چین کا ٹریڈ سرپلس ۶۵۱؍ارب ڈالر کا رہا ہے۔
اوباما کے دور میں جنوری ۲۰۱۴ء سے اگست ۲۰۱۵ء کے دوران چین سے تجارت میں امریکی خسارہ ۵۸۳؍ارب ڈالر رہا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ صدر ٹرمپ کے دور کے مقابلے میں تب دو طرفہ تجارت ۱۲ فیصد زیادہ تھی۔ جب سے ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کا منصب سنبھالا ہے تب سے اب تک چین سے تجارت میں امریکی خسارہ ایک ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہوچکا ہے۔ موازنہ کیا جائے تو براک اوباما کی دوسری مدتِ صدارت کے پہلے ۳۲ ماہ کے دوران چین سے تجارت میں امریکی عدم موافقت کم و بیش ۹۰۰؍ارب ڈالر تھی۔ یہ اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ اختلافات اور مناقشے کے باوجود امریکا اور چین کے درمیان تجارت ہوتی رہی ہے۔ بہت سی امریکی اور چینی کمپنیاں مین لینڈ سے دور ہوچکی ہیں مگر دوطرفہ تجارت جاری ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ غیر معمولی ٹیرف کے باوجود چین اب بھی تجارت کے حوالے سے امریکا کے لیے بہت موافق ملک ہے۔
دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ چین اور امریکا کے درمیان تجارتی قضیے کے زور پکڑنے کے باوجود مینوفیکچرنگ کے حوالے سے بھارت بہترین متبادل کے طور پر ابھرنے میں ناکام رہا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے میک اِن انڈیا کے نام سے غیر معمولی زور و شور کے ساتھ مہم چلائی مگر اب تک ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے، جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ بھارت میں مینوفیکچرنگ کی بنیاد وسیع ہوئی ہے اور وہ پیداواری شعبے میں اپنی اہلیت منوانے کے قابل ہو پایا ہے۔ بھارت اب تک اس قابل نہیں ہوسکا ہے کہ مشرقی ایشیا کے تین بڑوں یعنی جاپان، چین اور جنوبی کوریا سے مینوفیکچرنگ کے شعبے میں بھرپور مقابلہ کرسکے۔
بروکنگز انسٹی ٹیوشن نے بتایا ہے کہ گزشتہ برس بھارت کی مینوفیکچرنگ تقریباً ۳۰۰؍ارب ڈالر کی تھی جبکہ چین دو ہزار ارب ڈالر کی حد پار کرچکا تھا۔ غیر معمولی حجم کے باوجود بھارت کی مینوفیکچرنگ جاپان کے مقابلے میں ایک تہائی سے بھی کم اور جرمنی کے مقابلے میں نصف سے بھی کم تھی۔
بھارت کے مینوفیکچرنگ سیکٹر کے پیچھے رہ جانے کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ متعلقہ بنیادی ڈھانچا انتہائی کمزور ہے۔ چند برس کے دوران بھارت نے ایئر پورٹس بنانے پر تو خوب توجہ دی ہے مگر سڑکوں کو اپ گریڈ کرنے، ریلوے کے نظام کو وسعت دینے اور نئی بندر گاہیں تعمیر کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے۔ بنیادی ڈھانچے کا معیار بلند کرنے اور اُسے وسعت دینے کے لیے بھارت کو بہت بڑے پیمانے پر غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اصلاحات کا عمل سست پڑ جانے سے بھارت کو بلا واسطہ غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
نریندر مودی کی وزارتِ عظمٰی کے دور میں بھارت نے عالمی بینک کے ’’ایز آف ڈوئنگ بزنس‘‘ انڈیکس میں اپنی پوزیشن بہتر بنائی ہے۔ یہ انڈیکس کاروبار کے لیے دوستانہ ماحول کا اندازہ لگاتا ہے۔ ۱۹۰ معیشتوں کی رینکنگ میں بھارت ۲۰۱۴ء میں ۱۳۲ ویں نمبر پر تھا۔ اب ۶۳ ویں نمبر پر ہے۔ اگر بھارت چاہتا ہے کہ کاروبار کے حوالے سے موزوں ترین ماحول کا حامل ملک بنے تو اس رینکنگ میں اس کی پوزیشن پچاس کے اندر اندر ہونی چاہیے۔
امریکا اور چین کے درمیان تجارتی قضیے سے زیادہ فائدہ اٹھانے میں بھارت کی ناکامی کی تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت تجارتی معاملات میں امریکا سے اپنے تنازعات اور اختلافات دور نہیں کرسکا ہے۔ اسٹریٹجک اور چند دوسرے معاملات میں بھارت اور امریکا نے تعلقات بہتر بنائے ہیں مگر تجارت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے اُن کے تعلقات قابلِ رشک یا مثالی نہیں رہے ہیں۔
جب سے ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کا منصب سنبھالا ہے، بھارت اور امریکا کے تجارتی تعلقات اطمینان بخش نہیں رہے۔ گزشتہ برس بھارت سے المونیم کی مصنوعات کی درآمد پر درآمدی ڈیوٹی بڑھائی گئی ہے اور اس بار یہ اقدام فولاد کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرنسز (جی ایس پی) پروگرام کے تحت بھارت کو ملنے والے فوائد بھی ختم کردیے ہیں۔ امریکا نے حال ہی میں بھارت کی طرف سے متعارف کرائے جانے والے ایسے قواعد پر شدید ناراضی اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے، جن سے امریکا امریکی کریڈٹ کارڈ کمپنیوں ماسٹر کارڈ اور ویزا جبکہ امیزون اور وال مارٹ جیسے ای کامرس جائنٹس کے مفادات پر زد پڑی ہے۔
اکتوبر میں نریندر مودی کے امریکا کے دورے میں دونوں ممالک کے درمیان ایک وسیع البنیاد تجارتی معاہدے کی توقع کی جارہی تھی۔ مودی کو امریکا سے واپس آئے زمانہ ہوگیا مگر اب تک دونوں ممالک نے ایسے کسی معاہدے کی طرف اشارہ تک نہیں کیا۔
وقت بھارت کے ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی قضیے سے فائدہ اٹھانے میں وہ بہت حد تک ناکام ہی رہا ہے۔ امریکا اور چین بڑے اور انتہائی مضبوط ممالک ہیں۔ ان کے درمیان آئندہ بھی تجارتی اور دیگر قضیے کھڑے ہوتے رہیں گے۔ اگر بھارت نے اپنی مینوفیکچرنگ بیس وسیع اور مضبوط نہ کی تو آئندہ بھی ایسی کسی صورتِ حال سے فائدہ نہ اٹھا سکے گا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Why the US-China trade war has not helped India “. (“Hindustan Times”. October 31, 2019)
Leave a Reply