بی جے پی نے لال کرشن ایڈوانی کو اپنی جانب سے وزیراعظم کے عہدے کے لیے نامزد کر دیا ہے لیکن ان کا ملک کے اس باوقار عہدے تک پہنچنا آسان نہیں لگ رہا ہے۔ اول تو یہ کہ ان کی جماعت کو اتنی نشستیں ہی ملنے کی امید نہیں ہے کہ وہ اس عہدے کے لیے دعویٰ کریں اور اگر خدانخواستہ کسی وجہ سے انہیں مطلوبہ نشستیں حاصل بھی ہو جائیں تو پارٹی اُس وقت ان کے نام پر متفق ہو جائے گی، اس کے آثار کم ہیں کیونکہ اس صورت میں مودی کو پروموٹ کیا جا سکتا ہے۔
۱۹۴۰ء میں انگلینڈ میں یہ بحث چلی تھی کہ ملک کا اگلا وزیراعظم کون ہو گا؟ اصل میں ۱۹۳۹ء میں دوسری عالمی جنگ شروع ہو گئی تھی اور جرمنی پولینڈ کو اپنی فوجی طاقت سے روند چکا تھا۔ جرمنی نے دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ پولینڈ نے جرمنی پر حملہ کیا ہے۔ حالانکہ بعد میں پتہ چلا کہ یہ بالکل غلط پروپیگنڈا تھا۔ اصل میں یہ تشہیر ہٹلر کی جنگ سے متعلق اس کی حکمتِ عملی کا ایک حصہ تھا۔ ہٹلر کے سیاسی صلاح کار گوئے بولے کا کہنا تھا کہ ایک جھوٹ کو اگر سو بار عوامی سطح پر بولا جائے تو لوگ اسے سچ ماننے لگتے ہیں۔ انگلینڈ میں مقابلہ چرچل اور انٹونی کے بیچ تھا۔ لوگ یہ سوچنے لگے تھے کہ ہٹلر اور گوئے بولے کی تشہیر جنگ کا جواب چرچل اور انٹونی میں سے بہتر طور پر کون دے سکتا ہے؟ اکثریت کا جواب تھا کہ یوں تو دونوں ہی قابل اور لائق ہیں لیکن چرچل بہترین۔ ’’لندن ٹائمز‘‘ نے لکھا تھا کہ ’’ہٹلر اور گوئے بولے کا جواب صرف چرچل ہی دے سکتے ہیں کیونکہ ان کی یہ نمایاں خوبی ہے کہ وہ بہت اچھے مقرر ہیں اور بات سے بات پیدا کرنے میں انہیں مہارت حاصل ہے۔ ’’ہندوستان میں ۱۵ ویں لوک سبھا کے چنائو کا بگل بج چکا ہے۔ ۱۶ مئی تک انتخابی عمل ختم ہو جائیں گے۔ ہندوستان کے الیکشن کمیشن کے رجسٹر میں قریب ۴۵۰ سیاسی پارٹیوں کے نام درج ہیں جو انتخابات میں عوام کے سامنے ہوں گی۔ ان میں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں یعنی کانگریس اور بی جے پی کا نام سرفہرست ہے جب کہ تیسرے نمبر پر لیفٹ فرنٹ کا نام آتا ہے۔ اسی طرح سے انہی تینوں جماعتوں کی سربراہی میں تین محاذ بھی وجود میں آئے ہیں، این ڈی اے یو پی اے اور تھرڈ فرنٹ۔ لیکن آپ کی اور ہماری نظروں کو اپنی طرف کھینچنے والی سب سے بڑی بات اس ملک کی علاقائی پارٹیاں ہیں۔ ہر ریاست میں نہ جانے کتنی علاقائی پارٹیاں ہیں۔ ان سبھی کا نام بتانے اور ان کے مبنی فیسٹو پر الگ الگ تنقید کرنا تو یہاں مشکل ہے لیکن خیال کیا جا رہا ہے کہ ۱۵ ویں لوک سبھا کے چنائو میں اصل ٹکر یو پی اے اور این ڈی اے میں رہے گی یعنی ان میں سے جو بھی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئے گی وہ علاقائی جماعتوں اور تیسرے محاذ میں شامل جماعتوں کو اپنے ساتھ شامل کر کے حکومت بنانے کی کوشش کرے گی۔ میرا اپنا خیال ہے کہ بی جے پی کی طرف سے بھلے ہی لال کرشن ایڈوانی کا نام پیش کیا گیا ہے لیکن بہت ممکن ہے کہ انتخابات کے بعد نریندر مودی کا نام بھی وزیراعظم کی کرسی کے لیے سامنے آ سکتا ہے۔ لیکن میں یہ کہوں گا کہ ’’آسرا آسرے والوں نے لگا رکھا ہے‘‘ تو ان آسرا لگانے والوں میں لالو پرساد ملائم سنگھ کا نام بھی لکھا جا سکتا ہے حالانکہ ملائم سنگھ اپنا ۵۰ فیصدی حق کھو چکے ہیں کیونکہ انہوں نے بابری مسجد مسمار کرنے والے کلیان سنگھ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اس کی وجہ سے مسلم رائے دہندگان ان سے سخت ناراض ہیں۔ میں آپ کو یاد دلا دوں کہ اتر پردیش ہائی کورٹ کے سامنے کلیان سنگھ نے جو اس وقت وہاں کے وزیراعلیٰ تھے یہ وعدہ کیا تھا کہ بابری مسجد کا بال بھی بانکا نہیں ہو گا مگر ہوا اس کے بالکل برعکس۔ بالآخر رام مندر بنانے کے لیے بابری مسجد کو مسمار کر دیا گیا اور اس پر کلیان سنگھ نے بارہا فخر کا اظہار کیا ہے۔
حالانکہ اس کا ذمہ دار میں صرف کلیان سنگھ ہی نہیں بلکہ اس وقت کے وزیراعظم نرسمہا رائو کو ان سے بھی زیادہ مانتا ہوں کیونکہ مرکزی حکومت تو ان ہی کے پاس تھی۔ ان کے بارے میں آنجہانی چندر شیکھر نے اردو ہندی بلیٹنز کے لیے لیے گئے انٹرویو میں ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ انہوں نے تین چار بار نرسمہا رائو کو فون کیا اور کہا کہ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے لوگ بابری مسجد میں داخل ہو رہے ہیں، آپ کچھ کیجیے۔ نرسمہا رائو نے کہاکہ چندرشیکھر جی میں دیکھتا ہوں کہ کیا کر سکتا ہوں اور پھر وہ چپ چاپ بیٹھ گئے۔ اس وقت سے آنجہانی شیکھر جی جو ملک کے بہت بڑے لیڈر تھے نرسمہا رائو کو ’’مونی بابا‘‘ کہنے لگے۔ جب تک نرسمہا رائو زندہ رہے ہندوستان کے قریب ایک چوتھائی لوگ انہیں مونی بابا ہی کہتے رہے۔
میں بابری مسجد کے موضوع پر زیادہ گفتگو نہ کر کے اصل موضوع پر آتا ہوں کہ کون بنے گا اس ملک کا اگلا وزیراعظم۔ ایک نام کانگریس کی طرف سے موجودہ وزیراعظم من موہن سنگھ کا بھی لیا جا رہا ہے۔ من موہن سنگھ کا امریکا کی پالیسی ہم خیال رہنا کافی رنگ کھلا چکا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ امریکا من موہن سنگھ کو پھر ہندوستان کا وزیراعظم بنانے کی خواہش ظاہر کرے لیکن اس ملک کے کمیونسٹ اب اس بات پرراضی نہیں ہوں گے۔ میرا خیال ہے کہ اس معاملے میں روس بھی خاموش رہے گا اگرمن موہن سنگھ کے بعد کانگریس میں کسی اور سیاستدان پرہماری نظر رکتی ہے تو وہ ہیں پرنب مکھرجی، وہ بھی وزیراعظم کی کرسی پر نظر جمائے ہوئے ہیں۔ لیکن پرنب مکھرجی ضرورت سے زیادہ بولتے ہیں ان کی بیان بازی کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ہمارے پڑوسی ہم سے خوش نہیں رہتے۔ انہیں یہ مان لینا چاہیے کہ مالدیپ اور بھوٹان بھلے ہی اپنے آپ کو ہمارا دوست ظاہر کرتے ہیں وہ بھی ہمارے دوست نہیں ہیں حتیٰ کہ نیپال جہاں ہندوئوں کی تعداد زیادہ ہے وہ بھی ہمارا دوست نہیں ہے۔ وزیراعظم کے عہدے کی دوڑ میں بی جے پی خیمے میں ایڈوانی کا نام سرفہرست ہے لیکن ایک دو سیڑھی اور نیچے اتریے تو نریندر مودی پربھی ہماری نظر جاتی ہے۔ جہاں تک ایڈوانی صاحب کا سوال ہے وہ چرچل کی طرح بڑے مقرر ہیں۔ انہیں بات سے بات پیدا کرنا آتا ہے اور جس بات پر وہ اٹل ہو جاتے ہیں کچھ دنوں تک اس پر ڈٹے رہتے ہیں۔ اٹل کی طرح فوراً تردید نہیں کرتے۔ مثال کے طورپر مجھے دو باتیں یاد آتی ہیں۔ یوں تو آر ایس ایس کی گود میں ان کی پرورش ہوئی ہے لیکن جب ان کی بھتیجی نے ایک بوہری مسلمان لڑکے سے شادی کی تو وہ اس شادی میں خود شامل ہوئے اور جوڑے کو دعائیں بھی دیں۔ جب وہ جناح صاحب کی قبر پر گئے وہاں ان کی تعریف کی تو وہاں سے آنے پر آر ایس ایس والوں نے ان کی جم کر مخالفت کی مگر وہ اپنے موقف پر قائم رہے۔ ان کی مخالفت میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں سمندری طوفان اٹھے اوران سے ٹکرائے مگر وہ نہیں ہلے۔ اب میں یہاں ایک بات لکھنا چاہتا ہوں کہ ایڈوانی صاحب ایک پڑھے لکھے قابل اور ہمت والے لیڈر ہیں۔ ان سے اگر کوئی بڑی غلطی ہوئی تو وہ یہ تھی ۲۰۰۲ء کے گجرات فسادات کے بعد انہوں نے دھیرے سے نریندر مودی کی پیٹھ تھپتھپا دی اور مودی کا موازنہ سردار پٹیل سے کر دیا جبکہ سردار پٹیل ایک بہت بڑے آدمی تھے۔ فارسی زبان میں ایک کہاوت ہے ’’چہ نسبت خاک راو عالم پاک‘‘ یعنی زمین کی مٹی کو آسمان کی بلندی سے کیا واسطہ۔ ٹھیک یہی حال مودی اور سردار پٹیل کے بارے میں کہنا ٹھیک رہے گا۔ سردار پٹیل قومی لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں مانے ہوئے لیڈر تھے۔ ایڈوانی کا اپنی بھتیجی کی شادی میں شامل ہونا اور پاکستان جا کر دونوں ملکوں کے بیچ بھائی چارگی کا بیج بونا آج ہماری شاندار تاریخ کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ اس لیے بہت ممکن ہے کہ مودی کے مقابلے میں ایڈوانی ان لوگوں کو بھی تسلیم ہو جائیں جو بی جے پی کی مخالفت کرتے ہیں۔ چلیے تھوڑی دیر کے لیے ہم یہ مان لیں کہ ایڈوانی جی مسلمانوں کے مخالف رہے ہیں تو فارسی میں کہا گیا ہے کہ نادان دوست سے سمجھ دار دشمن اچھا ہے۔
اب رہی لالو پرساد کی بات تو میں یہ کہوں گا کہ لالو پرساد شاید یوں تو اچھے انسان ہیں ان میں صلاحیت اور قابلیت کی کمی نہیں ہے جس کی زندہ مثال ریلوے کی ترقی ہے اسے آگے بڑھانے میں لالو پرساد کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ لیکن لالو پرساد ہر بات میں مزاح پیدا کرنا چاہتے ہیں جس سے ان کی باتوں کی سنجیدگی ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے انہیں جوکر کہا جانے لگا ہے۔ میرے خیال میں لالو پرساد اگر جوکر ہیں تو وہ کسی سرکس کے جوکر نہیں ہیں بلکہ شیکسپیئر اور ایلزبتھ کے دور کے جوکر ہیں جو انگلینڈ کی ملکہ کو ہر اچھی بات کے لیے مشورہ دیا کرتا تھا لیکن انگلینڈ کا کوئی جوکر بھیراجا مہا راجہ نہیں بن سکا ٹھیک اسی طرح لالو پرساد ایک بہت اچھے جوکر ہیں لیکن وہ کبھی بھی اس ملک کے وزیراعظم نہیں بن سکتے۔ ان کا منہ پھٹ ہونا ان کی ترقی میں روڑا بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چارہ گھوٹالے نے بھی ان کے کردار کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔ میرے خیال میں مودی بھی ایک ہوشیار آدمی ہیں ان کا کہنا ہے کہ آنے والے انتخابات ذات پات کے موضوع پر نہیں بلکہ ملک کی ترقی کے موضوع پر لڑے جائیں گے۔ یہ ایک اچھی بات ہے لیکن بات کی اہمیت اس لیے ختم ہو جاتی ہے کہ یہ جملہ وہ شخص بول رہا ہے جس نے لاشوں کی سیاست کی ہے اور اور اسی وجہ سے آج صاحبِ اقتدار ہے۔ آخر میں شردپوار کا نام لینا بھی میں ضروری سمجھتا ہوں۔ عمر اور تجربے کے لحاظ سے انہیں ہندوستان کا وزیراعظم بننا چاہیے لیکن اگر انہیں دہلی کی کرسی چاہیے تو انہیں تھوڑی سی وسیع النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کرنا چاہیے کہ وہ مہاراشٹر کی اسمبلی پر نظر نہ جمائیں۔ یعنی اس کے لیے وہ کسی الم غلم پارٹی سے سمجھوتہ نہ کریں۔ میرا اشارہ شیوسینا کی طرف ہے ویسے اس بار چنائو میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ دیکھنا کافی دلچسپ ہو گا۔ القصہ ہندوستان کی گوں نا گوں سیاست میں ایسا لگتا ہے کہ آخری مقابلہ شردپوار اور ایل کے ایڈوانی میں ہی ہو گا۔ میرے اس مضمون کی وجہ سے بہت ممکن ہے کہ چند لوگ میرے بارے میں یہ رائے قائم کر لیں کہ میں نے اس مضمون میں ایڈوانی کے بارے میں نرم گوشہ اختیار کیا ہے۔ ان کے لیے صرف یہ کہنا ہے کہ میرے نرم گوشے سے ایڈوانی کا کچھ ہونے والا نہیں ہے بلکہ یہ حقیقت ہے ایڈوانی جی کو متل کے بارے میں جو دھچکا ارون جیٹلی نے دیا ہے اور ورون گاندھی نے جو بیانات بھاجپا کے پلیٹ فارم سے دیئے ہیں اس نقصان کی تلافی تو شاید ایڈوانی اور ان کی پارٹی عمر بھر نہیں کر سکتی۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’انقلاب‘‘ ممبئی)
Leave a Reply