کیا سوڈان تقسیم ہو جائے گا؟

امریکی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی انتظامیہ میں سوڈان سے متعلق اعلیٰ سطحی ذمہ داروں کی میٹنگ میں امریکی صدر باراک اوباما کے خصوصی ایلچی برائے سوڈان ریٹائرڈ کمانڈر جنرل اسکاٹ گرائشن اور اقوام متحدہ میں واشنگٹن کی سفیر سوزان رائس کے درمیان سخت اختلافات ابھر کر سامنے آئے ہیں، اس میٹنگ میں سوزان رائس اس وقت غصے سے بھڑک اٹھیں اور آپے سے باہر ہو گئیں جب گرائشن نے یہ تجویز رکھی اور منصوبہ پیش کیا کہ جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے لیے استصواب رائے کو فوقیت و اولیت دی جائے، رائس کا کہنا تھا کہ اس سے دارفور میں جاری بحران کی اہمیت گھٹ جائے گی، جبکہ استصواب رائے کے لیے خرطوم پر مزید دبائو ڈالنے کی فی الوقت کوئی ضرورت نہیں ہے، گرائشن کی تجویز سے رائس کے علاوہ تقریباً تمام شرکاء نے اتفاق کیا، خود امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ہیلری کلنٹن نے بھی ان کی تجویز کو سراہا اور اسے منظور کر لینے کی خواہش کی۔

اب یہ منصوبہ اس میٹنگ کے شرکا کی جانب سے منظور کر لینے کے بعد امریکی صدر کے پاس توثیق کے لیے بھیجا گیا ہے اور رائس سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اعتراضات تحریری طور پر پیش کریں تاکہ اس پر بھی غور کیا جاسکے، اور ان اعتراضات کا ازالہ کیا جاسکے اب صرف ۱۲۵ دن باقی ہیں، اس کے بعد جنوبی سوڈان شمالی سوڈان سے شاید علیحدہ ہو جائے گا، پھر اس کے چھ ماہ بعد یعنی جولائی ۲۰۱۱ء میں ایک نئی مملکت کے قیام کا اعلان کیا جائے گا جو مکمل آزاد خود مختار ہو گی، اس کی اپنی حاکمیت ہو گی، اس کا اپنا جھنڈا، اپنی فوج، اپنی کرنسی اور بیرون ملک ساری دنیا میں اپنے سفارتخانے ہوں گے اور اس ملک کا نام بھی نیا ہو گا جس پر اسی وقت غور و خوض ہو رہا ہے کہ اس پیدا ہونے والی مملکت کا نام کیا رکھا جائے، پھر اس کی پیدائش کے ساتھ ہی خرطوم کی سوڈانی حکومت کے بشمول ساری دنیا کے ممالک اسے تسلیم کر لیں گے اور اپنے سفارت کار یہاں متعین کرنے لگیں گے۔ یہی ساری باتیں واشنگٹن میں طے ہوئی ہیں اور جنوبی سوڈان کے مستقبل کے بارے میں امریکا کی جانب سے ایسا ہی فیصلہ کیا گیا ہے، اس علیحدگی اور تقسیم کا موازنہ پاکستان ہندوستان، ایتھوپیا و اریٹیریا یا شمالی و جنوبی کوریا کی علیحدگی و تقسیم سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ۹؍ جنوری ۲۰۱۱ء کو جنوبیوں کی رائے دہی کا وقت مقرر ہے۔ انہیں رائے دہی میں صرف دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے یعنی یا تو متحدہ سوڈان کے ساتھ باقی رہنا ہے، یا علیحدگی اختیار کرلینی ہے۔

یہ وہ استصواب رائے ہے جس کی صراحت ۲۰۰۵ء میں کیے گئے وسیع تر امن معاہدہ میں کی گئی ہے۔ جس معاہدے کے نتیجہ میں دو دہائی سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ کیا جا سکا اور شمال و جنوب کی لڑائی کو روکنے میں کامیابی مل سکی تھی جبکہ اس طویل لڑائی میں ایک اندازے کے مطابق ۲۰ لاکھ سے زیادہ لوگ جاں بحق اور اس سے کئی گنا زیادہ افراد پناہ گزیں بن گئے تھے ان دنوں واشنگٹن میں یہ آواز بلند ہو رہی ہے کہ خرطوم کی حکومت اور عمر البشیر کی انتظامیہ جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے لیے کروائے جانے والے استصواب رائے میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔ یا اس کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر سکتی ہے ان شکوک و شبہات کے باوجود امریکیوں کو یقین ہے کہ عمر البشیر کی انتظامیہ بالآخر ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے گی اور نئی مملکت کو تسلیم کر لے گی۔

امریکی کردار:

بے شمار دلائل موجود ہیں کہ جنوبی سوڈان کے اندر سیکورٹی کی صورتحال انتہائی درجہ ابتر ہے، اور جنوبی سوڈان اس امن معاہدے کے بنیادی دفعات اور پیراگرافوں کی پابندی نہیں کر رہا جو معاہدہ شمالی سوڈان کے اندر برسراقتدار نیشنل کانفرنس پارٹی اور عوامی تحریک برائے آزادی سوڈان کے درمیان طے پایا تھا۔ امریکا کا خیال ہے کہ سوڈان میں اسے اہم کردار ادا کرنا ضروری ہے۔ یہ اہم کردار وہ بین الاقوامی جماعتوں کے ساتھ مل کر مختلف جہتوں سے ادا کرنا چاہتا ہے اور اس کا لب لباب یہ ہے کہ جنوبی سوڈان کے باشندوں کو علیحدگی کے حق میں رائے دینے کے لیے آمادہ و تیار کیا جائے تاکہ شمال و جنوب کی فوجوں کے درمیان ازسرنو محاذ آرائی اور جھڑپیں شروع نہ ہوں۔ سوڈانی و افریقی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ سوڈان کے اندر اثر انداز ہونے والی طاقت اور باوزن ملک صرف امریکا ہے جو شمال و جنوب میں ہر فریق سے اپنی بات منوا سکتا ہے، اسی احساس کے تحت امریکا ۹ جنوری کو لازمی طور پر استصواب رائے کرانے کی مہم میں پیش پیش ہے اور چاہتا ہے کہ تمام رکاوٹوں کے باوجود وقت مقرر پر اس کو انجام دے لیا جائے۔

نئے ملک کا نام اور جھنڈا:

نوپید سوڈان کا جھنڈا وہی ہو گا جو عوامی تحریک برائے آزادیٔ سوڈان کا ہے اس میں تین رنگ ہیں اور یہ متوازی افقی شکل میں ہے۔ سیاہ رنگ اوپری حصہ میں ہے جو جنوبی سوڈان کے عوام کی طرف غمازی کرنے والا ہے۔ بیچ میں سرخ رنگ ہے اور یہ آزادی و انقلاب میں دی جانے والی قربانی اور خون کی طرف اشارہ کرنے والا ہے اور سب سے نیچے سبز رنگ ہے جو جنوب کی شاداب سرزمین کی طرف اشارہ کرتا ہے اس میں نیلے رنگ کا ایک مثلث دائرہ بھی ہے جس کے وسط میں سنہرے رنگ کا ستارہ ہے اور یہ بیت لحم کے ستارے کی طرف اشارہ کرتا ہے جو تاریخی اعتبار سے عیسائیت کی علامت ہے۔ جنوبی سوڈان میں نئی مملکت کے قیام کا یقین رکھنے والے ان دنوں اس نئی مملکت کے نام پر غور و خوص کر رہے ہیں بعض کا خیال ہے کہ ’’جمہوریہ جنوبی سوڈان‘‘ مناسب ہے اور کچھ لوگ ’’جمہوریہ سوڈان جدید‘‘ نام کی تجویز پیش کرتے ہیں۔بعض لوگوں کو نئی مملکت کے نام کے ساتھ سوڈان جوڑنے پر اعتراض ہے کیونکہ سوڈان بین الاقوامی سیاسی یادداشت سے مربوط ہے اور یہ نام بین الاقوامی بساط پر بدنام ہے۔ اس ملک کے نام کے ساتھ اگر سوڈان کا لفظ جوڑ دیا جائے گا تو اس نام کو سنتے ہی یہاں کی طویل خانہ جنگی کی یاد تازہ ہو جائے گی اور دارفور کا المیہ دلوں کو رنجیدہ کرتا رہے گا اور فقرو افلاس، بگاڑ و بدعنوانی، انتہا پسندی و اسلام پسندی باعث شرم و عاربنی رہے گی، ظاہر سی بات ہے کہ شمالی سوڈان اپنا نام تبدیل نہیں کرے گا، اور سوڈان سے شمالی سوڈان نہیں رکھے گا، اس لیے مناسب یہی ہو گا کہ نئی مملکت کے نام کے ساتھ سوڈان کا لفظ نہ جوڑا جائے، بعض جنوبیوں کی یہ تجویز بھی ہے کہ اس نئی مملکت کا نام ’’مملکت نیل‘‘ رکھا جائے، مگر اس نام پر خطہ کے ممالک لازمی طور پر اعتراض کریں گے اور ان کا اعتراض بجا بھی ہو گا۔

سفارتخانہ نہیں کمیشن:

جنوبی سوڈان کی حکومت کی واشنگٹن میں نمائندگی ایک کمیشن کرتا ہے جو وہی سرگرمی و ذمہ داری انجام دیتا ہے جو امریکی دارالحکومت میں دنیا کے دیگر ملکوں کے سفارتخانے انجام دیتے ہیں، یہ کمیشن ملک سوڈان کے سفارتخانہ سے الگ اور آزاد ہے، جنوبی سوڈان کی حکومت کا کمیشن واشنگٹن شہر کے قلب میں دو بوسب سرکل پر واقع ہے جو قدیم عراقی سفارتخانہ سے چند میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ اس کمیشن کے انٹرنیٹ سائیٹ پر بتایا گیا ہے کہ جنوبی سوڈان کی حکومت امریکی حکومت کی جانب سے حاصل ہونے والی امداد اور بھرپور تعاون کی قدردانی کرتی ہے اور اس بات پر امریکا کی شکر گزار ہے کہ یہاں کی ڈیموکریٹک و ری پبلکن ہر دو جماعتیں جنوبی سوڈان کی حکومت کی بھرپور مدد کر رہی ہیں۔ یہ کمیشن اپنی خدمات جنوبی سوڈان کے عارضی دستور کی دفعہ ۴۶ کے تحت انجام دیتی ہے جس میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ ’’جنوبی سوڈان کی حکومت دنیا کی دیگر حکومتوں اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کرے گی اور قائم تعلقات کی حفاظت کرے گی‘‘، اس کمیشن کے چیئرمین مسٹر ایزیکسیل لول جائگتھ ہیں اور اس کا عملہ مختصر ہے۔

جنوبی سوڈان کے لیے سالانہ کھربوں ڈالر کی امداد

امریکی صدر اوباما کی انتظامیہ اپنے پیشرو بش انتظامیہ ہی کی طرح جنوبی سوڈان کو بھاری امداد دینے کی پالیسی پر قائم ہے۔ اس امداد کا مقصد جنوب کا تعاون حاصل کرنا ہے کہ وہ شمال سے علیحدگی اختیار کرے۔ ہر کسی کو یاد ہو گا کہ بش نے اپنے دورِ اقتدار میں جنوبی سوڈان کے رہنما سلیفا کبیر کا پرتپاک خیر مقدم کیا تھا اور کہا تھا ’’سوڈانی صدر کو ہم وہائٹ ہائوس میں خوش آمدید کہتے اور خیر مقدم کرتے ہوئے بے حد خوشی محسوس کر رہے ہیں‘‘۔

روزنامہ واشنگٹن ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ واشنگٹن جنوبی سوڈان کو سالانہ ایک کھرب ڈالر کی امداد کرتا ہے۔ اخبار کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ خطیر رقم انفرااسٹرکچر سیکورٹی اہلکاروں کی تربیت اور خطہ کی حفاظت کرنے والی طاقتور فوج تشکیل دینے پر صَرف کی جاتی ہے۔ جنوبی سوڈان کے کمیشن کے چیئرمین ازیکسیل لول جائکتھ کا کہنا ہے کہ واشنگٹن جنوبی سوڈان کی یہ فراخدلانہ امداد اس لیے کر رہا ہے کہ جنوب شمال سے علیحدہ ہو جائے۔ اخبار نے ازیکسیل کا قول نقل کیا ہے کہ امریکی حکومت کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ ہے کہ جنوب ۲۰۱۱ء میں شمال سے الگ ہو کر ایسا ملک بن جائے جو اپنے پائوں پر کھڑا ہو۔ ملک کے مستقبل کے لیے اگلا سال فیصلہ کن ہو گا۔ ۲۰۱۰ء میں ہم یا تو اس کے مستقبل کی تعمیر کریں گے یا اسے برباد و ویران کریں گے۔ ان کا اشارہ اس طرف تھا کہ انتخابات کے بعد اگر لوگوں نے بدعنوانی و جعل سازی کا احساس کیا تو جنگ بھڑک سکتی ہے۔

پانچ سال میں چھ کھرب ڈالر کی امداد:

امریکا جنوبی سوڈان کی مدد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، ۲۰۰۵ء میں وسیع تر امن معاہدہ پر دستخط کیے جانے کے بعد سے اب تک واشنگٹن سوڈان کو چھ کھرب ڈالر امداد دے چکا ہے تاکہ جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے لیے کرائے جانے والے استصوابِ رائے میں کسی طرح کی رکاوٹ پیدا نہ کی جائے۔

امریکی امداد ہر شعبہ اور سیکٹر کے لیے ہے، ۲۰ لاکھ پناہ گزینوں کے جنوب میں اپنے گھروں کو واپس آجانے کے بعد امریکی ایجنسی برائے اندرون سوڈان بین الاقوامی ترقیات ’’یو ایس ایڈ‘‘ کا پروگرام غذائی اشیاء کی فراہمی، ہیلتھ سروس کو بہتر بنانے، حقوق انسانی کے احترام،امن و امان کی برقراری، اقتصادی اصلاح، تعلیم کی فراہمی اور امن کارروائی پر مرکوز کر دی گئی ہے۔ اس امریکی امدادی و ترقیاتی ایجنسی کے پروگرام نے بہتر حکمرانی کے پروگرام کو مضبوط بنانے پر بھی خصوصی توجہ دی ہے۔ ا وسیع تر امن معاہدے کے دفعات و پروگراموں کو نافذ کرنے میں بھی مدد کر رہا ہے اور جنوب کے باشندوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے وسیع نظام کو ترقی دے رہا ہے، کیونکہ اب تک جنوب کے لیے ملک کے قیام کی بنیادی چیزیں فراہم نہیں ہو سکی ہیں۔

جنوب میں امریکا کے تین مقاصد:

سوڈان کے لیے امریکی صدر کے خصوصی نمائندہ جنرل اسکاٹ گریشن نے امریکی کانگریس کے بیرونی تعلقات کی کمیٹی کی شاخ برائے افریقی امور کے سامنے اپنا شہادتی بیان قلم بند کرواتے ہوئے کہا ہے کہ سوڈان سے متعلق امریکی اسٹریٹجی کے پیشِ نظر بنیادی مقاصد کو بروئے کار لانا ہے، یعنی جانوں کا تحفظ اور دائمی امن کی ضمانت دینا، طویل مدتی امن معاہدے کو نافذ کرنا اور سوڈان کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بننے سے روکنا، انہوں نے زور دے کر کہا کہ ان مقاصد کی تکمیل میں کوتاہی سے مزید مشکلات و مصائب پیدا ہوں گی۔ علاقائی بدامنی میں اضافہ ہو گا اور بین الاقوامی دہشت گردوں کے لیے مزید محفوظ پناہ گاہیں قائم ہوں گی۔ ایک امریکی ذمہ دار کا کہنا تھا کہ امریکا سوڈان میں امن و امان کی برقراری کے لیے بین الاقوامی کوششوں کی قیادت کرنے میں اپنے عہد و پیمان کا پابند ہے اور اسی میں اس کا مفاد پنہاں ہے۔

دیگر مفادات:

امریکی سرکاری موقف سے ہٹ کر بہت سی طاقتیں ہیں جو جنوبی سوڈان سے متعلق امریکی فیصلے کی تیاری میں اثر انداز ہو رہی ہیں۔ توانائی و معدنیات کی کمپنیوں کا مفاد بھی اس کے ساتھ ہے۔ یہ کمپنیاں دولت و ثروت اور قدرتی وسائل سے مالامال سرزمین رکھنے والے اس ملک میں موقع کی تلاش میں ہیں کہ کسی طرح انہیں اس سرزمین میں قدم جمانے کا موقع مل جائے تاکہ یہاں کی دولت سے بھرپور استفادہ کیا جاسکے۔ جنوبی سوڈان کے اندر پیٹرولیم کے محفوظ ذخائر کی بھاری مقدار موجود ہے جس کا اب تک استعمال نہیں ہوا ہے۔ امریکا کی خواہش ہے کہ وہ کسی حریف اور مدمقابل کے بغیر اس زبردست آمدنی کے ذرائع پر مکمل کنٹرول حاصل کر لے اور اسے پورے طور پر اپنے قبضہ میں لے کر اپنے زیر تصرف لے آئے جبکہ امریکا کو معلوم ہے کہ اس حصہ میں اس کا بڑا حریف چین ہے اور وہ بھی اپنی توجہ اس خطہ پر مرکوز کیے ہوا ہے۔ جنوبی سوڈان کے اندر سوڈانی پیٹرولیم کے محفوظ ذخائر کا ۹۰ فیصد پایا جاتا ہے۔ اس وقت جنوب میں چار لاکھ ۹۰ ہزار بیرل پیٹرول یومیہ پیدا کیا جارہا ہے۔ اسی پیداوار کی وجہ سے سوڈان، انگولا اور نائیجریا کے بعد براعظم افریقا کے جنوبی صحرا میں تیسرے مقام پر ہے۔ شمال اور جنوب وسیع تر امن معاہدے کے تحت پیٹرول سے حاصل ہونے والی آمدنی کو آپس میں مقررہ حصہ کے مطابق تقسیم کر رہے ہیں اور بحر احمر کی بندرگاہ کے ذریعہ اسے بیرون ملک برآمد کیا جاتا ہے۔

امریکی اداروں اور منصوبوں کو چین کی موجودگی اور اس کے اثر و رسوخ سے محاذ آرائی کا سامنا ہے جو امریکی اداروں کے سامنے رکاوٹ بن رہا ہے۔ عوامی تحریک برائے آزادیٔ سوڈان کے جنرل سیکریٹری باجان اموم کا کہنا ہے کہ چین اور روس کی جانب سے انہیں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ شمال سے علیحدگی کی صورت میں یہ دونوں جنوب کی بھرپور مدد کریں گے۔ اموم نے یہ اشارہ بھی کیا کہ اس طرح کی یقین دہانی ان دو میٹنگوں کے دوران کرائی گئی ہے جو ان دونوں ملکوں کے اقوام متحدہ میں نمائندہ کے ساتھ نیویارک میں منعقد کی گئی تھی۔

اموم نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ ہماری میٹنگ اقوام متحدہ میں چین کے نمائندہ کے ساتھ ہوئی تھی اور انہوں نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ چین امن معاہدے کو نافذ کرنے، جنوبی سوڈان کے عوام کی پسند کا احترام کرنے، علیحدگی اور آزاد و خود مختار مملکت کے قیام کی تائید و حمایت کرتا رہے گا اور اس مملکت کے قیام کے بعد کسی پس و پیش کے بغیر چین اسے تسلیم کر لے گا۔ اسی طرح کی یقین دہانی روسی نمائندے نے بھی کرائی ہے۔ انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ جنوبی سوڈان اس بات کا پابند ہے کہ وہ جنوب میں چین کے مفادات کی حفاظت کرے گا اور اس کی سرمایہ کاری کو برقرار رکھے گا تاکہ اس کی جانب سے جنوب کا تعاون جاری رہے۔

مذہبی مقاصد:

جنوبی سوڈان کے اندر امریکا کی سرگرمی اور بھرپور موجودگی کے پیچھے کچھ مذہبی مقاصد بھی ہیں جس کا دفاع چرچ، عیسائیت پھیلانے والی تنظیمیں و مشنریز ایف انجلیکال اور کانگریس کے قدامت پرست ارکان کر رہے ہیں۔ امریکی معاشرہ پر بظاہر سیکولر ازم کے لیبل کے باوجود دین و مذہب اس کی ایک اہم بنیاد اور اس کی پالیسی کا محرک ہے۔ خاص طور پر ان مسائل میں جس کا تعلق عالم عرب یا عالم اسلام سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ جنوبی سوڈان کا مسئلہ ہے یا سابق میں انڈونیشیا اور دیگر مسلم ملکوں کا مسئلہ تھا جہاں خالص مذہبی بنیاد پر مسلم ملک کو تقسیم کرنے کا امریکا نے منصوبہ بنایا اور اسے روبہ عمل لایا۔ نئے کنزرویٹو دھڑے کے قائدین اور پادری فرینکلین گراہام جیسے دیندار طبقے جو اسلام اور مسلمانوں پر تنقید کرنے اور اسے ہدف ملامت بنانے میں بڑی شہرت رکھتے ہیں وہ اب یہ بات مخفی بھی رکھنا نہیں چاہتے کہ ان کا ارادہ جنوبی سوڈان میں ہزاروں چرچ قائم کرنا اور خانہ جنگی کے دوران سوڈانی حکومت اور ان کی ہمنوا ملیشیائوں کی جانب سے تباہ کیے گئے چرچوں کو پھر سے تعمیر کرنا اور اسے آباد کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ افریقا میں مسیحی چرچ کے خلاف جنگ چھڑی ہوئی ہے یہ لڑائی مسلمانوں نے عیسائیوں کے خلاف چھیڑ رکھی ہے اور مسلمانوں کی طرف سے اسی طرح کی معرکہ آرائی ایتھوپیا اور دیگر افریقی ملکوں میں جاری ہے۔ اسی لیے امریکا کا منصوبہ ہے کہ جنوبی سوڈان کو شمال سے علیحدہ کر دیا جائے تاکہ عیسائیوں کو مسلم حکمرانوں کے تسلط سے آزادی مل جائے۔ پھر اسے عیسائیت کی تبلیغ کے مرکز میں تبدیل کر دیا جائے تاکہ یہ ملک خالص عیسائی بن جائے جہاں ان کی آبادی صد فیصد ہو۔

سیکوریٹی کمپنیز کا کردار:

مختلف امریکی رپورٹوں میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ وسیع تر امن معاہدہ پر دستخط ہو جانے کے بعد امریکی وزارت خارجہ نے ایک امریکی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے اسے پابند کیا کہ وہ جنوبی سوڈان کے باغیوں کو فوجی تربیت دے اور انہیں پیشہ ور فوجی اور لڑاکا سپاہی میں تبدیل کر دے۔ اس مقصد کے لیے اور اس طرح کی تربیت دینے کے لیے امریکی حکومت نے ڈائن کارپ (Dyn Corp) کمپنی کا انتخاب کیا اور اسے ابتدائی طور پر ۴۰ ملین ڈالر کا ٹھیکہ دیا گیا تاکہ وہ اس مہم کو پوری سرگرمی کے ساتھ انجام دے۔

یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اقوام متحدہ اور حقوق انسانی کی تنظیموں نے بھی اشارہ کیا ہے کہ جنوبیوں کو جنوبی سوڈان کی حکومت کی نگرانی میں اس طرح کی فوجی تربیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں کہ ڈائن کارپ کمپنی کو سوڈان میں فوجی تربیت دینے کے لیے امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے ٹھیکا ملا ہو، اس سے قبل مئی ۲۰۰۳ء میں اس کمپنی کو ٹھیکا دیا گیا تھا کہ وہ افریقی یونین کی فوج برائے برقراری امن کولوجسٹک مدد فراہم کرے۔ ۲۰۰۱ء میں بھی اس کمپنی کو ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ حکومت سوڈان اور جنوبیوں کے درمیان سفارتی بات چیت شروع کرنے کے عمل کو آسان بنائے اور اس بات چیت میں تعاون کرے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ سوڈان میں اس کی ترجیح برقراری امن کو یقینی بنانا ہے۔ ڈائن کارپ کمپنی برائے انٹرنیشنل ورکنگ ڈیولپمنٹ کے نائب چیئرمین ایل رحینی کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت سمجھتی ہے کہ جنوب میں باصلاحیت تربیت یافتہ فوج کی موجودگی برقرار ی امن کے لیے ضروری ہے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کمپنی کی سرگرمی پرامن مقاصد کے تحت ہے یہ فوجی سرگرمی میں حصہ لینا نہیں چاہتی ہے۔

افریقا کی تاریخ میں سب سے طویل خانہ جنگی کو ختم کرنے کے لیے حکومت سوڈان اور جنوبی سوڈان کے باغیوں کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کے مطابق اس ملک کے اندر دو فوجیں رکھنے پر اتفاق ہوا تھا۔ یعنی ایک فوج شمال کی اور دوسری جنوب کی۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ اس طرح کی سودے بازی کے بعض مخفی وجوہات و اسباب تھے۔ ان کا خیال ہے کہ کمپنی کے ساتھ جنوبیوں کو ٹریننگ دینے کا معاہدہ اور عوامی تحریک کے عسکریت پسندوں کو ماہرانہ صلاحیت کی فراہمی کا مقصد خرطوم کے موقف کو کمزور کرنا ہے۔

ڈائن کارپ کمپنی نے زور دے کر کہا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ کے ساتھ اس کے حالیہ معاہدہ کرنے اور ٹھیکہ حاصل کرنے میں عوامی تحریک کے عسکریت پسندوں کو مسلح کرنا یا جنوب کے لیے ہتھیار سپلائی کرنا شامل نہیں ہے۔ اس ٹھیکہ میں صرف عوامی تحریک برائے آزادی سوڈان کی فوج کو تربیت دے کر باصلاحیت و پیشہ ور فوجی بنانے کا معاملہ شامل ہے۔ اس کا مقصد انہیں مسلح کرنا یا فوجی حملہ کرنے یا اس طرح کی کارروائیوں میں مدد کرنا نہیں ہے مگر اس کے برعکس امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی سوڈان میں ڈائن کارپ کمپنی کا بڑا اہم رول ہے اور اس رول کو سرکاری سطح پر اور ظاہر میں تسلیم نہیں کیا جارہا ہے حالانکہ اس ٹھیکے کی مالیت ۴۰ ملین ڈالر سے زیادہ ہے جس کا تقاضا ہے کہ اسے امریکی کانگریس منظوری دے دے اور اس کی ساری سرگرمی امریکی کانگریس کی نگرانی میں انجام دی جائے۔

ڈائن کارپ ان بے شمار کمپنیوں میں سے ایک ہے جس کے ساتھ امریکی حکومت معاہدہ کرتی اور بیرونی دنیا میں مہمات سر کرنے اور اہم خدمات انجام دینے کے لیے ٹھیکے دیتی ہے اس کا ہیڈ کوارٹر نکساس صوبہ کے ایرونگ شہر میں ہے اور اس کے ملازمین کی تعداد ۱۴ ہزار ہے جو دنیا کے ۳۵ ممالک میں خدمت انجام دے رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی اس کمپنی کو دنیا کے مختلف علاقوں اور گڑ بڑ زدہ خطوں میں خدمات انجام دینے کے لیے امریکی حکومت کا ٹھیکہ مل چکا ہے۔ عراق، افغانستان، لائبریا اور کولمبیا میں فوجی مشن انجام دینے کے لیے اسی کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا ہے اس کمپنی کا سابق میں سب سے بڑا گاہک امریکی وزارت دفاع تھی۔ مگر چند سالوں کے دوران امریکی وزارت خارجہ اس پر سبقت لے جانے میں کامیاب ہو گئی اور اس وقت اس کا سب سے بڑا گاہک امریکی وزارت خارجہ بن گیا ہے۔ جس کے ٹھیکہ کی مقدار کا تناسب کمپنی کی مجموعی آمدنی کا ۵۳ فیصد حصہ ہے یعنی اس کے ٹھیکوں کی مقدار میں گزشتہ دو سالوں کے دوران ۲۹ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

اسی کمپنی کے ٹھیکوں کا ۹۰ فیصد حصہ امریکی حکومت کی مختلف وزارتوں اور محکموں کے ساتھ ہے اسی لیے اس کمپنی کی ایڈوائزری کونسل میں بڑے بڑے سابق حکومتی ذمہ داران، فوجی افسران اور اہم شخصیات کو رکھا گیا ہے۔ ایسی ہی شخصیتوں میں سے ایک سابق امریکی سفیر مارک گروسمان ہیں جو ۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۵ء تک امریکی انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ برائے سیاسی امور رہ چکے ہیں۔ الوطن العربی (پیرس)

(بشکریہ: ’’نقوش ڈاٹ کام‘‘۔ ترجمہ: ابوزید قاسم)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*