کیا فلسطینی ریاست قائم ہو سکے گی؟

فلسطینی آج تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں اور شاید یہ ان کی بقا کی آخری جنگ ہو کہ جس میں فتح و کامرانی ان کے لیے عشروں کے خواب کی تعبیر کا مؤجب بنے گی۔ مگر دوسری جانب مسلم ممالک کا سب سے بڑا اور اہم اتحادی امریکا جس کی فوج دنیا کے ہر براعظم میں موجود ہے کے خیالات اور عزائم اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ فلسطین ایک خطۂ مملکت کے طور پر قائم نہ ہو۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ میں امریکا کے سابق سفیر جان بولٹن نے گزشتہ دنوں ایک مقالہ پیش کیا جس میں کہا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے لیے الگ ریاست کے امکان کو مسترد کر دیا ہے اور اب وہ ایک ایسے منصوبے کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جس میں غزہ کو مصر اور مغربی کنارے کو اردن میں ضم کر دیا جائے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ سے قبل غزہ کا سیاسی کنٹرول کا مصر کے پاس ہونا اور ماضی میں جزیرہ نما سیناء کو بھی اسی طرح مصر کے حوالے کیا گیا تھا۔ تاہم مصری سفارتکار کا کہنا ہے کہ غزہ کا انضمام صحرائے سینا کے مصر میں انضمام سے مختلف نوعیت کا ہو گا۔ ۲۰۰۹ء کے آغاز پر مصر کے مطلق العنان صدر حسنی مبارک نے اپنے خطاب میں اسرائیل کے اس منصوبے کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل نہیں چاہتا کہ قاہرہ کی حکومت غزہ اور مصر کی سرحد پر واقع رفحہ کراسنگ کو مستقل بنیادوں پر کھولے۔ مصری وزیر خارجہ کے معاون ڈاکٹر عبداللہ الاشعل العربیہ نیٹ سے اپنی گفتگو میں کہتے ہیں کہ اس منصوبے پر کئی برسوں سے کام ہو رہا ہے اور اس پر عمل درآمد کر کے فلسطینیوں کو مصر میں آباد کیا جائے گا اور انہیں مصری شہریت دی جائے گی۔ مگر ایک مصری سفارتکار کا کہنا ہے کہ اسرائیل اس منصوبے کے تحت غزہ کے مسائل کومصری حکومت کے گلے ڈال کر خود کو محفوظ بنانا چاہتا ہے، اس لیے مصر کی حکومت اس منصوبے کو مسترد کر چکی ہے۔ ایک اور نامور مصری سفارتکار کا کہنا ہے کہ مسئلہ فلسطین کو سرد خانے میں ڈالنے کی کوششیں بڑی سرگرمی سے جاری ہیں۔ اس مقصد کے لیے ۲ طرح کے آپشن پیش کیے جا رہے ہیں اول یہ کہ فلسطینیوں کو مصر اور اردن کی شہریت دے دی جائے اور دوم یہ کہ فلسطینیوں کو وطن واپسی کا حق ختم کر کے مزاحمت ہمیشہ کے لیے کچل دی جائے۔ مصری سفارتکار کے مطابق ان میں غزہ کی پٹی کے مصر سے الحاق کے آپشن کو سب سے زیادہ گرم جوشی سے پیش کیا جا رہا ہے لیکن مصر اسے کسی قیمت پر عملی جامہ پہنانے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔

{}{}{}

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*