امریکا نے افغانستان میں روس کے کردار کو وسیع کرنے کے لیے گرین سگنل دے دیا ہے۔ امریکی رضامندی سے اب روس نے افغانستان میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنا شروع کیا ہے۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد روس نے افغانستان کے معاملے میں خاصا محتاط رویہ اختیار کیا اور مغربی قوتوں کے ہوتے ہوئے وہاں کوئی کردار ادا کرنے کے بارے میں سوچنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی۔ اب امریکا خود چاہتا ہے کہ روس افغانستان میں اپنے کردار کو اس حد تک توسیع دے کہ افغانوں کی بہبود میں اس کی خدمات نمایاں دکھائی دیں۔ ایسا کرنا امریکا کی مجبوری ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما جولائی ۲۰۱۱ء میں افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا شروع کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں نے اتحادی فوجیوں پر حملے تیز کردیے ہیں اور بالخصوص امریکیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ امریکا کو اس مرحلے پر ایسی علاقائی قوت درکار ہے جو انخلا کی ساعتوں میں اس کا بوجھ اٹھانے میں مدد دے۔ روس اس معیار پر پورا اترتا ہے۔ امریکا کے لیے روس اس لیے قابل قبول ہے کہ ایک بڑا ملک ہونے کے ناطے وہ افغانستان کی تعمیر نو میں مرکزی کردار ادا کرسکتا ہے۔ افغانستان کے طول و عرض میں انفرا اسٹرکچر، معدنی وسائل اور تیل اور گیس کے ذخائر کی ڈیویلپمنٹ کے لیے کسی بڑے ملک کی ضرورت ہے۔ بھارت اس معاملے میں بھرپور قوت کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہے۔
سرد جنگ کے بعد ابھرنے والے منظرنامے میں امریکا اور روس کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے کیونکہ دونوں کے مفادات مشترک ہیں۔ امریکا چاہتا ہے کہ انخلا میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ دوسری جانب روس کو افغانستان اور ایران کے ڈرگ ٹریڈ روٹس کے خلاف کارروائی کے لیے امریکا اور دیگر قوتوں کی حمایت درکار ہے۔
نیٹو افواج کی موجودگی میں بھی افغانستان پوست کی کاشت میں سب سے آگے ہے۔ افغانستان میں تیار ہونے والی ہیروئن کا بڑا حصہ ایران اور تاجکستان کے راستے روس تک پہنچتا ہے جہاں ہیروئن کی لت میں مبتلا افراد کی تعداد ۳۰ لاکھ سے زائد ہے۔ ہر سال ایک لاکھ ۳۰ ہزار سے زائد روسی نوجوان ہیروئن کے باعث موت کے گھاٹ اترتے ہیں۔ روس اس صورت حال سے زیادہ پریشان ہے اور افغانستان میں ہیروئن کی تیاری اور وسط ایشیا کے ذریعے ترسیل کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ اس معاملے میں اسے امریکا اور دیگر ممالک کی حمایت چاہیے۔ امریکا اپنے اور روس کے مفادات میں ہم آہنگی دیکھتے ہوئے اسے ساتھ ملانا چاہتا ہے۔ منشیات کی اسمگلنگ روکنے کے لیے امریکا اور روس نے بعض مواقع پر خفیہ معلومات کا تبادلہ بھی کیا ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک نے بھی تسلیم کیا ہے کہ دونوں ممالک میں کسی حد تک اشتراک عمل ہو رہا ہے۔ انہوں نے افغانستان کے معاملات درست کرنے میں روسی کردار کی بھی تعریف کی ہے۔
روس کے لیے ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وسط ایشیا کی سابق سوویت ریاستوں میں اس کے انٹیلی جنس نیٹ ورک کو زیادہ پنپنے کا موقع نہیں مل سکا لہٰذا وہ ایک حد میں رہتے ہوئے ان ریاستوں میں کام کرتا ہے۔ تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور کرغیزستان وغیرہ میں اس کے اتنے کارندے کام نہیں کر رہے کہ منشیات کی ترسیل کے نیٹ ورک کو توڑ سکیں۔
افغانستان سے روس کے غیر معمولی معاشی مفادات بھی وابستہ ہیں۔ روس کے کئی ادارے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے لیے بھی تیار ہیں۔ سوویت دور کی تنصیبات کو اپ گریڈ کرنے سے بھی روسیوں کو ایک طرف خطیر آمدنی ہوگی اور دوسری طرف وہ اپنے اثرات کا دائرہ بھی وسیع کرسکیں گے۔ کرزئی حکومت کو بھی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ روس کے لیے لازم ہے کہ اپنے مفادات کو تقویت بہم پہنچانے کے لیے کرزئی حکومت کو مستحکم کرے۔ سوویت دور کے بجلی گھروں اور آبپاشی کے نظام کی مرمت اور اپ گریڈیشن سے بھی روسیوں کی پوزیشن مزید مستحکم ہوگی۔ افغانستان میں تیل اور گیس کے ذخائر سے استفادے کے لیے روس کی سب سے بڑی سرکاری کمپنی روزنیفٹ میدان میں ہے۔ کئی دوسرے ادارے لوہے اور المونیم کے ذخائر سے استفادے کے لیے بے تاب ہیں۔
۱۹۸۰ء سے ۱۹۸۹ء کے دوران افغانستان پر سوویت یونین کی عملداری تھی۔ اس دوران لاکھوں نوجوانوں نے ماسکو میں تعلیم حاصل کی۔ بعد میں انہوں نے وطن واپس آکر خدمات انجام دیں۔ طالبان کے ظہور کے بعد یہ لوگ ماسکو میں سیاسی پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ اب وہ دوبارہ افغانستان واپس آکر فوج، انٹیلی جنس اور پولیس میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ روس اگر افغانستان میں زیادہ نمایاں ہوکر کچھ کرنا چاہتا ہے تو ماسکو کے تربیت یافتہ اور بعد میں وہاں پناہ لینے والے یہ افغان باشندے اس کے لیے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ فوج اور پولیس میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کی بدولت یہ لوگ روسیوں کے اچھے ساتھی ثابت ہوسکتے ہیں۔
سر دست امریکا اور نیٹو کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انہیں افغانستان کے پڑوسیوں میں کوئی بھی ایسا نظر نہیں آتا جس پر مکمل بھروسہ کیا جاسکے۔ بھارت کی ایسی پوزیشن نہیں کہ وہ افغانستان میں سیکورٹی سے متعلق خدشات رفع کرنے کے حوالے سے کچھ کرسکے۔ پاکستان کو بھی بھارت کی موجودگی اچھی نہیں لگتی۔ ایسے میں امریکا اور نیٹو کے لیے روس بہترین انتخاب ہے۔ یہ صورت حال کچھ اس نوعیت کی ہے کہ کابل میں مغربی سفارت کار بھی اب یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ روس واپس آرہا ہے۔ یہ واپسی کس حد تک اور کس نوعیت کی ہوگی، اس کا تعین اب تک نہیں ہوسکا۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘۔ ۲۴؍ اگست ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply