کہا جاتا ہے کہ مذہب اسلام نے جنس لطیف کی تکمیل کے متعلق کوئی خاص قانون نہیں مرتب کیا اور نہ ان کو دنیا میں نعم الٰہیہ سے مستفید ہونے کا موقع دیا‘ کیا یہ واقعہ ہے؟ ہرگز نہیں! بے شک ایک مسلمان عورت اہلِ روما کے عقائد کے مطابق گھر کا اثاثہ نہیں کہ شوہر کو اس کے بیع و شرا اور بقا فنا کا حق حاصل ہو اور نہ وہ یونانیوں کے قانون مذہب کے لحاظ سے ایک زبردست شیطان ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس کی تحقیر و تذلیل کی کوشش کی جائے بلکہ وہ نظامِ عالم کے قائم رکھنے میں مردوں کے بحصۂ مساوی سہیم و شریک ہے‘ اس کے ذمہ نسل جدید کی تہذیب و ترتیب‘ اخلاق کی درستی و اصلاح‘ مذہبی پابندی و استواری کا اہم فریضہ ہے‘ چنانچہ آگے چل کر ہم اس کے متعلق صاف تصریحات پیش کریں گے‘ بہت سے نادان اپنی تنگ نظری کے سبب عورتوں کی اس پستی و تنزلی کو اسلامی تعلیمات کا نتیجہ سمجھتے ہیں‘ کیا یہ حقیقت ہے اور واقعی اسلام کا دامن اس سے آلودہ ہے؟ ’’حاشا وکلا‘ إن اﷲ بری ء من ذلک ورسولہ‘‘
اصل یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں رسم و رواج کی بندش نے کچھ اس قسم کی صورت اختیار کر لی ہے اور ان پر سختی کے ساتھ پابندیوں کا کچھ ایسا روغن مَلا گیا ہے کہ سطحی نظر میں ان کے مذہبی احکام ہونے کا دھوکہ ہوتا ہے حالانکہ صورت واقعہ اس کے بالکل خلاف ہوتی ہے‘ عورتوں کے اس دور تنزل کی عمر زیادہ سے زیادہ دو صدی تجویز کی جاسکتی ہے‘ ورنہ اگر صرف ہندوستان کی تاریخ پر غور کیا جائے تو سیکڑوں خواتین شجاعت و شہامت‘ علوم و فنون سپہ گری و بہادری کے زیور سے آراستہ ملیں گی۔
عرصہ ہوا کہ مصر کے مشہور رسالہ ’’المنار‘‘ میں ’’المرأۃ الاسلام‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا گیا تھا‘ جس میں حقوقِ نسواں کی مجمل تاریخ درج تھی‘ اس کے دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عہدِ قدیم میں یورپ و ایشیا کے تقریباً ہر حصہ اور قوم میں عورت ایک ذلیل اور پست درجہ مخلوق سمجھی جاتی تھی‘ عرب کے بعض قبائل میں دختر کشی کی جو رسم جاری تھی‘ وہ اسی خیال پر مبنی تھی کہ لڑکی کا ہونا ان کے لیے ہم چشموں میں ننگ و عار کا باعث تھا۔ بہرحال اس وقت ارضِ الٰہی کا کوئی ٹکڑا ایسا نہ تھا جس میں اس نازک مخلوق کے حقوق بے دردی کے ساتھ پامال نہ کیے گئے ہوں۔ اسلام کے آبِ حیات نے اس تنِ مردہ میں جو روح ڈالی‘ اس کا اندازہ تم حضرت عمرؓ کے اس قول سے کر سکتے ہو:
کنا فی الجاھلیۃ لا نعد النساء شیئا فلما جاء الإسلام وذکر ھن اﷲ رأینا لھن بذلک علینا حقاً
بخاری۔ کتاب اللباس: باب کان النبی یتجوز من اللباس والبسط۔
’’ظہورِ اسلام سے قبل ہمارے دلوں میں عورتوں کی کوئی وقعت نہ تھی لیکن اسلام نے آکر ہمیں غفلت سے بیدار کیا‘ خدائے جل و علا نے اپنے کلام میں ان کا تذکرہ کیا‘ تب ہم نے سمجھا کہ ان کے بھی ہمارے ذمہ کچھ حقوق ہیں‘‘۔
یہ جملہ حقیقت میں ان خیالات کا آئینہ دار ہے جو اسلام سے قبل عرب ملکوں میں عورتوں کے متعلق موجود تھے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے عورتوں کے حقوق میں ایک معتد بہ اضافہ کیا بلکہ ان کے حقوق کا ایک نیا باب کھول دیا۔ ہم نے اوپر بتایا ہے کہ شریعت نے تکمیل معاشرت میں عورت و مرد دونوں کو مساوی حقوق دیے ہیں اور خاندان و اولاد کے صلاح و فساد کا دونوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ہمارے اس دعوے کی دلیل حضرت عبداﷲ بن عمر کی اس روایت سے ملتی ہے:
الرجل راعٍ علی أھلہ وھو مسؤل والمأۃ راعیۃ علی بیت زوجھا وھی مسئولۃ
بخاری۔ کتاب الجمعۃ بالجمعۃ‘ فی القری والمدن۔
’’مرد اپنے اہل کا راعی بنایا گیا ہے اور اس سے ان کے متعلق جواب طلب ہو گا اور عورت خاوند کے گھر کی سنبھالنے والی ہے اس سے اس کے متعلق باز پرس ہو گی‘‘۔
ان ہی کی دوسری روایت میں ایک اور لفظ کا اضافہ ہے ’’المرأۃ راعیۃ علی بیت زوجھا وولدہ‘‘۔ یعنی ’’عورت خاوند کے گھر اور اولاد کی ذمہ دار ہے‘‘۔
روحی فداہﷺ افصح العرب و العجم تھے اور آپؐ کی اصلی شان یہ تھی کہ ’’أوتیت جوامع الکلم‘‘ آج ہمارے یہاں عورتوں کے متعلق کس قدر مباحثہ درپیش ہے۔ اوروں کو چھوڑ دو‘ ایک تعلیم کے مسئلہ میں کس قدر شدید اختلافات ہیں لیکن اس ایک مختصر لفظ نے ان تمام قضیوں کا فیصلہ کر دیا‘ جب عورتیں امورِ خانہ داری سے نابلند رہیں گی‘ وہ کیونکر شوہر کے گھر بار کی نگہداشت کر سکتی ہیں‘ جب تک عورتیں تعلیم یافتہ نہ ہوں گی‘ دیگر فنون سے فی الجملہ اور اصول حفظانِ صحت سے کافی واقفیت نہ رکھیں گی تو کیا خاک اپنی اولاد کی حفاطت اور تربیت و اصلاح کا کام انجام دیں گی۔ اگر ایسا ہے تو وہ لوگ جو عورتوں کی تعلیم کے مخالف ہیں‘ اس فرمان کے بعد کیا پیغمبرِ خداﷺ کی باز پرس کے لیے تیار ہیں۔ راعیہ کے لفظ سے جو اہمیت پیدا ہوئی ہے‘ وہ ظاہر ہے۔
حجۃ الاسلام حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی نے جو فنِ اسرارِ شریعت کے ایک زبردست امام ہیں‘ اسرارِ نکاح میں اسی مساوات حقوق کا تذکرہ فرمایا ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ:
’’انسان کے فطری اور ضروری حوائج دو طرح کے ہیں۔ بعض ایسے ہیں کہ جن کی تکمیل وہ خود کر سکتا ہے اور بعض ایسے کہ جن کے انصرام میں عورت کی حاجت ہوتی ہے (علی ہذا القیاس عورت کا بھی یہی حال ہے)۔ اسی لیے شریعت نے نکاح کو ضروری قرار دیا ہے‘‘۔ (حجۃ اﷲ البالغہ‘ ص۔۴۰)
دوسرے الفاظ میں گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت انسانیت کو مکمل کرنے والی مخلوق ہے اور یہی حال ہے کہ ایک حدیث میں ارشاد ہے:
إذ تزوج العبد فقد استکمل نصف الدین۔
۔مشکوٰۃ۔ کتاب النکاح‘ الفصل الثالث
’’جب کسی شخص نے نکاح کر لیا تو گویا اس نے اپنا دین مکمل کر لیا‘‘۔
کیونکہ اعمالِ انسانی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ اعمال و افعال ہیں جن کا تعلق آخرت سے ہے اور دوسرے وہ جن کا تعلق معاشرتِ دنیاوی سے ہے۔ انعقاد رسمِ نکاح کے بعد گویا امورِ معاشرت کی ایک گونہ تکمیل ہو جاتی ہے۔ قرآن مجید کی بعض آیات اس حیثیت کو اور بھی صاف اور واضح کرتی ہیں۔ مثلاً ارشاد ہے: ’’ھن لباس لکم وأنتم لباس لھن‘‘۔ (البقرہ:۱۸۷) ’’وہ (عورتیں) تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو‘‘۔
لباس انسان کے لیے ایک ضروری چیز ہے‘عموماً لوگ دوسری چیزوں کی بہ نسبت اس کی تزئین و آرائش کا زیادہ خیال کرتے ہیں۔ اسی لیے قرآن مجید نے مرد اور عورت کی حیثیات کو واضح کرتے ہوئے لباس کا لفظ استعمال کیا ہے کہ تم میں کا ہر ایک دوسرے کے لیے لباس ہے‘ اس لیے مرد اور عورت دونوں کا فرض ہے کہ ایک دوسرے کی تزئین و آرائش میں سخت جدوجہد کریں۔ ایک دوسرے موقع پر خصوصیت کے ساتھ عورتوں کی حیثیت کو اس سے بھی زیادہ بہتر دکھلایا ہے ’’نساؤکم حرث لکم فأتوا حرثکم أنی شئتم‘‘ (البقرہ:۲۲۳)۔ ’’تمہاری عورتیں کھیتوں کی طرح ہیں جس طرح چاہو ان کے پاس آئو‘‘۔ گو یہ آیت مفسرین کے قول کے مطابق ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ ہے‘ لیکن تفسیر کا عام اصول یہ ہے کہ مخصوص واقعہ کے سبب سے لفظ کے عام استنباط نہیں باطل کیے جاسکتے۔ اس آیت میں عورتوں کو کھیتی سے تشبیہ دی گئی ہے جو ایک نہایت عزیز اور سودمند چیز ہے۔ کوئی کاشتکار کبھی اپنی زراعت کو ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ اسی طرح مردوں سے خطاب کیا گیا ہے کہ تم کو اپنی عورتوں کے ساتھ وہی سلوک روا رکھنا چاہیے جو کاشتکار کو اپنی زراعت کے ساتھ۔ یہ قرآن مجید کا مخصوص طرزِ ادا ہے۔ کیا اس سے بھی بڑھ کر حسنِ معاشرت کی کوئی تعلیم دی جاسکتی ہے۔ ان دونوں کا مفہوم تقریباً ایک ہی ہے لیکن الفاظ مختلف ہیں۔ اس میں بھی ایک خاص نکتہ ہے لیکن اس کے بیان کرنے سے پہلے ایک اور مقدمہ ذہن نشین کر لینا چاہیے۔
قرآن مجید میں عموماً احکام کا مخاطب اہلِ عرب کو بنایا گیا ہے اور زیادہ تر انہی کی اصلاح کو مقدم رکھا گیا ہے تاکہ پہلے ایک قوم کو راہ پر لایا جائے اور پھر اس کے ذریعہ سے دوسری قوموں کی اصلاح کی جائے۔ اس کے لیے عرب قوم کا انتخاب کیا گیا کیونکہ ان کا ملک جغرافیائی حیثیت سے کرۂ ارض میں مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی لیے اور احکام کی طرح عورتوں کے حقوق کی طرف بھی پہلے انہیں کو دعوتِ اصلاح دی گئی۔ عرب میں دو قسم کے لوگ آباد تھے۔ ایک وہ جن کا کوئی ایک مقام متعین نہ تھا۔ مختلف مقامات پر رہتے‘ کھیتیاں کرتے‘ فصل کاٹتے اور دوسری طرف چلے جاتے۔ دوسرے وہ لوگ جو شہروں میں آباد تھے‘ ان کا عام پیشہ تجارت تھا‘ ظاہر ہے کہ پہلے گروہ کے لیے کھیتی باڑی سے زیادہ دوسری کوئی چیز عزیز نہیں۔ دوسرے گروہ کے لیے ظاہری آرائش و زیبائش مقدم چیز ہے‘ جس کا جزو اعظم لباس ہے۔ قرآن مجید کے مخاطب یہی دو گروہ ہیں۔ انہیں دونوں گروہوں کو عورتوں کی زبردست حیثیات سمجھانے اور ان کے دلوں میں صنفِ نازک کی وقعت پیدا کرنے کے لیے دو مختلف مثالوں سے کام لیا گیا ہے اور لباس و حرث کے جداگانہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ پہلے سے اہلِ حضر اور دوسرے سے بادیہ نشینوں کی تفہیم مقصود ہے۔ اس دعوی کے اثبات کے بعد اب ہم چند چیزوں کی تفصیل کرنا چاہتے ہیں جن کے متعلق گذشتہ صفحات میں ہم ضمناً اشارہ کر آئے ہیں۔
حضرت عمرؓ کے قول سے تم نے اندازہ کر لیا ہو گا کہ اہلِ عرب عورتوں کی کچھ قدر و منزلت نہیں کرتے تھے اور ان کے نزدیک عورتوں کی زیادہ سے زیادہ وہی وقعت ہو سکتی تھی جو ایک انسان اپنے مملوکات و مقبوضات کی کر سکتا ہے اور ان کی ذات کے متعلق شوہروں کو وہی حقوق ملتے تھے جو دیگر اسبابِ معیشت پر حاصل ہوتے تھے لیکن شارع اسلام نے ہر جگہ عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت‘ سلوک نیک اور خوش معاملگی کی تعلیم دیتے ہوئے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ عورتوں پر تم کو وہی حقوق حاصل ہیں جو شریعت غرا نے دیے ہیں۔ چنانچہ ابن ماجہ کی روایت ہے:
لاتملکون منھن شیئا غیر ذلک إلا أن بأتین بفاحشۃ مبینۃ
ابنِ ماجہ: کتاب النکاح: باب حق المرأۃ الزوج۔
’’تم کو عورتوں پر سوائے مخصوص حقوق کے اور کوئی دسترس نہیں حاصل ہے لیکن ہاں! جب کوئی گناہ کریں‘‘۔
جو لوگ حریتِ نسواں کے حامی ہیں اور اس کے صحیح مفہوم سے واقف ہیں‘ وہ غور کریں کہ اس سے زیادہ اور کیا جنس لطیف کی آزادی کے حدود وسیع ہو سکتے ہیں؟ بے شک حدود الٰہیہ اور اپنے اپنے فرائض سے اعراض کرنے کی صورت میں کون سا حیا پرور اور صحیح الدماغ انسان ہے جو اسلام کی اس تعلیم کے سامنے سر تسلیم نہ جھکا دے گا‘ البتہ یورپ کے کور مقلد اس کے لیے تیار ہوں گے کہ عورتوں کو اس درجہ آزادی دی جائے کہ وہ فواحش و کبائر میں مبتلا رہیں اور شوہروں کو ان سے باز پرس کا حق نہ حاصل ہو لیکن ایسا کرنا انسانی حیا و شرم کا خون کرنا ہے‘ بعض مواقع پر حضور اکرمﷺ نے عورت کو دنیا کی سب سے زیادہ گراں مایہ پونجی‘ سب سے زیادہ عزیز متاع سے تعبیر فرمایا ہے۔ ابن ماجہ میں حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کی روایت ہے:
إن رسول اﷲﷺ قال: انما الدنیا متاع ولیس من متاع الدنیا شیئی افضل من المرأۃ الصالحۃ
امن ماجہ: کتاب النکاح: باب أفضل النساء۔
’’دنیا ایک دکان متاع ہے‘ جن میں سب سے بہتر پونجی صالح عورت ہے‘‘۔
اس فضیلت کا راز وہی ہے جو ہم اوپر ظاہر کر چکے ہیں کہ عورت سلسلہ تکمیل انسانیت کی ایک زبردست کڑی ہے۔ بخاری کی ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ ’’المرأۃ کالضلع‘‘ (عورت پسلی کی طرح ہے)۔ اس ارشاد کی پوری تصویر تھوڑی سی طبی تشریح کے بعد ذہن میں آسکتی ہے۔ نوعِ انسان کے مختلف افراد ہیں۔ ان افراد کا مجموعہ گویا ایک ڈھانچہ ہے‘ جس میں عورت کو ’’پسلی‘‘ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اب دیکھو ماہرینِ طب مجسمہ انسانی میں ضلع (پسلی) کے فوائد بتلاتے ہیں۔ اس سے تمہیں معلوم ہو گا کہ وہی حیثیت افراد نوع انسانی میں عورت کو حاصل ہے۔ علم افعال الاعضاء (فزیالوجی) کے لحاظ سے پسلی کا کام پھیپھڑے اور قلب کی حفاظت کرنا ہے۔ انسان کی قدرتی مشین انہیں دو پرزوں کے ذریعہ سے چلتی ہے۔ پھیپھڑے کے ذریعہ سانس لی جاتی ہے‘ اسی پر زندگی کی آئندہ رفتار کا دار و مدار ہے اور قلب کا کام قوام بدن کی نگہداشت کرنا ہے لیکن ان دونوں کی حفاظت ’’ضلع‘‘ سے متعلق ہے۔
بعینہٖ یہی حال عورت کا بھی ہے۔ اولاً یہ کہ اس سے آئندہ نسل کے چلنے کی امید ہے۔ شوہر کی تمام ضروریات کی فراہمی و نگہداشت اس کے ذمہ ہے‘ ان دونوں کا کام عورت کے بغیر درست نہیں ہو سکتا۔ فطرت کی طرف سے پسلی کی جو ساخت ہے اگر تم اس میں کوئی تغیر کرنا چاہو تو کر سکتے ہو مگر اس کا نتیجہ کیا ہو گا کہ اس کل کے تمام پرزے ایک لمحہ میں تتر بتر ہو جائیں گے۔ اسی طرح قانونِ قدرت کا جو تقاضا ہے‘ اس میں کمی بیشی‘ افراط و تفریط ہرگز نہ کرنا چاہیے‘ ورنہ اس کا وہی حشر ہو گا کہ خاندان کا خاندان برباد ہو جائے گا۔
دنیا میں آج بہت سی قومیں مال و دولت کی تلاش میں حیران و سرگرداں ہیں۔ مسلمانوں کو احکام مذہب کی رو سے ملکی‘ قومی‘ سیاسی‘ مذہبی ضروریات کے پورا کرنے کے بعد تفاخر و تکاثر کی نیت سے مال جمع کرنا نازیبا ہے‘ ان کی اصل غرض و غایت اعلاء کلمۃ اﷲ اور معارف الٰہیہ کی تشریح و توضیح ہے۔ اسی لیے جب مال جمع کرنے کی ممانعت کر دی گئی (ملکی اور مذہبی ضروریات مستثنیٰ ہیں) تو حضرت ثوبانؓ نے حضورﷺ سے عرض کیا کہ پھر ہم کس چیز کے جمع کرنے کی کوشش کریں‘ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
یتخذ احد کم قلبا شاکرا ولسانا ذاکرا وزوجۃ مؤمنۃ فتعین احدکم علی امر الآخرۃ
ابن ماجہ: کتاب النکاح: باب أفضل النساء۔
’’قلب شاکر‘ لسان ذاکر اور زوجۂ مومنہ کے حاصل کرنے کی کوشش کرو‘‘۔
پہلی دو چیزوں کے متعلق کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔ زوجہ مومنہ کے ذکر کے بعد اس سبب کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے۔ وہ تمہاری معین و مددگار ہو گی۔ یہ روایت تفصیل کے ساتھ ابنِ ماجہ میں مذکور ہے۔ ترمذی کی ایک روایت میں آیا ہے: ’’خیارکم خیارکم لنسائھم‘‘ (ترمذی: کتاب الرضاع: باب ماجاء فی حق المرأۃ علی زوجھا)۔ ’’تم میں سے سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی عورت سے اچھا سلوک کرتا ہے‘‘۔ اور ان سے زیادہ جامع قرآن مجید کا یہ فرمان ہے: ’’عاشروھن بالمعروف‘‘ (النساء:۱۹)۔ ’’عورتوں کے ساتھ نیک برتائو کرو‘‘۔ کیا ان کھلی ہوئی تحریرات کے بعد بھی انصافاً اسلام پر صنفِ نازک کے متعلق تنگ نظری کا الزام قائم کیا جاسکتا ہے؟
(بشکریہ: پندرہ روزہ ’’تعمیرِ حیات‘‘۔ لکھنؤ۔ شمارہ۔ ۱۰ جون ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply