پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ، زیر زمین ہے!

Researchers have discovered the largest water reservoir 640 km beneath our feet, rock deep in the earth's mantle.

دنیا میں بسنے والے اربوں انسانوں کی مستقبل میں پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے محققین نے زمین میں پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ دریافت کرنے کا دعوی کیا ہے۔ یہ ذخیرہ زمین سے ۶۴۰ کلومیٹر نیچے چٹانوں میں دریافت کیا گیا۔

نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف میکسکو کے محققین نے شمالی امریکا میں زیر زمین گرم مائع مادے کے بڑے ذخائر دریافت کیے ہیں۔ تحقیق کے مطابق زمین کی سطح پر موجود پانی پلیٹ ٹیکٹونکس کے نتیجے میں زمین کی گہرائیوں میں موجود ان چٹانوں تک پہنچ کر اُن کو پگھلانے کا باعث بن سکتا ہے۔

نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے ارضی طبیعیات داں اسٹیو جیکب سن نے بتایا کہ آخر کار وہ زمین پر موجود پانی کے سائیکل کے شواہد دیکھ رہے ہیں جو زمین کی سطح پر موجود پانی کے اتنے بڑے ذخیرے کی مستقل موجودگی کو سمجھنے میں مدد دیں گے۔ سائنسدان گزشتہ کئی دہائیوں سے زمین کی اوپری اور نچلی چادر کے درمیان پانی کے اس چھپے ہوئے ذخیرے کی تلاش میں تھے۔

جیکب سن اور یونیورسٹی آف نیو میکسکو کے زلزلیت داں (Seismologist) برانڈن شمانڈٹ نے پہلا براہ راست ثبوت پیش کیا ہے کہ زمین کی اس تہ پر جسے ’’ٹرانزیشن زون‘‘ کہا جاتا ہے، پراُس علاقے میں پانی موجود ہو۔ تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ چٹانوں کے پگھلنے کا یہ عمل ممکنہ طور پر زمین کی سطح سے ۶۴۰ کلومیٹر گہرائی میں ہوتا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ پانی کے اجزائے مرکبی یعنی ہائیڈروجن اور آکسیجن (H2O) کی زمین کی اندرونی تہہ پر موجود معدنیات کی حامل چٹانوں میں موجودگی ممکنہ طور پر اس عمل میں بنیادی اہمیت کی حامل ہوسکتی ہے۔

برانڈن شمانڈٹ نے کے مطابق اتنی گہرائی میں چٹان کے پگھلنے کا عمل غیر معمولی ہے کیوں کہ زیادہ تر یہ عمل کم گہرائی میں یعنی ۸۰ کلو میٹر تک دیکھا گیا ہے۔

اگر ٹرانزیشن زون میں موجود چٹان کے وزن کا ایک فیصد بھی پانی (H2O) ہو، تو وہ ہمارے سمندروں میں موجود پانی کا تقریبا ۳ گُنا ہوگا۔ اس تحقیق کے حوالے سے ’’سائنس‘‘ جرنل میں شائع ہونے والے نتائج سائنسدانوں کو یہ سمجھنے میں مدد دیں گے کہ یہ زمین کیسے تشکیل پائی، اس کی موجودہ ساخت اور اندرونی سرگرمی کیا ہے اور کتنا پانی ان چٹانوں میں موجود ہے۔

“World’s largest water reservoir found deep in earth”. (“IANS”. June 13, 2014)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*