چین کے صوبے سنکیانگ میں ۵ جولائی ۲۰۰۹ء کو مسلم یوگرز (Uighurs) کے احتجاجی مظاہروں کی شدت نے کئی عشروں بعد بدترین نسلی فسادات کی صورت اختیار کر لی۔ امن قائم کرنے والے اداروں نے ان فسادات پر بروقت قابو تو پالیا لیکن ان فسادات میں ۱۸۰ کے قریب لوگ موت سے ہمکنار ہو گئے۔ یوگرز کا کہنا ہے کہ امن قائم کرنے کے ذمہ دار اداروں نے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا اور پرامن مظاہرین پر بے جا تشدد کیا گیا۔ عالمی یوگرز کانگریس نے ان فسادات کو ’’چینی حکام کی طرف سے سنکیانگ میں ڈھائے گئے بدترین مظالم‘‘ کا نام دیا ہے۔ چین کے صدر جو کہ جی۔۸ (G-8) کانفرنس میں شریک تھے فوری طور پر وطن واپس پہنچے تاکہ حالات کو مزید خراب ہونے سے بچانے کی سعی کی جا سکے۔حکومتِ چین نے ایک مسلمان یوگر رابعہ قدیر کو جو امریکا میں ہیں ان فسادات کا ملزم ٹھہرایا ہے جس کا تعلق نیشنل انڈومنٹ فار ڈیمو کریسی (National Endowment for Democracy-NED) نامی ادارے سے ہے جسے بین الاقوامی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے امریکی حکومت سے باقاعدہ فنڈز ملتے ہیں۔ معروف دانشور ڈبلیو انگداہل (W.Engdahl) کے بقول اس ادارے کو امریکی قومی ادارہ برائے بین الاقوامی امور جو کہ صدر اوباما کی ڈیمو کریٹک پارٹی سے وابستہ ہے اور عالمی ریپبلکن انسٹی ٹیوٹ اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے باقاعدہ رقوم اداکی جاتی ہیں۔
صوبہ سنکیانگ میں رونما ہونے والے حالیہ فسادات آناً فاناً دیگر ۱۵۰ علاقوں میں بھی پھیل گئے ہیں جن میں کیوٹن (Kuytun) ویننگ (Vining) اور کاشغر بھی شامل ہیں۔ اس طرح اس مسئلے کو عالمی میڈیا کی توجہ حاصل ہو گئی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا نے اسے ’’دنیا کی پہلے نسلی وبا‘‘ کا نام دیا ہے۔ سنکیانگ کا علاقہ مشرقی ترکستان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جو ۱۹۴۹ء میں چین کے زیرِ تسلط آیا تھا۔ اس خطے میں ۹۰ فیصد مسلمان اکثریت تھی جبکہ ہان چینی (Han Chinese) کی آبادی صرف ۵ فیصد تھی۔ ۱۹۵۴ء میں یوگرز نے خود مختاری کی تحریک چلائی تھی جسے حکومت نے سختی کے ساتھ کچل دیا تھا اور اس تحریک کی ناکامی کے بعد یوگرز بڑی تعداد میں امریکا، یورپ اور ترکی کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے اور اس وقت سے سنکیانگ میں ہان چینیوں کی آبادکاری کا سلسلہ جاری ہے جن میں زیادہ تر امن و امان قائم رکھنے والے اداروں اور انتظامیہ کے ملازمین کے علاوہ ہنر مند اور عام مزدور شامل ہیں۔ کاروبار اور مقامی ترقیاتی اداروں میں ملازمت کے حصول کے لیے ہان چینیوں کو یوگرز پر ترجیح دی جاتی ہے جس سے ان کی دل شکنی اور حق تلفی ہوئی ہے۔
حالیہ بدامنی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ ہے ’نسلی امتیاز اور معاشرتی عدم مساوات‘ جس سے یوگرز کی آبادی ۹۰ فیصد سے کم ہو کر ۵۵ فیصد رہ گئی ہے اور ہان چینیوں کی آبادی ۵ فیصد سے بڑھ کر ۳۵ فیصد ہو چکی ہے۔ دوسری اہم وجہ ’اسلامی حریت پسندوں کی کارروائیاں‘ ہیں۔ جنہیں ۱۹۸۰ء سے جاری افغان جنگ سے بہت تقویت ملی ہے۔ مغربی ترکمانستان محاذ آزادی (Eastern Turkmenistan Libration Front) اسی عرصے میں قائم ہوا تھا جس کے جھنڈے تلے یوگرز کو وسیع پیمانے پر تربیت دی گئی اور انہیں اسلحہ سے لیس کیا گیا۔ یہ تربیت گاہ افغانستان کے شہر فیض آباد (بدخشاں) میں قائم ہے۔ جسے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیاں اتحادی فوجیوں کے تعاون سے چلا رہی ہیں اور یوں NED اور اتحادی فوجوں کے افغانستان میں موجود نیٹ ورک کے درمیان ایک رابطہ قائم ہے جبکہ پاکستان میں بلیک واٹر نامی تنظیم کے بڑھتے ہوئے نیٹ ورک سے یہ سازشی جال پورے خطے کو اور بالخصوص سنکیانگ صوبے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔
اقتصادی میدان میں چین کی غیر معمولی ترقی نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں اور وہ جمہوریت اور انسانی حقوق کا ڈرامہ رچا کر چین کے لیے مشکلات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ۱۹۸۹ء میں سی آئی اے کی شہہ پر شروع کی جانے والی تنامن اسکوائر (Tinnamin Square) کی تحریک ناکامی سے دوچار ہوئی اور اب سے صرف چند ماہ قبل تبت میں حالات بگاڑنے کے لیے دلائی لامہ کی سرپرستی کی گئی لیکن اس میں بھی انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اب انہوں نے سنکیانگ میں یوگرز مسلمانوں کے شانوں پر بندوق رکھ کر ’انسانی حقوق‘ کے نام پر چین میں بدامنی پھیلانے کی مذموم سازش شروع کی گئی ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں کو کشمیر، فلسطین اور افغانستان میں اپنی فوجوں کے ہاتھوں بے گناہ اورنہتے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم دکھائی نہیں دیتے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ امریکا، بھارت اور اسرائیل کو ’انسانی حقوق‘ کی کوئی پرواہ نہیں ہے بلکہ وہ چین کی ابھرتی ہوئی طاقت سے خوفزدہ ہیں جسے ختم کرنے کے لیے آئے دن نئی نئی سازشیں تیار کرتے رہتے ہیں۔ امریکا اور بھارت کے مابین طے پانے والا اسٹریٹجک پارٹنر شپ معاہدے کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے۔ جبکہ انسانیت سے پیار اور ہمدردی کا تقاضا ہے کہ بلاتفریق رنگ و نسل، مذہب و ملت پوری انسانیت کے لیے پرامن بقائے باہمی کے زریں اصول کو مشعل راہ بنایا جائے۔
’’اس پورے علاقے میں تمام بدامنی اور خرابی کی جڑ افغانستان پرامریکا اور اتحادی افواج کا غیر قانونی و غیر اخلاقی قبضہ ‘‘ ہے۔ قابض فوجوں کی عسکری مہموں کے سبب پورے علاقے کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں لیکن غاصبوں کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول میں ناکامی کے سوا کچھ نہیں ملا ہے۔ اتحادیوں کی شکست خوردگی کا ثبوت مختلف تجزیہ نگاروں کے ان بیانات سے ہوتا ہے جن سے اوباما کو یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ وہ اپنی افپاک اسٹریٹجی (Afpak Strategy) تبدیل کریں۔ چند اہم بیانات قابلِ غور ہیں:
٭امریکی فوجیں افغانستان کی جنگ میں تھک چکی ہیں اور عوام بھی تنگ آ چکے ہیں۔ (رابرٹ گیٹس)
٭افغانستان میں صورتحال بتدریج خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے، جہاں طالبان دن بدن طاقتور اور منظم ہو رہے ہیں، اس صورت حال سے افغانی عوام اپنے مستقبل کے متعلق بہت زیادہ فکرمند ہیں (ایڈمرل میک مولن)
٭کیا افغانستان کو دوسرا ویتنام یعنی امریکی ایمپائر کا قبرستان بنایا جا رہا ہے۔ (Martin & R.Hertzberg)
٭صدر اوباما کے متعین کردہ جنرل کرسٹل (Mc Chrystal اور جنرل پیٹریاس (Petraeus) دونوں کی افغانستان کے بارے میں پالیسیاں بنیاد پرستی اور تزویراتی غلطیوں کا مجموعہ ہیں۔ (Noam Chomsky)
٭ ہمیں افغانستان میں بدترین صورتحال کا سامنا ہے۔ امریکی اور اتحادی فوجیں شکست کھا رہی ہیں اور ہمارے نوجوان موت سے ہمکنار ہو رہے ہیں (Paddy Ashdown)
٭ایک کام جو ہم نہیں کر رہے وہ یہ ہے کہ ہم وہ کام کریں جس کے زمینی حقائق متقاضی ہوں، یعنی قابض فوجیں اپنے سپاہیوں اور بے گناہ افغانیوں کے قتل سے باز آجائیں۔ تاریخ کے اوراق ایسے سپاہیوں کی قبروں سے بھرے پڑے ہیں جنہوں نے فرائض کی بجا آوری کی خاطر اپنی جانیں پیش کیں۔ (Adrian Hamilton)
٭ اوباما تقدیر کے لکھے کو نہیں بدل سکتے۔ نوآبادیاتی دور اب قصہ پارینہ بن چکا ہے اس لیے افغانستان میں طاقت کے بل بوتے پر امن و امان کا قیام ناممکن ہے (Ted Rall)
ان بیانات کا نوٹس لیتے ہوئے صدر اوباما کہتے ہیں کہ ’’ہم سب افغانستان سے پرامن واپسی چاہتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ طاقت کے بل بوتے پر کسی کو غلام نہیں بنایا جا سکتا لہٰذا عالمی برتری کی کوششیں ترک کرنا ہوں گی‘‘۔
عسکری طاقت اور دھونس و دھاندلی کے مکروہ ہتھکنڈے اور سی آئی اے کے مرتب کردہ منصوبے ناکارہ ہو چکے ہیں۔ لہٰذا پرانی روش ختم کرنا ازبس لازم ہے تاکہ دنیا کو امریکا کا ’’سافٹ پاور‘‘ ہونے کا یقین دلایا جا سکے جو کہ امریکا کا اصل اثاثہ ہے۔ مینوئل گارشیا جونیئر اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ: ’’سی آئی اے امریکی عوام کے مفادات کی کوئی خدمت نہیں کر رہی بلکہ اس کے برعکس ایسی افسر شاہی کی خدمت کر رہی ہے جو کہ عالمی جرائم میں ملوث ہیں اور قیام امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے اس مکروہ کردار نے امریکا کو عالمی سطح پر نفرت کی علامت بنا دیا ہے جس کے سبب عالمی سطح پر جاری طویل المدتی سلامتی کی کوششوں کو نفسیاتی طور پر نقصان پہنچتا ہے۔ اگر امریکا CIA کو اپنے کنٹرول میں کر لے تو یہ عمل اس کے جمہوریت پسند ہونے کا ثبوت ہو گا جیسا کہ عظیم کنسٹنٹائن (Constantine the Great) ۳۱۲ء میں پرائٹورین گارڈ (Praetorian Guards) کے خلاف اس کے قلعوں اور معبدوں کو مسمار کر کے کیا تھا لیکن سردست امریکا کے لیے ایسا کرنا سیاسی اور منطقی لحاظ سے ناممکن ہے جس سے اس کی عظمت و جلال میں بلندی آجائے‘‘۔
۱۹۸۴ء میں راقم نے ایک عسکری وفد کے ساتھ چین کا دورہ کیا تھا اور ہم درہ خنجراب کے راستے تاشکرگان اور کاشغر سے ہوتے ہوئے ارمچی پہنچے تھے جہاں ہم پانچ دن ٹھہرے۔ اس دوران عسکری و سول چینی دوستوں کے ساتھ ملاقاتوں میں ہم نے محسوس کیا کہ خطے میں ابھرتے ہوئے بدامنی کے خدشات کی وجہ سے وہ کافی پریشان تھے۔ جہاں ہم نے اور کئی عوامل پر گفتگو کی وہیں ہم نے چینی دوستوں کو یہ رائے بھی دی کہ اس خطے کو لوگوں کا معیار زندگی بہتر کرنے کے لیے مختلف نوعیت کے ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں تو اس مسئلے کو باآسانی حل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح پورا علاقہ اقتصادی ترقی کا ’’شوکیس‘‘ بن جائے گا اور چونکہ سنکیانگ کا خطہ مشرقی، مغربی، وسطی اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے اس لیے تزویراتی لحاظ سے اس کے بہتر اثرات مرتب ہوں گے۔ اس خطے کے باسیوں کا معیار زندگی اس وقت بہت پست تھا۔ ان کا رہن سہن، کھانے پینے اور تہذیبی رسم و رواج ہمارے صوبہ سرحد کے شہروں مثلاً ٹل، کوہاٹ اور بنوں سے کافی حد تک مشابہت رکھتے تھے۔ ۲۰ سال بعد جب میں دوبارہ ارمچی گیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ہمارے عظیم چینی دستوں نے اس خطے کو واقعی ترقی اور خوشحالی کا شوکیس بنا دیا تھا۔ ارمچی ایک جدید ترین شہر کا منظر پیش کر رہا تھا جس میں فلک بوس عمارتیں، وسیع ترین بنیادی ڈھانچہ، صنعتی یونٹیں، کارخانے اور سب سے بڑھ کر دنیا کا سب سے بڑا ونڈمل پارک (Wind Mill Park) قائم تھا۔ہمارے لیے ترقی کی یہ رفتار ناقابل یقین تھی۔ علاقے کے عوام باوقار اور خوش لباس تھے اور زندگی کی آسائشوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ لیکن اس کے باوجود ہم نے محسوس کیا کہ یوگر مسلمان اندر ہی اندر سے معاشرتی امتیاز خصوصاً ان کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے نسلی اعتبار سے لائی گئی تبدیلیوں کی وجہ سے ناخوش تھے بالکل اسی طرح جس طرح کی صورتحال کا سامنا ہمیں صوبہ سندھ اور بلوچستان میں درپیش ہے۔
معروف دانشور Uru Gladney اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’خطے میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور اقتصادی انقلاب کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکے ہیں کیونکہ اس ترقی و بہتری سے مقامی اکثریت یعنی یوگر مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا البتہ ہان چینی آبادی اس ترقی سے فیضیاب ہوئی ہے جو کہ اس علاقے میں باہر سے لاکر آباد کیے گئے ہیں۔ دن بدن پھیلتی ہوئی تشدد کی لہر پر مؤثر طریقے سے قابو پانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ مقامی اکثریتی آبادی کو برابری کی بنیاد پر ترقی کے ثمرات سے استفادہ کرنے کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں، ان کے مسائل کو سمجھنے کے لیے بامقصد رابطے کے ذریعے مکمل آگاہی حاصل کی جائے اور بیرونی سازشوں کا موـثر توڑ اور تدارک کیا جائے‘‘۔
{}{}{}
Leave a Reply