علیحدگی کے لیے ہونے والی خانہ جنگی‘ جس میں کہ یمن بہرحال محفوظ رہ گیا کے کوئی دس سال بعد یمن ایک بار پھر داخلی انتشار کا شکار ہے۔ شمالی یمن کے ناہموار و دشوار گزار پہاڑوں میں جو کہ سعودی سرحدوں سے قریب ہے حکومتی فورسز اور مغرب مخالف زیدی شیعہ عالم حسین بدرالدین الحوثی اور ان کے پیروکار کے مابین کوئی ایک ماہ سے زائد سے جنگ جاری ہے۔ اس جنگ میں اب تک دونوں جانب سے ۳۰۰ سے زائد جانیں تلف ہو چکی ہیں اور سیکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ جنگ ۱۸ جون کو اُس وقت بھڑک اٹھی جب یمنی حکام نے زیدی شیعہ عالم حسین بدرالدین الحوثی جو کہ شباب المومنین نامی ایک تنظیم کے سربراہ بھی ہیں کو گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ الحوثی کے پیروکاروں اور یمنی حکومت کے مابین کشیدگی کا آغاز گذشتہ سال عراق پر امریکی جارحیت کے بعد سے ہی ہو گیا تھا۔ اس کے بعد ہی سے الحوثی کے حامی ہر ہفتے نمازِ جمعہ کے بعد امریکا و اسرائیل مخالف مظاہرے کرتے رہے ہیں اور اپنے یمنی مسلمان بھائیوں سے امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی پُرزور اپیل کرتے رہے ہیں۔ بدرالدین کے پیروکار سیکڑوں کی تعداد میں ہر ہفتے گرفتار کیے جاتے ہیں۔ تمام تر جارحیت سے کام لیتے ہوئے یمنی فوج بھاری گولہ بارود‘ ٹینک‘ جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر گن شپ استعمال کرتی رہی ہے تاکہ وہ مزاحمت کی صورت میں بھی وہ صوبہ سعدہ کے ماران ضلع میں واقع الحوثی کے دفاعی ٹھکانے کی جانب آگے بڑھ سکے جہاں کہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ تین ہزار جنگجو بھی ہیں۔ سعدہ شمالی یمن یعنی دارالحکومت سے ڈیڑھ سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے پہلے دو ہفتوں کی جنگ کے دوران حکومتی افواج جنہیں قبائلی جنگجوئوں کی بھی حمایت حاصل ہے‘ نے جاریہ‘ ملہت اور ہربان میں ۳ آئوٹ پوسٹوں پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح فوج نے حوثی نیز جمیمہ و ماران کے دشوار کن پہاڑوں تک موجود اس کے پیروکاروں کے گرد اپنا گھیرا تنگ کر رہی ہے۔
الحوثی کے پیروکاروں میں جو لوگ مارے جاچکے ہیں ان میں عامرالدین‘ عبدالمجید الحمزی معروف بہ عبدالمطلب‘ اس کے فیلڈ کمانڈر زید بن علی الحوثی‘ اس کے نائب عبداﷲ ایضا الرضامی اور الحوثی کے ایک دوسرے اہم ساتھی جس کا نام ابھی معلوم نہیں ہے اور بعض رپورٹوں کے مطابق خود بدرالدین الحوثی اور اس کے بھائی بھی شامل ہیں۔ حکومتی افواج اور سکیورٹی فورسز نے الحوثی کے سیکڑوں حامی افراد‘ طلبہ اور علما کو سعدہ اور ملک کے دوسرے حصوں بالخصوص ثنا میں گرفتار کر لیا ہے۔ الحوثی کے متعدد پیروکار قبائلی سرداروں کے ساتھ اپنے آپ کو حکام میں تبدیل کر لیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گرفتار شدہ افراد میں سے بیشتر کو شکنجہ دینے کے خیال سے قیدِ تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ گرفتار شدہ افراد میں یمنی عدالت کے ایک سینئر جج محمد لقمان بھی ہیں جن پر الحوثی کی حمایت کا الزام ہے اور ان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے الشباب المومنین کے لوگوں کو حکومت کے خلاف جنگ کے لیے اکسایا ہے۔ لقمان جو مغربی ہراز خطے میں عدلیہ کے سربراہ بھی ہیں‘ کو ۱۴ جولائی کو گرفتار کر لیا گیا۔ حزبِ اختلاف کے گروہوں نے حکومت پر بے دریغ قوت کے استعمال کا الزام لگایا ہے جس کے نتیجے میں بہتیرے شہریوں کی جانیں گئیں اور ہزاروں خاندان دربدر ہو گئے۔ حزبِ اختلاف کے کئی گروہوں کی جانب سے جاری کردہ بیان میں صدر علی عبداﷲ صالح سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ سعدہ کے متعدد علاقوں میں مسلط کردہ فوجی محاصرہ ختم کر دیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ خونریزی‘ گھروں کی مسماری اور لوگوں پر حملے یقینا افسوسناک اور باعثِ رنج و تکلیف ہیں۔ ایمینسٹی انٹرنیشنل نے اپنی جانب سے یمنی وزیرِ داخلہ ڈاکٹر ارشاد محمد الامینی کو ایک خط لکھا ہے جس میں حکومتی افواج کی جانب سے شہریوں کے خلاف بھاری اسلحوں کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس خط میں شہریوں کے قتل کی تحقیق کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس خط میں ٹارچر سے قیدیوں کے تحفظ اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو بین الاقوامی معیار کی سخت پابندی پر مجبور کیے جانے اور طاقت کے استعمال سے گریز کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سعدہ کے سول سوسائٹی گروپس نے بھی بین الاقوامی ریلیف آرگنائزیشنز کو فوری طور سے آنے کی دعوت دی ہے تاکہ محاصرہ میں گھرے ہزاروں خاندان کی جان بچائیں۔ حکومتی افسران‘ حکومت حامی میڈیا‘ صحافی و دانشور حضرات نے الحوثی کے خلاف بے شمار الزامات لگائے ہیں جن میں سے بعض تو قابلِ قبول ہیں اور بعض غیرحقیقت پسندانہ ہیں۔ یہ لوگ الحوثی پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ پھر سے یمن میں بزورِ قوت ملوکیت قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ امریکا و اسرائیل مخالف مظاہروں کا سہارا لے رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ الحوثی نے فرقہ ورانہ فساد کو ہوا دی ہے‘ زیرِ زمین ملیشیا تیار کی ہے اور یہ فتویٰ جاری کیا ہے کہ بیشتر مسلمان ملکوں کی حکومتیں ناجائز ہیں۔ حکام اور حکومت نواز میڈیا الحوثی کے حامیوں کو منحرف‘ باغی اور انتہا پسند عناصر سے معنون کرتے ہوئے ان پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ یہ لوگ لاقانونیت اور غنڈہ گردی مچاتے ہیں۔ امن و امان کی صورت حال بگاڑتے ہیں‘ حکومتی افسران اور اداروں پر گولیاں چلاتے ہیں‘ روڈ بلاک کرتے ہیں‘ لوگوں کو حکومت کے خزانے میں زکات دینے سے روکتے ہیں‘ لوگوں سے خود زکات وصول کرتے ہیں اور مساجد کے اماموں کو دھمکیاں دیتے ہیں کہ وہ اپنے خطبوں میں امریکا مخالف تقریر کریں اور قومی پرچم کے بجائے بیرونی جماعت کا پرچم لہرائیں۔ الحوثی نے مبینہ طور سے اپنا پرچم تیار کر رکھا ہے۔ سفید بینر کے مرکز میں ایک درخت ہے اور اس کے حامی حکومتی عمارات پر حزب اﷲ لبنان کا پرچم لہراتے ہیں۔ وہ اس پرچم کو سعدہ کے دور دراز پہاڑی علاقوں میں بھی لے گئے ہیں لیکن حزب اﷲ نے الحوثی کے ساتھ اپنے کسی تعلق کا انکار کیا ہے۔ حزب اﷲ کے رہنما سید حسن نصراﷲ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’کسی دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت کرنا حزب اﷲ کی پالیسی نہیں ہے‘‘۔ محمد رعد جو حزب اﷲ کے پالیمنٹری بلاک کے سربراہ ہیں‘ کا بیان ہے کہ ’’فی الوقت حزب اﷲ کی جدوجہد اور جہاد صرف لبنان کی سرزمین تک محدود ہے‘‘۔ لبنان کے قانون ساز اسمبلی کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ ’’دنیا میں بہت سارے لوگ حزب اﷲ کے کارناموں پر فخر کرتے ہیں۔ جو لوگ حزب اﷲ کا پرچم لہراتے ہیں ضروری نہیں ہے کہ وہ حزب اﷲ کے ممبر بھی ہوں‘‘۔
جولائی کے اوائل میں علما کے ساتھ اپنی ایک ملاقات میں صدر صالح نے الحوثی سے خودسپردگی کا مطالبہ کیا اور اس پر صاف شفاف مقدمہ چلانے کا وعدہ کیا۔ میں آپ سے خود سپردگی (Surrender) کا مطالبہ کرتا ہوں اور آپ کے خلاف عائد کردہ الزامات کے خلاف شفاف مقدمے کی حمایت دیتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی صالح نے یہ بھی اعلان کیا کہ الحوثی کے مقدمے کی پیروی کے لیے وکیل کا تقرر علما کریں گے۔ ایک لبنانی روزنامے کے ساتھ اپنے انٹرویو میں صالح نے وہی پرانا الزام دہرایا کہ ان کے ’’ملک کے حالیہ مسائل کے ذمہ دار کچھ بیرونی عناصر ہیں‘‘۔ ۸ جولائی کو روزنامہ ’’المستقبل‘‘ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ہم بیرونی جماعتوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں لیکن ہم کسی ملک یا پارٹی پر انگلی نہیں اٹھائیں گے‘‘۔ انہوں نے وضاحت کی کہ حوثی اس شخص کو جو اس کا نعرہ بلند کرتے ہیں ۱۰۰ ملین ڈالرز (۱۸ ہزار یمنی ریالز) ادا کرتا ہے۔ یہ ایک بڑی رقم ہے۔ اتنی ساری رقم اس کے پاس کہاں سے آتی ہے۔ اسے کون لوگ یہ فراہم کرتے ہیں اور کس مقصد کے تحت کرتے ہیں؟ ہم اس کی تحقیق کر رہے ہیں لیکن یہ ممکن نہیں ہے ان کو یہ رقم کسی مقامی ذرائع سے ملتی ہو۔ صالح نے مزید کہا کہ شیعیت سے متعلق بہتیری مہنگی کتابیں جو کہ بیروت میں طبع ہوئی ہیں الحوثی کے ان حامیوں کے پاس سے ملی ہیں جو گرفتار کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد اس الزام سے کچھ بھی فرق نہیں پڑتا کہ الحوثی اپنے آپ کو امیرالمومنین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ قطر کے الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے الحوثی نے ان الزامات کی مکمل تردید کی ہے۔ اس نے کہا کہ ’’یہ الزامات حکومت کی جانب سے اس لیے لگائے جارہے ہیں تاکہ ہمارے خلاف کیے جانے والے جرائم کو وہ چھپا سکے۔ الحوثی نے امریکی سفیر پر الزام لگایا کہ وہ ان کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے یمن کی حکومت کو ورغلا رہا ہے۔ حوثی جو کہ ایک سابق ممبر پارلیمنٹ ہیں نے وضاحت کی کہ شباب المومنین کی پوری تنظیم سیاسی نہیں ہے بلکہ یہ ایک ثقافتی فورم بھی ہے جس کا قیام ۱۹۹۱ء میں اس لیے عمل میں آیا کہ یہ لوگوں کو امت کو درپیش خطرات کے حوالے سے باخبر و ہوشیار کرے۔ لیکن جس قدر سخت مزاحمت اس کے حامی کر رہے ہیں اور جو اسلحے یہ استعمال کر رہے ہیں مثلاً مورٹارز‘ راکٹ پراپیلڈ گرینڈز اور اینٹی پرزونیل مائنس وغیرہ اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حکومت سے تصادم کے لیے گذشتہ کچھ دنوں سے اسلحے جمع کر رہے ہیں۔
گذشتہ جون کے آخر میں ممبرانِ پارلیمنٹ (جن میں حوثی کے بھائی یحیٰی بھی شامل تھے اور جو حکومتی پارٹی جنرل پیپلز کانگریس پارٹی کے بھی رکن ہیں) کی جانب سے کی جانے والی ثالثی کی کوششیں جو بحران کا پرامن حل تلاش کرنے کی غرض سے تھیں اور جنہیں علما اور دیگر لوگوں کی بھی حمایت حاصل تھی بدقسمتی سے تعطل کا شکار ہو گئیں۔ اول دن سے ہی یہ دو روزہ کانفرنس ناکامی پر منتج ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ حکومت نے صرف وفد تشکیل دے کر الحوثی کے پاس روانہ نہیں کیا بلکہ اسے یہ ہدایت بھی دی کہ وہ صرف الحوثی کو خودسپردگی پر آمادہ کرے۔ یہ ایک ایسا مطالبہ جسے ماننے سے الحوثی نے انکار کر دیا اور حکومت کو تاکید کی کہ وہ اس کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ منسوخ کرے۔ الحوثی نے بعض ثالثوں پر دہریہ ہونے کا الزام لگایا اور یمنی حکام کے خلاف بغاوت پر تاکید کی۔ ایک ایم پی جس نے ناکام مذاکرات میں حصہ لیا تھا‘ نے فوج کو مذاکرات کی ناکامی کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا۔ ۲۰ جولائی کو اے ایف پی کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں الحوثی نے کہا کہ ’’ہم قرآنکا پیغام عام کرنے اور امریکا و اسرائیل کے خلاف جنگ کے لیے کام کر رہے ہیں‘‘۔ الحوثی نے صدر صالح کو ظالم اور غیرقانونی حکمراں بتایا جس کا مقصد عوام کے خون کی قیمت پر امریکا اور اسرائیل کو خوش کرنا ہے۔ الحوثی ایک عالمِ دین ہیں اور زیدی برادری کے ایک سیاسی کارکن ہیں۔ زیدی برادری ایک شیعہ فرقہ ہے جن کی یمن کے شمال مغربی حصوں میں اکثریت ہے اور ۴۵ فیصد آبادی کے ساتھ یہ برادری یمن کی سب سے بڑی اقلیت ہے‘ یمن کی کل آبادی تقریباً ۲ کروڑ ہے۔ الحوثی نے ۹۷۔۱۹۹۳ء کے دوران کی تنظیم ’الحق‘ سے الگ ہو کر شباب المومنین کی بنیاد ڈالی۔ پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد حوثی نے سعدہ کے مختلف مدارس میں معلمی کے فرائض انجام دیے جہاں ان کے خطبے اور تقریروں نے انہیں اپنے پیروکار تیار کرنے کا بہترین موقع فراہم کیا۔ زیدی فرقہ شیعیت کی ایک قسم ہے جسے زید بن علی بن حسینؓ کے پیرو کاروں نے تشکیل دیا تھا۔ امام زین العابدینؒ کے بیٹے حضرت زیدؒ نے ۷۴۰ء میں ہشام بن عبدالملک کے خلاف ایک ناکام بغاوت کی تھی جس میں کہ وہ اپنے متعدد ساتھیوں سمیت شہید کر دیے گئے تھے۔ حضرت زید کے بیٹے حضرت یحیٰی بھی ایسے ہی ایک اقدام میں ۷۴۳ء میں شہید کیے گئے۔ اسلام کے زیرِ سایہ یمن کی سیاسی تاریخ زیدیت سے وابستہ رہی ہے۔ ۱۹ویں صدی عیسوی میں سعدہ میں ایک زیدی ریاست کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔ زیدی حکمرانوں کا ملک کے مختلف حصوں میں تسلسل ۱۹۶۲ء تک قائم رہا جبکہ آخری زیدی امام حامد الدین کا تختہ ایک فوجی بغاوت کے ذریعہ الٹ دیا گیا جس کی قیادت قوم پرست افسران کر رہے تھے۔ زیدیوں کا اعتقاد ہے کہ ظالم حکمران کے خلاف بعاوت ایک مذہبی فریضہ ہے۔
صدیوں سے یمن کے زیدیوں نے اپنے آپ کو ملک کے شمالی حصوں میں واقع پہاڑی قلعوں میں محصور کر رکھا ہے اور یہیں سے انہوں نے اپنی آزادی کے تحفظ کے لیے کئی جنگیں لڑی ہیں اور بیرونی طاقتوں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ زیدی کے جنگجو گروہوں مثلاً الحوثی کا پھر سے ابھرنا ایک طریقے سے بڑھتی ہوئی مایوسی کا ردِعمل ہو سکتا ہے اور یہ اس برادری کی پریشانیوں کا آئینہ دار ہے جو اسے اپنی عظمت رفتہ کی ازسرِ نو بحالی کے حوالے سے رہی ہے۔ مسلسل رو بہ زوال سیاسی تقدیر کے بعد اب یہ اپنی بہتر بقا کی آرزو مند ہے۔ اس کی مایوسیاں گذشتہ دو دہائیوں میں ملک کے اندر سلفیت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے اور گہری ہوتی جارہی ہیں۔ یمنی سلفیت کی حالیہ لہر مقامی آدمیوں سے غذا حاصل کرتی رہی ہے جو ہمسایہ سعودی عرب میں پڑھنے کی وجہ سے سلفی مصنفوں سے متعارف ہوئے اور ۱۹۸۰ء کی دہائی میں سویت یونین کے خلاف برسرِ پیکار رہے۔ بہت سارے سلفیوں نے اصلاح پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے جس کے سربراہ شیخ عبداﷲ بن حسین الاحمر ہیں۔ زیدی اداروں کے خلاف حملوں میں بعض سلفی ملوث رہے ہیں اور سلفیوں کے رہنما مثلاً مستقبل الودیع نے اپنے اس عزم کو چھپا کر نہیں رکھا ہے کہ وہ زیدی اماموں کے روضوں کو تباہ کر دیں گے۔ یمنی سلفیت کا اپنی شیعہ دشمنی کے شدید رجحانات کے ساتھ دوبارہ سر اٹھانا زیدیوں کے مذہبی و سیاسی احیا کا سبب بنا ہے جبکہ زیدی تحریک کے احیا میں زیدی علما کی نئی نسل پیش پیش ہے۔ زیدی علما نے اپنے مذہبی ادارے قائم کیے ہیں۔ یہ زیدی مخطوطات‘ کتابچے اور مناظروں پر مبنی کتابیں شائع کرنے میں بھرپور دلچسپی اور محنت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ شروع میں سیاسی سطح پر ’الحق‘ پارٹی قائم کی گئی تاکہ وہ یمن میں سلفیت کے چیلنج کے پیشِ نظر زیدیوں کے سیاسی مفادات کا دفع کر سکے۔ بہرحال الحوثی کے حامیوں پر حکومت کے غضبناک حملے کے پیچھے صدر صالح کا ہاتھ ہے کیونکہ وہ اس طرح امریکا کی خوشنودی کے حصول کے خواہاں ہیں۔ گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء سے یمنی حکام نے ان گروہوں اور عناصر کے خلاف کارروائی شروع کر رکھی ہے جن پر القاعدہ کے ہمدرد ہونے کا شبہ ہے۔ جولائی کے اوائل میں ایک حکومتی آرڈر کے تحت ملک میں بغیر لائسنس والے تمام اسکولوں کو بند کیا گیا ہے۔ کابینہ کا ایک بیان ہے چونکہ انتہا پسندی‘ جنگجوئی اور بعض مخصوص نصابِ تعلیم میں ایک طرح کا ربط پایا جاتا ہے جو منحرف اور اجنبی نظریات کے فروغ کا سبب ہے۔ کابینہ نے ایک حکم نامہ جاری کر دیا ہے کہ اگر تمام اسکول فوری طور سے بند کیے جائیں اور وہ مراکز بھی بند کیے جائیں جو تعلیمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت کہ اسکول بند کرانے کے پیچھے اغیار کا دبائو ہے‘ کو بہت سارے لوگوں نے محسوس کیا۔ اسلامی مدارس کو اپنے کنٹرول میں لانے کے لیے ۱۹۹۹ء میں حکومت نے شیعوں‘ سلفیوں اور صوفیوں کے کوئی ۱۴۰ مدارس کو حکومتی نظامِ تعلیم میں شامل کر لیا۔ لیکن اب بھی بہت سارے ایسے اسکول ہیں جو آزادانہ طور پر چلائے جارہے ہیں۔ اب جبکہ سعدہ کے علاقوں میں لڑائی زوروں پر ہے‘ یمنی حکام نے دعویٰ کیا ہے (بقول صالح) کہ الحوثی یا تو اپنی مرضی سے اپنے آپ کو حوالے کر دیں گے یا پھر انہیں ایسا کرنے پر مجبور کر دیا جائے گا۔ یمنی حکام نے دس ملین ریال کی پیش کش کی ہے اس کے لیے جو اسے پکڑ کر لائے‘ اس کے ٹھکانے کا پتہ دے جہاں سے وہ پکڑا جائے۔ لیکن ماران کے ناہموار پہاڑی راستے کے پیشِ نظر حکومت کی جانب سے بھاری بٹالین تعینات کرنے کا طریقہ اختیار کرنا نامناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ایسی زمین سے الحوثی کے حامی پوری طرح مانوس ہیں لہٰذا یہاں حکومت کو مصروف رکھنے میں انہیں کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ گذشتہ کچھ ہفتوں میں الحوثی کے حامیان حکومتی فوج کو ایک سے زائد پہاڑی چوٹیوں سے بے دخل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور یہ ان کی عسکری کامیابی کا اختتام نہیں ہے۔ المستقبل سے اسے انٹرویو میں صالح نے کہا کہ: ’’ہم کبھی دستبردار نہیں ہوں گے خواہ ہمیں کتنی ہی قربانیاں دینی پڑیں۔ گذشتہ چند ہفتوں کے تجربوں کی روشنی میں صالح کو مزید قربانیوں کی تیاری کرنی چاہیے۔
(بشکریہ: کریسنٹ انٹرنیشنل‘ ٹورانٹو‘ اگست ۲۰۰۴ء)
Leave a Reply