زینب الغزالیؒ اسلامی تحریک کی ایک مایہ ناز خاتون

نامور خاتون مبلغ اور تحریکِ اسلامی کی عظیم کارکن زینب الغزالی کا ۳ اگست ۲۰۰۵ء کو انتقال ہو گیا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ کی عمر ۸۸ برس تھی اور آپ نے دعوتِ اسلامی کی راہ میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ آپ مصر کے صوبہ البحیرہ میں ۱۹۱۷ء میں پیدا ہوئیں۔ آپ کا خاندانی سلسلہ حضرت عمرؓ اور حضرت امام حسنؓ بن علی بن ابی طالب سے جاملتا ہے۔ جناب زینب الغزالی میں ابتدا ہی سے عبقریت کے اوصاف نمایاں تھے۔ دس سال کی عمر میں ہی خطابت میں آپ کو ملکہ حاصل تھا۔ پوری زندگی انہوں نے اپنے آپ کو ازخود تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے ایک نمونہ کے طور پر پیش کیا۔ آگے بڑھنے کی اپنی آرزو اور اپنے مضبوط عزم کے ذریعہ انہوں نے ایسے وقت میں تعلیم کے بے شمار زینے طے کیے جبکہ عورتوں میں تعلیم کا رواج بہت شاز تھا اگرچہ حرام نہیں سمجھا جاتا تھا۔ آپ مذہبی اور جدید موضوعات میں توازن قائم کرنے میں کافی دلچسپی رکھتی تھیں۔ آپ نے جامعہ الازہر کے مشہور علما سے علمی استفادہ کیا جن میں شیخ علی محفوظ اور محمود النجّار خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔ اپنے ایامِ جوانی میں وہ Egyptian Feminist Uman کی بہت ہی فعال رکن تھیں‘ جسے ہدٰی شراوی نے ۱۹۲۳ء میں قائم کیا تھا۔ بعد میں آپ اس تنظیم کی رکنیت سے‘ اس بنا پر کہ عورتوں کی آزادی کی یہ تحریک سیکولر خیالات کی حامل تھی‘ مستعفی ہو گئیں۔ تاہم آپ شراوی کا بہت زیادہ احترام کرتی تھیں اور انہیں ایک مخلص اور پرعزم خاتون کے طور پر یاد کرتی تھیں۔ ۱۹۳۷ء میں جبکہ آپ کی عمر ۲۰ سال تھی‘ آپ نے جامعات السیدات المسلمین نامی ایک تنظیم کی بنا ڈالی‘ جس کا مقصد اسلامی اصول و مقاصد پر عورتوں کو منظم کرنا تھا۔ جوں ہی آپ نے یہ تنظیم قائم کی آپ کی فعالیت کئی گنا بڑھ گئی اور آپ کو وزارتِ اوقاف نے ۱۵ مساجد تعمیر کرنے کے لائسنس جاری کر دیے۔ اس کے علاوہ درجنوں مساجد آپ نے تعمیر کیں‘ جن کے اخراجات عوامی چندے سے پورے ہوتے تھے۔ آپ کی تنظیم نے خاتون مبلغین کی ایک بڑی کھیپ تیار کی۔ پھر ان خواتین نے اسلام میں عورتوں کے مقام و مرتبے کا بھرپور دفع کیا اور اس حقیقت کو پورے شرح صدر کے ساتھ عام کیا کہ مذہب عورتوں کو پبلک لائف میں مرکزی کردار ادا کرنے‘ ملازمت کرنے‘ سیاست میں حصہ لینے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی پوری اجازت دیتا ہے۔ زینب الغزالی اخوان المسلمون کے بانی رہنما شیخ حسن البنا سے بہت ہی زیادہ متاثر تھیں۔ علاوہ ازیں آپ کے افکار و خیالات پر سید قطب شہید‘ حسن الہضیبی اور عبدالفتاح اسمٰعیل جیسے رہنمائوں کے بھی غیرمعمولی اثرات تھے۔ وہ اس خیال کی زبردست حامی تھیں کہ مذہب اور سیاست ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہیں۔ وہ شریعتِ اسلامی کی حمایت میں ہمیشہ پیش پیش رہیں اور اس وجہ سے ناصر کے دورِ حکومت میں متعدد بار انہیں ابتلا و آزمائش سے دوچار ہونا پڑا۔ ۱۹۶۴ء میں ناصر کی حکومت نے انہیں ایک کار حادثے میں ہلاک کرنے کی ناکام کوشش کی۔ واضح رہے کہ ناصر کی حکومت اخوان کو ختم کرنے کے لیے ہر اوچھے اور سفاک حربے استعمال کرنے پر آمادہ تھی۔ ناصر کی حکومت نے محترمہ زینب الغزالی کو ۲۰ اگست ۱۹۶۵ء کو گرفتار کر لیا۔ ناصر کے خلاف قتل کی سازش کا ان پر ایک جھوٹا اور بے بنیاد الزام عائد کر کے انہیں ۶ سال کی سزائے قید دی گئی۔ صدر ناصر کی خفیہ پولیس ۶ سالہ قید کے دوران روز افزوں اذیت کے ذریعہ حق کی خاطر ان کے عزم کو شکست دینے کی ناکام کوشش کی۔ ہاتھ باندھ کر انہیں لٹکا دیتے اور بلا توقف تازیانے برساتے۔ بھوکے خونخوار کتوں کے کمرے میں انہیں تنہا چھوڑ دیتے۔ انتہائی قلیل مقدار میں انہیں جو کھانا فراہم کرتے‘ اس میں بھی پیشاب اور غلاظت کی آمیزش کر دیتے۔ انہیں کئی دنوں تک گردن تک پانی میں بغیر کسی حرکت کے نماز جیسی حالت میں بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا اور پھر نرم جسم پر کوڑے مارے جاتے۔ انہیں ہر وقت جیل کے ہسپتال میں داخل کیا جاتا تاکہ ان کو مزید اذیت و تعذیب کے لیے زندہ رکھا جاسکے۔ وہ بہرحال زندہ رہیں اور بالآخر اگست ۱۹۷۱ء میں رہا کر دی گئیں۔ یہ ناقابلِ بیان آلام ومصائب جو انہیں اسلام کی خاطر برداشت کرنے پڑے‘ کی مفصل روداد اُن کی کتاب ’’ایام من حیاتی‘‘ میں پڑھا جاسکتا ہے‘ جس کا انگریزی ترجمہ Days from My Life اور اردو ترجمہ ’’زنداں کے شب و روز‘‘ کے نام سے موجود ہے۔ مصر کے اخبار الدعوۃ نے ۱۹۸۱ء میں زینب الغزالی سے ہیلیو پولیس میں ان کے گھر پر انٹرویو کیا۔ آپ نے اس موقع پر فرمایا تھا کہ اسلام نے مرد اور عورتوں‘ دونوں کے لیے ہر چیز فراہم کی ہے۔ اسلام عورت کو ہر چیز فراہم کرتا ہے یعنی اقتصادی حقوق‘ سیاسی حقوق‘ معاشرتی حقوق‘ نجی اور عوامی حقوق۔ اسلام نے عورتوں کو وہ حقوق دیے جو کوئی دوسرا معاشرہ نہیں دیتا۔ عیسائی‘ یہودی اور لادین معاشروں میں عورتیں آزادی کی بات کر سکتی ہیں لیکن اسلامی معاشرے میں آزادی کی بات کرنا ایک سنگین غلطی ہے۔ مسلمان عورتوں کو چاہیے کہ وہ اسلام کا مطالعہ کریں‘ اس کے بعد ان پر یہ اچھی طرح واضح ہو جائے گا کہ اسلام ہی وہ دین ہے جس نے عورتوں کو ہر طرح کے حقوق دیے ہیں۔ ۱۹۸۱ء میں جماعت اسلامی ہند کے کل ہند اجتماع میں عورتوں کے ۲۰ ہزار مجمع سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے یہ حیران کن جملہ کہا تھا کہ ’’اس وقت آپ کیا جواب دیں گی جب آپ کی گود میں کھیلتے بچے کل آپ سے سوال کریں گے کہ اقوامِ متحدہ کے ایوانوں سے اسلام کی صدا کیوں نہیں سنائی دیتی؟‘‘ آپ نے اسلام کے بدرجۂ اتم دفع کے لیے مسلم Feminist کی ایک قابلِ تقلید روایت چھوڑی ہے جو یقینا سیکولر اور لبرل نظریات کو شکست دے کر اسلامی اقدار کو ان کی جگہ عام کرنے میں معاون ثابت ہو گی۔

(بشکریہ: ہفت روزہ ’’ریڈینس‘‘۔ نئی دہلی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*