
تلوک چند محروم ایک نامور اردو شاعر تھے۔ انہوں نے اپنے بارے میں خود لکھا ہے کہ محروم کو ’’اہلِ ایمان‘‘ ایک کافر خیال کرتے ہیں اور کافر اسے ایک قسم کا مسلمان تصور کرتے ہیں۔ ان کے صاحبزادے جگن ناتھ آزاد (۲۰۰۴۔۱۹۱۸) بھی ایک مانے ہوئے اردو شاعر‘ دانشور اور ان چند اہم لوگوںمیں سے ایک تھے‘ جن کی حیثیت علامہ اقبال (۱۹۳۸۔۱۸۷۷) پر سند کی ہے۔ لیکن انہوں نے اپنے متعلق یہ فرمایا کہ ’’مندر سے ابھرنے والی تجلی میرے لیے کافی نہیں ہے۔ میں اپنے نہاں خانۂ دل میں نورِ حرم کی ایک کثیر مقدار بھی محفوظ رکھتا ہوں‘‘۔ ان کے یہ الفاظ بہرحال صرف شاعرانہ نہیں ہیں۔ آزاد نے اپنے اس شعر میں تجلی کے لیے دو مختلف الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ مندر سے ماخوذ تجلی کو روشنی کا نام دیا ہے جو کہ ایک عام روشنی ہے لیکن حرم سے آنے والی روشنی کو موصوف نے نور کا نام دیا ہے جو اپنے اندر ایک ماورائے طبیعت اور الٰہی چمک کا حامل ہے۔ روشنی محض خارجی گوشوں کو منور کرتی ہے‘ اس لیے انہوں نے صرف اسی پر قناعت نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے قلب کو نور سے بھی مملو کیا اس لیے کہ اس کی رسائی روح کی اتھاہ گہرائیوں تک ہے۔
جگن ناتھ آزاد ۵ دسمبر ۱۹۱۸ء کو ایک قدرے غیرمعروف اور یقینی طور سے علم و ادب سے ناآشنا ایک گجرانوالہ نامی گائوں میں پیدا ہوئے۔ مغربی پنجاب میں واقع ذیلی ضلع میاں والی کے قصبہ عیسیٰ خیل سے قریب اس گائوں کو موضع نورزمان شاہ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ پروفیسر جگن ناتھ آزاد کا ۸۵ سال کی عمر میں ۲ جولائی ۲۰۰۴ء کو بھارت کے دارالحکومت دہلی میں انتقال ہو گیا۔
وہ ۱۹۷۷ء تا ۱۹۸۰ء جموں یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر رہے تھے۔ ۱۹۸۴ء سے فرائضِ تدریس سے فراغت کے بعد بھی پروفیسر کا سابقہ ایک جزوِ لاینفک کے طور پر ان کے نام کے ساتھ لگا رہا۔ آزاد جو کہ ان کا شاعرانہ تخلص تھا‘ نے گوردون (Gordon) کالج راولپنڈی سے ۱۹۳۷ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی اور ۱۹۴۴ء میں پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور سے فارسی میں ماسٹرز کیا۔ وہ لاہور قبل ہی چلے آئے تھے جہاں انہوں نے مشہور ادبی ماہنامہ ’’ادبی دنیا‘‘ میں ادارتی عملے کے رکن کی حیثیت سے کام کیا۔ اس کے بعد ڈی اے وی کالج میں اردو پڑھانے پر مامور ہوئے۔ ان کے اساتذہ میں اقبال‘ صوفی تبسم‘ غلام مصطفی‘ مولانا عبدالمجید سالک‘ علماہ تاجور نجیب آبادی‘ سید عابد علی عابد اور ڈاکٹر سید عبداﷲ جیسی عظیم شخصیات شامل تھیں۔ یہ نوجوان اور طالب علم اپنی صلاحیت و کاوش کی بنا پر عظیم ہونے کے لیے پر تول رہا تھا۔
پاکستان نے ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو آزادی حاصل کر لی۔ لیکن برطانیہ نے چونکہ پاکستان کو ایک انتقامی کارروائی کے تحت قبول کیا تھا لہٰذا آزادی کے بعد سے مسلم کش فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا‘ خاص طور سے مشرقی پنجاب میں اور بالعموم پنجاب کی ریاستوں اور شمالی ہند کے علاقوں میں مسلم نسل کشی کی اس مہم کی وجہ سے اس نوزائیدہ مملکت میں کروڑوں مسلمان پناہ گزینوں نے ہجوم کیا۔ اس اشتعال انگیز ماحول کے باوجود لاہور مجموعی طور سے پُرسکون رہا اور محروم خاندان نے ہرگز یہ نہیں سوچا کہ وہ اپنی جائے پیدائش اور دوستوں سے جدائی اختیار کر لیں۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا؟
کچھ ہی ہفتوں قبل آزاد نے ایک جذباتی نظم کہی تھی ’’اے سرزمینِ پاک‘‘ جسے ۱۴ اگست کو ریڈیو پاکستان سے اس نئے ملک کے قومی ترانے کے طور پر نشر کیا گیا لیکن آزاد صرف ’’سرزمینِ پاک‘‘ کی مدح سرائی نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ آزادی کے حوالے سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کی جانب توجہ دلا رہے تھے۔ انہوں نے ایک ایسے پاکستان کی بات کی تھی جس کا مستقبل خوشحالی اور خودانحصاری سے عبارت ہو اور جو نہ تو مشرق سے ڈرتا ہو اور نہ مغرب سے۔ پاکستان کا سرکاری قومی ترانہ ’’پاک سرزمین شاد باد‘‘ اس کے بہت بعد متعارف ہوا۔ بہرحال نعشوں اور زخمیوں سے بھری ٹرینوں پر ٹرینیں پہنچتی رہیں‘ یہاں تک کہ لاہور کی فضا اس قدر کشیدہ ہو گئی کہ ستمبر وسط میں آزاد کے قریبی دوستوں کو یہ کہنا پڑا کہ بہتر یہ ہے کہ وہ ملک چھوڑ دیں۔ محروم کے دوستوں کو یہ خوف ہو گیا تھا کہ مشرقی سرحد پار مسلمانوں کے قتلِ عام کے ردِعمل میں کوئی مشتعل عوامی ہجوم ان کے اور ان کے خاندان والوں پر حملہ آور نہ ہو جائے۔ ایسی صورت میں وہ ان کے تحفظ سے اپنے آپ کو معذور پارہے تھے۔ چنانچہ ان کی اپنی خواہش کے علی الرغم اپنے خاندان کے تحفظ کے واسطے انہیں پاکستان کو خیرباد کہنا پڑا۔ یہ جدائی ان کے لیے بہت ہی زیادہ تکلیف دہ تھی۔ اس کے درد کو آزاد نے اس درد سے بھی زیادہ سنگین بتایا جو گوشت سے ناخن جدا کرتے وقت ہوتا ہے۔ آزاد کی سرزمینِ پاک سے محبت نیز اردو زبان اور اس سے جنم لینے والی تہذیب و شائستگی سے محبت آخر وقت تک برقرار رہی۔ انہوں نے ایک ایسے بھارت میں ہجرت کی تھی جہاں کی فضا مسلم دشمن فسادات کی وجہ سے اب بھی گاہے بگاہے کشیدہ ہو جاتی ہے۔ لیکن آزاد اپنی بے وطنی کے درد سے اوپر اٹھ کر مسلمانوں کے دکھوں کا احساس کرتے تھے۔ اس ملک میں مسلمانوں کو پاکستان کے مطالبے کی حمایت کی سزا دی جارہی تھی۔ ہندوستان میں ’’ملاپ‘‘ نامی روزنامہ جو ایک ہندو کی ملکیت ہے‘ میں تھوڑا عرصہ بطور نائب مدیر کام کرنے کے بعد آزاد نے بھارتی حکومت کے محکمۂ نشر و اشاعت میں ملازمت کر لی۔ ۱۹۶۳ء میں وہ ڈائریکٹر آف انفارمیشن ہو چکے تھے۔ ۱۹۷۷ء میں وہ جموں یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر اور صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے مامور ہوئے۔ ہندوستان میں سرکاری افسروں کو اپنی ذاتی رائے کے اظہار کی ذرا کم ہی اجازت ہوتی ہے‘ خاص طور سے اگر ان کی رائے حکومت کے روایتی موقف کے خلاف جاتی ہو۔ بہرحال آزاد کی شخصیت میں جو شاعر چھپا تھا وہ خاموشی اختیار کرنے والا نہیں تھا۔ ان کی نظم ’’بھارت کے مسلمان‘‘ ۱۹۵۲ء میں موزوں ہوئی۔ یہ نظم عظمت و شرافت کی آئینہ دار ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے انتہائی مایوس کن اور خوفناک فضا میں امید افزا اور خوبصورت بات کہنے کی کوشش کی ہے۔ آزادی کے پانچ سال بعد ہی بھارت کے مسلمان اپنے آپ کو ستم رسیدہ اور دہشت زدہ محسوس کرنے لگے تھے۔ آزاد کو بھی اس کا افسوس تھا اور انہیں یہ سوال ستاتا تھا کہ بھارت کیوں مسلم فراموشی اور مسلم دشمنی میں اس قدر اندھا ہو گیا ہے؟ اس اندھے پن سے وہ بہرحال بیزار رہے۔ انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ اپنے آپ کو ہرگز اجنبی خیال نہ کریں‘ وہ اس ملک (ہندوستان) کے شہری ہیں اور اس ملک کی ہر چیز پر ان کا بھی یکساں حق ہے۔ آپ کیوں یاس و قنوطیت کے شکار ہیں۔ اس ملک کا چہرہ تو آپ کے نور سے تاباں و روشن ہے۔ چنانچہ آپ پہلے کی مانند اس باغ میں نغمہ سرا رہیں اور چہچہائیں۔ یہ باغ جتنا میرا ہے‘ اتنا آپ کا ہے۔ آزاد کا پیغام امید و حوصلہ ہر دو اوصاف سے آراستہ تھا۔ ان کے پیغام میں مسلمانوں کے لیے اہم بات یہ تھی کہ مخالفتوں کے طوفان میں اپنی تقدیر سازی کریں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے مسلمانوں کو غور و فکر پر ابھارا کہ آخر وہ اس حالت کو کیوں پہنچے؟ آزاد نے مسلمانوں سے برملا کہا کہ آپ کی ایسی حالت اس وجہ سے ہے کہ آپ نے اسلام کی تعلیمات کو چھوڑ دیا ہے لہٰذا آپ اس سرمایۂ گم گشتہ کی بازیابی کی کوشش کریں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام پیغامِ محبت ہے‘ قربانیوں اور خلوص کی داستان ہے۔ کیوں یہ شمع آپ کے دلوں کو فروزاں نہیں کر رہی ہے؟ آزاد کی شاعری وقتی شاعری نہیں تھی‘ جس میں عارضی جذبات و غم و غصے کا عنصر شامل ہو۔ انہوں نے تصادم اور غم و غصے کی نوعیت کو نمایاں کرتے ہوئے صلح جوئی اور اندمالِ زخم کی کوشش کی۔ ہم عصر دانشوروں میں بہت کم لوگ اس حوصلہ اور تشویش نیز خیالات کی شفافیت کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں‘ جس کا اظہار آزاد نے اپنی نظم ’’بھارت کے مسلمان‘‘ میں کیا ہے۔ یہ محض شاعری نہیں ہے آزاد نے ہمیشہ اس بنیادی نکتے کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ اجنبی سا سلوک کرے اور ان کی سلامتی کے درپے ہو اور اس کے وقار کو ٹھیس پہنچائے۔ اسی طرح آزادی کے بعد بھارت میں اقبال کے ثقافتی ورثے کو نظرانداز کیا جارہا تھا اور اردو زبان کے خلاف تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی ناقدری کی جارہی تھی۔ دونوں کو محض پاکستان اور مسلمان سے مخصوص کرتے ہوئے ان سے منہ موڑ لیا گیا تھا۔ آزاد نے اس ناقدری اور بیزاری کے خلاف مزاحمت کی۔ انہوں نے اردو کے متعلق اس خیال کو مسترد کر دیا کہ یہ غیرملکی زبان ہے اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ محبت اور قربانی کی زبان ہے۔ وہ چیخ پڑے کہ ’’اردو میری داستان ہے‘ میری آواز ہے۔ یہ میری زبان ہے کسی دوسرے کی نہیں ہے۔ پھر کیوں تم اسے مٹانے پر تلے ہوئے ہو؟‘‘ ۱۹۹۳ء میں انہیں انجمن ترقی اردو کا صدر بنایا گیا۔ یہ ادارہ بھارت میں اردو کے فروغ کے لیے سرگرم ہے۔ وہ اس منصب پر تادمِ مرگ فائز رہے۔ انہوں نے اس فورم کے ذریعہ اردو کو اس کے تمام حقوق دلوانے کی بھرپور کوشش کی جو بھارت کی تین سرکاری زبانوں میں شمار ہونے کی وجہ سے اس کے بنتے ہیں‘ اگرچہ اس کام میں انہیں محدود کامیابی ملی۔ بہرحال انہوں نے اپنی شہرۂ آفاق شاعری اور تصانیف سے اردو کی عظیم خدمت کی۔ اقبال کے متعلق آزاد اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی شاعری شروع سے آخر تک اسلام کی محبت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس وجہ سے ان کی شاعری کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ان کے افکار کو مسترد کیا جاسکتا ہے۔ ملٹن (۷۴۔۱۶۰۸ء) اور دانتے (۱۶۲۳۔۱۵۱۳) بھی عیسائیت کے پرستار تھے۔ ٹیگور (۱۹۴۱۔۱۸۶۱) اور تلسی داس (۱۶۲۳۔۱۵۳۲) شاعری بھی ہندو مذہب کی محبت سے معمور تھی۔ مذہب انسانیت سے محبت پر ابھارتا ہے اور اگر کسی کو یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی ضد معلوم ہوتی ہیں تو وہ یقینا رجعت پسند اور تنگ نظر ہے۔ آزاد کا کہنا ہے کہ اقبال ہندو افکار کے بھی ایک محترم طالب علم تھے۔ فیضی (متوفی ۱۵۹۵) جس نے گیتا کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا‘ کے علاوہ اگر کسی نے گیتا کی اخلاقی تعلیمات کو متعارف کرایا تو وہ اقبال تھے جنہوں نے اپنی فارسی شاعری میں اس کو منعکس کیا۔ آزاد کی علمی کاوشوں کا بیشتر حصہ اقبالیات اور مطالعاتِ اقبال سے وابستہ ہے۔ بھارت اور دنیا بھر میں اقبال پر ان کے ۲۵ لیکچرز کے علاوہ آزاد کی اس عظیم فلسفی شاعر پر گیارہ تصانیف ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے ۱۹۷۷ء میں جگن نارتھ آزاد کو اقبال میڈل دے کر بجا طور سے علامہ اقبال کی شاعری اور افکار کی تفہیم اور اس کے تعارف کے حوالے سے ان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔ اپنے والد کی طرح آزاد نے بھی حضور سرورِ کائناتﷺ کی شان میں نعتیں کہیں۔ انہیں نعت گوئی کے حوالے سے بہت سارے علمی ایوارڈز بشمول ’’سیرتِ پاک ایوارڈ‘‘ دیے گئے۔ واضح رہے کہ ان کی نعتیہ شاعری کے اعتراف میں برطانیہ کی بریڈ فورڈ لٹریری سوسائٹی نے انہیں ’’سیرتِ پاک‘‘ نامی ایوارڈ پیش کیا تھا۔ آزاد کی علمی و ادبی زندگی ۷۰ سالوں اور تین براعظموں کو محیط ہے۔ ان کی شاعری کے ۷ دیوان اور ۲۰ نثری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ وہ خود بھی ۱۰ سے زائد کتابوں کے موضوع رہے ہیں اور ان کی شخصیت پر پی ایچ ڈی کے گیارہ تحقیقی تصانیف ہیں۔
آزاد اپنے پیچھے اپنی بیوہ‘ دو بیٹے اور تین بیٹیوں کے علاوہ دوستوں اور مداحوں کا بین البراعظمی حلقہ چھوڑ گئے ہیں۔ اردو کے عظیم شاعر غالب (۱۸۶۹۔۱۷۹۷) نے کہا تھا ’’اعتماد ہی حقیقی ایمان ہے چنانچہ اگر ان کا انتقال مندر میں ہو جائے تو کسی برہمن کو کعبہ میں دفن کر دیا جائے‘‘۔ آزاد بہت سارے پہلوئوں سے ایک پکے مسلمان تھے۔ آزاد خود تو دہلی میں نذرِ آتش کیے گئے لیکن ان کے والد تلوک چند محروم نے اپنی بیٹی اور آزاد کی بہن کو عیسیٰ خیل واپس لاکر دفنایا۔ جب سیاست کے مارے جنونی ہندوئوں نے ۶ دسمبر ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد منہدم کر دی تو آزاد نے بڑی شدت کے ساتھ ان کے اس پاگل پن کی مذمت کی اور اسے تاریخی غنڈہ گردی قرار دیا۔ آزاد نے غنڈوں سے مخاطب ہو کر کہا:
ہمارے دل کو توڑا ہے عمارت کو نہیں توڑا
خباثت کی بھی حد ہوتی ہے اے توڑنے والے
(بشکریہ: ’’امپیکٹ انٹرنیشنل‘‘۔ لندن)
Leave a Reply