
مصر کی ایک انتظامی عدالت نے ایک بار پھر اخوان المسلمون پر پابندی عائد کردی ہے۔ اخوان اب بھی مصر کی سب سے بڑی اور سب سے منظم سیاسی جماعت ہے۔ اخوان المسلمون اب صرف سیاسی گروپ نہیں رہا بلکہ اس کی باضابطہ سماجی حیثیت بھی ہے۔ بہبودِ عامہ کے شعبے میں اس کی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ مصر کی عدالت نے جو پابندی عائد کی ہے، اس کا اطلاق اخوان سے وابستہ تمام اداروں اور تمام سرگرمیوں پر ہوگا۔ عدالتی فیصلے میں اخوان کے تمام دفاتر بند کرنے اور اس کے تمام مالیاتی اثاثے منجمد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
مصر میں عام انتخابات اور صدارتی انتخاب میں فتح اور اس کے بعد ریفرنڈم میں نئے آئین کی توثیق کے بعد سے مصر میں اخوان المسلمون کے رہنما، کارکن، دفاتر اور اثاثے سبھی حملوں کا سامنا کرتے آئے ہیں۔ ۳ جولائی کو فوج کی جانب سے منتخب صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے مصر میں اخوان المسلمون کے تمام ٹی وی چینلز اور اخبارات پر پابندی عائد ہے اور اُن سے وابستہ صحافیوں کی گرفتاری کا سلسلہ جاری ہے۔
صدر محمد مرسی کے حامیوں نے فوجی بغاوت کے خلاف ملک بھر میں پرامن احتجاج کیا مگر فوجی حکومت نے تشدد ڈھانے کا بہانہ ڈھونڈا۔ غیر منتخب حکومت کا راگ الاپنے والے میڈیا نے ملک بھر میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے بھرپور کریک ڈاؤن کی راہ ہموار کرنے کے لیے پروپیگنڈا شروع کردیا۔ تین ماہ کے دوران مصری فوج نے اخوان المسلمون کے کارکنوں اور حامیوں کو چُن چُن کر موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ ان تین ماہ میں کئی مواقع ایسے آئے، جب بڑی تعداد میں لوگوں کو قتل کیا گیا۔ اس معاملے میں کوئی بھی واقعہ ۱۴ اگست ۲۰۱۳ء کے خونیں دِن کا مقابلہ نہیں کرسکتا، جب مصری فوج نے انتہائی سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اخوان المسلمون کے ایک ہزار سے زائد کارکنوں اور حامیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ہزاروں کارکن زخمی ہوئے اور سیکڑوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ یہ سب کچھ رابعہ العدویہ اور النہضہ اسکوائر میں ہوا۔ اس کے بعد اخوان کے سپریم لیڈر ڈاکٹر محمد بدیع سمیت تمام مرکزی قائدین کو گرفتار کرلیا گیا۔
اخوان المسلمون پر مکمل پابندی عائد کرنے کی درخواست فوجی بغاوت کی حمایت کرنے والی ایک چھوٹی پارٹی التجام الناصری نے دائر کی تھی مگر حکومت نے اخوان کے خلاف سخت اقدامات اور بالخصوص اس پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے تک پہنچنے میں کچھ وقت لیا۔ التجام الناصری نے اس سے قبل اخوان کی منتخب حکومت کو نیچا دکھانے اور اسے بدنام کرنے کی کوشش کی تھی۔ اخوان پر تشدد بھڑکانے اور حالات خراب کرنے کے کئی الزامات عائد کیے گئے ہیں، مگر اب تک حکومت عدالت میں کسی بھی الزام کو ثابت نہیں کرسکی ہے۔
اخوان پر عائد کی جانے والی تازہ ترین پابندی سے یہ امر ثابت ہوگیا ہے کہ اس پارٹی کو سیاست سے دور رکھا جارہا ہے اور یہ سب کچھ اس خوف کے تحت ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آئندہ عام انتخابات میں یہ بھرپور کامیابی حاصل کرے اور پھر اسرائیل کے وجود کو مسترد کردے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پہلے ہی سے طے کرلیا گیا تھا کہ فوجی حکومت کے خلاف احتجاج پرامن ہوتا یا پرتشدد، جنرل عبدالفتاح سعید حسین خلیل السیسی کو اس کے خلاف کریک ڈاؤن تو کرنا ہی تھا۔
مصر میں اخوان کو سیاسی اور سماجی منظر سے دور کرنا کوئی انوکھی مثال نہیں اور نہ ہی جنرل عبدالفتاح سے جُڑا ہوا اقدام ہے۔ جنرل السیسی نے تو محض وہی کچھ کیا ہے، جو اُس کے پیشرو کرچکے تھے۔ اس وقت بنیادی سوال یہ ہے کہ پابندی عائد کیے جانے سے اخوان المسلمون کا وجود ختم ہوجائے گا یا یہ غیر قانونی قرار دے کر نظر انداز اور مسترد کیے جانے کے مرحلے سے بخوبی سلامت نکلے گی اور ایک بار پھر اپنی بھرپور صلاحیت کا لوہا منوالے گی؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں اخوان کی پوری تاریخ کا جائزہ لینا ہوگا۔
استاد اور مبلغ امام حسن البنا نے اخوان المسلمون ۱۹۲۸ء میں قائم کی تھی۔ اس کے قیام کا بنیادی مقصد عرب اور اسلامی دنیا میں اسلام کی حقیقی حکمرانی کا قیام تھا۔ انہیں اچھی طرح اندازہ تھا کہ ان کی قائم کی ہوئی تنظیم کو آسانی سے کام کرنے اور پنپنے نہیں دیا جائے گا۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ انہوں نے پیش گوئی کردی تھی کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو اپنے ہی ملک کے حکمرانوں کی شدید ناراضی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حسن البنا نے ۱۹۳۰ء کے عشرے میں اپنی تقریر میں کہا تھا: ’’اس وقت تو کچھ زیادہ مشکلات پیش نہیں آرہیں مگر جب حکمرانوں کو آپ کے عزائم کا علم ہوگا اور آپ کے نظریات سے ہم آہنگی رکھنے والوں کی تعداد بڑھے گی، تب مخالفت بھی بڑھے گی، آپ کو گرفتار بھی کیا جائے گا، سزائیں اور ایذائیں بھی دی جائیں گی اور محبوس رکھنے کے ساتھ ساتھ قتل بھی کیا جائے گا‘‘۔
۱۹۳۶ء سے ۱۹۴۷ء تک اخوان المسلمون نے فلسطینیوں کے ساتھ مل کر صہیونیوں کی اُن کوششوں کو ناکام بنانے کی جدوجہد کی جن کا مقصد فلسطین کی سرزمین پر قبضہ کرنا تھا۔ ۱۹۴۷ء میں عرب دنیا کی افواج نے اخوان المسلمون کے کارکنوں سے کہا کہ وہ فلسطین سے نکل جائیں کیونکہ اب وہ خود اس کی حفاظت کرسکتی ہیں۔ جب اخوان کے مجاہدین فلسطین سے نکل کر مصر واپس آئے تو فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ ہوگیا۔ دوسری طرف مصر کے فرماں روا شاہ فاروق نے اخوان کے ان کارکنوں کو گرفتار کرلیا، جو فلسطین میں صہیونیوں کے خلاف لڑ کر واپس آئے تھے۔ ۱۹۴۹ء میں اخوان کے سربراہ حسن البنا شہید کردیے گئے۔ ممکنہ طور پر انہیں حکومت کے حامیوں ہی نے قتل کیا تھا۔ مگر اس کے باوجود اخوان مضبوط رہی اور اس نے ۱۹۵۳ء میں شاہ فاروق کے زوال کے تصور کو حقیقت کا روپ دینے میں مرکزی کردار ادا کیا۔
شاہ فاروق کے بعد اقتدار میں آنے والے جنرل جمال عبدالناصر نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ مصر میں انقلاب کو یقینی بنانے میں اس کے لیے سب سے اہم اتحادی کا کردار اخوان المسلمون نے ادا کیا۔ وہ اخوان سے معاہدہ کرنا چاہتا تھا مگر فریقین کسی نکتے پر متفق نہ ہوسکے اور ۱۹۵۴ء میں جمال عبدالناصر نے اخوان کے خلاف بے رحمانہ کریک ڈاؤن کا حکم دیا۔ کئی مرکزی رہنماؤں کو پھانسی دے دی گئی، ہزاروں رہنما اور کارکن گرفتار کرلیے گئے اور تنظیم کی تمام سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کردی گئی۔ مگر اس کے باوجود اخوان المسلمون زندہ رہی۔ انور سادات اور حسنی مبارک کے دور میں بھی اخوان نے سیاست کے ساتھ ساتھ سماجی خدمات کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اخوان نے مسترد کیے جانے، منظر سے ہٹائے جانے اور پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑے جانے کے باوجود کامیابیوں کا سفر جاری رکھا۔
۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کو مصر میں انقلاب کے آغاز کا سہرا اخوان کے سر نہیں مگر اس انقلاب کے لیے اخوان کے کارکن ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوئے۔ اور انقلاب کے نتیجے میں سب سے مضبوط سیاسی گروپ کی حیثیت سے بھی وہی ابھرے۔ اس انقلاب نے، جو اَب عرب بہار کے نام سے پہچانا جاتا ہے، مصر میں ایک نئے دور کی ابتدا کو یقینی بنایا۔ حسنی مبارک کا اقتدار ختم ہوا، انتخابات کی راہ ہموار ہوئی۔ اخوان کو عوام نے بھرپور مینڈیٹ دیا، مگر فوجی حکومت کے لیے یہ مینڈیٹ حلق کی ہڈی بن گیا۔ مصری اور بین الاقوامی میڈیا نے اخوان کو بدنام کرنے کے لیے بھرپور مہم چلائی مگر اس کے باوجود اخوان کے امیدواروں کو انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل ہوئی۔ عوام نے ان پر بھروسا کیا۔
پارلیمانی انتخابات میں بھرپور کامیابی کے بعد اخوان کو صدارتی انتخاب میں بھی کامیابی حاصل ہوئی۔ مگر اس دوران اس کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی گئی۔ اس کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے گریز اور انکار کیا گیا۔ ایک بار پھر اخوان کو اس کے سیاسی حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عوام نے انتخابات میں اسے چُنا ہے، اس پر بھروسا کیا گیا ہے، مگر اس کے باوجود مصر کی فوج نے اس کے مینڈیٹ پر شب خون مار کر اسے اقتدار سے محروم کردیا۔ اب مکمل پابندی عائد کرکے اسے ایک بار پھر غیر فعال بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ جب بھی اخوان کو کچلنے کی کوشش کی گئی ہے، اُس کی مقبولیت بڑھی ہے۔ اگر اس روش پر سفر برقرار رکھا گیا تو اخوان کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا اور وہ زیادہ مضبوط ہوکر ابھرے گی۔ مخالفت اور جبر نے ہمیشہ اخوان کو پہلے سے زیادہ مضبوط کیا ہے اور زیادہ مؤثر انداز سے ابھرنے کا موقع دیا ہے۔
(“New ban of Muslim Brotherhood is hardly a Game-Changer”… “Middle East Monitor”.
Sept. 23, 2013)
Leave a Reply