
اسلامی بینکاری کو دنیا بھر میں تیزی سے فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ اسلامک فاؤنڈیشن یو کے اور اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے چیئرمین پروفیسر خورشید احمد نے ’’عالمگیر معاشی بحران اور اسلامی معاشیات کا کردار‘‘ کے موضوع پر اسلامی ترقیاتی بینک کے ہیڈ کوارٹر (جدہ) میں ایک لیکچر کے بعد عرب نیوز سے گفتگو میں کہا کہ روایتی بینکوں میں سالانہ شرح نمو ایک فیصد سے بھی کم ہے جبکہ اسلامی بینکاری کے اداروں میں یہ شرح دس تا پندرہ فیصد ہے۔ پروفیسر خورشید (جو ’’شاہ فیصل انٹرنیشنل پرائز‘‘ اور ’’آئی ڈی بی پرائز‘‘ بھی حاصل کرچکے ہیں) نے کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ نے بھی بتایا ہے کہ عالمگیر معاشی بحران سے اسلامی بینکاری کے ادارے سب سے کم متاثر ہوئے کیونکہ وہ بنیادی طور پر اثاثوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ انہوں نے لیکچر میں اس بات پر زور دیا کہ اب اسلامی بینکوں کا ڈھانچا تبدیل کیا جانا چاہیے۔ ان کا استدلال ہے کہ بینکاری کے اصولوں کو شرعی طور پر قابل قبول بنانے سے زیادہ اس بات کی اہمیت ہے کہ شرعی اصولوں ہی کے مطابق بینکاری کی جائے۔ اسی صورت قرض کی بنیاد پر کام کرنے والی بینکاری سے خطرات میں حصہ دار بننے والی بینکاری کی طرف جانا اور ایکویٹی کی بنیاد پر لین دین چلانا ممکن ہوسکے گا۔ انہوں نے اسلامی ممالک پر بھی زور دیا کہ وہ عالمی بینک، عالمی مالیاتی فنڈ اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر انحصار کم کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں شاید کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جس نے عالمی مالیاتی اداروں کے دیے ہوئے قرضوں کی بنیاد پر ترقی کی ہو۔ ۴۸ کیسوں کا جائزہ لے کر کئی معیشت دان اسی نتیجے پر پہنچے ہیں۔ چین، برازیل، جنوبی افریقا اور ویتنام کی مثال واضح ہے۔ ان ممالک نے اپنے وسائل کی بنیاد پر ترقی کی ہے اور اب معیشت خاصی مستحکم ہے۔ اسلامی ممالک کو اپنے وسائل بہتر طریقے سے بروئے کار لاتے ہوئے امہ کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے۔ بہتر اور کرپشن سے پاک حکمرانی یقینی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ معیشت عمدگی سے کام کرے اور معاشرے میں حقیقی استحکام پیدا ہو۔ ریاستی امور چلانے میں عوام کی رائے کو بھی غیر معمولی اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔
پروفیسر خورشید کا کہنا تھا کہ اسلامی بینکاری کو زیادہ کارگر اور قابل قبول بنانے میں شفافیت اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ آڈٹ تمام اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ اگر کوئی غلطی سرزد ہو تو اسے چھپانے کے بجائے سامنے لاکر اصلاح کی کوشش کرنا چاہیے تاکہ اعتماد بحال ہو۔ کسی غلطی کا اعتراف کوئی کمزوری نہیں بلکہ اس عزم کا اظہار ہے کہ کچھ بہتر کرنا ہے۔ غلطی کا اعتراف اور شفافیت مل کر کارکردگی کو بہتر بناسکتے ہیں۔ کسی معاملے کو چھپانے سے زیادہ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مالیاتی امور میں openness کی بہت اہمیت ہے۔
پروفیسر خورشید احمد کو آئی ڈی بی گروپ سے الحاق یافتہ ادارے دی اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (IRTI) نے اسلامی علم الاقتصاد میں اسلامک فاؤنڈیشن کے غیر معمولی کردار پر خصوصی ایوارڈ دینے کے حوالے سے لیکچر کے لیے مدعو کیا تھا۔ اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جنرل محمد اعظمی عمر نے پروفیسر خورشید کا خیرمقدم کرتے ہوئے بتایا کہ ۱۹۸۸ء میں اپنے قیام کے بعد سے اب تک انسٹی ٹیوٹ ۳۰ شخصیات اور ۴؍ اداروں کو آئی ڈی بی پرائز دے چکا ہے۔ اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے عبدالقادر چاچی نے اسلامک فاؤنڈیشن پر ایک پریزینٹیشن دی۔
اپنے کلیدی خطاب میں پروفیسر خورشید نے ۲۰۰۷ء میں ہاؤسنگ کے شعبے میں پیدا ہونے والی خرابی سے جنم لینے والے معاشی بحران پر روشنی ڈالی۔ یہ بحران دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں کو منظر عام پر لایا ہے۔ غیر معمولی اقدامات کے باوجود اب تک سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں کو دور نہیں کیا جاسکا ہے۔ نظام کو بچانا انتہائی دشوار ہوتا جارہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں معاشی بحران اس قدر شدید تھا کہ بہت سے اداروں کو بچانے کے لیے بیل آؤٹ پیکیج جاری کرنا پڑے۔ حکومتی سطح پر کیے جانے والے اقدامات سے ادارے تو مضبوط نہ ہوئے، بیل آؤٹ پیکیج طلب کرنے والے اداروں کی تعداد البتہ بڑھ گئی۔ ڈالر کے متبادل کے طور پر ابھرنے والی کرنسی یورو بحران میں گھر گئی۔ اب یورو زون کا مستقبل بھی خطرے میں پڑچکا ہے۔
پروفیسر خورشید کا کہنا تھا کہ معاشی بحران نے سرمایہ دارانہ نظام کے نمایاں ترین مظاہر میں شمار ہونے والے ممالک کا بنیادی ڈھانچا ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اب عوام بھی مشکلات میں گھرے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ بیروزگاری اور افلاس کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ معاشرے میں خرابیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ معاشی بحران نے لوگوں کو نفسیاتی الجھنوں سے دوچار کردیا ہے۔ معیار زندگی برقرار رکھنے کی جدوجہد سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے۔ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتے جارہے ہیں۔ معاشی ناہمواری اور عدم مساوات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کسی بھی طور انسانی فلاح کا ضامن نہیں ہوسکتا۔ وہ انسان کے بنیادی معاشی مسائل حل کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ اس بدلتی ہوئی صورت حال میں اسلامی علم الاقتصاد پر نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنا ممکن ہو۔ دنیا کو متبادل معاشی نظام درکار ہے۔ ایسے میں چند ایک بنیادی تبدیلیوں کے بغیر اسلامی معاشی تعلیمات زمانے کا ساتھ دینے کے قابل نہیں ہوسکتیں۔ معاشی بحران اس قدر شدید تھا کہ اکتوبر ۲۰۰۹ء تک یعنی معاشی بحران کے نمودار ہونے کے بعد صرف ایک سال میں دنیا بھر میں بینکنگ سیکٹر کے قرضے ۳۴۰۰؍ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔ صرف ایک سال میں دنیا بھر میں شیئرز کی مجموعی مالیت سے ۶ء۳۰ ہزار ارب ڈالر اور امریکا میں ہاؤسنگ سیکٹر کی مالیت میں ۱۱؍ہزار ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی۔ عالمگیر معاشی بحران سے معیشتوں کو پہنچنے والا نقصان اب عالمی پیداوار کے ۷۵ فیصد کے مساوی ہوچکا ہے۔
مغرب میں بھی بہت سے لوگ معاشی نظام کی ناکامی کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشانی سے دوچار ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے تمام بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام ثابت ہو رہا ہے۔ ایسے میں کسی متبادل نظام کے بارے میں سوچنا فطری امر ہے۔ دنیا کو ایک ایسے معاشی نظام کی ضرورت ہے جس میں انصاف بنیادی قدر کی حیثیت سے موجود ہو اور جس کے ذریعے ہر شخص کو اس کی صلاحیت اور سکت کے مطابق کمانے کا موقع ملے۔ اسلامی تعلیمات کو کسی بھی انسانی نظام کے ساتھ ملا کر، ہم آہنگی پیدا کرکے بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ ایسی صورت میں بنیادی مسائل کے حل کی قابل قبول صورت نکل سکتی ہے۔ اس کے لیے ہمیں موجودہ معاشی بحران کا عمیق جائزہ لینا ہوگا تاکہ اس کی خرابیوں کا بہتر طور پر اندازہ لگانا ممکن ہو۔ جب تک ہم موجودہ اور ناکام نظام کو اچھی طرح جانیں گے نہیں، متبادل نظام میں مطلوبہ مہارتیں اور سہولتیں متعارف کرانے کے قابل نہیں ہو پائیں گے۔ اس مرحلے سے گزرنے کے بعد ہی کوئی متبادل نظام پیش کرنے کی سعی کی جاسکتی ہے۔
(“Islamic Banking Grows 10 to 15% Annually”.. “Arab News” Saudi Arabia. April 23rd, 2012)
Leave a Reply