
عصری موضوعات
اوپر کی سطور میں جو تعریف اور خدوخال پیش کیے گئے ہیں وہ تمام اسلامی فلسفے کی اس صورت سے تعلق رکھتے ہیں جسے ہم ایک طرح سے کلاسیکی اسلامی فلسفہ کہہ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے اس کی وجہ تو یہ ہے کہ وہ ایک ایسے دور اور ایک ایسے معاشرے کی پیداوار تھا جو محل و مقام نزول وحی سے قریب تر تھا اور جس پر بیرونی جبر‘ استبداد اور غلامی کا وہ اثر نہیں پڑا تھا جو پچھلے تین سو برس میں مثلاً برصغیر کے مسلمانوں پر پڑا۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ کچھ ایسے ہی اثرات دیگر بلاد اسلامیہ پر بھی مرتب ہوئے۔ البتہ ان اثرات میں جو بات بظاہر اوجھل مگر سب سے زیادہ دور رس اثرات مرتب کرنے والی تھی وہ فکری نو آبادیات ہے جس میں ہم آج تک مبتلا اور گرفتار ہیں۔ ہم اس وقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ ہمارا سیاسی زوال ہمارے فکری انحطاط اور اخلاقی زوال کا نتیجہ تھا یا سلسلہ اس کے برعکس تھا‘ مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے اندر خاصے طویل عرصے سے فکری انحطاط اور اخلاقی تنزل غالب ہے۔ اس نے ہم میں سے کچھ لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہماری فکر میں ماورائی عنصر کا غلبہ ہی ہمارے تنزل کا سبب بنا ہے اور عجلت میں یہ فیصلہ کرنے والے مسلم مفکر یہ چاہنے لگے کہ ہم اپنا طرزِ فکر اسی طرز پر ڈھال لیں جو اغیار کا اور ہمارے قابضین کا ہے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نوآبادیاتی تجربے نے ہمارے اندر شدید رجحانات پیدا کیے ہیں۔ ایک طرف تو سرسید احمد خان اور ان کے حواریوں کا گروہ ہے جو یکمشت اور یکسر مغربی طرزِ فکر کو اپنانا چاہتا ہے‘ دوسری طرف کچھ ایسے لوگ ہیں جو تحول اور تبدیلی کو یکسر قبول ہی نہیں کرنا چاہتے اور نتیجتاً فکری طور پر قطعاً یہ استعداد نہیں رکھتے کہ دورِ حاضر کے مسائل اور چیلنجوں کا سامنا کر سکیں اور ان کا جواب لاسکیں۔ البتہ صورتحال اتنی مایوس کن بھی نہیں ہے۔ چند ایک گوشوں میں اب بھی فکر کی شمع کو فروزاں رکھنے کی کوششیں جاری ہیں۔ جغرافیائی لحاظ سے ان کو تین خطوں میں بانٹا جاسکتا ہے۔ مغربی یورپ‘ کسی حد تک امریکا‘ ایران اور ملائیشیا۔ فکری طور پر ان میں ہمیں چار دھارے نظر آتے ہیں:
(۱) پہلے دھارے کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو جدیدیت زدہ اور جدیدیت کے حامی ہیں۔ ان میں ایک گروہ سائنس زدہ لوگوں کا ہے جو سائنس ہی کو حقیقی طریقۂ علم سمجھتے ہیں اور دین کی توجیہہ بھی سائنس ہی کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے مفکر شدید احساسِ کمتری اور شدید مرعوبیت کا شکار ہیں۔ اس گروہ میں پاکستانیوں کی ایک خاصی بڑی تعداد شامل ہے‘ جن میں سے ڈاکٹر فضل الرحمن (مرحوم)‘ ڈاکٹر اکبر ایس احمد اور ڈاکٹر پرویز ہود بھائی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ فرانس کے ڈاکٹر مارس بیوکیل (Maurice Bucaille) بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔
(۲) دوسرے دھارے کا تعلق اس طرزِ فکر سے ہے جو اپنے آپ کو روایتی کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ اس گروہ میں غالب اکثریت ان نومسلم مفکرین کی ہے جو تصوف پر عمل کرتے ہیں اور اس کا پرچار بھی۔ گو کہ یہ گروہ اپنے آپ کو اسلام سے وابستہ بتاتا ہے مگر ساتھ ہی یہ وحدتِ ادیان کا قائل بھی ہے اور مبلغ بھی۔ اسلامی فکر کی انواع میں سے یہ حضرت ابن عربیؒ کے نظریۂ وحدت الوجود سے بخوبی واقف ہیں۔ اس کے علاوہ یہ عیسائیت‘ یہودیت‘ ہندومت اور بدھ مت سے بھی بخوبی واقف اور ان کے افکار سے اچھی طرح آشنا ہیں۔ ان کی فکر کا ایک رخ تنقیدی ہے جس کا نشانہ مغربی جدیدیت ہے۔ یہ تمام حضرات اپنے اپنے معاشروں میں جدیدیت کی تباہ کاریاں دیکھ چکے ہیں اور وہ جدیدیت کی کھوکھلی فکری جڑوں سے واقف ہونے کی بدولت اس کی خامیوں کو نہایت احسن طریقہ سے منظرِ عام پر لاتے ہیں۔ اس سے ان کی فکر کا دوسرا رخ وابستہ ہے جس کا تعلق ایک بھرپور‘ بامعنی اور مابعد الطبیعیاتی جمالیات سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جدیدیت کے ہاتھوں زندگی اور کائنات کا جو شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے وہ حقیقی جمالیات ہے جس کا تعلق خدا پرستی سے ہے۔ البتہ ان کے ہاں سیاسی شعور کی بہت واضح کمی نظر آتی ہے۔ فکر کا یہ دھارا ہمیں دیگر ادیان کے ساتھ مکالمے اور مفاہمت کا ایک بہت عمدہ موقع فراہم کرتا ہے۔ اس گروہ میں بہت بڑے بڑـے مفکرین شامل ہیں مثلاً شیخ عیسی نورالدین (Frithj of Schuon)‘ شیخ عبدالوحید یحیٰی (Rene-Guenon)‘ شیخ ابو بکر سراج الدین (Martin Lings)‘ حسن عبدالحکیم (Gai Eaton)‘ ابراہیم عزالدین (Titus Burckhardt) اور سید حسین نصر۔
(۳) تیسرے دھارے کا تعلق ان علما و فقہا سے ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں روایتی اسلامی فلسفے اور شعائر کے دفاع‘ اس کے پرچار‘ تبلیغ اور اس کی عصری افادیت‘ مطابقت اور برتری ثابت کرنے کے لیے وقف کر دی ہیں۔ ان علما کا تعلق ایران و عراق کے مدرسوں سے ہے اور یہ لوگ آج بھی اسلامی تصورات اور اسلامی نظریۂ جہان بینی کے پرچار اور دفاع میں مصروف ہیں۔ ہم نے حصۂ اول میں عرض کیا تھا کہ مابعدالطبیعیات‘ اسلامی فلسفے کا خاصہ ہے۔ یہ جید علما و مفکرین اسی اسلامی مابعدالطبیعیات کے ہر سالم انسانی فکر کے لیے ناگزیر ہونے کو واضح کرتے رہے ہیں۔ اسی فکری بنیاد پر انہوں نے سماجی اور سیاسی فلسفلہ بھی پیش کیا ہے اور دورِ حاضر میں مسلم زاویہ سے فرد‘ خاندان‘ معاشرہ اور کائنات میں ربط کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں ان کی دو نمایاں فکری خدمات قابلِ ذکر ہیں۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں جب عراق میں بعث پارٹی برسرِ اقتدار آئی تو اس نے عربیت اور مارکسیت کا عام پرچار شروع کر دیا اور ساتھ ہی یہ بھی مشہور کرنا شروع کر دیا کہ اسلام کے پاس نہ تو اپنا کوئی فکری اور فلسفیانہ نظام ہے اور نہ ہی اقتصادی اور معاشی نظام۔ اس چیلنج کا واشگاف الفاظ میں جواب دینے کے لیے اس وقت کے ایک جید عالم‘ آیت اﷲ سید محمد باقر الصدر نے جن کو صدام کی حکومت نے اسلام کی خدمات انجام دینے کے صلے میں شہید کر دیا‘ قلم اٹھایا اور پہلے فلسفتنا (ہمارا فلسفہ) اور پھر اقتصادنا (ہماری معاشیات) لکھ کر اس پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دیا۔ بعثی عراق میں آخر تک ان دونوں کتابوں پر پابندی لگی رہی اور ان کا کسی کے پاس بھی پایا جانا قابلِ سزا جرم تھا۔ ان کتابوں میں شہید باقر الصدر نے سرمایہ داری اور مارکسیت دونوں کے نقائص کو بے نقاب کیا اور اسلام کا نقطۂ نظر واضح کیا۔ باقر الصدر نے اس کے علاوہ بھی کئی موضوعات پر قلم اٹھایا لیکن فلسفے کے حوالہ سے اسلامی نقطۂ نظر سے انہوں نے ایک نہایت دقت طلب موضوع کا انتخاب کیا۔ یہ موضوع تھا فلسفہ‘ سائنس اور تجربیت کا ایک دیرینہ حل طلب مسئلہ یعنی مسئلہ استقرا۔ اس کتاب کا ترجمہ اسلامی فلسفہ میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہو گا غیرعرب دنیا کے لیے۔
اُسی دہائی میں جب شہنشاہ ایران اس ملک پر حکمرانی کر رہے تھے اور اپنی سرمایہ داری اور اس کے ساتھ غیراسلامی شعائر کو دن رات عام کرنے کی کوشش کر رہے تھے کچھ طاقتیں مارکسیت کو سرمایہ داری کے نعم البدل کے طور پر پیش کر رہی تھیں۔ جیسا کہ اشتراکیوں کا طریقہ کار ہے وہ اپنے نظریہ کو ایک مکمل ضابطۂ حیات کے طور پر پیش کر رہے تھے۔ ایسے میں مقدس شہر قم کے ایک عارف اور فقیہہ جلیل اور نہایت بلند مرتبہ فلسفی علامہ سید محمد حسین طباطبائی نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی علمی محافل میں‘ جو ہر شب جمعہ کو ان کے دولت کدہ پر منعقد ہوتی تھیں‘ مارکسزم کی بنیادی اور اہم تحریروں کا باقاعدہ مطالعہ کریں گے اور ان کی فکری اور منطقی قدر و قیمت کا اندازہ لگائیں گے۔
اس مطالعہ کو علم دوست لوگوں اور عوام کے لیے ریکارڈ کر کے ضبطِ تحریر میں لایا گیا اور علامہ طباطبائی مرحوم کی عمیق اور دقیق تنقید اور اس پر اسلامی نقطۂ نظر کو ان کے ایک نہایت ہی قابل‘ لائق اور ہونہار شاگرد آیت اﷲ مرتضیٰ مطہری (شہید) نے اپنے حواشی سے مزین کیا۔ متن اور حواشی دونوں کو قبولیت عام حاصل ہوئی اور مارکسیت کو ایران میں علمی میدان میں منہ کی کھانی پڑی۔ مرتضیٰ مطہری نے کچھ اور کتابیں اور مضامین بھی نہایت مدلل انداز میں مارکسزم کی تردید میں شائع کیے۔ اس کی پاداش میں انہیں انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے بعد ایک مارکسی تنظیم کے دہشت گردوں نے یکم مئی ۱۹۷۹ء کو شہید کر دیا۔ وہ اس وقت مارکسزم کی تردید میں ایک اور علمی تحریر میں مصروف تھے جس کا عنوان تھا ’’معاشرہ اور تاریخ‘‘ جس کا ترجمہ خوش قسمتی سے اردو میں شائع ہو چکا ہے اور پاکستان میں دستیاب ہے۔ مرتضی مطہریؒ شہید اسلامی تحریک کی تبلیغ کے وہ سرگرم علمی رکن تھے جس نے فلسفے کے ذریعے اسلام کے افکار و نظریات کی تبلیغ کو اپنے ہم وطنوں اور ہم عصروں میں ممکن بنایا۔ وہ اس بات کے شدت سے قائل تھے کہ دلیل کی سطح پر اور نظر اور بصیرت کی سطح پر اسلام ہی ہر بات کا تسلی بخش اور مبنی برحق جواب پیش کرتا ہے۔ ان کی پچاس سے زیادہ کتابیں اور سیکڑوں مقالات اور تقاریر عصری موضوعات کو اسلام کی ابدی روشنی میں پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں یہ بات بھی بتائی کہ آج کی جنگ میں جس قدر تیز دھار والی دلیل کی تلوار اسلام کے پاس ہے کسی اور کے پاس نہیں۔
اسی گروہ میں چند اور ناقابلِ فراموش نام یہ ہیں۔ آیت اﷲ روح اﷲ خمینیؒ، سید محمود طالقانی‘ سید مجتبیٰ موسوی لاری‘ محمد تقی مصباح یزدی‘ احمد احمدی‘ سید محمد حسینی بہشتی اور سید جلال الدین آشتیانی۔
یہاں اس گروہ کی ایک کمزوری کا جو اس کی مجبوری بھی ہے‘ ذکر ضروری ہے۔ یہ کمزوری قطعاً فکری یا فلسفیانہ نہیں بلکہ اس کے برعکس اس خامی کی وجہ سے ان کی فکری اور اخلاقی برتری کچھ ماند پڑ جاتی ہے۔ وہ کمزوری یہ ہے کہ ان کا تمام فکری کام چاہے وہ تعمیری ہو یا تنقیدی اپنے ہی تہذیبی دائرہ میں ہوتا ہے اور اس کی پذیرائی بھی اسی حلقہ تک محدود ہے کیونکہ ہم غیرملکی زبان بلکہ زبانوں کی لاعلمی کی وجہ سے نہ تو دوسری تہذیبوں کی علمی کاوشوں سے براہِ راست آشنا ہو پاتے ہیں اور نہ ہی اپنی فکر کا ابلاغ اوروں تک کر پاتے ہیں۔ اس گروہ میں جو دو زبانیں لکھی‘ بولی اور سمجھی جاتی ہیں وہ ہمارے لیے بے شک بہت موقر ہیں یعنی عربی اور فارسی‘ لیکن اس سے ابلاغ کی راہ میں کچھ رکاوٹیں بھی پیدا ہو رہی ہیں‘ اس لیے کہ آج کے مفکر اور فلسفی پر بالخصوص اگر وہ مسلمان بھی ہو تو دُہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک طرف تو اس کو اپنی تہذیب اور روایت کے حوالے سے فکر کے سلسلے کو آگے بڑھانا ہے اور دوسری طرف اسے ان بیگانے اور اجنبی خیالات اور افکار سے باخبر رہنا ہے اور نبردآزما ہونا ہے جو آج کی اس چھوٹی سی دنیا میں نہ صرف فلسفہ کی کتابوں کے ذریعے بلکہ سیاست‘ تفریح‘ میل ملاپ اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہمارے معاشروں اور ہمارے ذہنوں میں اثر و نفوذ پیدا کر رہے ہیں۔ جب تک ہمارے یہ جید اور قابلِ قدر علما مغربی زبانوں اور تہذیب سے خاطر خواہ آشنائی نہیں پیدا کریں گے وہ اس قدر سرعت اور گہرائی سے افکار کی یلغار کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے اور ان کا جواب نہیں دے سکیں گے جیسا کہ حالات کا تقاضا اور ضرورت ہے۔
(۴) یہ تذکرہ ہمیں ’’چوتھے‘‘ دھارے کی طرف لے آتا ہے جن سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ اس کا تعلق ان مسلمان مفکرین اور روشن فکر لوگوں سے ہے جن کی غالب اکثریت نے یا تو معرب ہی میں تعلیم حاصل کی یا وہاں پڑھایا یا بوجوہ یہ دونوں کام کرتے ہوئے وہیں کے ہو کے رہ گئے۔ ان میں ایک بہت بڑی تعداد پاکستانیوں کی ہے۔ یہ تمام حضرات اپنے اپنے مضامین میں پی ایچ ڈی کی سند رکھنے کے علاوہ اسلامی اور مغربی فلسفہ سے بھی بخوبی آگاہ ہیں اور اپنی دینی اور تہذیبی زبانوں سے بخوبی واقف ہیں اور زبان و ادب سے شغف رکھتے ہیں۔ البتہ ان کے پاس کسی بھی مدرسہ سے کوئی باقاعدہ سند نہیں ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں وہ اپنی روایت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ یہ حضرات موجودہ دور کے نمایاں طریقۂ علمی جسے Interdisciplinary Study کہتے ہیں‘ کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ یعنی ایک سے زیادہ مضمون اور ان کے طریقۂ علمی سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ انواع و اقسام کے علوم کے درمیان رابطے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ یہ کوشش تو بہت سارے مغربی مفکرین بھی خالصتاً سیکولر انداز میں کر رہے ہیں مگر ہمارے مفکرین یہ کام اسلام کے نقطۂ نظر سے انجام دے رہے ہیں۔ یہ گمان کرنا غلط ہو گا کہ ان کے اس تفکر سے ہمارے فکری مسائل حل ہو جائیں گے کیونکہ ایک بات تو یہ ہے کہ مغرب کے مقابلے میں ہمارے ہاں معاشرتی فکر کے دائرہ میں بہت زیادہ جمود رہا ہے‘ دوسرا یہ کہ سماجی‘ معاشرتی اور انفرادی سطح پر ہمہ وقت آنے والی تبدیلیاں ہماری پیدا کردہ نہیں۔ اسی لیے ان کو سمجھ کر ان کا خاطر خواہ اسلامی جواب پیش کرنا‘ کارے دارد ہے۔ یہ ایک رات میں تو ہو نہیں سکتا اور نہ ہی اکیلا کوئی ایک گروہ کر سکتا ہے بلکہ اس کے لیے اسلامی فکر کے ہر مثبت دھارے کی یکساں مساعی کی ضرورت ہے جو کہ فی الوقت تقریباً ناپید ہے۔ بہرحال ایک نظر ان مفکرین پر ہو جائے۔ ذیل میں ان کی فہرست وطنیت کے لحاظ سے دی جارہی ہے۔
پاکستان
شیخ پرویز منظور: سویڈن میں مقیم۔ دو پی ایچ ڈی ڈگریاں رکھتے ہیں‘ ایک ارضیات میں اور ایک لسانیات میں۔ بہت گہری نظر اور عمیق فکر رکھنے والے۔ تقریباً ہر عصری موضوع پر بہت عمدہ اسلامی نقطۂ نظر پیش کیا ہے جس میں ماحولیات‘ ثقافت‘ فلسفہ‘ مذہب و دین‘ سائنس‘ ادب اور فن شامل ہیں۔
ضیاء الدین سردار: متعدد کتابوں کے مصنف اور مدیر۔ سائنس اور عمرانیات ان کے خاص موضوعات ہیں۔ اس کے علاوہ اسلام کو بطور نظام پیش کرنے کے تصور پر بھی ان کا کام ہے۔
گلزار حیدر: کینیڈا میں مقیم تعمیرات کے پروفیسر ہیں۔ اسی حوالے سے تعمیرات (Architecture) اور ماحولیات پر اسلامی نقطۂ نگاہ کو واضح اور پیش کرنے کے لیے ان کی نہایت فکر انگیز اور بصیرت افروز تحریریں ہیں۔ انہوں نے مسلم روایتی فنِ تعمیر کو جدید لہجے میں ایک نہایت فصیح زبان عطا کی اور اسلامی تصورِ کائنات میں فنِ تعمیر اور ماحولیات میں ہم آہنگی کو بیسویں صدی کے قارئین کے لیے نہایت صراحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ انہی تحریروں میں وہ قرآن و حدیث اور کلاسیکی ادب کے حوالے نہایت کثرت سے فراہم کرتے ہیں۔
منور احمد انیس: آج کل ملائیشیا میں مقیم ہیں۔ حیاتیات (Biology) ان کا تخصص ہے اور اسی حوالے سے بیسویں صدی میں آنے والی دور رس اور بنیادی تبدیلیوں اور تحولات مثلاً جنس کی تبدیلی‘ غیر جنسی افزائش (Cloning) وغیرہ پر اسلامی نقطۂ نظر کو واضح کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملائیشیا سے شائع ہونے والے ایک نہایت ہی معتبر جریدے “Periodica Islamica” کے مدیر بھی ہیں۔
ایران:
ہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ ایران اس وقت دنیاے اسلام میں اسلامی فلسفے کی روایت کو قائم رکھنے اور اس کو بڑھانے کے حوالے سے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک اور خوش آئند بات اسی حوالے سے یہاں ہوئی ہے وہ تہران میں امام صادق یونیورسٹی کا قیام ہے۔ اس یونیورستی کے اساتذہ میں قم کے جید علما اور ایران کی جامعات کے نامور اساتذہ ہوں گے جو روایتی اور جدید علوم میں ہم آہنگی اور ربط کے لیے کوششیں کریں گے۔ ان کے پیشِ نظر دورِ حاضر کی تبدیلیاں ہیں اور سوال یہ ہے کہ ان کو اسلامی فکر کے کن تصورات اور آئینِ اسلامی کے کن ضابطوں کے تحت لایا جاسکتا ہے تاکہ جدید علوم مکمل طور پر اسلامی خطوط پر استوار کیے جاسکیں۔ ان حضرات کا کام نہایت دشوار ہے مگر اسلامی دنیا کی نگاہیں ان پر لگی ہوئی ہیں اور ہم باری تعالیٰ سے ان کی ہر گونہ کامیابی کے لیے دعاگو ہیں۔
ویسے تو ایران میں اس حوالے سے بہت بڑے بڑے نام ہیں مگر ہم چند ایک ہی کا تذکرہ کرسکتے ہیں:
احمد سروش: تہران یونیورسٹی کے فلسفہ کے استاد ہیں اور اپنی روایت کے علاوہ مغرب کے فکری دھاروں سے بھی بخوبی آگاہ اور واقف ہیں۔ فلسفہ سائنس پر ان کی خاص نظر ہے۔
مہدی حائری یزدی: یہ بھی فلسفہ کے استاد ہیں اور انہوں نے مغرب کے تحلیلی فلسفے کے طریقِ کار کو استعمال کر کے اسلامی علمیات کے ایک مرکزی نقطے یعنی اتحاد عاقل و معقول کو واضح کیا ہے۔ ان کی یہ کتاب نیویارک یونیورسٹی سے شائع ہوئی ہے جس کا نام ہے: “Knowledge by Presence”۔
محمد لیگسن پائوزن: یہ ایک امریکی نژاد نومسلم ہیں جنہوں نے امریکا ہی سے فلسفۂ مذہب میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد قم کا رخ کیا جہاں وہ باقر العلوم فائونڈیشن کے تحت قم کے علما کو جدید مغربی فلسفہ اور اس کے رجحانات سے متعارف کروارہے ہیں۔
مہدی محقق: ان کا کام کلاسیکی فلسفہ کے ضمن میں ہے۔ انہوں نے جاپان کے مشہور اسکالر پروفیسر ایزوتسو کے ساتھ مل کر ملا ہادی سبزواری کی تصانیف کو فلسفے سے شغف رکھنے والے لوگوں میں مقبولیت اور تفہیم بخشی ہے۔
غلام علی حداد عادل: ان کا بیشتر کام سماجی اور سیاسی موضوعات پر ہے۔ ثقافت اور عریانیت کے حوالے سے ان کی تصنیف بے حد قابلِ قدر ہے اور حال ہی میں اس کے اردو ترجمہ کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔
ملائیشیا:
ملائیشیا میں اسلامی تحریک کافی حد تک موثر کام کر رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ وہاں کے مسلم مفکرین کی اپنی تہذیب اور روایت کی طرف توجہ ہے۔ اس سلسلے میں ایک بڑا کردار کوالالمپور میں قائم IIITC ہے۔ یہ مخفف ہے International Institute for Islamic Thought and Civilization کا۔ اس کے بانی سید محمد نقیب العطاس بجائے خود ایک پایہ کے فلسفی ہیں اور یہ اپنے ادارے میں اسلام اور عصری موضوعات کے حوالے سے تحقیق اور تفکر کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ آپ کی معاونت اور پشت پناہی کرے (آمین)۔ پروفیسر العطاس کی معترکۃ الآرا تصنیف ’’اسلام اور سیکولرزم‘‘ اب پاکستان میں بھی شائع ہو گئی ہے۔ جس میں آپ نے سیکولرزم کی تاریخی جڑوں کا جائزہ لیا ہے اور اسلامی فلسفے کے حوالے سے اس کا جواب دیا ہے۔
عثمان بکر: یہ صاحب بلامبالغہ اس وقت دنیاے اسلام میں سائنس‘ خاص طور پر اسلامی سائنس اور اس کے فلسفہ پر چند چوٹی کی علمی شخصیات میں شمار ہوتے ہیں اور اس حوالے سے ان سے بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں۔ ان کی ایک کتاب ’’توحید اور سائنس‘‘ حال ہی میں پاکستان میں شائع ہوئی ہے۔
امید ہے کہ گذشتہ سطور سے ہمارے قارئین کو اسلامی فلسفہ کی ہیئت‘ اس کی اہمیت اور اس حوالے سے اسلامی فکر کی موجودہ صورتحال کا کچھ اندازہ ہو گیا ہو گا۔ ہم دعاگو ہیں کہ صاحبانِ شوق و طلب و استعداد اس طرف توجہ فرمائیں۔
(بشکریہ: سہ ماہی مجلہ ’’پیغامِ آشنا‘‘۔ اسلام آباد)
Leave a Reply