
ایشیائی مارکیٹوں کی تیز رفتار ترقی‘ وقتی زوال اور اس کے بعد دوبارہ بلند شرح نمو سے عالمی معیشت میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ان میں ایک اہم ترین تبدیلی چین کی حیرت انگیز معاشی ترقی ہے۔ چین موجودہ صورت حال میں عالمی سرمایہ کاری کا مرکز بنتا جارہا ہے۔ دوسری جانب جاپان شاندار ترقی کے بعد زوال سے دوچار ہو چکا ہے اور بہ مشکل اقتصادی بحران سے نکل پایا ہے۔ جاپان نہیں چاہتا کہ ایشیا میں چین اسے اقتصادی شعبے میں پیچھے چھوڑے۔ اسی لیے وہ مختلف ایشیائی ملکوں کے ساتھ علاقائی اور دو طرفہ آزاد تجارت کے معاہدے کر رہا ہے لیکن یہ سب اس کے لیے اتنا آسان ثابت نہیں ہوگا۔ یہ سفر کافی دشوار گزار ہے۔
جاپان اس وقت تھائی لینڈ‘ ملائیشیا‘ فلپائن اور جنوبی کوریا کے ساتھ دو طرفہ آزاد تجارت کے معاہدے کے مذاکرات کر رہا ہے۔ جاپان نے دس رکنی تنظیم برائے جنوبی مشرقی ایشیا کے ساتھ آزاد تجارت کا معاہدہ کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اس پر مذاکرات ۲۰۰۵ء کے آغاز میں ہوں گے۔ جاپان نے اس سلسلے میں ایک جامع منصوبہ تیار کر لیا ہے اور وہ اس کے نفاذ میں ثابت قدم رہنے کا عندیہ ظاہر کر چکا ہے۔
جاپان نے ایک ایسا پروگرام وضع کیا ہے جس کے تحت وہ ۲۰۱۰ء میں آسٹریلیا‘ برازیل‘ بھارت اور چین سمیت دس ملکوں اور مختلف خطوں کے ساتھ اقتصادی شراکت کے سمجھوتوں پر دستخط کرے گا۔ جاپانی وزیراعظم نے حال ہی میں بزنس لابی فی پون کیڈن رن کے ہمراہ برازیل کا دورہ کیا۔ برازیل لاطینی امریکا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور اس میں صنعت کاری و سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ جاپانی وزیراعظم جونی چیدو کوئی زومی نے برازیل کے صدر لولا ڈی سلوا سے ملاقات میں دو طرفہ آزاد تجارت معاہدے کے عمل کو آگے بڑھانے پر بات چیت کی ہے اور دونوں ممالک کے مابین مفاہمت اور باہمی اشتراک سے کئی منصوبے زیرِ غور ہیں۔
اگر جاپانی حکومت نے آزاد تجارتی معاہدوں کا ایک بہت بڑا منصوبہ شروع کیا ہے لیکن وہ اپنے اہداف مقررہ وقت میں کس حد تک حاصل کر پائے گا۔ اس ضمن میں مبصرین کی جانب سے شکوک کا اظہار کیا جارہا ہے۔ چین پوری طرح جاپان سے تعاون کے لیے تیار ہے تاہم جاپان ابھی تک اس معاملے پر ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ جس کے نتیجے میں اس پر پیش رفت انتہائی سست رفتاری کا شکار ہے۔ جاپان دنیا کی دوسری بڑی اور دولت مند معیشت ہے۔ اب تک اس نے صرف سنگاپور کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدوں کو حتمی شکل دی ہے اور اس میں زرعی مصنوعات کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
جاپان نے اس نوعیت کا دوسرا معاہدہ میکسیکو کے ساتھ کیا ہے۔ اس آزاد تجارتی معاہدے کو طویل عرصہ تک جاری رہنے والی بحث و تمحیص کے بعد حتمی شکل دی گئی ہے۔ جاپانی وزیراعظم اپنے دورہ میکسیکو کے دوران اس پر دستخط کریں گے۔
جاپان نے آسیان کے رکن ممالک کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدوں کے لیے بات چیت پر حال میں ہونے والی وزرائے خزانہ کانفرنس میں آمادگی ظاہر کی ہے۔ آسیان ممالک میں جاپان کا کافی اثر و رسوخ ہے اور یہ ممالک جاپانی مصنوعات کی بہت بڑی منڈی سمجھے جاتے ہیں۔ جاپان باضابطہ طور پر ۲۰۰۵ء کے آغاز میں اس معاملے پر بات چیت شروع کرے گا۔ اس کی وجہ بھی ایسے معاہدے میں حائل پیچیدگیاں ہیں جنہیں جاپان مذاکرات سے قبل دور کرنے کا خواہش مند ہے۔ چین بھی اسی راستے پر گامزن نظر آتا ہے۔ چین کو آسیان ممالک میں وسیع مواقع کی موجودگی کا اندازہ ہے۔ وہ بھی انتہائی طرزِ عمل اختیار کر رہا ہے چین ایک ایسی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے جس کے تحت وہ ۲۰۱۰ء تک آسیان کے چھ رکن ملکوں کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کرے گا اور ۲۰۱۵ء تک باقی ممالک کے ساتھ معاہدوں کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔
آسیان بلاک انڈونیشیا‘ ملائیشیا‘ سنگاپور‘ تھائی لینڈ‘ فلپائن‘ برونائی‘ کمبوڈیا‘ لائوس‘ میانمار اور ویت نام پر مشتمل ہے۔ ان ملکوں کا سالانہ تجارتی حجم ۷۵۰ ارب ڈالر ہے جو جاپان کی نسبت کہیں کم ہے‘ جب کہ آبادی کئی گنا زیادہ ہے۔ جاپان بہ خوبی جانتا ہے کہ وہ یہاں پر بہت سے فوائد حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے اور ان ملکوں کی معیشتیں بھی اس سے مستفید ہوں گی لیکن آسیان کے تمام رکن ممالک ایسے معاہدے میں دلچسپی نہیں رکھتی‘ کئی ایک اس پر تحفظات رکھتے ہیں‘ جنہیں دور کیے بغیر ایف ٹی اے پر بات کا آگے بڑھنا ممکن نہیں ہو سکے گا۔ توقع ہے کہ جاپان ایسی ایپروچ اپنائے گا کہ دنیا کے خدشات دور کر سکے اور کامیابی سے آسیان بلاک کو اپنے ساتھ اقتصادی ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکے۔
انڈونیشیا آسیان کا سب سے بڑا رکن ملک ہے۔ جس کی آبادی ۲۲ کروڑ ہے۔ وسائل اور جی ڈی پی کے لحاظ سے بھی اسے دیگر ملکوں پر سبقت حاصل ہے۔ اس کی معیشت کا سائز بھی بڑا ہے۔ انڈونیشیا ابھی تک ۹۸۔۱۹۹۷ء کے آسیان مالیاتی بحران سے باہر نہیں نکل سکا ہے۔ انڈونیشیا نے جاپان سے آزاد تجارتی معاہدے کے لیے ابھی تک مایوس کن رویہ اپنایا ہوا ہے۔ جکارتہ کے بہت سے سیاست دانوں اور سرکاری اہل کاروں کا کہنا ہے کہ ایف ٹی اے سے انتہائی محدود فوائد حاصل ہوں گے۔ انڈونیشیا اس وجہ سے یہ تجارتی معاہدہ کرنے پر مجبور ہے۔ کیونکہ وہ محض رسمی طور پر اسے اپنانے کے لیے آمادہ ہے۔
آزاد تجارتی معاہدوں سے ترقی پذیر معیشتوں پر مثبت سے زیادہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ معاہدے ترقی یافتہ ممالک کے مفاد میں ہیں یا پھر ایسے ممالک جو ٹیکنالوجی میں آگے ہیں۔ مساویانہ تجارت کے اصول کو مدنظر رکھا جائے اور تجارتی خلیج کو پاٹ دیا جائے تو اس کی خامیوں پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔
جاپان کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے سے ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی خام قومی پیداوار میں اضافہ ہو گا۔ اس کی وجہ ان ملکوں کی معیشتوں کا انڈونیشیا اور فلپائن کی نسبت مضبوط ہونا ہے۔ یہ معیشتیں زیادہ مقابلے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی موثر کمپنی ٹو یو ٹا کارپوریشن کو اس سے زیادہ فائدہ ہو گا اور اس کی پیداوار میں اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن چمڑے اور زرعی شعبے میں جاپان کو ان ملکوں سے خریداری کرنی پڑے گی۔
جاپان کو آسیان سے آزاد تجارتی معاہدے کی اہمیت کا بخوبی احساس ہے اس لیے وہ اپنے منصوبے پر عملدرآمد جاری رکھنے میں پرعزم نظر آتا ہے۔ اگرچہ جاپان اپنے پڑوسی ملک چین اور جنوبی کوریا کی طرح تیز رفتاری سے اقدام کا قائل نہیں لیکن موثر منصوبہ بندی سے اس سمت میں آگے بڑھنے کا خواہش مند ہے۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘۔ دہلی)
Leave a Reply