امریکا پاکستان میں جمہوری نظام کا حامی ہے‘ نینسی پاول

حال ہی میں سبکدوش ہونے والی امریکی سفیر نینسی پاول نے کہا ہے کہ صدارتی انتخابات میں موجودہ صدر بش جیتیں یا ڈیمو کریٹ امیدوار سینیٹر جان کیری‘ پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔ امریکا کی دونوں جماعتیں ری پبلیکن اور ڈیمو کریٹ پاکستان کی امداد اور تعلقات جاری رکھنے پر متفق ہیں۔ نینسی پاول نے ان خیالات کا اظہار اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر پاکستان کے سینئر صحافیوں سے ایک ملاقات میں کیا۔

امریکی سفیر نے کہا کہ پاکستان کو نان نیٹو اتحادی کا درجہ دینا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ امریکی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکا کے ساتھ مل کر حصہ لیا ہے اس لیے پاکستان کی دفاعی ضروریات پوری ہونی چاہیے۔ صدر بش کی جانب سے پاکستان کی امداد کا ۵ سالہ پروگرام شروع کرنے کا اقدام امریکا کی عمومی پالیسی سے مختلف تھا کیونکہ دنیا کے بعض دوسرے ملکوں کے لیے ایسے پروگرام ایک ایک سال کی مدت کے ہوتے ہیں اور امریکی کانگریس ایسے پروگراموں کی منظوری دیتی ہے۔

نینسی پاول نے کہا کہ ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے کہ اس تاثر کو دور کیا جائے کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات مختصر مدت کے لیے ہیں اور یہ کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مقاصد حاصل ہوتے ہی دونوں ممالک کے درمیان سردمہری شروع ہو جائے گی۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان تعاون کسی ایک شعبہ تک محدود نہیں ہے بلکہ کئی شعبوں مثلاً زراعت‘ سائنس‘ ٹیکنالوجی اور ثقافت میں بھی متعدد منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔

امریکی سفیر نے ایک سوال پر کہا کہ امریکا پاکستان کے جمہوری نظام کی طرف پیش رفت کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت بحال کرنے کے لیے جمہوری اداروں کو مستحکم کرنے اور قانون سازی کے عمل کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے حکومتِ امریکا یو ایس ایڈ کے تحت پاکستان کے ارکانِ پارلیمنٹ کی تربیت کے پروگرام پر کام کر رہی ہے۔

نینسی پاول نے کہا کہ جون ۲۰۰۲ء میں جب انہوں نے پاکستان میں سفارتی ذمہ داریاں سنبھالیں تو پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدوں پر زبردست کشیدگی تھی۔ امریکا نے اس تنائو کو ختم کرانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اب دونوں ممالک کے درمیان مسائل کے حل کے لیے جو پیش رفت ہو رہی ہے‘ وہ خوش آئند ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا اور پاکستان کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف کوششیں جاری رکھنی چاہییں۔ پاکستان کی حد تک تو ان کوششوں کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ پاکستان اپنی افرادی قوت کو کس طرح بروئے کار لاتا ہے اور تعلیمی نظام میں بہتری کس طرح لاسکتا ہے۔ میرے خیال میں پاکستان کو ان امور پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

امریکی سفیر نے کہا کہ ۲۰۰۵ء میں پاکستان کے شعبہ ٹیکسٹائل کے لیے بہتر موقع ہو گا کہ وہ امریکی منڈی میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کر سکے۔ پاکستان آنے والے بہت سے سرمایہ کار دو باتوں کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستان کے نظامِ انصاف میں بہتری آئے اور غیرملکی سرمایہ کاروں کی ایجادات اور اختراعات کو مکمل تحفظ ملے۔ دوسرے یہ کہ پاکستان میں کاپی رائٹ ایکٹ کی مکمل پاسداری کی جائے اور سافٹ ویئر اور فلموں کے غیرقانونی کاروبار میں کمی آئے۔

ایک سوال کے جواب میں امریکی سفیر نے کہا کہ پاکستان میں تعلیمی نصاب میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں‘ یا کی جارہی ہیں‘ ان کا امریکا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ امریکا تعلیم کے جن شعبوں میں پاکستان کی مدد کر رہا ہے‘ ان میں اسکولوں کی حالت بہتر بنانے کا کام اور اساتذہ کی تربیت شامل ہے۔

امریکی سفیر نے کہا کہ افغانستان میں پُرامن صدارتی انتخابات کرانے کے سلسلے میں پاک افغان سرحد پر امن و امان قائم رکھنے کے لیے پاکستان مبارکباد کا مستحق ہے۔ حکومتِ پاکستان کے تعاون کے بغیر افغان انتخابات پُرامن طور پر نہیں ہو سکتے تھے۔

نینسی پاول نے کہا کہ صدر مشرف نے مسئلہ کشمیر پر عوامی بحث کی جو دعوت دی ہے وہ خوش آئند ہے۔ متنازعہ امور کے حل کے لیے عوامی مباحثے ہوتے رہنے چاہییں۔ انہوں نے کہا کہ میں دعا کرتی ہوں کہ پاکستان کے عوام خوش رہیں‘ انہیں اچھا نظامِ تعلیم میسر آئے اور وہ ایک پُرامن خطہ میں زندگیاں بسر کریں۔

(بحوالہ: ’’خبر و نظر‘‘۔ امریکی شعبہ تعلقاتِ عامہ۔ اسلام آباد)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*