امریکی تھنک ٹینک کو مسلم آبادی سے دلچسپی کیوں؟

امریکی تھنک ٹینک پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ نے ایک بار پھر مسلم آبادی میں اضافے کا ہوّا کھڑا کرکے دنیا کے کان کھڑے کردیے حالانکہ اس کی رپورٹ پرانی ہے اور وہ ۲۰۱۱ء کا جائزہ ہے لیکن اس میں کچھ نئی چیزوں کو شامل کرکے پھر پرانی خبر بحث کے لیے پیش کردی گئی ہے۔ نئی رپورٹ میں جو تین نئی باتیں شامل کی گئی ہیں وہ بھی منفی ہیں۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کی آبادی کیوں بڑھ رہی ہے، دوسرے نام نہاد داعش کے بارے میں ان کی رائے کیا ہے اور تیسری بات یہ کہ مغربی عوام اور مسلمان ایک دوسرے کے بارے میں کیسی رائے رکھتے ہیں۔ ان تینوں کو پیش کرنے کے لیے آبادی سے متعلق رپورٹ کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں تھی، الگ سے بھی جائزے کے طور پر وہ پیش کی جاسکتی تھی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

پیو ریسرچ سینٹر نے جو نئی رپورٹ جاری کی اس میں بھی مسلم آبادی میں اضافے کو اہمیت دی اور نئی چیزوں کو ضمناً ہی یا ضمنی سرخی کے تحت پیش کیا۔ اس طرح یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ نئی چیزوں کو بہانہ بنا کر مسلم آبادی میں اضافے کا ہوّا کھڑا کیا گیا۔ اس سے اس کی بدنیتی اجاگر ہوتی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مذکورہ رپورٹ ایسے وقت جاری کی گئی ہے، جب امریکا میں نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسلمانوں اور مسلم ممالک کے خلاف نئے نئے قوانین بنا رہے ہیں اور ان پر بندشیں عائد کررہے ہیں، جس سے امریکا اور یورپ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و تعصب کی فضا بن رہی ہے اور ان پر نسلی حملے کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کی غلط فہمی اور بڑھ سکتی ہے اور عالمِ اسلام و مسلمانوں کے سامنے مزید پریشانی کھڑی ہوسکتی ہے۔ رپورٹ کا انداز ہی کچھ ایسا ہے کہ مسلمان خوش فہمی میں مبتلا ہوں گے اور دوسرے غلط فہمی اور بدگمانی کا شکار ہوں گے اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔ رپورٹ سے سازش کی بُو آتی ہے اور اسے کوئی بھی محسوس کرسکتا ہے اور سمجھ سکتا ہے۔

کسی بھی جائزے یا تحقیق میں یہ بات نہیں کہی جاتی ہے کہ اسلام دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ہاں یہ شور ملکی یا بین الاقوامی سطح پر برابر سنائی دیتا ہے کہ مسلم آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اسے بددیانتی کہیں یا مذہبی و نسلی تعصب کہ مسلمانوں یا اسلام کے بارے میں ہمیشہ ایسی باتیں کہی جاتی ہیں جن سے بدگمانی پھیلے۔ جن لوگوں یا تنظیموں نے انتہا پسندی کے نام پر مسلمانوں کے خلاف مہم چھیڑی اگر ان سے منسوب کارروائیوں کو دیکھا جائے تو وہ عراق، افغانستان، لیبیا اور شام کی تباہی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں، لیکن ان ملکوں میں تباہی پھیلانے والوں کو امن کا علمبردار کہا جاتا ہے اور وہ خود بھی یہی سمجھتے ہیں اور بدنام مسلمانوں کو کیا جاتا ہے۔

پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ میں مسلمانوں کے بارے میں اس طرح کی باتیں کرنا کیا پیغام دیتا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی دیگر مذاہب کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے، اگر آبادی میں اضافے کی یہی شرح رہی تو ابھی دنیا میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ۲۳ فیصد ہے جو اس صدی کے نصف تک ۳۰ فیصد ہو جائے گا۔ یعنی ہر تیسرا آدمی مسلمان نظر آئے گا اور صدی ختم ہونے تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہوگا۔ دنیا کے ہر خطے اور ہر ملک میں مسلم آبادی بہت زیادہ ہوگی۔ یہ صرف ایک اندازا ہے اور اسی کی بنیاد پر اتنی بڑی بات آسانی سے کہی جارہی ہے، جبکہ کل کیا ہوگا کوئی نہیں جانتا۔ لیکن اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں عقل کے گھوڑے خوب دوڑائے جارہے ہیں۔ دنیا کو ڈرایا جارہا ہے، چوکنّا کیا جارہا ہے اور اس سازش کو نہ سمجھنے والے مسلمان اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ان کی آبادی بڑھ رہی ہے، ہر میدان میں وہ پسماندہ ہورہے ہیں۔ کیوں ہو رہے ہیں اور ان کو ظلم و زیادتی کا نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے، نہ تو اس موضوع پر اس طرح کے تھنک ٹینک سوچتے ہیں اور نہ مسلمانوں کو سوچنے دیتے ہیں۔ جبکہ یہ موضوع زیادہ اہمیت کا حامل ہے، بس مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلا کر ان کے خلاف ماحول بنایا جاتا ہے۔

ایک تو مسلمانانِ عالم اس طرح کے اعداد و شمار جمع نہیں کرتے ہیں اور دوسروں کے اعدادوشمار پر خوش ہو جاتے ہیں، ان اعداد و شمار کے ردعمل پر بھی غور نہیں کرتے، جو رپورٹ آنے کے فوراً بعد ظاہر کیے جاتے ہیں۔ مسلمان یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ دوسروں کو مسلم آبادی سے کیا مطلب ہے وہ بھی امریکی تھنک ٹینک کو مسلم آبادی میں اتنی دلچسپی کیوں؟ دوسری بات یہ ہے کہ ایک ہی رپورٹ جو ۲۰۱۱ء کے جائزے پر مشتمل ہے، بار بار نئے نئے اضافے کے ساتھ کیوں پیش کی جارہی ہے۔ اس کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا کہ مسلم آبادی کو ہمیشہ موضوع بحث بنائے رکھنا ہے تاکہ ان کے خلاف نفرت و تعصب کبھی ختم نہ ہو۔ مسلمان مغربی ممالک کے لوگوں کے بارے میں اور مغربی ممالک کے لوگ مسلمانوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اس کو سامنے لاکر پیو ریسرچ سینٹر کیا ثابت کرنا چاہتا ہے؟ کیا اس سے غلط فہمیاں اور بدگمانیاں دور ہوں گی یا اور بڑھیں گی؟ جو لوگ یہ سوچتے ہیں پیو ریسرچ سینٹر مسلمانوں کا ہمدرد ہے، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کوئی ہمدرد نہیں ہے بلکہ اس کی رپورٹوں سے ہمیشہ مسلمانوں کو نقصان ہی پہنچا ہے اور آگے بھی یہی ہوگا۔ رپورٹ کو پیش کرنے کا انداز ہی بتاتا ہے کہ کم ازکم مسلمانوں کے تعلق سے یہ مثبت نہیں منفی رپورٹ ہے، جس کی حقیقت ردعمل کی صورت میں کم ازکم ہمارے ملک میں جلد ہی ظاہر ہوجائے گی، جب فرقہ پرست قوتیں رپورٹ کو اُچک لیں گی اور بیان بازی و اشتعال انگیزی کرنے لگیں گی۔ ماضی میں بھی انہوں نے یہی کیا اور آگے بھی کریں گی۔ انہیں ایسی رپورٹوں کا انتظار رہتا ہے ایک بار پھر انہیں مسلمانوں کے خلاف اپنی سیاسی دکان چمکانے کا موقع مل گیا ہے۔

(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۱۰ مارچ ۲۰۱۷ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*