
پروپیگنڈا- ایک مؤثر ہتھیار
’فرانسوبرون‘ کا کہنا ہے کہ: ’’پروپیگنڈا، ذہین لوگوں پر احمقانہ تاثرات ڈالنے کا نام ہے‘‘۔
بہ الفاظ دیگر پروپیگنڈا محض جھوٹ اور فریب ہے، جسے امریکیوں نے اگرچہ ایجاد نہیں کیا، لیکن ایک مؤثر ہتھیار کی شکل ضرور دی ہے۔ اس کا استعمال دوسری جنگ عظیم کے بعد ہوا، بلکہ دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر جب برطانوی فوج نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا تھا تو امریکی ذرائع ابلاغ نے فتح کا سہرا برطانوی فوج کے سر باندھنے کے بجائے امریکی افواج کے سر باندھا۔ امریکیوں نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ ’’انہی کی بدولت یورپ، نازیوں سے محفوظ رہ سکا ہے‘‘۔ یہ پروپیگنڈا اتنا مؤثر ثابت ہوا کہ یورپی عوام کو یہ یقین ہوگیا کہ امریکا ان کے لیے کسی مسیحا سے کم نہیں ہے۔ اس وقت سے لے کر آج تک ذرائع ابلاغ اس مؤثر ہتھیار کو کسی نہ کسی شکل میں مستقل استعمال کرتا چلا آرہا ہے۔
ان سطور کا مقصد صرف یہ بتلانا ہے کہ آج امریکی میڈیا، اس پوزیشن میں ہے کہ وہ پوری دنیا کو جس نہج پر اور جس سمت میں لے جانا چاہے، لے جاسکتا ہے۔ لوگ غیر ارادی اور غیر شعوری طور پر میڈیا کے ذریعے پھیلائی جارہی باتوں کو بسر و چشم قبول کرلیتے ہیں، مشہور امریکی نیوز چینل CNN کے ایڈیٹر کا کہنا ہے:
’’جب ناظرین ٹی وی اسکرین کے ایک کونے میں LIVE (براہ راست) لکھا ہوا دیکھتے ہیں تو وہ تھوڑی دیر کے لیے چینل بدلنا روک دیتے اور غور سے ہمارے چینل پر پیش کی جانے والی رپورٹ دیکھنے لگتے ہیں، قبل اس کے کہ ان میں سستی در آئے ہم دوسری براہِ راست رپورٹ پیش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ٹی وی چینلوں کے اس عمل سے ٹی وی دیکھنے والا شخص ان کے سحر میں گرفتار ہوجاتا ہے اور ان کی جانب سے پیش کردہ بات کوتدریجاً قبول کرنے لگتا ہے‘‘۔
امریکی فلمیں: امریکی ثقافت کا نقیب ’ہالی وڈ‘
سنیما کا آغاز اگرچہ یورپ میں ہوا اور امریکا نے اپنے آپ کو اس کا مٔوجد ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن جب سنیما نے ترقی کی اور حرکت کرتی ہوئی تصویروں سے آواز بھی آنے لگی تو امریکیوں نے بڑے بڑے یورپی فن کاروں کو اپنے یہاں مدعو کیا اور ان کے ذریعے فلمیں بنائیں، پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے درمیان بنائی جانے والی جن فلموں نے شہرت پائی، ان میں ۸۰ فیصد امریکی فلم نگری ’ہالی وڈ‘ کی بنائی ہوئی تھیں، جن میں یورپی فنکاروں نے کام کیا تھا۔
ان فلموں کی شہرت اور ان کے اثرات سے امریکیوں کو اندازہ ہوگیا کہ عقلوں کو سحر زدہ کرنے اور امریکی طرزِ زندگی کو مثبت انداز میں پیش کرنے کے لیے ’’فلم‘‘ ایک مؤثر ہتھیار ہے، چنانچہ انہوں نے اپنی ثقافت اور تمدن کو فروغ دینے او ر اپنی اقدار و روایات کو رواج دینے کے لیے ’فلموں‘ کا سہارا لیا اور جس طرح صنعت و تجارت کے میدان میں اپنی بالادستی اور اجارہ داری قائم کی، اسی طرح فلموں کے میدان میں بھی غلبہ حاصل کیا، مختلف معاہدوں اور حیلوں کی آڑ لے کر امریکی فلموں کو عالمی سطح پر پھیلایا گیا۔ چنانچہ ۱۹۴۷ء میں اس وقت کے فرانسیسی صدر لیون بلوم سے خصوصی مالی امداد کے بدلے امریکی سنیما کو مراعات دینے کا مطالبہ کیا گیا، فرانسیسی صدر نے اس مطالبے کو تسلیم کرلیا، جس کی بنا پر فرانس میں امریکی فلموں کا سیلاب آگیا، فرانس خود بھی ’فلم سازی‘ کے میدان میں قدم رکھ چکا تھا اور اس کی فلمی صنعت اٹلی اور جرمنی سے زیادہ بہتر تھی۔ لیکن اس کے باوجود فرانسیسی ٹی وی پر ۷۰ سے ۸۰ فیصد امریکی فلمیں دکھلائی جانے لگیں، سنیما گھروں میں امریکی فلموں کا قبضہ ہوگیا، حتیٰ کہ یورپ میں فلمی صنعت سے تعلق رکھنے والی پانچ سب سے بڑی کمپنیاں بھی امریکیوں ہی کے زیر اثر آگئیں۔ اس فلمی سیلاب کا اثر یہ ہوا کہ فرانسیسی تہذیب نے امریکی تمدن کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے، فرانسیسی قوم کے باشعور قائدین کی بدولت وہاں کی زبان تو محفوظ رہ گئی، لیکن فرانس اپنی زبان کے علاوہ کچھ نہ بچا سکا۔
’ہالی وڈ‘ نے تو امریکی ثقافت کی نشرواشاعت دنیا کے گوشے گوشے میں کی، لیکن امریکا نے غیر ملکی فلموں کے لیے ایسی پالیسی وضع کردی کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے ملک کی ثقافت امریکا میں رائج نہ کرسکیں۔ چنانچہ ۱۹۹۲ء میں امریکی ٹی وی چینلوں پر ۴۹۲؍ امریکی فلمیں دکھلائی گئیں جبکہ کل ۲۷ غیر ملکی فلمیں ہی امریکی سنیما گھروں میں دکھلائی جاسکیں، اعداد و شمار کے مطابق ۱۹۸۳ء میں پوری دنیا کے سنیما گھروں میں صرف امریکی فلمیں دیکھنے کے لیے ۳۵ فیصد ٹکٹ فروخت ہوئے، یہ تناسب ۱۹۹۳ء میں ۵۷ فیصد تک پہنچ گیا، جبکہ اسی سال صرف یورپ میں امریکی فلموں کے لیے ٹکٹ فروخت ہونے کا تناسب ۷۱ فیصد رہا، جو ۱۹۹۶ء میں ۸۰ فیصد ہوگیا، اس کے مقابلے میں امریکا میں یورپی فلموں کا تناسب ایک سے تین فیصد تک ہی رہا، ان اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا اپنی ثقافت کو پوری دنیا میں رواج دینے اور دیگر ملکوں کی تہذیب سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے سلسلے میں کتنا حساس ہے، ان منصوبوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے کہ امریکی ثقافت جو عالمگیر ہونے کے لیے سالہا سال پہلے منتخب ہوچکی ہے، نہایت برق رفتاری سے مشرق و مغرب کی مسافتیں طے کررہی ہے اور جغرافیائی و قومی حدود سے بے پروا ہوکر ہر ملک کے ہر طبقے کو اپنی سحر طرازیوں کا اسیر بنا رہی ہے۔
امریکی فلمی صنعت کے اس سیلاب کا اثر ہر ملک میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جرمنی ان یورپی ممالک میں شمار کیا جاتا ہے جو اپنی زبان کے سلسلے میں بہت حساس ہیں، لیکن اس کے باوجود جرمنی کی فلمی صنعت پر ۸۵ فیصد امریکی سینما کا غلبہ ہے۔ ’برلن‘ کے بڑے بڑے ’اسٹوڈیوز‘ میں امریکی فلمیں بنائی جارہی ہیں اور عالمی سطح پر ان فلموں کی تشہیر کے ذریعے امریکی ثقافت کو فروغ دیا جارہا ہے۔ حال ہی میں امریکی فلمیں تقسیم کرنے والے ایک ادارے AMC نے اس ارادے کا اظہار کیا کہ وہ ہر ملک میں ایسے کمپلیکس تعمیر کرے گا، جن میں سے ہر ایک میں کم از کم ۲۰ سنیما گھر ہوں گے۔ اس ادارے کے نمائندوں نے فرانس کی ’اونیفرنس‘ کمپنی کے ساتھ پیرس میں ایک معاہدے پر دستخط بھی کیے ہیں۔ نمائندوں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے فرانسیسی فلموں کی حوصلہ افزائی ہوگی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے فرانسیسی بازاروں میں امریکی فلموں کو مزید آزادی حاصل ہوگی اور اپنی ثقافت کو فروغ دینے کا موقع ہاتھ آئے گا۔
یورپ کے ایک دوسرے ملک سوئٹزرلینڈ میں بھی کچھ یہی صورتِ حال ہے، جہاں سنیما گھروں میں روزانہ ۱۰؍فلمیں دکھلائی جاتی ہیں، جن میں ۹؍ امریکی فلمیں ہوتی ہیں، جبکہ دسویں فلم بھی ضروری نہیں کہ یورپ یا خود سوئٹزر لینڈ کی بنی ہوئی ہو۔ پولینڈ میں صرف ایک فی صد سنیما گھروں میں مقامی فلمیں دکھلائی جاتی ہیں، جب کہ باقی سنیما گھر امریکی فلموں کے لیے مخصوص ہیں، ہنگری میں ۳؍ فیصد سنیما گھر مقامی فلموں کے لیے اور ۹۷ فیصد سنیما گھر امریکی فلموں کے لیے خاص ہیں۔
امریکی ثقافت کو فروغ دینے کا کام کتنے منظّم انداز سے چل رہا ہے، اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا کی ۶ بڑی کمپنیاں جو عالمی بازار پر حاوی ہیں، جب کسی ملک کے ساتھ کوئی بڑا سودا کرتی ہیں تو ساتھ ہی ان کی یہ شرط بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے یہاں ان امریکی فلموں کو آزادی کے ساتھ دکھائے جانے کی اجازت دیں جوکسی وجہ سے امریکا اور یورپ میں نہیں چل سکیں اور پٹ گئیں۔
امریکی فلموں کی عالمی سطح پر تشہیر کی وجہ سے آج کوئی ملک باقی نہیں بچا، جہاں امریکی ثقافت اور تمدن نے اپنے پنجے نہ گاڑدیے ہوں، نوجوان نسل سب سے زیادہ اس سیلاب سے متاثر ہوئی۔ ہر ملک میں نوجوانوں کی اکثریت نے اپنی ملکی اور قومی تہذیب سے رُخ موڑ لیا اور امریکی تہذیب کی دل دادہ بن گئی۔ یہی عالمگیریت کا مقصد بھی ہے کہ قومی تہذیبوں اور ثقافتوں کا خاتمہ کردیا جائے او رامریکی تہذیب کوپوری دنیا میں رائج کردیا جائے۔
عالمی لباس
ہر قوم کا مخصوص لباس اس کی تہذیب و ثقافت کا آئینہ دار ہوتا ہے، لباس ہی سے قوموں کی تاریخ اجاگر ہوتی ہے اور ان کے رہن سہن کا پتا چلتا ہے، یہ تمدن کی روح اور تہذیب کی بنیاد ہے۔ زبان و ادب کو تمدن میں جو مقام حاصل ہے، وہی مقام لباس کو بھی حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ زبانوں میں جس قدر تنوع پایا جاتا ہے، کم وبیش اتنا ہی تنوع لباس میں بھی پایا جاتا ہے۔ ثقافتی انسائیکلو پیڈیا کے اوراق و صفحات، مختلف قوموں کے لباس اور پوشاک پر روشنی ڈالتے ہیں اور ہر قوم کے مخصوص لباس کی نشاندہی کرتے ہیں، کیونکہ لباس ہی دراصل کسی بھی قوم کی سب سے بڑی پہچان ہے۔
گلوبلائزیشن کے سیل رواں نے جہاں سیاسی جغرافیے میں تبدیلی کی، اقتصادی صور تحال کو بدلا، پوری دنیا میں امریکی ثقافت کو پھیلایا، وہیں امریکی لباس کو بھی عام کیا اور قومی لباس کا خاتمہ کردیا، ’ہالی وڈ‘ کی فلموں کا اثر یہ ہوا کہ امریکی لباس پہننا ترقی کا شعار بن گیا اوربلند معیارِ زندگی کی علامت قرار پایا، جبکہ قومی لباس پہننا دقیانوسی اور پستی کی دلیل سمجھا گیا۔
یورپ بھی قدیم زمانے میں مال دار ثقافت کا مالک رہا ہے اسی وجہ سے یورپی اقوام کے بھی مخصوص لباس ہوا کرتے تھے، لیکن انیسویں صدی کے آغاز میں جب امریکی تجارتی کمپنیوں نے یورپ میں قدم رکھا تو تدریجی طور پر قومی لباس کی مقبولیت میں کمی واقع ہوتی گئی، پہلی جنگِ عظیم کے بعد مقبولیت کے تناسب میں مزید کمی آئی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب آزادانہ عالمی تجارت کا باضابطہ آغاز ہوا اور صنعتی میدانوں میں امریکی اجارہ داری قائم ہوئی تو یورپی اقوام کے قومی ورثے کا بالکل خاتمہ ہوگیا، امریکی لباس، جینز اور ٹی شرٹ وغیرہ ہی کو لوگوں نے اپنا لیا اور یوں امریکی لباس مغربی لباس کہلانے لگا۔
دنیا کے بیشتر ممالک میں بچوں سے لے کر بوڑھوں تک یہی لباس عام ہوگیا، حتیٰ کہ اسکول میں لڑکے لڑکیاں اسی لباس میں نظر آتے ہیں، جسے اقوامِ عالم اور نئی نسل پر ٹی وی اور فلموں کے ذریعہ مسلط کردیا گیا۔ نوجوان نسل کی یہ خواہش رہتی ہے کہ کسی طرح کیلی فورنیا کی شرٹ اور امریکی صوبے ٹکساس کے ہیٹ اسے حاصل ہوجائیں اور وہ بھی ٹکساس کے چرواہوں کی طرح نظر آئے، اس کے جسم پر بھی بیس بال اور باسکٹ بال کے کھلاڑیوں کی طرح کا لباس ہو، اس کے پاس بھی ایسی ٹی شرٹ ہو جس پر کسی امریکی یونیورسٹی کا یا فلوریڈا صوبے میں واقع برموڈا کی تصویر بنی ہوئی ہو اور اس کے پیروں میں فلمی فنکاروں کی طرح بھاری بھرکم کالے جوتے ہوں۔ جس سے وہ بظاہر امریکی نظر آئے اور اس کو لوگ ترقی پسند اور روشن خیال سمجھیں۔ یہ صورتِ حال موجودہ دور میں تقریباً ساری دنیا میں دیکھنے کو مل رہی ہے، لڑکیوں نے اپنے قومی لباس کو ترک کرکے امریکی فحش لباس اپنا لیا ہے اور قومی لباس جس کو ثقافت کی پہچان کہا جاتا ہے، تقریباً ختم ہورہے ہیں۔ ٹی وی چینلوں اور امریکی فلموں نے ہی اس نئے عالمی لباس کو پھیلانے میں سب سے بڑا کردار ادا کیا ہے۔
ماکولات و مشروبات میں اندھی تقلید
امریکا نے محض اپنے لباس کو ہی سارے عالم میں نہیں پھیلایا بلکہ اس کے ساتھ امریکی ماکولات و مشروبات کو بھی پوری دنیا میں رواج دیا، دنیا کی قدیم قومیں جہاں لباس اور زبان وغیرہ کے سلسلے میں مالدار سمجھی جاتی ہیں، وہیں ماکولات و مشروبات کے سلسلے میں بھی ان کا امتیاز ہے۔ اٹلی جہاں کھانے پینے کی ہزار ہا اقسام پائی جاتی تھیں، فرانسیسی دیہاتوں میں روایتی کھانوں کی بے شمار انواع و اقسام تھیں، اسپینی طرح طرح کے کھانے نہایت مہارت کے ساتھ بنایا کرتے تھے، یونان، برازیل، چین، ہندوستان اور عالم اسلام میں بھی انواع واقسام کے کھانوں کی کمی نہیں رہی، لیکن ثقافتی سیلاب کے نتیجے میں چند بے ذائقہ کھانے ہی فیشن اور ترقی کی علامت بن گئے، جن کو فاسٹ فوڈکے نام سے جانا جاتا ہے۔ ’ہاٹ ڈوگ‘، ’ہیمبرگر‘ اور ’پیزا‘ کھانا لوگوں کی پہلی پسند بن گیا ہے۔ امریکی کلچر کی نمائندگی کرنے والے ’میکڈونلڈ‘، ’برگر کنگ‘ اور ’پیزاہٹ‘ نامی ریسٹورنٹ ہر ملک اور ہر شہر میں کھل چکے ہیں، جہاں لمبی لمبی قطاروں میں لوگ دوڑے ہوئے آرہے ہیں۔
ماکولات و مشروبات کی ثقافت کو سارے عالم میں رواج دینے کے سلسلے میں امریکا کی سنجیدگی کس قدر ہے، اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ’اوک بروکس‘ نامی شہر میں ایک ’ہیمبرگر‘ نامی یونیورسٹی قائم ہے، اس یونیورسٹی میں درسگاہوں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے لیکچر ہال بھی ہیں، جبکہ ۲۶ زبانوں میں ترجمہ کرنے والے مترجمین اور ۲۵ پروفیسر اس جامعہ میں تعلیم و تربیت پر مامور ہیں، یہاں سے اب تک ۶۵ ہزا ر افراد کو ’ہیمبرگر‘ سازی میں ’بی اے‘ کی ڈگری تفویض کی گئی ہے۔ اس یونیورسٹی سے ہر سال ۷؍ ہزار افراد تیار ہوتے ہیں، یورپ میں اس کی ۱۵؍شاخیں اور ۱۰۰؍تربیتی مراکز ہیں۔ پوری دنیا میں ’ہیمبرگر‘ فروخت کرنے والے ہر ریسٹورنٹ کا اس یونیورسٹی یا اس کی کسی شاخ سے رابطہ رہتا ہے۔ ’میکڈونلڈ‘ نامی ریسٹورنٹ میں اچھی ملازمت حاصل کرنے کے لیے ان مراکز سے ٹریننگ لینا ضروری ہے، ’ہیمبرگر‘ یونیورسٹی میں اکثر اسباق روزانہ کے کاموں سے متعلق پڑھائے جاتے ہیں، اس یونیورسٹی کی زیادہ تر توجہ تعلیم کے بجائے تربیت پر ہے کہ ’میکڈونلڈ‘ میں کام کرنے والے افراد کیسے عام لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کریں اور کس طرح لوگوں کے ساتھ پیش آئیں۔
اس حیرت انگیز انکشاف سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’میکڈونلڈ‘ (جو محض ایک ریسٹورنٹ ہے) پر امریکا اور وہاں کی ثقافت کے علمبرداروں کی کس قدر توجہ ہے، یہ انکشاف اس بات کا غماز ہے کہ یہ ریسٹورنٹ جو امریکی ثقافت کی ترجمانی پوری دنیا میں کرتا ہے، امریکن قوم کے نزدیک کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔
امریکی ثقافت کا دوسرا ترجمان مشہور مشروب کوکاکولا (Coca Cola) ہے، جو آج ہر ملک کے چھوٹے سے چھوٹے گاؤں میں بھی دستیاب ہے، یہ مشروب ۱۸۸۶ء میں جان بمبرٹن نے امریکی شہر ’اٹلانٹا‘ میں ایجاد کیا تھا۔ ۱۸۹۲ء میں ’’اساکنڑ‘‘ نامی ایک کمپنی نے اس کا فارمولا خرید لیا اور ’’کوکا کولا‘‘ نامی کمپنی قائم کی۔ ۱۸۸۹ء میں ’’پیپسی‘‘ بھی ایجاد ہوچکی تھی۔ یہ دونوں مشروب انیسویں صدی کے آغاز ہی میں امریکا سے باہر نکل چکے تھے، ۱۹۴۴ء میں فرانس نے کوک اور پیپسی کے خلاف ہاتھ پاؤں مارے، لیکن اس کی یہ کوشش رائیگاں گئی، آج ’کوک‘ اور ’پیپسی‘ نے دنیا بھر میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں اپنے کارخانے قائم کررکھے ہیں، جہاں سے یہ مشروب بن کر چپے چپے پر فروخت ہورہا ہے اور امریکی ثقافت و تمدن کی اس علامت کو لوگ ایک عام مشروب سمجھ کر پی رہے ہیں۔
ثقافتی عالمگیریت او راس کے اثرات
عالمگیریت، ثقافتی پہلو کے اعتبار سے دو بنیادوں پر قائم ہے:
۱۔ انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کا فروغ، جس میں ذرائع ابلاغ اور فلمیں وغیرہ بھی داخل ہیں۔
۲۔ قوموں اور معاشروں کے درمیان مشابہت اور یکسانیت کا بڑھتا ہوا تناسب۔
یعنی پوری دنیا میں ایک ہی طرح کی تہذیب اور ایک ہی نوعیت کا تمدن مسلط کردیا جائے اور روئے زمین پر بسنے والے لوگوں کو سیٹلائٹ، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعے ایک دوسرے سے جوڑ دیا جائے تاکہ ایک مخصوص طبقہ جب بھی چاہے، اپنے نظریات وخیالات کو ان آلات کے ذریعے پوری دنیا میں پھیلا دے۔نتیجتاً ہر قوم کی روایات اور اقدار الگ الگ نہ رہیں، بلکہ ایک ہوجائیں۔ پوری دنیا کے سوچنے کا طریقہ ایک ہو، لوگوں کے غوروفکر کرنے کا انداز یکساں ہو، ان کی خواہشات، ان کی دلچسپیاں، رہن سہن، آدابِ گفتگو، اٹھنا بیٹھنا غرض یہ کہ ہر چیز میں مماثلت ہو۔
موجودہ دور میں یہ بات آنکھوں دیکھی ہے کہ ذرائع ابلاغ خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہوں، پوری طرح مغرب اور یہودیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ یہ طبقہ ٹی وی اور انٹرنیٹ وغیرہ کی مدد سے جو مخصوص افکار و خیالات پھیلا رہا ہے، وہ ڈھکے چھپے نہیں ہیں، پوری دنیا خصوصاً وہ قومیں جنہیں اپنی تہذیب و ثقافت پر فخر کرنا چاہیے، آج مغربی تقلید میں اندھی ہوئی جارہی ہیں۔ پیرس وبرلن کی گلیوں سے نکلنے والا فیشن اگلے دن کی صبح سے پہلے مشرق کی حدود کو پار کرلیتا ہے اورلوگ چشم و دل فرشِ راہ کیے ہوئے اس فیشن کا استقبال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یورپ و امریکا کے بچے چوراہوں اور سڑکوں پر بنے ہوئے جن ریسٹورنٹس کے کھانے، کھانے کی ضد کرتے ہیں، وہی کھانے، کھانے کے لیے مشرق کے غیر ترقی یافتہ ممالک کی گلی کوچوں میں رہنے والے بچے بھی روتے بلکتے نظر آتے ہیں۔ جس ’باربی ڈول‘ (ایک خاص قسم کی گڑیا کا نام) کے ذریعے مغرب میں فحاشی و عریانیت کو فروغ دیا جارہا ہے، وہی ’باربی ڈول‘ مشرقی لڑکیوں میں فحاشی کے رجحانات بڑھانے میں مؤثر کردار ادا کر رہی ہے، حتیٰ کہ اس بے جان اور بے حرکت چھوٹے سے کھلونے نے مسلمان جیسی ماضی کی باشعور اور حال کی بے شعور قوم کے ایک طبقے کو سوچنے پر مجبور کردیا، حالانکہ ایران میں ایسی گڑیا بازار میں آگئی ہے جو اسلامی لباس زیب تن کیے ہوئے ہے، لیکن انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کی سرپرستی کی وجہ سے مسلم بچیوں کے درمیان ’باربی ڈول‘ کی مقبولیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔
اسی گلوبلائزیشن کا نتیجہ ہے کہ عرب اپنے قومی، دینی اور تہذیبی لباس کو بھول چکے ہیں، حالانکہ ان کا لباس آج بھی ان کا شعار سمجھا جاتا ہے، حتیٰ کہ امریکن فلم نگری ’ہالی وڈ‘ اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے ہندوستانی فلم اسٹوڈیو ’بالی وڈ‘ میں اسی لباس کو ’اسلامی دہشت گردی‘ کی علامت کے طور پر دکھلایا جارہا ہے، لیکن عرب اپنے اس مرعوب کن لباس کو چھوڑ کرمغربی لباس اپنا چکے ہیں، حتیٰ کہ اردن، شام، فلسطین، مصر اور لیبیا وغیرہ نے تو مغربی اورامریکی لباس ہی کو قومی لباس قرار دے دیا ہے۔ ماضی کی یادوں کو تازہ رکھنے کے لیے کہیں کہیں کچھ عمر رسیدہ حضرات عربی لباس زیب تن کیے ہوئے نظر آجاتے ہیں۔
غرض یہ کہ ایسی بے شمار چیزیں ہیں جن میں آج مسلم قوم مغرب پرستی کا شکار ہوچکی ہے اگر مذکورہ بالا چیزوں کو تہذیب و ثقافت کے متعلقات میں سے مان لیا جائے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلمانوں اور خصوصاً عربوں سے ان کا دینی، فکری، تہذیبی اور تمدنی تشخص رخصت ہوا چاہتا ہے، موجودہ حالات کے تناظر میں اسلامی ثقافت ’گلوبلائزیشن‘ کے زیرسایہ مغربی کلچر کے سامنے ہر محاذ پر شکست خوردہ نظر آتی ہے۔
تھوڑا اور گہرائی میں جاکر، اگر ثقافتی عالمگیریت کا جائزہ لیا جائے تو مندرجہ ذیل اہم انکشافات سامنے آتے ہیں:
خرید و فروخت او رمغرب پرستی
گلوبلائزیشن کے قائدین کو اس بات میں بڑی دلچسپی رہی ہے کہ پوری دنیا میں خرید وفروخت اوراس قبیل کے تمام معاملات مغربی طرز پر انجام دیے جائیں، خریدار اپنی جیب میں کرنسی کے بجائے، کچھ ’کارڈز‘ رکھے جن پر اس کا نام اور دیگر ضروری معلومات درج ہوں، کارڈ کو مخصوص مشین میں ڈال کر دکاندار مطلوبہ رقم اپنے ’بنک اکاؤنٹ‘ میں منتقل کردے، عالمگیریت کے ٹھیکے داروں کی اس خواہش کے مطابق آج پوری دنیا میں اس طریقہ تجارت کا رواج بڑھتا جارہا ہے، لوگ کرنسی کے بجائے کارڈز کے ذریعے لین دین کرنے کو فوقیت دینے لگے ہیں اور مغربی تقلید میں اپنی بصیرت کھو بیٹھے ہیں۔ مشرقی ممالک میں تو اس طریقے کو ترقی کی علامت اور اعلیٰ طبقے کا شعار سمجھا جارہا ہے، مغربی طوق گلے میں ڈال کر، پھولے نہ سمانے والے کاغذ کے چند نوٹوں کے بوجھ سے دبے جارہے ہیں۔ ان لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اپنے مطلوبہ سامان کی قیمت ادا کرنے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی دولت پر قابض دو بڑی کریڈٹ کارڈ کمپنیوں ’’ویزا‘‘ (VISA) اور ’’ماسٹر کارڈ‘‘ (Master Card) کی، ان کے جاری کردہ کارڈز استعمال کرنے کی بنا پر منہ بھرائی کررہے ہیں۔ ان ’کریڈٹ کارڈز‘ کے ذریعے پوری دنیا میں جہاں بھی کسی قسم کا لین دین ہوگا، اس کا نفع ان دو بڑی کمپنیوں کو ضرور پہنچے گا۔ چنانچہ گلوبلائزیشن نے اس طریقہ تجارت کو قابلِ تقلید قرار دے کر ان کمپنیوں کا راستہ آسان کردیا ہے اور فطری و طبعی طریق تجارت کو فرسودہ قرا ردے کر ساری دنیا کو اس جدید طریقے کے سحر میں جکڑ دیا ہے۔
نام نہاد جنسی ادب اور تشدد کی ثقافت کو فروغ
ثقافتی گلوبلائزیشن کا ایک خطرناک اثر نئی نسلوں میں جنس پرستی اور تشدد کا فروغ ہے۔ اس عالمی فتنے کے تحت پروان چڑھنے والی نئی نسلیں، تشدد کو زندگی کے ایک طرز اور ایک فطری اسلوب کے طور پر اپنا رہی ہیں۔ مار دھاڑ اور لڑائی کرنا نوجوانوں کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے۔ فلموں میں فن کاروں کی طرح کودنا، چھلانگ لگانا اور ہاتھ پیر مارنا ہی ان کا مطمحِ نظر ہوگیا ہے۔
نوجوانوں میں اس قسم کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے نتیجے میں معاشرے کو مختلف سنگین جرائم کا سامنا ہے، ہر ملک میں قتل و غارت گری ایک عام سی بات ہوگئی ہے، جرائم پیشہ عناصر ’ہالی وڈ‘ اور ’بالی وڈ‘ میں بننے والی فلموں کے ذریعے جرائم کے نئے نئے طریقے سیکھ رہے ہیں اور حقیقی زندگی میں ان کا تجربہ کررہے ہیں۔ نوجوان طبقہ اپنے قیمتی اوقات گھٹیا کاموں میں ضا ئع کرکے اپنے دین، اپنے اخلاق اور اپنے کردار کو زبردست نقصان پہنچا رہا ہے۔ ٹی وی اور سنیما گھروں کے پردوں پر دکھلائی جانے والی فلموں نے اس طبقے کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے، جس کے نتیجے میں تشدد کے ساتھ ساتھ مغربی جنسی کلچر، انسانی زندگی، اس کی عظمت و وقار اور شرافت و کرامت کے لیے ناسور بن کر رہ گیا ہے۔ یہ مغربی فلمیں اورفحش ڈرامے خطرناک حد تک تعلیم، تمدنی زندگی اور معاشرتی تعلقات پر اثر انداز ہوئے ہیں، خصوصاً عالم اسلام مغرب کے بچھائے ہوئے اس جال میں بری طرح پھنس چکا ہے۔
قاہرہ میں واقع خواتین و اطفال سے متعلق ریسرچ سینٹر نے ۱۴۷۲؍ مصری خواتین کے درمیان ایک سروے کرایا، جس کے حیرتناک نتائج سامنے آئے ہیں، ان نتائج کو دیکھ کر عقل صرف ماتم ہی کرسکتی ہے۔ اس سروے کے خطرناک انکشافات سے پتا چلتا ہے کہ مصر میں ۸۵ فیصد خواتین جنسی فلمیں دیکھتی ہیں، ۷۵ فیصد فحش مناظر دیکھنے میں دلچسپی رکھتی ہیں، ۸۵ فیصد لڑائی اور تشدد سے بھرپور فلمیں دیکھتی ہیں، ۶۸ فیصد پرانی اور نئی بننے والی جذباتی فلموں میں رغبت رکھتی ہیں، ۲۱ فیصد دیگر فلمیں جبکہ صرف ۶ فیصد ٹی وی پر آنے والی خبریں اور ثقافتی پروگرام دیکھتی ہیں۔ مزید برآں ان عورتوں میں سے کسی نے بھی معلوماتی فلم یا پروگرام دیکھنے کا تذکرہ تک نہیں کیا۔
یہ سروے یورپ یا امریکا میں ہوا ہوتا تو ہم یہ سوچ کر خاموش ہوجاتے کہ فحاشی اور عریانیت کے گڑھ میں یہ سب نہیں ہوگا تو کہاں ہوگا، لیکن مذکورہ بالا نتائج مصرکی مسلم خواتین پر کیے جانے والے سروے کے بعد منظر پر آئے ہیں، اس کو پڑھ کر آنکھیں خون کے آنسو نہ روئیں تو کیا کریں؟ زبان گنگ نہ ہوجائے تو کیا کرے؟ اور دل ماتم کناں نہ ہو تو کیا کرے؟
مصر نے اپنے روشن ماضی میں عالم اسلام کی دینی، فکری، تہذیبی اور ثقافتی قیادت کی ہے، اس ملک کو عالم اسلام کے قلب کی حیثیت حاصل رہی ہے، اس ملک کے سینے کو چیرتے ہوئے بہنے والا دریائے نیل مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کا شاہد ہے، لیکن یہ اس دریا کی بدقسمتی ہے کہ آج وہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کے ساتھ ساتھ فکری اور تہذیبی انحطاط کا بھی گواہ بن چکا ہے۔
حالیہ تحقیقات بتلاتی ہیں کہ گلوبلائزیشن کا سب سے بڑا آلہ کار ’انٹرنیٹ‘، جنسیت اور فحش کاری کو سب سے زیادہ فروغ دینے والا ہے، کمپیوٹر کی اسکرین کے سامنے اس عالمی نیٹ ورک پر بیٹھ کر صرف ایک مرتبہ کلک (بٹن دبانا) انٹرنیٹ پر فراہم کردہ فحش سروسز اور تصویروں کی راہ میں آنے والی دو بڑی رکاوٹوں: ’جہالت اور شرم‘ کو ختم کر دیتا ہے۔ انٹرنیٹ پر لاکھوں کی تعداد میں ایسی ویب سائٹس ہیں جن پر عریاں تصویریں، فحش پروگرام اور جنسی ہیجان برپا کرنے والی فلمیں کھلے عام پیش کی جاتی ہیں، انٹرنیٹ کی مدد سے دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھے ہوئے شخص کی ان تک رسائی ممکن ہے۔
مغرب پرستی
گلوبلائزیشن کے بدترین اثرات میں سے ایک اثر یہ بھی ہے کہ مغربی کلچر جو دراصل امریکی کلچر ہے، مکمل طور پر لوگوں کے دل و دماغ پر چھا گیا ہے، امریکی موسیقی کار مائیکل جیکسن کا میوزک اور موسیقی ہی بہت زیادہ دلچسپی کی چیز بن گئی ہے۔ ریمبو کی فلمیں اور ’ڈیلس اسٹوڈیو‘ کی جانب سے بنائے جانے والے پروگرام ہی پوری دنیا میں لوگوں کے اور خصوصاً نوجوان نسل کے ذہنی دریچوں پر دستک دے رہے ہیں اور ان کی طبیعت و فطرت پر بری طرح اثر انداز ہورہے ہیں، حتیٰ کہ امریکی تلفظ ہی میں انگلش بولنا، اس وقت کا ایک بہت بڑا فیشن بن گیا ہے۔
عالم اسلام میں فیشن… ایک درد ناک صورتحال
امتِ مسلمہ کے ثقافتی تشخص کو مٹانے کی خاطر، عالمگیریت کا ایک تحفہ امریکی لباس اور اس سے متعلقہ چیزوں کا وہ سیلاب ہے جس میں پورا عالم اسلام آج غرق ہوچکا ہے، ان کپڑوں اور سامانوں پر انگلش زبان میں ایسے جملے لکھے ہوئے ہیں جو امریکی تہذیب کی ترجمانی کرتے ہیں، عالم عرب کی بڑی بڑی دکانوں اور تجارتی مراکز کے اشتہاری بورڈ، نیز ان میں فروخت ہونے والی اشیا پر عربی زبان کے بجائے انگلش میں فقرے اور جملے لکھے ہوئے ہوتے ہیں اورمقامی مصنوعات کی جگہ ان ہی مصنوعات کی سب سے زیادہ مانگ بھی ہے۔
ایک اور حیرت ناک سروے سے عجیب و غریب انکشاف ہوتا ہے کہ دل یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اسلام کے مرکز و قلب اور ارضِ وحی و قرآن میں بسنے والے ان عربوں کی عقلوں نے کام کرنا بند کردیا ہے یا انعاماتِ خداوندی کی ناشکری کی وجہ سے اللہ نے سزا کے طور پر ان کی عقلوں کو ہی سلب کرلیا ہے؟
۱۹۹۵ء کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ صرف ایک سال میں سعودی عرب کی خواتین نے ۵۳۸ ٹن لپ اسٹک (سرخی)، ۴۳ ٹن نیل پالش (ناخن رنگنے والا مادہ)، اور ۴۱ ٹن نیل پالش ریمور (نیل پالش زائل کرنے والا مادہ)، استعمال کیا ہے، جب کہ ۲۳۲ ٹن آئی لائنر (مسکارا یعنی آنکھوں کو پرکشش بنانے والا مادہ) اور ۴۴۵ ٹن مختلف رنگوں کے خضاب استعمال کیے ہیں، نیز ۱۲۰۰؍ سے ۱۵۰۰؍ملین ریال پرفیوم پر خرچ کیے ہیں۔ صرف گرمی کے موسم میں ۴۴۰۰ خواتین نے ۱۱۰؍ملین ریال کے مغربی طرز کی شادی کے کپڑے سلوائے، اوسطاً ۸؍ ہزار ریال ایک شادی کے جوڑے پر خرچ ہوتے ہیں، سعودی عرب میں عام طور پر ایک عورت شادی کے موقع پر صرف اپنے بناؤ سنگار کے لیے ۲۵ ہزا ریال خرچ کردیتی ہے۔
مزید برآں ۱۹۹۷ء کے اعداد و شمار سے یہ دل سوز انکشاف ہوتا ہے کہ خلیج عرب کی خواتین نے صرف ایک سال میں ۷۹۹ ملین ڈالر پرفیوم پر اور ۴ ملین ڈالر خضاب پر خرچ کیے ہیں، نیز ۶۰۰ ٹن لپ اسٹک اور ۵۰۰ ٹن نیل پالش استعمال کی ہے جبکہ خلیج کی خواتین نے ۵ء۱؍ارب ڈالر میک اَپ کے سامان پر خرچ کیے ہیں۔
مغرب زدہ مسلمانوں کا اعتراض
کچھ فریب خوردہ مسلمان جو ’ماڈر ینیٹی‘ اور جدّت کو نعمتِ الٰہی سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں اور مغرب کے دام فریب میں آکر اس کی اندھی تقلید میں شاد کام ہیں، اپنے احساسِ کمتری (جس کی وجہ سے وہ مغرب کی اندھی تقلید میں ملوث ہیں) کا جواز پیش کرنے کے لیے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اگر یہ مغربی ریستوران، مغربی طرز کے لباس اور امریکی مصنوعات دیگر ممالک میں فروغ پاجائیں یا مسلمان انہیں استعمال کرلیں تو اس میں کیا حرج ہے؟ ان اشیا کے عام ہونے سے مسلمانوں کے وجود کو کون سا خطرہ لاحق ہے؟ اور ان کا ثقافتی تشخص آخر کس طرح متاثر ہوتا ہے؟
ایسے مغرب پرستوں کے لیے جواب میں صرف ایک فرانسیسی مثال پیش کردینا کافی ہے کہ ’’آپ مجھے اپنا کھانا بتلایے، میں بتلاتا ہوں کہ آپ کون ہیں؟‘‘ یہ مثال حقیقت کی عکاس ہے، کیونکہ لباس، ماکولات و مشروبات وغیرہ یہ ایسی چیزیں ہیں جو اپنے ملک کے نظریات وخیالات، عادات و اقدار اور زبان بھی ساتھ لاتی ہیں۔
بازاروں میں ایسے امریکی اور یورپی لباس عام ہیں، جن پر انگلش میں ایسی عبارتیں لکھی ہوئی ہیں جو جنسی خواہشات کے لیے محرک ہوسکتی ہیں، نیز ان پر اسلامی مقدسات کے خلاف جملے بھی درج ہوتے ہیں، مثلاً Kiss Me (میرا بوسہ لو)، Take Me (مجھے پکڑو)، I,am Jewish (میں یہودی ہوں)، Prostitute (بازاری عورت)، Adultery (زنا) اور Zion (صہیونی) جیسے غیر مہذب اور مخرب اخلاق الفاظ ان ملبوسات پر درج رہتے ہیں، جن کا مقصد اس مغربی تہذیب کو پھیلانا ہے جس کی بنیاد اباحیت اور بے امن آزادی پر ہے۔
اس لیے یورپی و امریکی مصنوعات کا فروغ اپنی تہذیب و ثقافت کو مٹانے، اپنے ملّی و قومی تشخص کو دفن کرنے اور غیروں کی تہذیب کو اپنانے کی طرف ایک قدم ہوگا، جو افسوس کہ عالم اسلام اٹھا چکاہے، لیکن اس سے بڑھ کر باعث افسوس یہ ہے کہ اس راہ کے منفی اثرات و نتائج کا ابھی تک اس کو ادراک نہیں ہو پایا ہے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’محدث‘‘ لاہور۔ نومبر ۲۰۱۲ء)
Leave a Reply