
تعلیم یافتہ انسان باشعوراورمہذب کہلاتا ہے۔ اگر کسی شہر یاملک میں جنگل کا قانون عام ہوجائے تو مہذب سماج ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ جدید انسانی تہذیبوں میں برطانوی اورامریکی سوچ میں زبان و ادب اور کلچر کے لحاظ سے بڑا فرق خیال کیا جاتا ہے۔ برطانوی تہذیب میں غلام قوموں پر ظلم و استبداد کے باوجود انسانی اقدار و اخلاقیات پر مبنی شائستگی اور مصالحت کی پالیسی عام تھی۔ یہی سبب ہے کہ ۱۸۶۰ء میں برطانوی حکومت نے عملِ قوم لوط (علیہ السلام) کو غیر قانونی اور سخت سزا کاموجب قرار دیااور یہی قانون آزاد ہندوستان میں دستور تحریر کرنے والوں نے بھی بڑی حد تک برقرار رکھا۔ مگر افسوس کہ آزادی کے تقریباً ۶۲ برسوں کے بعد دہلی ہائی کورٹ نے آئی پی سی کے آرٹیکل ۳۷۷ کو مسترد کرتے ہوئے ہم جنسی کو جواز فراہم کر دیا۔ اس فیصلے کے بعد ملک میں انسانیت سے گرے ہوئے اس فعل کو سماجی اعتبار سے تقویت حاصل ہوئی۔
پوری دنیا میں آزادی اور تہذیب کے نام پر جنسی دہشت گردی کی جتنی صورتیںپیدا ہو گئی ہیں، میڈیا کے اس دَور میں عالمی سماج کے ہر بچے کاذہن مسموم ہوتا جارہاہے۔ کرمنالاجی میں انسان کی نفسیات کا مطالعہ کرنے والوں کے نزدیک جنسی اشتہا انگیزی یانا آسودگی سے مجرمانہ ذہنیت کو نشوونَما ملتی ہے جو مستقل ایک ذہنی مرض ہے۔ اس مجرمانہ ذہنیت کی بے شمار شکلیں ہو سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف مذاہب میں باوقار جنسی آسودگی کے لیے عورت اور مرد کے قابل احترام رشتے کو ہمیشہ ترجیح دی جاتی رہی ہے۔ سماج میں جنسی مجرمانہ ذہنیت جب بھی پنپنے کی راہ ہموار ہوئی، اس پر فوری گرفت کی گئی۔ کبھی یہ گرفت خالق کائنات کی طرف سے کی گئی اور کبھی انسانیت پسند افراد کی جانب سے۔ تاریخ اورآثار ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ واضح ہو کہ خالق کائنات کو فراموش کر کے جس سماج کی بنا رکھی جاتی ہے، وہاں دجل اور فریب کے سواکچھ نہیں ہوتا۔ اس کا بڑی حد تک اندازہ ماہرین ماحولیات کو بھی ہو رہا ہے کہ آثار فطرت سے چھیڑ خانی نے پوری دنیا کو کس تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔
اس کائنات کا مکمل نظام ایک ایسے خالق، مصور، مدبر اور رب العالمین کے امر سے جاری و ساری ہے جس نے اپنی انجینئرنگ میں کسی کو شریک نہیں کیا ہے اور اس نے پوری کائنات کے لیے کچھ اصول تفویض کر دیے ہیں۔ اگر ان اصولوں کی پاسداری نہیں کی گئی تو پورا نظام بشمول انسانی سماج، ناقابل یقین تباہی سے دوچار ہو سکتا ہے۔ خالقِ کائنات اور رب العالمین کا فرمان ہے کہ ’’اس نے انسانوں کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے‘‘۔ ’’اسی نے مرد عورت کو جوڑے کی شکل میں بنایا ہے‘‘۔ چھ فٹ کا یہ انسان جس عدم سے وجود میں آتا ہے، کیا وہ کبھی غور و فکر کرتا ہے کہ اس کی تخلیق ایک اُچھلنے والے پانی سے ہوتی ہے جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے، اس کے بعد وہ خون کا لوتھڑا بن جاتا ہے جس کی مصوری خالق کائنات کرتا ہے۔ کوئی بھی جان آزاد نہیں ہے بلکہ رب کریم کے امر سے اس کی رگوں میں خون دوڑتا ہے اور انسان خود کو توانا و تندرست محسوس کرتا ہے اور ہر جان کا نگہبان خود خالقِ کائنات ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ پہلی بار انسان کی تخلیق پر قادر تھا تو کیا دوسری بار قادر نہیں ہو سکتا؟ یہ ایسا سلگتا ہوا سوال ہے جس پر عقل و شعور رکھنے والے ہر ذی ہوش کو فکر و تدبر سے کام لیتے ہوئے اپنی حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ انسان اگر انسانیت کی حد میں رہے تو یہ بات خود اس کے لیے نافع ہے، جس طرح پوری کائنات میں ایک توازن ہے، اسی طرح انسانی زندگی میں بھی توازن مطلوب ہے ورنہ عقل و شعور رکھنے والے سماج کا شیرازہ بکھر جائے گا۔
عصر حاضر کی عالم گیریت نے دنیا کے ہر گوشے کے سماج کو جس طرح تہہ و بالا کر دیا ہے، اس کی پشت پر یورپ کی شائستگی کے برخلاف وحشی پن ہے اور اب اس کا انتہائی وحشی پن یورپ کو بھی اپنے نرغے میں لے چکا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک تو عرصے سے غلام رہے ہیں لہٰذا یہاں کے باشندے کبھی بھی ذہنی غلامی سے نہیں نکل سکے۔ دجل و فریب کے سبب وہ عظیم وحشی کلچر کے اس طرح اسیر ہو گئے کہ انہیں اپنے قدیم کلچر کے ناخوشگوار آثار بھی خوشنما لگنے لگے۔ حالانکہ وہ خود کو جدید دور کے تہذیب یافتہ انسانوں میں شمار کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں بھارت کے مرکزی وزیر صحت غلام نبی آزاد کی زبان سے وگیان بھون کے ایک ایڈز کنونشن میں بے ساختہ حقیقت کا انکشاف ہوگیا اور انہوں نے ہم جنسی کو مرض قرار دیا تو ہم جنس پرست ان پر اس طرح چڑھ دوڑے کہ انہیں اپنے بیان میں تبدیلی کرنی پڑی۔ مخالفت کرنے والوں میں نام نہاد سیاست دان اور بالی ووڈ کے اسٹار بھی شامل تھے۔ گزشتہ دنوں کانگریس ایم پی محترمہ پریا دت نے جسم فروش عورتوں کے پیشے کو قانونی درجہ دینے کی بات کہی۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ صارفیت کے اس دجالی عہد میں ہمارا سماج اخلاقی پستی کے کس انتہائی درجے پر پہنچ گیا ہے۔ اس کا انجام صرف ایک ہے یعنی تباہی۔۔۔ کسی سماج میں جب انسانی رشتوں کا پاس و احترام ببانگ دہل مجروح کر دیا جائے تو خالق کائنات اس سے انسانیت کی صفت چھین لیتا ہے اور جب کوئی سماج انسانیت سے محروم ہو جائے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کا کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔
☼☼☼
Leave a Reply