
زبردست عوامی حمایت سے انڈونیشیا کے سابق چیف سکیورٹی مسٹر سوسیلو بمبانگ یودھویونو پہلے براہِ راست صدر کے انتخاب (منعقدہ ۲ ستمبر) میں میگاوتی سکارنو پتری کے مقابلے میں شاندار فتح حاصل کی۔ یہ ملک کا سب سے پہلا صدارتی انتخاب تھا۔ اس انتخاب میں ووٹروں کے پیشِ نظر ایک ایسے رہنما کا انتخاب تھا جو انڈونیشیا کے مستقبل کے حوالے سے مستحکم ویژن کا حامل ہو۔ انتخابی نتیجہ یودھویونو کے انتخابی مینیجر رشمت وٹولر کے لیے باعثِ حیرانی نہیں تھا‘ جنہوں نے اپنی حکمتِ عملی کی بنیاد اس مفروضے پر رکھی تھی کہ انڈونیشیا کے ذریعہ جمہوریت اور غیرمرکزیت کی راہ اختیار کیے جانے کے پانچ سال بعد سیاسی اشرافیہ نے اپنی ساکھ کھوئی ہے۔ انتخاب کے دوسرے دن ’ریویو‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے ویٹولر نے کہا تھا کہ ’’اشرافیہ نے رابطہ کھویا ہے‘‘۔ ہم نے محض اپنے امیدوار کا براہِ راست رابطہ عوام سے استوار کرنے کی کوشش کی اور یہ کام ہم نے گائوں کے لوگوں سے رابطہ نیز ٹاک شوز اور اشتہارات کے ذریعہ کیا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ میگاوتی کے ہارنے کا سبب ان کا انتخاب سے پہلے گولکار پارٹی کے چیئرمین اکبر تنجنگ اور یونائیٹڈ ڈیمو کریٹک پارٹی کے سابق نائب صدر حمزہ حاذ کے ساتھ اتحاد بھی ہو سکتا ہے جنہوں نے ۵ اپریل کے پارلیمانی انتخاب میں نمایاں طور پر یہ ظاہر کیا تھا کہ وہ ملت اور مذہبی رہنمایانِ ملت پر انحصار کیے بغیر بتدریج وہ اپنے فیصلے خود کر رہے ہیں۔ انڈونیشیا کے انتخابی مزاج کے ایک ماہر کیون ایوانس کا کہنا ہے کہ ’’کولیشن سراسر ناکام رہا۔ پبلک کو یہ نہیں بتایا گیا کہ اب آئندہ کیا کرنا ہے۔ روپیہ اور جکارتا اسٹاک مارکیٹ نے یودھویونو کی بھاری عوامی حمایت میں بڑا مثبت کردار ادا کیا ایک ایسے انتخاب میں جو بغیر کسی تنازعہ کے بخیر و خوبی گزر گیا۔ ۵۵ سالہ منتخب صدر نے انتخاب سے صرف دو روز پہلے زرعی معاشیات میں اپنا ڈاکٹریٹ مکمل کیا ہے۔ انہوں نے اصلاحات کے دوسرے مرحلے کے آغاز کا عزم اور تہیہ کیا نیز قانون و قانون سازی کے ابہامات کو دور کرتے ہوئے ملک میں براہِ راست بیرونی سرمایہ کی آمد کے لیے راہ ہموار کرنے کی بات کی۔ عوام سے جو وعدے کیے گئے ہیں ان کی رو سے صدارتی بیورو کریسی اور فیصلہ سازی کے میکنزم کی ازسرِ نو شیرازہ بندی کی جائے گی۔ ان دونوں اصلاحات کو گذشتہ سال کی ۱ء۴ فیصد افزائش کو مزید آگے آگے لے جانے میں اہم خیال کیا جارہا ہے۔ اس لیے کہ اس کے نتیجے میں کروڑوں کی تعداد میں لوگوں کو روزگار فراہم ہو گا۔ بعض تاجروں کے نزدیک چھ ماہ کے عرصے میں انڈونیشیا میںحادثات سے مبرا تین علیحدہ انتخابات کا منعقد ہونا نتائج سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ نتیجہ پر کوئی خوش ہو یا مایوس‘ انڈونیشیا نے یہ ظاہر کر دیا ہے اس میں مشعل جمہوریت بننے کی صلاحیت موجود ہے جیسا کہ جین گالبرتھ‘ چیئرمین بینک بی سی اے کا خیال ہے۔ واضح رہے کہ بی سی اے انڈونیشیا کا سب سے بڑا نجی بینک ہے۔ امریکی اور دیگر مغربی حکام جن کے سامنے عراق کا دلدل ہے دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک میں انتخابی عمل کی کامیابی کو کچھ اور نظر سے دیکھ رہے ہیں یعنی یہ کہ جمہوریت اور اسلام ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ یودھویو کو سب سے بڑی کامیابی ان کے حریفِ مقابل جوزف کلا کے صوبے میں ملی جہاں ابتدائی نتائج نے ہی ظاہر کر دیا کہ انہیں ۹۲ فیصد ووٹ ملے ہیں۔ صرف ایک کے علاوہ انہوں نے انڈونیشیا کے ۳۲ صوبوں میں سے سبھوں میں برتری حاصل کی۔ مغربی و جنوبی سماترا‘ جمبی‘ ریائو جنوبی کلی منتان‘ شمالی ملوکو مغربی نوسا ٹنگارا اور پپوا میں انہوں نے ۷۰ فیصد ووٹ لیے۔ اصل انتخابی اکھاڑا گھنی آبادی والے جاوا میں وہ میگاوتی کے حامیوں کے گڑھ مرکزی جاوا میں میگاوتی سے آگے تھے اور مشرقی جاوا جہاں کے یہ خود رہنے والے ہیں‘ بہت آسانی سے جیتے۔ یودھویونو نے اپنی کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ میگاوتی کابینہ کے دو یا تین وزرا کو اپنی کابینہ میں لینے کے لیے غور کر رہے ہیں بالخصوص وزیرِ مالیات بوپردیونو کو جو ’’میکرو اکانومی‘‘ استحکام کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ نئے صدر کی شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے ایک سابق دو اسٹار جنرل ٹی بی سلالاحی فرماتے ہیں کہ ’’۱۹۸۶ء میں پہلی بار میرا سامنا ایک جواں سال فوجی میجر سوسیلو بمبانگ یودھویونو سے ہوا اور اسی وقت میں نے انہیں ایک ممکنہ صدر کے طور پر بھانپ لیا تھا۔ ۱۸ سال بعد یودھویونو جو کہ اب ۵۵ سال کے ہو چکے ہیں جنوب مشرقی ایشیا کے دو فوجی جنرلوں یعنی تھائی لینڈ کے چت چیٔ چون ہاوان‘ فلپائن کے فائڈ یل راموس کے بعد سے یہ تیسرے جنرل ہیں جو جمہوری طریقے سے اقتدار میں آئے ہیں۔ اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جو کہ فوج میں کیپٹن رہ چکے تھے‘ یودھویونو نے ۱۹۷۳ء میں انڈونیشیا کی ملٹری اکیڈمی سے امتیازی نمبروں سے گریجویٹ کا امتحان پاس کیا۔ وہ انگلش بہت اچھی بولتے ہیں۔ ان کی جزوی تربیت امریکا میں ہوئی ہے اور انہوں نے امریکا کے ویبسٹر یونیورسٹی سے مینجمنٹ میں ماسٹر کی ڈگری لی ہے۔ یودھویونو کرنل سے تھری اسٹار جنرل صرف ۵ سال کے عرصے میں بن گئے یعنی ۱۹۹۳ء تا ۱۹۹۸ء کی مدت میں۔ ان کی تیز رفتار ترقی میں ملٹری کمانڈر جنرل فیصل تجنگ کی سرپرستی کا بھی بڑا دخل ہے۔ ٹیریٹوریل افیئرز کے چیف آف دی اسٹاف کے پوسٹ سے ۱۹۹۹ء میں سبکدوش ہونے کے بعد یہ عبدالرحمن وحید کی کابینہ میں پہلے وزیر برائے معدنیات و توانائی بنے اور بعد میں سلامتی کے وزیر مقرر ہوئے۔ جب حکومت کے کرایہ کے غنڈوں نے جولائی ۱۹۹۶ء میں میگاوتی کے پارٹی ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا تو یہ اس وقت جکارتہ ریجنل کمانڈ کے چیف آف دی اسٹاف تھے اور جب ۱۹۹۹ء میں نئے آزاد مملکت مشرقی تیمور کو انڈونیشیائی فوج نے مکمل طور سے تباہ کر دیا تو یہ اس وقت چیف آف ٹیریٹوریل افیئرز تھے۔ یہ براہِ راست کسی بھی غلط کاموں میں ملوث نہیں رہے۔ لیکن اس سادہ حقیقت کی بنا پر کہ یودھویونو نے ۲۶ سالوں تک فوج میں خدمات انجام دی ہیں‘ وہ بھی بیشتر عرصہ صدر سوہارتھو کے زیرِ اقتدار‘ طلبہ اور جمہوریت نوازوں کے لیے ان کا قابلِ قبول ہونا مشکل ہے۔ سلالاحی اور دیگر ریٹائرڈ جنرلوں کا یودھویونو کی انتخاب میں غیرمعمولی دلچسپی لینا لوگوں کو اس خوف میں مبتلا کرتا ہے کہ مبادا یودھویونو انڈونیشیا کو اس کے ماضی کی جانب نہ پلٹا لے جائیں جبکہ سیاست میں فوج کی بالادستی ہوا کرتی تھی۔ لیکن انڈونیشیا کے جن لوگوں نے انہیں ووٹ دیا ہے وہ ان کے فوجی پس منظر کو واضح طور سے ایک مثبت پہلو خیال کرتے ہیں۔ لیکن یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ لوگ مطلق العنانیت کی جانب پلٹنا چاہتے ہوں بلکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ فوجی تجربات کی بنا پر وہ ایک مضبوط قائدانہ صلاحیت کے حامل ہوں گے جس کا فقدان میگاوتی کے تین سالہ دور میں نمایاں طور پر محسوس کیا گیا۔ ان کے تمام تر فوجی پس منظر کے باوجود یودھویونو کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ ان کی پہلی صفت مصالحت و صلح جوئی ہے۔ ان کی اس صفت کا اظہار پہلی بار اس وقت ہوا جب انہیں اقوامِ متحدہ نے ۹۶۔۱۹۹۵ء میں بوسنیا میں اپنا آبزور مقرر کیا اور پھر دوسری بار اس وقت جب انہوں نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں مشرقی تیمور کے مسئلے پر انڈونیشیا کے فوجی وفد کی قیادت کی۔ انہوں نے اچے کی علیحدگی پسندی کی تحریک کا بھی پُرامن حل تلاش کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگرچہ انہیں گذشتہ سال مجبوراً بالآخر وہاں فوج بھیجنا پڑی جبکہ وہ مذاکرات سے مسئلہ حل کرنے کے لیے آخر تک کوشش میں رہے‘ اس کے باوجود کہ کابینہ کے فوجی شدت پسندوں کی جانب سے ان کی مخالفت تھی۔ ایک سابق سفارتکار جو اچے کے مذاکرات میں حکومت کے چیف نگوشیٹر کے طور پر شامل رہے‘ کا یودھویونو کے متعلق کہنا ہے کہ ’’وہ امن کے آدمی ہیں۔ وہ سوچتے ایک فوجی کی طرح ہیں لیکن ان کی سوچ عسکریت پسندانہ نہیں ہوتی‘‘۔ سیاسی تجزیہ نگار یودھویونو کی اس صلاحیت کے معترف ہیں کہ انہوں نے اپنے دور کے تمام ہی صدور کے ساتھ بہت اچھے سے نبھایا خواہ سوہارتو ہوں‘ بی جے حبیبی ہوں‘ وحید ہوں یا میگاوتی۔ ایک مغربی فوجی افسر کے بقول ’’یودھویونو کی جو سب سے نمایاں صفت ہے وہ یہ کہ وہ اپنے کوئی حقیقی دشمن نہیں بناتے۔ جب سے میں انہیں جانتا ہوں میں نے انہیں سیاستداں ہی پایا ہے۔ وہ کبھی ایسا موقف اختیار نہیں کرتے جو ان کے ارد گرد کے لوگوں کے لیے ناقابلِ قبول ہو۔ بعض اسے کمزوری سمجھتے ہیں اور بعض اسے ان کی قوت کے طور پر دیکھتے ہیں‘‘۔ جو لوگ یودھویونو کو قریب سے جانتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ عام طور سے لوگوں کو فاصلے پر رکھتے ہیں۔ صرف گذشتہ چند مہینوں سے ایسا ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے ارد گرد کچھ لوگ اکٹھے کر لیے ہوں اور ان کے کچھ خاص لوگوں پر مشتمل ان کا ایک اندرونی حلقہ تشکیل پاگیا ہے جن میں ان کے ایک پرانے دوست اور ساتھی ریٹائرڈ جنرل سودی سلالاحی رودی‘ ان کی انتخابی مہم کے منتطم رشمت ویٹولر‘ سیاسی سوجھ بوجھ کے مالک سابق گولکار سیکرٹری جنرل جو وزیرِ خارجہ بننے کے بھی خواہش مند ہیں اور جویو وینوٹو جو کہ ماہرِ معاشیات ہیں‘ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ جویو یودھویونو کی زرعی معاشیات میں ڈاکٹریٹ میں ان کے گائڈ بھی رہ چکے ہیں۔ بہرحال یودھویونو کے لیے یہ چیلنج باقی رہتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو کس طرح ڈیل کرتے ہیں اس لیے کہ ان کی نئی ڈیموکریسی پارٹی کے پارلیمنٹ میں صرف ۵۷ ارکان ہیں۔ لیکن ۵۵ سیٹ پر مشتمل جن میں بیشتر آزاد امیدوار ہیں یا مفاداتی گروہ ہے‘ پارٹی سے وفادار منظم ارکان کا فقدان ہے۔ وفاداری کی تبدیلی کے عمل سے یودھویونو کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
(بشکریہ: معاصر ’’فار ایسٹرن اکنامک ریویو‘‘۔ ۳۰ ستمبر ۲۰۰۴ء)
Leave a Reply