اکیسویں صدی میں ترقی یافتہ اقوام اس بات پر متفق ہوچکی ہیں کہ ’’کسی قوم کے اصل وسائل اس کے افراد ہیں جنھیں وہ تعلیم یافتہ اور ہنر مند بناکر ترقی اور خوشحالی کی منزل کا حصول ممکن بناسکتے ہیں‘‘۔ طرفہ تماشا ہے کہ یہی غالب اقوام تیسری دنیا بالخصوص مسلم ممالک میں یہ تشہیری مہم جاری رکھے ہوئے ہیں کہ ’’انسان ہی مسائل ہیں‘‘ لہٰذا ترقی اور خوشحالی کے لیے آبادی کو کنٹرول کیا جائے۔ بے پناہ قدرتی وسائل، بہترین تزویراتی پوزیشن اور چار موسموں کی سرزمین پاکستان کے اٹھارہ کروڑ باشندوں کے اندر قدرت نے وہ صلاحیت رکھی ہے جو چند برسوں میں انہیں باوقار قوم بنا سکتی ہے۔ ہر قوم اپنے نظامِ تعلیم کے ذریعے نوخیز نسل کو مذہب، تاریخ اور قومی کردار کا شعور دینے کے ساتھ اداروں کو چلانے والے ماہرین اور صنعت و حرفت کو فروغ دینے والے ہنرمند بھی تیار کرتی ہے۔ نظامِ تعلیم ہی کسی ملک کے باشندوں کی شیرازہ بندی کر کے انہیں سیسہ پلائی دیوار بنا دیتا ہے۔
اکیسویں صدی کے گلوبل ولیج میں آج پاکستان کو دو چیلنج درپیش ہیں جن سے عہدہ برآ ہوئے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ٹکڑیوں میں بٹی ہوئی قوم کو متحد اور باہم شیروشکرکر کے ہم وہ فضا پیداکر سکتے ہیں جو قومی وحدت و یکجہتی اور امن کے قیام میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔دوسرا بڑا چیلنج ۱۰۰؍فیصد شرح خواندگی کا حصول ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اہلِ فکرودانش نوحہ گری کا رویہ چھوڑ کر کوئی قابلِ عمل حل پیش کریں جس پر چل کر ترقی، خوشحالی اور امن کا خواب پورا ہوجائے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے دانشور، ماہرینِ تعلیم، اساتذہ اور حکمران گزشتہ ساٹھ سالوں میں ایک ایسا نظامِ تعلیم قوم کو نہ دے سکے جس سے درپیش چیلنجوں سے نمٹا جاسکے۔
اگر ہم ایک ہی ملک کے ۱۸؍کروڑ باشندے واقعی اتحادواتفاق سے رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے بچوں کا اسکول بنانا پڑے گا۔ اگر ایسا ہوجائے تو پانچ سال کے اندر ایک نئی پاکستانی قوم نمودار ہوگی جس کے تمام شہری اتفاق و اتحاد کی عملی تفسیر بن جائیں گے۔ ہم علماء کرام کو الزام دیتے ہیں کہ وہ قوم کو چار گروہوں میں تقسیم کررہے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ جدید نظامِ تعلیم، جو جدید سے زیادہ محض انگلش زدہ نظرآتاہے، نے قوم کی تقسیم میں علماء کرام سے کہیں بڑھ کے حصہ ڈالا ہے۔ بڑے بڑے شہروں میں انگلش میڈیم کی چھتری تلے درجنوں گروہ تیارکیے جارہے ہیں۔ ہر گروہ اپنے آپ کو بالاتر (Superior) ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتا نظر آتا ہے۔ ان رنگارنگ اسکولوں میں معیارِ تعلیم کا تعین علم سے نہیں، بھاری بھر کم فیسوں کے ذریعے سے کیا جاتا ہے۔ علماء کرام قوم کی حقیقی رہنمائی کے فریضہ سے عہدہ برآ ہونے کے لیے پہل کریں اور آگے بڑھیں۔ مسجدوں میں ناظرہ قرآن کا عظیم کام جاری رکھیں اور دینی تعلیم کے معیاری مدارس اور جامعات قائم کریں جن کا نصاب باہمی مشورے سے ایک کر دیں۔ میٹرک کے بعد فطری دینی رحجان رکھنے والے طلبہ کو اپنے مدارس میں داخل کر کے قرآن، حدیث، فقہ اور تاریخ کے ماہرین تیار کریں جو عصری مسائل میں قوم کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیں۔
قوم کے بچوں کا مرکز تعلیم ایک ہوجانے سے دوسرا بڑا بریک تھرو یہ ہوگا کہ قوم کا حقیقی ٹیلنٹ سامنے آجائے گا۔ دورِ قدیم و جدید کا حقیقی منظر نامہ یہی ہے کہ جن حکمرانوں نے قومی ذہانت کو دریافت کر کے اسے بروئے کار لانے میں کامیابی حاصل کر لی وہ دنیا کو تہذیب وشائستگی سکھانے اور انواع و اقسام کی ایجادات سے مستفیدکرنے کا باعث بھی ٹھہرے اور دنیا کے امام بھی بن گئے۔
۱۰۰؍فیصد شرح خواندگی کا حصول جو آج کے حکمرانوں کا خواب ہے،محض ۱۰؍برسوں میں شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے۔ راہِ عمل بڑاواضح ہے اور دنیا کی تمام بڑی اقوام اسی پر چل کر آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ علم، انسانیت کا مشترکہ سرمایہ ہے اور زبان، علم کو منتقل کرنے کا ذریعہ ہے۔ دنیا کی کوئی زبان کافریا ناپسندیدہ نہیں ہے۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم فرانسیسی، چائنیز، رشین، جاپانی، کوریائی، عربی، فارسی اورجرمن زبان میں بھی پڑھائے جارہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ممالک ہالینڈ، آسٹریلیا، ناروے، سویڈن اور ڈنمارک اپنی اپنی زبانوں میںپی۔ایچ۔ڈی تک کروا رہے ہیں۔ دنیا کے تمام ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے اور اقوام متحدہ کا ’’یونیورسل ڈیکلریشن آف لنگواسٹک رائٹس‘‘ ہر قوم کے بچوں کو اپنی مادری اور قومی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا نہ صرف حق دیتا ہے بلکہ ہر ملک کی حکومت سے کہتا ہے کہ اقلیتوں کے بچوں کو بھی ان کی اپنی زبان میں، اگر وہ چاہیں، تو تعلیم فراہم کی جائے۔ مشرق ہو یا مغرب آج کے گلوبل ولیج میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو اپنے بچوں کو غیر ملکی زبان میں تعلیم دے رہا ہو۔۔۔کہاجاتاہے کہ پاکستان کی مادری زبان ایک نہ ہونے کے باعث ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، سرائیکی، بروہی، کشمیری اور قومی زبان اردو میں زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ اردو پورے ملک میں سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ ا سے پہلی جماعت ہی سے بطور مادری زبان استعمال میں لایاجاسکتا ہے۔ لیکن کیا ہرج ہے اگر ہم پرائمری تک علاقائی زبانوں کی سہولت اپنے بچوں کو دے دیں اور چھٹی جماعت سے اردو کو ذریعہ تعلیم بنا کر ان کے لیے علم کی راہیں کشادہ اور آسان کر دیں اور ۱۹۷۳ء کے آئین پر عمل درآمد کا سہرا بھی اپنے سرسجا لیں۔
۱۰۰؍فیصد شرح خواندگی کے حصول میں اگر ہم واقعی سنجیدہ اور مخلص ہیں تودو راستوں میں سے ایک کا انتخاب بہرحال کرنا ہوگا۔ اول دنیا کی تمام مہذب اور ترقی یافتہ اقوام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تمام عصری علوم بشمول میڈیکل اور انجینئرنگ کو ہنگامی طور پر اپنی زبان میں منتقل کرنے کا کام شروع کیا جائے۔ چاروں صوبائی دارلحکومتوں اور اسلام آباد میں ’’دارالتراجم‘‘ قائم کیے جائیں۔ اردو سائنس بورڈ لاہور جو محدود پیمانے پر کئی سالوں سے یہ کام سرانجام دے رہا ہے، اسے وسعت دے کر اور اپ گریڈ کر کے یہ کام چند سالوں میں پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔ اردو کے خلاف ایک سازش یہ بھی کی گئی ہے کہ بعض سائنسی کتب کا ترجمہ انگلش سے بھی مشکل تر کر دیا گیا ہے۔ اصطلاحات کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کیا آج موبائل کا ترجمہ کرنے کی ضرورت باقی رہ گئی ہے؟ اصطلاحات میں ضروری ترامیم کرنے ہی سے کام چل جاتا ہے۔ قرآن کے لفظ ارض کو EARTH، خلیفہ کو CALIPH، امیر البحر کو ADMIRAL اور جبل الطارق کو جبرالٹر لکھنے والوں نے اصطلاحات کا ترجمہ نہیں بلکہ تھوڑا ساتبدیل کر کے تعلیمی اور قومی غلبے کے مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔ اہل یونان کا علم ترجمہ ہو کر بغداد اور اسپین پہنچ گیا اور مسلمانوں نے اس نظری علم کو تجربے اور مشاہدے کی بلندیوں پر چڑھا کر اہل یورپ پر سائنسی علوم کے دروازے کھول دیے۔ یہی علم پیرس، لندن اور واشنگٹن کی زبانوں میں منتقل ہو کر ان کی لائبریریوں کی زینت بن گیا۔
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ علوم وفنون کو دنیا کی تیسری بڑی زبان اردوکے قالب میں ڈھال کر اسلام آباد کی زینت بنایا جائے۔ دنیا میں کہیں بھی چھپنے والی سائنس اور ٹیکنالوجی کی کتاب جاپان کے ۱۰؍اہل علم صرف ایک رات میں اپنی زبان میں منتقل کر دیتے ہیں جو اگلے روز طبع ہو کر ہر لائبریری اور بک اسٹال پر پہنچ جاتی ہے اور اس کا علم جاپانی طلبہ کی براہِ راست دستر س میں آجاتا ہے۔
دوسرا راستہ بھی بڑا واضح اور قابل عمل ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آج دنیا سے رابطہ کے لیے انگلش زبان بہرحال سیکھنا ضروری ہے حالانکہ دنیا محض امریکا اور برطانیہ کا نام نہیں ہے۔ کیا چین، جاپان، روس، کوریا، فرانس، جرمنی اور ۵۶ ممالک پر پھیلا ہوا عالم اسلام دنیا سے الگ کوئی جزیزہ ہے جن سے رابطہ کرنے کی ہمیں ضرورت نہ ہو۔ انگلش اور انگلش میڈیم میں بھی ہمیں فرق ملحوظ رکھنا ہوگا۔ اگر انگلش پڑھانا اور سکھانا مطلوب ہے تو اس کے لیے انگلش میڈیم کی ضرورت نہیں ہے۔ اقوام عالم اپنے بچوں کے لیے علم کی راہیں آسان اور کشادہ کر رہی ہیں اور ہم اپنے نونہالوں کو ایک غیر ملکی زبان اور وہ بھی غیر فطری طریقے سے پڑھانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں اور انہیں علم سے متنفر کر رہے ہیں۔
پنجاب ایجوکیشن کمیشن کے تحت پنجم اور ہشتم کے لازمی مگر غیر ضروری اور بغیر تیاری کے شروع کیے گئے امتحانات جنہیں اب انگریزی کا لبادہ بھی اڑھا دیا گیا ہے، میں فیل شدہ طلبہ کی تعداد ۱۰۰؍فیصد شرح خواندگی کا خواب چکنا چور کر دے گی۔ ہم ترکی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے لاہور میں شہریوں کو خوبصورت اور تیزرفتار بسوں کا تحفہ تو دے رہے ہیں، کیا ہم ترکی کا نظامِ تعلیم بھی لاہور میں لا سکیں گے؟ استنبول کے بچے میٹرک تک اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے نظامِ تعلیم میں میٹرک کے بعد اعلیٰ تعلیم شروع ہوتی ہے۔ یہ فیصلہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ فرسٹ ایئر میں داخلہ کے لیے ایک سال کا انگلش لینگوئج کورس لازمی قرار دیا جائے۔ دنیاکی کوئی بھی زبان چھ ماہ سے ایک سال میں سیکھی اور سکھائی جاسکتی ہے۔ دنیا سے رابطہ انڈر میٹرک نہیں بلکہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ یہ مسئلہ بھی حل ہوجائے گا اور قوم کا ہر بچہ اور بچی میٹرک تک تعلیم بھی حاصل کر لے گا۔ انگلش زبان کی رکاوٹ دور کرنے سے پاکستانی بچہ میٹرک کا امتحان ۱۵؍سال کے بجائے ۱۳؍سال میں پاس کر لے گا۔
زبان محض ذریعۂ تعلیم نہیں بلکہ اپنے تہذیبی اور علمی ورثے کی محافظ بھی ہوتی ہے۔ قوموں کی زندگی میں زبان اور لباس، زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ دوسروں کی زبان اور لباس اختیار کرنے والی قومیں بہت جلداپنے تہذیبی ورثے اور قومی شناخت سے ہاتھ دھوبیٹھتی ہیں۔ آج نوجوان نسل کے بدلتے رنگ بدیسی زبان کے تہذیبی اثرات کا اظہار ہیں۔
(مضمون نگار اسلامیہ کالج، قصور میں اسسٹنٹ پروفیسر علومِ اسلامیہ ہیں)
☼☼☼
Leave a Reply