آنے والی دنیا کے تین منظرنامے
دنیا اس تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے کہ کسی کو اندازہ نہیں کہ دس پندرہ سال بعد مختلف خطوں کی انفرادی اور دنیا کی اجتماعی شکل اور کیفیت کیا ہو گی۔ کئی ممالک عالمگیریت کو بھرپور اعتماد کے ساتھ قبول کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان ممالک کو مختلف جہتوں سے کئی خطرات لاحق ہیں۔ کئی خطوں کا معاشی اور سیاسی وجود خطرے میں ہے۔ بین الاقوامی سیاست و معیشت کے ماہرین اندازے قائم کر رہے ہیں کہ آنے والے زمانے میں کن مشکلات سے ہمیں نمٹنا پڑے گا۔ سیاسی اور عسکری حقائق کی روشنی میں مالیاتی، معاشی اور جغرافیائی تبدیلیوں کے حوالے سے اندازے قائم کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ہر ملک آنے والے عجیب و غریب زمانوں کے لیے خود کو تیار کرنے میں مصروف ہے۔ کیا آنے والے زمانوں میں روئے زمین پر آباد تمام انسانوں کا مقدر یکساں ہو گا؟ سب کے لیے خوشحالی یقینی ہو جائے گی؟ یا بیشتر ممالک باہمی تنازعات کے باعث ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہوتے چلے جائیں گے؟ پال اے لاڈیسینا نے ۲۰۱۵ء کی دنیا کے تین منظر نامے اپنی کتاب ’’ورلڈ آئوٹ آف بلینس‘‘ میں پیش کیے ہیں:
سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ اگر آپ کو اپنی طے شدہ منزل تک پہنچنے کے لیے درست راستہ معلوم نہ ہو تو کوئی بھی سڑک آپ کو کہیں بھی نہیں پہنچا سکتی۔ آج کی دنیا کچھ ایسی ہی ہے۔ لوگ چل رہے ہیں مگر منزل کا تعین کرنے کی صلاحیت اور سکت سے محروم ہیں۔ یہ مسئلہ کسی ایک ملک یا قوم کا نہیں۔ دنیا بھر میں لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ وہ درست سمت کا تعین نہیں کر پائے ہیں اور سفر محض اندازے کی بنیاد پر طے ہو رہا ہے۔ ہر ملک کو تبدیلیوں کا درست اندازہ قائم کرنے اور بہترین راستے کا تعین کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی مؤثر طریقہ خود وضع کرنا ہے کسی بھی بڑی تبدیلی کو سمجھنا اب بجائے خود ایک فن ہے۔ قومی قیادتوں کو ہر بڑی تبدیلی کا عمدگی سے جائزہ لے کر ایسے اقدامات کرنا ہوتے ہیں جو ردعمل سے زیادہ عمل پر مشتمل ہوں۔ اگر قائدین میں حالات کو بہتر طور پر سمجھنے اور بروقت و درست عمل کی راہ ہموار کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو معاملات کو درست کرنا دشوار تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں سیاست، معیشت، مالیات، ماحول، معاشرت، میڈیا اور دیگر شعبوں میں رونما ہونے والی بنیادی تبدیلیوں کی بہتر تفہیم کے لیے پانچ شعبوں کا جائزہ لینا ناگزیر ہے۔ عالمگیریت، آبادی کی نوعیت اور ساخت، صرف کے رجحانات، قدرتی وسائل اور ماحول کی کیفیت اور ان تمام شعبوں کو منضبط کرنے والے قوانین اور تحاریک پر غور کر کے ہی ہم کوئی بہتر نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔ ان تمام عوامل کے تجزیے کی بنیاد پر ۲۰۱۵ء کے تین ممکنہ منظر نامے میرے ذہن میں ابھرتے ہیں۔
پہلا منظر نامہ
اس خاصے قنوطیت زدہ (تاہم غیر ناگزیر) منظر نامے کے مطابق دنیا شدید عدم استحکام کی نذر ہو چکی ہے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی نے زندگی کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ یہ منظر نامہ اس مفروضے کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے کہ دہشت گرد گروپوں نے امریکا کی سرزمین اور بیرون ملک اس کے اداروں پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ دہشت گردوں کی جانب سے پے در پے حملوں کے باعث امریکا میں دیگر اقوام کا اعتماد ختم ہو چلا ہے۔ کل تک امریکا سپر پاور تھا مگر اب اس کی طاقت میں خطرناک اور پریشان کن حد تک کمی واقع ہو چکی ہے۔
اس منظر نامے کے مطابق القاعدہ کے کئی قائدین ہلاک یا گرفتار کیے جا چکے ہیں مگر پھر بھی چند معاملات اب تک منظر عام پر نہیں لائے جا سکے یا توضیح کے طالب ہیں۔ چند تنازعات اب بھی حل طلب ہیں۔ فلسطینی ریاست کا معاملہ توجہ کا طالب ہے، وسط ایشیا میں روس کے اثرات کا دائرہ محدود کرنے کی کوششیں پوری طرح بار آور ثابت نہیں ہو سکیں اور مشرقِ وسطیٰ کے بیشتر ممالک میں معیار زندگی پست سے پست تر ہوتا جا رہا ہے۔ ۲۰۱۵ء کے پہلے منظر نامے کے مطابق مغربی دنیا کے لیے سیکورٹی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کو موثر طور پر حل کرنے کی کوششیں بیشتر بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈال چکی ہیں۔ مغربی دنیا کے باشندوں پر حکومت کی کڑی نظر رہتی ہے تاکہ کہیں کوئی گڑ بڑ نہ ہو۔
مغربی دنیا میں تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد نے حکومتوں کو شبہات میں مبتلا کر دیا ہے۔ تمام غیر ملکیوں اور نسلی اقلیتوں پر گہری نظر رکھی جاتی ہے۔ غیر ملکیوں اور اقلیتوں کو شک اور تجسّس کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ مغربی دنیا کے بیشتر باشندے اب بیرون ملک جانے، کام کرنے اور وہاں قیام کرنے سے گریز کر رہے ہیں کیونکہ انہیں جانچ پڑتال کے ایک خاصے تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ بہت سے معاملات میں خدشات کے باعث مغربی دنیا اپنے آپ کو دوسروں سے الگ تھلگ کرنے پر تُلی ہوئی ہے اور خاصی محصور ہو کر زندگی بسر کر رہی ہے۔ معیشت کو مسابقت سے بچانے کے لیے خصوصی پالیسیاں مرتب کی گئی ہیں۔ مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ ان کی معاشی برتری کسی بھی قیمت پر برقرار رہے۔ بیشتر ممالک یہ چاہتے ہیں کہ ان کے باشندوں کی ملازمتیں ہر حالت میں سلامت رہیں اور ان ملازمتوں کو بیرونی اداروں کے حوالے نہ کیا جائے۔ بالکل اسی طرح ہر ملک اپنی معاشرت اور ثقافتی اقدار کو محفوظ رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔
معاشی اور سیاسی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بڑے بین الاقوامی ادارے قائم کرنے کا رجحان اب ختم ہو چکا ہے۔ بیشتر ممالک چند چھوٹے ہم خیال ممالک سے بہتر تعلقات قائم کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ چند بڑے بین الاقوامی اداروں کے بجائے اب چند ممالک پر مشتمل گروپ تشکیل پا چکے ہیں اور معاملات ان گروپوں کے درمیان ہی طے پاتے ہیں۔
دوسرا منظرنامہ
دنیا کی تقدیر میں بہت سی خوشیاں بھی تو ہو سکتی ہیں۔ ہم جو کچھ سوچتے ہیں اس سے ہٹ کر بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ ہر معاملے میں قنوطیت پر مبنی سوچ اپنانا کسی طور پر سود مند نہیں ہو سکتا۔ ۲۰۱۵ء کا دوسرا ممکنہ منظر نامہ یہ ہے کہ معاشی معاملات میں ایک دوسرے کو قبول کرنے کی سوچ کو پروان چڑھایا گیا ہے۔ کاروباری اداروں نے بہتر اور قابلِ قبول اشتراک عمل سے ایک ایسی دنیا تشکیل دی ہے جس میں سب کے لیے بقا اور ترقی کی کچھ نہ کچھ گنجائش موجود ہے۔ چند حکومتیں ہی ایک دوسرے سے حقیقی مثبت تعاون کی بھرپور صلاحیت اور سکت رکھتی ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جس طرح کی بصیرت درکار ہے وہ پیدا کرنا ہر حکومت کی بات نہیں۔ چند بڑے بین الاقوامی کاروباری ادارے باہمی اشتراک عمل سے اپنے لیے بہتر کارکردگی کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں معاشی اور سیاسی سطح پر بدحواسی اور انتشار ہے۔ ایسے میں کارپوریٹ سیکٹر منظم ہو کر فوائد بٹور رہا ہے۔ اس منظر نامے میں پائی جانے والی دنیا مثالی قرار نہیں دی جا سکتی کیونکہ اس میں بھی بے یقینی، بدحواسی اور شدید انتشار پایا جاتا ہے تاہم دہشت گردی کا گراف قدرے گرا ہوا ہے اور بیشتر ممالک کے لیے سیکوریٹی بڑا مسئلہ نہیں۔ اس منظر نامے میں پائی جانے والی دنیا کے تمام ممالک پنپنے کی گنجائش پیدا کرنے میں ناکام ہیں۔ کاروباری محاذ پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششیں اور سازشیں نمایاں ہیں۔
ایسے میں پسماندہ ممالک کے لیے افلاس اور پسماندگی کے جنگل سے نکلنا بظاہر ممکن نہیں۔ اس دنیا میں بیشتر ممالک افلاس، تشدد اور جرائم کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ یورپ، شمالی امریکا اور آسٹریلیا کے لیے خوشخبری یہ ہے کہ پسماندہ ممالک کے بیشتر مسائل مقامی نوعیت ہی اختیار کیے رہتے ہیں۔ کسی ایک خطے کی پسماندگی سے خوشحال خطے پریشان کن حد تک متاثر نہیں ہوتے۔ امریکا اور توسیع پذیر یورپی یونین حالات کا بہتر ڈھنگ سے سامنا کرنے میں دوسرے سے زیادہ کامیاب ہیں۔ بیشتر معاملات میں یہ دونوں اپنے ہی مالیاتی اور قدرتی وسائل پر منحصر ہیں۔
بین الاقوامی تجارت کے میدان میں برآمدات پر عائد کی جانے والی مختلف پابندیوں سے جاپان، چین اور جنوب مشرقی ایشیا کی متعدد ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے شدید مشکلات پیدا ہو رہی ہیں اور ان کے معاشی فروغ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہوتی جا رہی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کی معیشتیں اس لیے بھی کمزور پڑتی جا رہی ہیں کہ متعلق حکومتیں اپنے کاروباری اداروں کی بروقت مدد کرنے سے بھی قاصر ہوتی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب دنیا کے طاقتور ترین صارف چاہتے ہیں کہ ان کی قوت خرید میں مستقل اضافہ ہی ہوتا جائے۔ وہ بیشتر قدرتی وسائل سے بھی زیادہ سے زیادہ استفادہ کررہے ہیں اور دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔
اس دنیا میں مڈل کلاس تیزی سے ابھر رہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں لوگ ایسی چیزوں کی خریداری میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں جو ان کے طرزِ زندگی میں سادگی پیدا کرے اور زیادہ سے زیادہ ضرورتوں کو پورا کرے۔ چین، بھارت، میکسیکو اور برازیل میں مجموعی طور پر دو ارب افراد مڈل کلاس کا حصہ ہیں۔ یہ لوگ اپنا معیار زندگی متوازن کرنے کے لیے صرف کا معتدل رجحان اپنائے ہوئے ہیں۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد کاریں اور اپنا ذاتی مکان خریدنے میں بہت حد تک کامیاب ہیں تاہم مجموعی طور پر کوئی انقلاب رونما نہیں ہوتا کیونکہ دنیا بھر میں معاشی مشکلات برقرار ہیں۔ معیشتیں بحرانوں پر قابو پانے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکی ہیں، حکومتیں بڑے کاروباری اداروں کو بہتر ڈھنگ سے کنٹرول کرنے میں ناکام ہیں کیونکہ کاروباری اداروں کو اچھی طرح چلانے کے لیے ماہرین بہتر پیکیج کی خاطر بڑے پرائیویٹ اداروں کا رُخ کر رہے ہیں۔
بجٹ پر بڑھتے ہوئے دبائو اور معمر افراد کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کے باعث حکومتیں صحت عامہ، فنی تربیت اور قانون کے نفاذ سے متعلق خدمات کے لیے پرائیویٹ اداروں کا رُخ کر رہی ہیں۔ پرائیویٹ اداروں کی جانب سے چونکہ عوام کے لیے فراہم کی جانے والی خدمات کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے اس لیے وہ عوام میں اپنے بارے میں پائے جانے والے تاثر کے حوالے سے بھی حساس ہو چلی ہیں۔ دوسری جانب شہری حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی سرگرمیاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں تاکہ عوام کو ان کے تمام حقوق میسر ہوں۔
تیسرا منظرنامہ
۲۰۱۵ء کے حوالے سے تیسرا ممکنہ یا متوقع منظر نامہ یہ ہے کہ امریکا اور چین غیر معمولی قوت کے حامل ہیں اور ان کی مجموعی قوت دیگر تمام ممالک اور گروپوں کی قوت سے بڑھ کر ہے۔ امریکا اور چین کی معاشی اور سیاسی قوت کو مزید مستحکم کرنے میں ان کی مستحکم آبادی نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ پیداواری شعبے میں ان کی کارکردگی اس لیے بھی بہتر ہے کہ اندرون ملک بھی اچھی خاصی کھپت کی گنجائش موجود ہے۔ اندرونی معاشی منڈی کا بڑھتا ہوا استحکام انہیں بین الاقوامی مارکیٹ میں بھی مزید بڑا کھلاڑی بنا رہا ہے۔ دونوں کے درمیان تصادم بھی ہوتا رہتا ہے تاہم مجموعی طور پر ایک دوسرے کو قبول کرنے کی فضا بھی موجود ہے۔
یہ فنی اور معاشی ترقی کا دور ہے۔ جدت کا بازار گرم ہے۔ تمام ہی ممالک اپنا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے بے تاب اور کوشاں ہیں۔ انفرادی خوشحالی کا گراف بھی بلند ہوتا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی تجارت مکمل طور پر آزاد نہیں ہو سکی ہے اور کئی خطے میں معاملے میں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، تاہم کاروباری اور مالیاتی تفاعل بہت حد تک اطمینان بخش ہے۔
۲۰۱۵ء کے تیسرے منظر نامے میں طاقتور معاشی منڈیوں کے بڑے کاروباری ادارے جدت طرازی کے ذریعے اشیا اور خدمات کا معیار بلند کر رہے ہیں تاکہ عمومی معیار زندگی بلند ہو اور طرزِ زندگی میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوں۔ خدمات کے شعبے میں کاروبار تیزی سے وسعت اختیار کر رہا ہے۔ آن لائن کلچر نے اس بات کو ممکن بنا دیا ہے کہ دور افتادہ علاقے بہتر اشتراک عمل کے ذریعے ایک دوسرے کی صلاحیت اور سکت سے مستفید ہوں۔ عالمگیر پیمانے پر پیداوار اور اس کی تقسیم قابلِ رشک حد تک ممکن ہو چکی ہے۔ صارفین کی توقعات اور مطالبات میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے جس کے باعث کاروباری ادارے اپنی مصنوعات اور خدمات کا معیار بلند کرتے رہنے پر مجبور ہیں۔ جن اشیا اور خدمات سے بہتر طور پر اور آسانی سے مستفید ہونا ممکن نہ ہو۔ صارفین ان کے لیے ذرا بھی نرم گوشہ اختیار کرنے کو تیار نہیں۔ ایسی اشیا اور خدمات کو ترک کرنے میں ذرا بھی بخل سے کام نہیں لیا جاتا جو اذکار رفتہ ہیں یا جنہیں سمجھنے اور مستفید ہونے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہو۔ ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ کسی بھی شے یا خدمت کی خریداری کے وقت اس کے ذہن میں جو توقعات تھیں وہ عملی شکل اختیار کریں۔ صارفین کی جانب سے بیشتر معاملات میں شعور کا مظاہرہ کاروباری اداروں کو اس بات کا پابند کر رہا ہے کہ اشیا اور خدمات کا معیار بلند کرتے رہنے پر توجہ دی جائے۔ ہر دور میں معاشروں کو تبدیل کرنے والے عوامل میں معاشی امور نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ معاشی معاملات طرزِ زندگی، ثقافت اور مذہبی رجحانات پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔
آنے والے زمانے کیسے ہوں گے اس کا بالکل درست اندازہ قائم کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ ماہرین جو کچھ سوچتے اور لکھتے ہیں اس کے تجزیے کی بنیاد پر جو رائے قائم کی جاتی ہے اس میں چند ایک امور کا رہ جانا بعید از قیاس نہیں۔ جن منظر ناموں کا ہم جائزہ لے رہے ہیں ان میں سے مکمل طور پر تو شاید کوئی بھی ہمارے سامنے نہ آ سکے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ہم مستقبل کے بارے میں درست اندازہ قائم نہیں کر سکتے تو اس کے بارے میں زیادہ سوچنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ مستقبل کے بارے میں سوچنا اس لیے ضروری ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں ہم اس کا استقبال غیر معمولی ذہنی تیاری کے ساتھ کر سکیں گے۔ مستقبل کے بارے میں سوچنا انفرادی سطح ہی پر ضروری نہیں ہے بلکہ اقوام کو بھی سوچنا پڑتا ہے کہ آنے والے دور کے دامن میں ان کے لیے کیا ہو گا یا کیا ہو سکتا ہے؟ بڑے کاروباری ادارے آنے والے زمانوں کے بارے میں تحقیق کے ذریعے اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے بارے میں سوچتے اور حکمت ہائے عملی تیار کرتے ہیں۔ ہر شخص، ہر معاشرہ، ہر حکومت اور ہر کاروباری ادارہ چاہتا ہے کہ اس کا مستقبل محفوظ ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لیے خود انہیں بھی اہم کردار ادا کرنا ہے۔ جن حالات کے نمودار ہونے کا وہ انتظار کر رہے ہیں ان کی تشکیل میں خود بھی مرکزی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دنیا کو ہم اگر آزاد چھوڑ دیں گے ہمارے لیے وہ یکسر غیر متوازن ہو گی۔ جب ہم اپنے بہتر مستقبل کے لیے خود کام کریں گے تو اسی دنیا میں ہمارے لیے غیر معمولی اور خاصا خوش کن توازن پیدا ہو گا۔
{}{}{}