
مارکسی فلسفۂ حیات کا اگر بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس میں بنیادی اہمیت تاریخ کی مادّی تعبیر کو حاصل ہے۔ یہی وہ اساس ہے جس پر اشتراکی فکر و عمل کی سربفلک عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ مارکس کا یہ تخیل کوئی اچھوتا نہیں اس نے اس کے ڈھانچہ کو ہیگل سے مستعار لے کر اس میں اپنی روح پھونک دی۔ اس حقیقت کا اعتراف خود مارکس نے اپنے خطوط میں کیا ہے اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم مارکس کا فلسفہ تاریخ بیان کرنے سے پہلے ہیگل کے فلسفہ تاریخ کے موٹے موٹے اصول بیان کر دیں۔ تاکہ مارکس کو سمجھنے میں کسی حد تک آسانی ہو سکے۔
ہیگل کے نزدیک تاریخ کا ہر دور ایک وحدت، ایک کل ہونا ہے۔ اس دور میں انسان کے معاشی، سیاسی، تمدنی اور اخلاقی و عقلی اور مذہبی تصورات ایک خاص مرتبے پر ہوتے ہیں۔ ان سب کے اندر ایک ہم آہنگی ہوتی ہے اور سب میں اس دور کی روح جاری و ساری رہتی ہے جب تاریخ کا قافلہ بڑھتا ہے تو آگے چل کر خود اس دور کے اپنے ہی بطن سے پرورش پاکر اس کا ایک حریف میدان میں نمودار ہوتا ہے یعنی کچھ نئے افکار، نئے رجحانات، نئے نظریات اور نئے اصول خود اس روبہ زوال دور کے طبعی تقاضے سے پیدا ہو جاتے ہیں اور پرانے افکار سے ان کی لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ کچھ مدت قدیم و جدید ایک دوسرے سے دست و گریباں رہتے ہیں۔ بالآخر کسر و انکسار کے بعد ان میں امتزاج پیدا ہو جاتا ہے اور اسی امتزاج سے ایک نئی تہذیب کا خمیر اٹھایا جاتا ہے جس میں پرانی تہذیبوں کے ’’صالح عناصر‘‘ برقرار رہتے ہیں۔ کچھ سال گزر جانے کے بعد اس کا بھی یہی حشر ہوتا ہے اور انسانی تہذیب اس طرح سفر کرتی ہے۔ اس عمل کو ہیگل جدلی عمل (Dialectical Process) کہتا ہے۔ اس سارے عمل کی اصل محرک وہ روح مطلق ہے جو اپنے ارتقاء کے لیے دنیا میں سب کچھ کرا رہی ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی شخصیتیں ’’روح مطلق‘‘ کے اشارے پر ناچ رہی ہیں اور غلطی سے یہ گمان کر رہی ہیں کہ انہیں ارادہ و اختیار حاصل ہے۔ پھر اس عمل میں فیصلہ کن جنگ افکار و تصورات کے اندر ہے۔ دنیاوی واقعات و حوادث محض اس کے پر تو ہیں عالم خارجی بذات خود کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اس کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ وہ روحِ مطلق کے سفر ارتقاء کے لیے نشانِ منزل کا کام دیتا ہے۔ چنانچہ اپنی کتاب فلسفۂ تاریخ میں وہ کہتا ہے:
’’تاریخِ عالم روح مطلق کی نمائش گاہ ہے جس طرح ایک بیج کی ساری خصوصیات ایک درخت، اس کے ثمر کے ذائقہ اور اس کی شکل و شباہت میں نمایاں ہوتی ہیں۔ بالکل اسی طرح روح ایک دور کے سارے مظاہر میں منعکس ہوتی ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ دنیا ایک آئینہ ہے جس پر روح مطلق اپنے رُخِ زیبا کا عکس ڈالتی ہے تو زیادہ صحیح ہو گا۔ چنانچہ انسانوں کی بے پناہ قوت ارادی ان کے مفادات، ان کی تگ و دو، سب کے سب اسی جانِ جہاں کے ذرائع اور آلۂ کار ہیں جنہیں وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے کام میں لاتی ہے۔ تاریخی شخصیتیں روحِ عالم کے کھلونے اور اس کے ہاتھ میں کٹھ پتلیاں ہیں۔ ان کے عزائم روح مطلق کی مرضی کا دوسرا نام ہیں۔ ان افراد کو کبھی اس حقیقت کا علم نہیں ہوتا کہ وہ اصل میں روح کے مظہر ہیں‘‘۔
مارکس نے یہ سارا تخیل، ہیگل سے لیا۔ مگر اس کے اپنے قول کے مطابق اسے الٹ کر اپنے پائوں پر کھڑا کر دیا۔ ہیگل کے نزدیک اگر مؤثر طاقت افکار میں تھی تو مارکس کی نظر میں فیصلہ کن قوت مادی ماحول میں کار فرما تھی۔ پھر مارکس کی نگاہ میں مادی ماحول میں بھی حقیقت اہمیت ذرائع پیداوار کو حاصل ہے۔ اس نے فکر کے بجائے مادی اسباب یا معاشی محرکات کو تاریخِ ارتقا کی بنیاد قرار دیا۔ اس کے یہاں انسان کی زندگی میں سب سے اہم چیز معیشت ہے اور اسی پر انسان کے اخلاقی اور مذہبی معتقدات اور اس کے تمدن اور اس کے علوم و فنون کی بالائی عمارت قائم ہوتی ہے مادی زندگی کے حوائج و ضروریات ہر زمانے میں آفرینش دولت کے مخصوص طریقے وجود میں لاتے ہیں۔ دولت پیدا کرنے کے مخصوص طریقے اس دور کی ذہنی اور سیاسی زندگی کا ہیولیٰ تیار کرتے ہیں۔ انسان کا طرزِ معاشرت اور طریقِ معیشت اس کے ذہن و شعور کے ارتقا سے متعین نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کے برخلاف انسانی ذہن و شعور کی حالت اس کی معاشرت اور طرزِ معیشت کی آئینہ دار ہی نہیں بلکہ مخلوق ہوتی ہے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’سرمایہ‘‘ میں وہ کہتا ہے۔
’’میرا جدلی عمل نہ صرف ہیگل سے مختلف ہے بلکہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہیگل کے خیال میں دنیا کا اصلی خالق فکر ہے اور حقیقی دنیا محض اس کا مظہر، میرے ہاں تخیل مخلوق ہے۔ مادّی دنیا کے پر تو کا جو کہ انسان کے دماغ پر پڑتا ہے‘‘۔ اسی طرح وہ (Critaue of Political Economy) کے دیباچہ میں سوال کرتا ہے کہ ’’وہ کون سا ایسا اصول ہے جس پر تمام انسانی تعلقات کی بنیاد رکھی گئی؟‘‘ پھر خود ہی اس کا جواب دیتا ہے کہ انسانی زندگی کا ایک مقصد جس کی لگن کسی متنفس کو چین نہیں لینے دیتی، انسانی بقا کے لیے ذرائع پیداوار کا مہیا کرنا ہے اور پیدائش کے بعد ان اشیا کا تبادلہ۔ انسان کا اولین کام زندہ رہنا ہے۔ اور اس کے بعد وہ سوچتا ہے لہٰذا معاشرتی انقلاب میں اصل قوت ابدی سچائی اور اجتماعی عدل نہیں بلکہ ذرائع پیداوار اور دولت کے تبادلہ میں اہم تبدیلیاں ہیں۔
مارکس کے فلسفہ تاریخ کی تفصیلات کو اگر فی الحال نظر انداز کر دیں اور صرف اصل کو لے لیں تو یہ مندرجہ ذیل ۸ نکات پر مشتمل ہے۔
(الف) پیدائش دولت کے عمل کے دوران میں انسان ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہیں۔ یہ تعلقات مادی قوتوں کی پیدائش ترقی کی ایک خاص منزل سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔
(ب) تاریخ کے ہر دور میں افزائش دولت کے حالات اس دور کا معاشی نظام بناتے ہیں اور یہی وہ اصل بنیادیں ہیں جن پر اخلاق اور سیاسی دساتیر کی عمارت قائم ہوتی ہے۔
(ج) سماج کی سیاسی اور علمی زندگی کا ہیولیٰ بھی انسانی احتیاجات کے مطابق صرف طریق پیدائش ہی اختیار کرتا ہے۔
(د) انسانی زندگی کی تعمیر میں اصل محرک انسانی شعور نہیں بلکہ اس کے برعکس شعور کے بنانے میں کار فرما قوت اس دور کا معاشی نظام ہے۔
(ہ) ایک زمانہ تک یہ معاشی نظام انسانی ضروریات و حاجات کی کفالت کرتا ہے۔ مگر کچھ عرصہ بعد اس نظام کے اندر سے اس کی مخالف قوتیں ظاہر ہوتی ہیں جو اس نظام کی تخریب و شکست کے درپے ہو جاتی ہیں۔ پھر ان دونوں کے مابین تنازع شروع ہوتا ہے۔ اس تنازع کے نتیجہ کے طور پر ایک نیا معاشی نظام وجود میں آتا ہے۔ لہٰذا تاریخ کے میدان میں جو لڑائیاں لڑی جاتی ہیں وہ اس دنیا میں ایک معاشی نظام اور اس کے مخالف نظام کے درمیان وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ اخلاق و مذہب، علوم و فنون اور تمدن و معاشرت سب کے سب ابن الوقتوں کی طرح اپنے زمانے کے غالب معاشی نظام کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں اور اسی کی زبان بولنے لگتے ہیں۔ ان کی حیثیت متبعین کی سی ہے۔ اخلاقی اقدار بھی معاشی نظام کی تبدیلیوں کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں اس لیے کسی ابدی قدر یا کسی حتمی اصول کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہر بات اپنے مخصوص معاشی حالات کے تحت ایک خاص وقت میں سچ ہو سکتی ہے ہر دور کا اپنا قرآن الگ ہے۔
(و) ہر نئی پود کا مزاج جدتوں کا تسلسل ہے۔ اس لیے ہر نئی تہذیب پچھلی تہذیب سے ایک قدم آگے ہی رکھتی ہے پیچھے نہیں۔
(ز) دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ عمل ارتقا اور تاریخی وجوب کے تحت ہو رہا ہے۔ انسانی تاریخ میں وجوب ہی وجوب ہے۔ امکان نام کو بھی نہیں۔
(ح) انسان نے آج تک جتنے معاشرے قائم کیے ہیں ان سب کی تاریخ طبقاتی نزاع کی تاریخ ہے۔ غلام اور آقا، امراء و جمہور، سرمایہ دار اور مزدور۔ مختصر یہ کہ ظالم اور مظلوم ہمیشہ ایک دوسرے کے مخالف ’’روٹیوں کی تقسیم‘‘ پر باہم برسرپیکار رہے ہیں۔
یہ ہیں تاریخ کے متعلق مارکس کے وہ نظریات جنہوں نے اینجل کے قول کے مطابق تمدنی تعلقات کے علوم میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا چنانچہ اس نے اس مفکر کی موت پر جن احساسات کا اظہار کیا وہ اس قابل ہیں کہ انہیں پڑھا جائے۔
R.N.Carew-Hunt اپنی کتاب The Theory & Practice of Communism میں لکھتا ہے کہ ’’جس طرح ڈارون نے فطرت میں قانون ارتقا کو دریافت کیا اسی طرح مارکس نے انسانی تاریخ میں اس قانون کو معلوم کیا۔ اس نے ایک ایسی بدیہی حقیقت کا کھوج لگایا جو نظری بحثوں میں گم ہو کر رہ گئی تھی۔ نسل انسانی کو سب سے پہلے کھانے کے لیے خوراک، پینے کے لیے پانی، رہنے کے لیے مکان اور تن ڈھانکنے کے لیے کپڑا میسر آنا چاہیے۔ اس سے پیشتر کہ وہ سیاست ، مذہب، سائنس اور دیگر فنون میں دلچسپی لے اس لیے روزی کمانے کے لیے ذرائع فراہم کرنا جن کا بیشتر انحصار ایک قوم کے حاصل کردہ معاشی مرتبہ پر ہے یہی وہ اصل بنیادیں ہیں جن پر کہ ریاستی ادارے قانونی تصورات، علوم و فنون، حتیٰ کہ مذہبی معتقدات تعمیر ہوتے ہیں۔ اور انہی کی رہنمائی میں ہمیں مختلف الجھنوں کو سلجھانا چاہیے۔
اسے دنیا کی بدقسمتی کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ مارکس نے ایسے دور میں جنم لیا جب کہ اہلِ فکر کی نظریں اہلِ کلیسا کی غلط روش اور فکری جمود کی وجہ سے روحانیت سے سمٹ سمٹا کر صرف حیات اور عالم مادّی پر جم کر رہ گئی تھیں۔ اس کے علاوہ مادّی وسائل کی کثرت نے یہ عقیدہ لوگوں کے دل و دماغ میں راسخ کر دیا کہ کائنات میں جو کچھ بھی ہے وہ صرف مادہ ہے۔ نمو، حرکت، احساس، شعور، فکر سب اسی مادہ کے خواص ہیں انسان اور حیوان میں قطعاً کوئی فرق نہیں۔ اوّل الذکر موخر الذکر ہی کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔ دونوں کے دونوں زندگی کے ہر گوشے میں قانون طبعی کے پابند ہیں۔ انسان میں نہ کوئی ارادہ ہے اور نہ اختیار۔ دنیا کی ہر چیز کی طرح یہ بھی فطرت کے قانون جبر کا پابند ہے۔ سائنس کے نشہ سے سرشار ہونے والی فکر کے اس بحران کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر وہ فلسفہ جس کا تعلق انسان کی آزادی رائے (Freewill) اور اختیار سے تھا وہ دنیا کی نظر میں حقیر سمجھا جانے لگا۔ ہر وہ عقیدہ جسے سائنس کے پیش کردہ پیمانوں سے ناپا نہیں جا سکتا تھا اور ہر وہ اصول جو علم طبیعات کے دوسرے اصولوں کی طرح قطعی اور حتمی نہیں تھا دم توڑنے لگا۔ اب کسی فلسفہ یا علم کی ترقی کی صرف ایک ہی شکل باقی تھی کہ اس کا مزاج علم طبیعات سے بہت حد تک ملتا جلتا ہو۔ اس کے قوانین بھی سائنس کی طرح حتمی ہوں اس کے مختلف شعبوں میں نہایت ہی گہرا ربط پایاجائے۔ اس میں علت اور ملول کے رشتے نہایت ہی اٹل ہوں۔ نتائج کے پیدا ہونے میں اصل اور کارفرما قوت صرف ایک ہی ہو اور باقی سب اسی کے سہارے۔ پھر نتائج ناگزیر طور پر میکانکی طریق سے معرض وجود میں آتے چلے جائیں اور اسباب و نتائج میں کوئی چیز ایسی نہ ہو جو حواسِ خمسہ کی رسائی سے بچ سکے۔ بلکہ ان کی شکل اتنی واضح اور ٹھوس ہو کہ ہم انہیں ناپ اور تول سکیں۔
یہ تھا اس فلسفۂ تاریخ کا پس منظر! مارکس نے اپنی اس منزل مقصود کو حاصل کرنے کے لیے بعض بدیہی حقیقتوں کا انکار کیا۔ اپنا مطلب حل کرنے کے لیے بے شمار تاریخی واقعات کو مسخ کر کے رکھ دیا اور ہر وہ جائز اور ناجائز طریقہ استعمال کیا جس سے اس کے فلسفہ کو کسی طرح تقویت پہنچتی ہو۔ اگر آپ ان تصریحات کا مطالعہ کریں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے تو آپ بادی النظر میں محسوس کریں گے کہ مارکس نے اپنے فلسفہ تاریخ میں اس انسان سے بحث کی ہے جو پوری طرح جبریت میں جکڑا ہوا ہے جو ایک حیوان ہونے کی وجہ سے صرف مادیت کے محور پر گھومنے پر مجبور ہے۔ جس کے اعمال و افعال کے محرکات صرف حیوانی ضروریات ہیں۔ جس کی پوری زندگی صرف ذرائع پیداوار کے سانچوں میں ڈھلتی رہتی ہے اور ان کے بدل جانے سے صرف اس کی طرزِ رہائش ہی نہیں بدلتی بلکہ معیار خیر و شر۔ معاشرتی اور سیاسی تصورات بھی بدل جاتے ہیں۔ ایسے انسان کی دنیا میں انقلابات کا اگر کوئی حقیقی خالق اور فرمانروا ہے تو صرف دولت پیدا کرنے کا طریق ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر وہ فلسفہ جو ایک انسانی زندگی کو مشین پر قیاس کرتے ہوئے اس کے اعمال کے متعلق اصول وضع کرے وہ لغزشوں اور خامیوں سے کبھی مبرا نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ میکوائر (Maclver) مارکس کی مادّی تعبیر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’معاشرتی انقلاب اور معاشی طریقوں میں رابطہ براہِ راست اتنا واضح نہیں جتنا کہ مارکسی فلسفہ تسلیم کرتا ہے۔ درحقیقت انسانی نفسیات سے عدم واقفیت نے جبری نظریۂ حیات کو جنم دیا ہے۔ مارکس نے دعویٰ کیا کہ نسلِ انسانی کے لیے سب سے زیادہ موثر چیز طریق پیداوار کی تبدیلی ہے لیکن پیداوار کے نظام میں تغیر کس طرح آتا ہے؟ مارکس اس سے کوئی بحث نہیں کرتا۔ ایک طرف وہ عادات کی پیچیدگیوں کو نظر انداز کرتا ہے۔ اور دوسری طرف انقلاب کے اثرات سے تغافل برتتا ہے۔ وہ خاندانی عصبیت اور اس سے وابستگی۔ اپنے پیشہ سے لگائو اور قوم سے تعلق سب کو معیشت کے تابع سمجھتا ہے۔ حالانکہ معاشیات تمام سماجی مسائل کو حل کرنے سے قاصر ہے۔ اس نے اپنے پیش کردہ حل میں انسانی زندگی پر بہت سے دوسرے اثرانداز ہونے والے عوامل کو یکسر نظرانداز کر دیا ہے۔ موجودالوقت معاشی تبدیلیوں کو ہی سماجی تبدیلیوں کی اصل غایت قرار دینا بہت بڑی جسارت ہے۔ حقیقت میں اس امر کے لیے قطعاً کوئی گنجائش نہیں کہ ان انقلابات کی وجہ صرف ایک معاشی تبدیلی ہی کو سمجھ لیا جائے‘‘۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ پیدائشی قوتیں جن کا مارکس اس قدر ڈھنڈورا پیٹتا ہے یہ ہیں کیا؟ یہ کس طرح معرض وجود میں آتی ہیں اور ان کی کس طریق پر نشوونما ہوتی ہے؟ یہ نسلِ انسانی کی ترقی میں حرفِ اول ہیں یا حرفِ آخر؟
پیدائشی قوتیں دراصل وہ قوتیں ہیں جن کو انسان سامان معیشت کی فراہمی کے سلسلے میں استعمال میں لاتا ہے مثلاً زرخیز زمین، دھات کے خواص فطرت کی دوسری طاقتیں یعنی سورج کی روشنی، بھاپ، بجلی اور انسانی و حیوانی قوت۔
یہ تمام قوتیں روزِ ازل سے ہی دنیا میں موجود تھیں۔ لیکن نوعِ انسانی ان سے ناآشنا تھی۔ انسان نے جب ترقی کی تو اس نے فطرت کے خزانوں کا کھوج لگا کر ان پر قبضہ کیا اور انہیں اپنی خدمت کے لیے استعمال کرنے لگا۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ فطرت کی ان قوتوں کو مسخر کرنے کے لیے سب سے زیادہ سعی انسانی عقل نے کی اگر مادّی احتیاجات کو ہی ان تحقیقات کی علّت نمائی قرار دیا جائے اور ہر نئی قوت کے معلوم ہو جانے کو محض ایک اتفاقی حادثہ سمجھا جائے تو یہ مسئلہ خاطر خواہ حل نہیں ہوتا۔ اگر ترقی کے اسباب صرف یہی دو ہیں تو آخر حیوانوں نے کیوں نہ ترقی کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں قوت فکر ناپید ہے جو کسی کام کی تعمیر کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ پھر اس کام کو سرانجام دینے کی سعادت سب انسانوں کو یکساں طور پر نصیب نہ ہوئی۔ ان میں سے چند خوش نصیب ایسے تھے جن کو فطرت نے ذہانت کی قوت سے مالا مال کر رکھا تھا اور انہوں نے اپنے رجحان طبع کے مطابق اکتشافات کیے دنیا کے واقعات تو مارکس کے نظریۂ تاریخ کے خلاف کھلا چیلنج ہیں۔ مارکس کے نزدیک پیداواری قوتیں انسان کے سیاسی معاشرتی اور مذہبی تصورات کو جنم دیتی ہیں۔ مگر تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انسان کی ذہنی استعداد، اس کی قوتِ فکر اور رجحان طبع نے پیداواری قوتوں کا کھوج لگا کر انہیں استعمال میں لانے کے لیے ابنِ آدم کو نئے نئے طریقوں سے آشنا کیا۔
مارکس اگر یہ کہتا ہے کہ انسان اپنے معاشی ماحول سے متاثر ہوتا ہے تو یہ بات کسی حد تک معقول تھی اور کسی کو اس کے تسلیم کرنے میں تامل نہ ہوتا۔ مارکس کا دعویٰ اس سے کہیں زیادہ ہے وہ پوری قوت کے ساتھ کہتا ہے کہ حالات پیداوار بحیثیت مجموعی سوسائٹی کی تنظیم کا خاکہ بناتے ہیں بلکہ یہی وہ بنیاد ہے جس پر ملکی قوانین اور سیاسی اداروں کی بالائی عمارت قائم ہوتی ہے۔ مادی زندگی کی ضروریات ہر زمانہ میں آفرینش دولت کے مخصوص طریقے وجود میں لاتی ہیں۔ دولت پیدا کرنے کے یہ مخصوص طریقے اس دور کی ذہنی اور سیاسی زندگی کا ہیولیٰ تیار کرتے ہیں۔ انسان کا طرزِ معاشرت اور طریقِ معیشت اس کے ذہن و شعور کے ارتقا سے متعین نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کے برعکس انسانی ذہن و شعور کی حالت اس کی معاشرت اور طرزِ معیشت کی مخلوق ہوتی ہے۔
مارکس کے ان الفاظ کو پڑھ کر دو نتائج ہی نکالے جا سکتے ہیں۔
(۱) مارکس کی رائے میں انسانی اعمال میں سب سے زبردست اور کار فرما محرک صرف معاشی ہے۔
(۲) پیدائشِ دولت کے خاص طریقوں میں انسانوں کے ذہنی نقش و نگار بھی ایک ہی رنگ کے ہونے چاہئیں۔
لیکن عملی زندگی میں یہ نتائج ہمارے سامنے پیش نہیں آتے۔ مثال کے طور پر ایک شخص جو افلاس کا شکار ہے ان تینوں متبادل راستوں میں سے جو چاہے اختیار کر سکتا ہے۔ وہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے چوری کر سکتا ہے، ڈاکہ ڈال سکتا ہے۔ خودکشی سے اپنی زندگی ختم کر سکتا ہے لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کر سکتا ہے اور اگر طبیعت کا میلان ہو تو کسی سیاسی جماعت میں شریک ہو کر اپنے اور اپنے جیسے ہزاروں بھائیوں کے غصب شدہ حقوق کے حصول کے لیے جان کی بازی بھی لگا سکتا ہے۔ ان مختلف راستوں میں سے وہ کون سا راستہ اختیار کرے گا اس کے متعلق خالص علم معاشیات کوئی حتمی فیصلہ نہیں دے سکتا۔ اس کا انحصار اس کے ذاتی مزاج اور اخلاق، خاندانی ماحول اور تربیت پر بھی ہے یہی حال وسیع پیمانے پر قوموں کی زندگی کا ہے۔ یونانی ریاستوں کو ۷۲۵ قبل مسیح سے لے کر ۳۲۵ قبل مسیح تک کثرت آبادی کا سامنا کرنا پڑا۔ جب یہ دبائو زیادہ بڑھ گیا تو مختلف ریاستوں نے اس پیچیدگی کو مختلف طریقوں سے سلجھایا۔ بعض ریاستوں نے اپنی زائد آبادی کو سمندر پار زمینوں پر دھکیل دیا۔ دوسروں نے اپنے پڑوسی یونانیوں کی زمینوں پر ہی قبضہ جما لیا۔ تیسرے نے زرعی پیداوار کی برآمد کو حکومت کی تحویل میں دے کر اس مسئلے کو حل کر لیا۔ ایک معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا انسان بھی جانتا ہے کہ کسی دور کے افراد یا اقوام کے خیالات میں یک رنگی کا پایا جانا قریب قریب ناممکنات میں سے ہے اور چشم فلک نے آج تک آب و گل کی دنیا میں اس خواب کو کبھی شرمندہ تعبیر ہوتے نہیں دیکھا۔ مارکس اور اس کے متبعین دوراز کار دلائل لاکر بھی اپنے اس دعوے کی تصدیق۔ جسے تصدیق کہا جا سکے۔ نہیں کر سکے اور آج تک تاویلات کی الجھنوں میں گرفتار ہیں۔ تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ وطن کی محبت، قومی روایات سے وابستگی، ایک ہی نسل و قوم ہونے کا احساس اور کسی دین و مذہب پر ایمان معاشی محرکات سے کہیں زیادہ موثر ثابت ہوئے۔ چنانچہ الیگزینڈر گرے ٹوائن بی نے اپنی کتاب The Development of Ecnomic Doctrine میں تاریخ کی مادی تعبیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
’’انسان صرف اپنے پیٹ کے بَل پر نہیں چلتا۔ بلکہ ہر قسم کے انسانی روابط اور سماجی تعلقات اور احساسات اس کو سرگرم عمل رکھتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن پر معاشی حالات کوئی اثر نہیں ڈالتے۔ بلکہ بعض اوقات وہ معاشی ماحول پر پوری شدت سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ انسانی ذہن کا دل سے نہایت ہی گہرا رابطہ ہے۔ مگر اس کی کوئی معاشی تعبیر نہیں کی جا سکتی۔ فرض کیجیے کہ ہم یہ سمجھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ ڈینٹے، کالون، مارکس، لائڈ جارج اور جارج رگبی کو کن معاشی حالات نے جنم دیا مگر اس معمہ کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں کہ آخر انہوں نے اس دنیا میں جنم ہی کیوں لیا؟ تاریخ کی تعبیر میں ہمیں احتیاط سے کام لینا چاہیے کیونکہ اس کی تعمیر میں کئی عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ جن میں معاشی عمل صرف ایک ہے اور ضروری نہیں کہ یہ سب سے اہم ہو‘‘۔
کارخانۂ حیات میں معاشیات کی اہمیت کی نفی نہیں کی جا سکتی اور نہ کوئی اپنے ہوش و حواس کو قائم رکھتے ہوئے اس کی جسارت کر سکتا ہے۔ ہمیں جو کچھ اختلاف ہے وہ صرف یہ ہے کہ تہذیب و تمدن میں جو کچھ موجود ہے وہ صرف معاشیات کی کرشمہ سازی نہیں بلکہ اس میں دوسرے عوامل بھی اسی طرح شامل ہیں۔ جس طرح کہ معاشی انسان کو جسم اور روح کے رشتہ کو قائم رکھنے کے لیے روٹی درکار ہے۔ گرمی اور سردی سے بچنے کے لیے کپڑے کی ضرورت ہے۔ سر چھپانے کے لیے وہ مکان کا محتاج ہے۔ بیماری کی حالت میں ایک معالج کا دست نگر ہے۔ مگر اس کی یہ ضروریات اور ان کے پورا کرنے کے طریقے، اس کے ذہن و شعور کی حالت کو تخلیق نہیں کرتے۔ جس طرح کہ ایک مصور کو تصویر میں رنگ بھرنے کے لیے لامحالہ انہی رنگوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے جو اس کے پاس موجود ہوں مگر اس سے کبھی یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ اس مصور کے (یہ مثال R.M.Maclver نے اپنی کتاب Society کے صفحہ ۵۶۴ پر درج کی ہے۔)رنگ ہی اس کی تصویر کے حقیقی خالق ہیں۔ تصویر سب سے پہلے مصور کے ذہن میں بنتی ہے اگرچہ اس میں شک نہیں کہ وہ اس کے خدوخال باہر کی دنیا سے لیتا ہے مگر ان کی ترتیب ان کا ذہن ہی دیتا ہے اور اس تصویر کو وہ پھر قرطاس پر لاتا ہے اور اپنے ذوق کے مطابق اس میں رنگ بھرتا ہے۔ یہ تصویر مصور کی تخلیقی ذہانت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ یہی حال ہماری زندگی کا ہے ہمیں بہرحال اسی آب و گل کی دنیا کے مادی وسائل سے اپنے لیے سامان معیشت مہیا کرنا ہے۔ مگر اس سے کبھی یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ ہمارا معاشی ماحول ہی ہماری ذہنی تخلیق کرتا ہے اور اس کے بدل جانے سے ہمارے سیاسی تصورات اور اخلاقی معیار بھی بدل جاتے ہیں بلکہ انسان کے اندر تو یہ جذبہ ودیعت کیا گیا ہے کہ وہ کائنات کی تسخیر کرے اور اس کے وسائل کو اس طرح اپنے استعمال میں لائے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔ انسانی ذہنی جہاں ایک طرف مادی ماحول کی حد بندیوں کے اندر سوچنے پر مجبور ہوتا ہے وہاں وہ مادی ماحول کو اپنی خواہش کے مطابق ڈھالنے میں جو منصوبہ بندی کرتا ہے اس میں اس کا ذہن ایک فعال طاقت کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ مادی ماحول اس کی ذہنی حالت کو جنم نہیں دیتا۔ بلکہ اس کا ذہن مادی ماحول کی عمارت کا نقشہ بناتا ہے اور پھر اس نقشہ کے مطابق عمارت تعمیر کرنے کے لیے مادی وسائل بروئے کار لاتا ہے۔
ذرائع پیداوار سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی تصورات کے کبھی خالق نہیں ٹھہرائے جا سکتے۔ انسانی شعور ان سے متاثر تو ضرور ہوتا ہے مگر ان کی مخلوق نہیں ہوتا۔ یہ حقیقت اتنی صاف اور واضح ہے کہ اس کے لیے کسی منطق یا دلیل کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ مارکس کے اپنے یار غار اینجل نے اس نظریہ کی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے اس میں کافی ردوبدل کیا۔ وہ ذرائع پیداوار کی اثر آفرینی کا زبردست قائل ہے اور انہیں انسانی تصورات کے بنانے میں بہت بڑی قوت خیال کرتا ہے مگر وہ انہیں ان تصورات کا تنہا خالق نہیں سمجھتا۔ اس نے جوزف بلوچ کو ایک خط تحریر کرتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
’’تاریخ کی مادی تعبیر کے مطابق زندگی میں فیصلہ کن عنصر پیداوار ہے۔ اس سے زیادہ نہ مارکس نے دعویٰ کیا نہ میں نے۔ اب اگر کوئی اس بیان کو توڑ مروڑ کر یہ کہے معاشی عنصر ہی اصل ہے تو حقیقت میں وہ ہمارے بیان کو غلط معانی پہناتا ہے‘‘۔
جوں جوں زمانہ گزرتا گیا۔ تاریخ کے اس نظریہ کی کمزوریاں خود بخود اس کے ماننے والوں پر واضح ہوتی گئیں۔ مگر ان کے لیے مارکس کو جھٹلانا بھی ممکن نہ تھا۔ اس لیے اس فلسفہ کی تعبیر و تشریح میں مناسب تبدیلیاں کی گئیں۔ عہدِ حاضر کے مشہور اشتراکی پروفیسر جی ڈی ایچ کول (Prof.G.D.H.Cole) نے اپنی کتاب مارکسزم کے معنی (The Meaning of Marxism) (یہ کتاب اس سے پہلے ۱۹۴۳ء میں What Marx (Really Meant) میں کہا:
سماجوں کی معاشی تنظیم میں اور سیاسی اداروں اور معاشرتی نظام میں ایک رابطہ اتحاد دریافت کیا جا سکتا ہے اور یہ سمجھنا بھی کسی حد تک آسان ہے کہ کس طرح عہدِ ماضی میں سیاسی اور معاشرتی نظام معاشی حالات کے مطابق بدلتے رہے مگر اس نظریہ کو اس حد سے بڑھانا خطرناک ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ سماج جو پیدائش کے طریقوں کے لحاظ سے ایک ہی سطح پر ہوں ان کے معاشی ادارے، خاندانی نظام، گروہی تعلقات، سیاسی اور مذہبی تنظیمیں یا اخلاقی تصورات بھی ایک سے ہوں۔ علمِ انسانیات (Anthropology) میں جو تحقیقات ہوئی ہیں وہ ہمیں بتاتی ہیں کہ کئی ایسے مختلف تمدن معرض وجود میں آئے جن کی معاشی وجہ بیان نہیں کی جا سکتی۔ اگر ان میں کوئی باہمی مناسبت موجود ہے تو وہ صرف اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ معاشرتی اداروں پر معاشی حالات اثرانداز ہوتے رہے۔ سماج کی معاشی بنیاد کو اگر سب سے زیادہ اہم بھی تسلیم کیا جائے تو یہ صرف ایک جزو (Factor) ہے۔
کوئی ہٹ دھرم سے ہٹ دھرم شخص بھی اس بدیہی حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ انسان کی بقا کے لیے سب سے پہلے اسے قوت لایموت کا میسر آنا ضروری ہے۔ روح اور جسم کے رشتہ کو قائم کر لینے کے بعد ہی وہ اخلاقی اور سیاسی معاملات پر غور و فکر کر سکتا ہے۔ اگر بات یہیں تک رہتی تو کسی فرد کو بھی اس سے اختلاف نہ ہوتا۔ مگر مارکس کا دعویٰ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ ذرائع پیداوار کو سماج کی ترتیب میں سب سے زیادہ فیصلہ کن اور مؤثر محرک سمجھتا ہے بس یہی ہے مقامِ اختلاف!!
پھر اگر غور سے دیکھا جائے تو عملی میدان میں معاشی محرکات کی اصطلاح غیر واضح اور مبہم ہے۔ مارکس کا دعویٰ یہ ہے کہ حالات پیداوار اور پیداواری قوتوں کے مابین ایک فطری ربط پایا جاتا ہے۔ یعنی پیداواری قوتیں جس منزل پر ہوتی ہیں حالات پیداوار بھی اسی منزل پر ترقی کر جاتے ہیں۔ پیداواری قوتوں سے مارکس وہ ایجادیں مراد لیتا ہے جو آفرینش دولت کے طریقوں کو بدل کر سماج کی معاشی تنظیم پر اثر ڈالتی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ترقی میں آخر وہ کون سے ایسے لمحات ہیں جو فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ کیا وہ وقت جب کوئی ایجاد معرض وجود میں آتی ہے یا جب اس کو پہلی مرتبہ استعمال میں لایا جاتا ہے۔ یا جب اس کا عام استعمال شروع ہو جائے۔ آخر کون سا موقع ہوتا ہے جب کہ اس کا اثر سماج پر نمایاں ہونے لگے مارکس کی تحریروں سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ذہن میں یہی آخری دور تھا۔ لیکن ایک بات جو سوچنے کی ہے وہ یہ ہے کہ آخر کوئی ایجاد عام کس طرح ہوتی ہے۔ دنیا کے سارے مارکسی اس بات پر متفق ہیں کہ ایک ایجاد کو عام کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ حالات پیداوار میں ایک خاص معیار تک ترقی کے ساتھ ساتھ اس کام کے جاننے والوں یا ذہین اشخاص کی کافی تعداد ایسی ہونی چاہیے جو اس کام کو جلد از جلد سیکھ سکیں۔ اس حقیقت کے تسلیم کر لینے سے مارکسی فلسفہ خود بخود غلط ہو جاتا ہے اس نقطۂ نظر سے جب ہم حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ حالات پیداوار کا انحصار پیدائشی قوتوں کی ترقی پر نہیں بلکہ پیدائشی قوتوں کا تعین حالاتِ پیداوار کی ایک خاص منزل کرتی ہے۔
مارکس نے ہیگل اور شپنگلر کی طرح اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے واقعات کا بے دریغ خون کیا۔ سب سے پہلے تو اس نے اپنے نظریات کو ثابت کرنے کے لیے زمانہ قبل از تاریخ کے حالات کو پیش کیا۔ اس عہد کے متعلق کوئی چیز بھی وثوق سے نہیں کہی جا سکتی۔ قوموں کی سماجی اور سیاسی حالت ماضی کے ایسے گہرے کہر میں گم ہے کہ کوئی متجسس آنکھ بھی اس کو صحیح طور پر ڈھونڈ نہیں سکتی۔ اس کے علاوہ وقت کی رنگینیوں نے اس کے گرد افسانہ کے اتنے رنگین پردے لپیٹ دیے ہیں کہ حقیقت کا کھوج لگانا کسی طرح بھی ممکن نہیں۔ پھر سلسلہ ہائے واقعات کے اندر سے اتنی کڑیاں مفقود ہیں کہ استخراجی طریق فکر کے مضبوط سے مضبوط درمیانی حلقے بھی اس خلا کو پورا نہیں کر سکتے۔ لہٰذا ایک مفکر کے لیے اس دور کے واقعات کو لے کر کوئی نتیجہ اخذ کرنا نہایت ہی مشکل ہے۔ بلکہ قریب قریب محال ہے۔ مارکس اور اس کے رفیق کار اینجلز نے اپنے مقدمات کی اساس ان واقعات کو ٹھہرایا جو عرصہ ہوا ماضی کے دھندلکے میں چھپ چکے ہیں۔
زمانہ قبل ازتاریخ سے دلائل دینے میں ایک فائدہ ضرور ہے اور وہ یہ کہ صاحبِ فکر اپنے ذہنی رجحانات کے مطابق ان منتشر واقعات کو جوڑ سکتا ہے۔ مارکس اور اس کے متبعین نے اپنے نظریات کو حق ثابت کرنے کے لیے یہی کچھ کیا۔ انہوں نے واقعات کو نہایت بے دردی سے مسخ کر کے دنیا کے سامنے اس طرح پیش کیا کہ انسان انگشت بدنداں رہ جاتا ہے۔ اس ردوبدل کی ایک نہیں بلکہ کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ یہاں ہم صرف ایک حوالہ بطور مثال نقل کرتے ہیں۔
تاریخ کے مادی نظریہ کے زبردست شارح اور مفسر کے قول کے مطابق خانہ بدوش قبائل میں عورت کا کوئی احترام نہیں تھا کیونکہ گلہ بانی اور جنگ و جدال میں یہ محض عضو بیکار تھی۔ لیکن جونہی دنیا میں کھیتی باڑی کا چرچا ہوا تو معاشی ماحول کی تبدیلی سے لوگوں کا صنفِ نازک کے متعلق زاویہ نگاہ بھی بدل گیا۔ اب مردوں کے دلوں میں اس کے لیے مودت اور رحمت تھی۔ اس تغیر کی اصل وجہ مارکس کے نزدیک عورت کا معاشی نقطہ نظر سے مفید ہو جانا تھا۔ کیونکہ اب وہ زراعت میں مرد کے دوش بدوش کام کرنے لگی تھی۔ غور کیجیے کہ یہ نتیجہ کتنا غلط ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ دنیا کے تمام خانہ بدوش قبائل عورت کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ ہندوستان میں ہمیشہ سے عورت کی عزت و توقیر کی جاتی رہی ہے دوسرے یہ کہ ایک نہیں بیشمار قومیں ایسی ہیں جو زراعت کو اپنانے کے باوجود عورت کو عزت سے نہیں دیکھتیں افریقہ کے بہت سے قبائل میں عورت کی حیثیت عام غلام سے کسی صورت بھی بہتر نہیں۔ پرانے جرمنوں میں بھی اس کا یہی حال تھا۔
ان تاریخی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے بھی سوچیے کہ یہ تصور کہ چونکہ عورت زراعت میں کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے باعث توقیر ہے کتنا مضحکہ خیز ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ دنیا میں عزت صرف کام کی ہے۔ لیکن کیا یہ صحیح ہے؟ دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں عزت و احترام کا دار و مدار محض ’’کام‘‘ پر ہو۔ عزت دنیا میں ہمیشہ زبردستوں کی رہی ہے۔ زبردست خواہ وہ غلام ہوں، عورتیں ہوں یا مزدور ہمیشہ سے ظلم کے وار سہتے رہے۔ جہاں تک تاریخ ہماری رہنمائی کرتی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ عورت کی عزت کا سبب وہ دینی تحریک ہے جس کو مختلف انبیاء خصوصاً سیدنا مسیح علیہ السلام نے اٹھایا اور اس کے کمزور پڑ جانے کے بعد پھر فخر موجودات ختم الرسل محمد الرسول اللہ نے اسے عرب میں زندہ کیا۔ یہ حکم کہ:
’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو۔ جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اس جان سے جوڑا بنایا۔ اور ان دونوں سے مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے‘‘۔
عورتوں کی آزادی کا چارٹر تھا۔ اس کی اشاعت کے ساتھ ہی عورت کی کمتری اور حقارت سے متعلق وہ تمام تصورات جو قدیم مذاہب اور تہذیبوں میں پائے جاتے تھے ختم ہو گئے۔ اب عورت کوئی حقیر اور نجس وجود نہ تھی یا وہ کوئی بے عقل اور بے مقصد ہستی نہ تھی۔۔۔ جاری ہے!
( ’’اسلام کا فلسفۂ تاریخ‘‘ سے اقتباس)
Leave a Reply