
اب وہ شیطان کی ایجنٹ یا گناہ کے ایک سرچشمہ کی حیثیت نہیں رکھتی تھی بلکہ یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ جس نفس واحدہ سے مرد وجود میں آیا ہے اسی سے عورت کا بھی ظہور ہوا ہے اور جس طرح انسانی معاشرہ کا ایک اہم رکن مرد ہے اسی طرح اس معاشرے کی دوسری اہم رکن عورت ہے۔ اس معاشرے کا وجود اس کی بقا اور اس کا تسلسل ان دونوں میں سے کسی ایک ہی پر منحصر نہیں ہے کہ ساری اہمیت بس اسی کو دے دی جائے اور نہ یہ بات کہ ان میں سے کسی ایک کو زیادہ اور دوسرے کو کم دی جائے بلکہ اس پہلو سے دونوں مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔ تخیل کی کوئی بڑی سے بڑی زقند بھی عورت کے متعلق مارکس کے اس نظریہ کو درست ثابت نہیں کر سکتی۔
ممکن ہے مارکسی حضرات یہ دعویٰ کریں کہ اسلام بذات خود اس دور کے معاشی حالات کی پیداوار تھا۔ اور اس نے جن افکار و خیالات کی اشاعت کی وہ سب اس دور کے معاشی تقاضے تھے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر دنیا کے مختلف مذاہب صرف معاشی ماحول کے پر تو ہیں تو ایک دور کے مذاہب میں بھی بہت حد تک ہم رنگی ہونی چاہیے۔ ان کی تعلیمات کا بھی قریب قریب ایک ہی محور ہونا ناگزیر ہے۔ لیکن تاریخ اس کی تردید کرتی ہے مارکس نے تاریخِ انسانی کو دو نئے ادوار میں منقسم کیا ہے۔ اس کے مطابق رومی اور دورِ اوّل کے مسلمان جس معاشی ماحول میں رہتے تھے وہ ایک تھا۔ یعنی غلامی کی ملکیت کا دَور۔ اس لحاظ سے پیدائش دولت کے طریقے میں کافی حد تک یکسانیت تھی اور تقسیمِ دولت کا طریق بھی قریب قریب ایک جیسا تھا۔ مارکس کے نظریہ کے مطابق دونوں اقوام کو اخلاق کی بھی ایک ہی سطح پر ہونا چاہیے تھا۔ لیکن تاریخ کے واقعات اس کے ہمنوا نہیں۔ تاریخ کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ مسلمانوں کے اخلاق رومیوں سے بہت مختلف تھے۔ مثال کے طور پر دیکھیے کہ رومیوں اور مسلمانوں کا اپنے غلاموں کے ساتھ کیا سلوک تھا۔ اگرچہ غلامی دونوں قوموں میں جائز تھی لیکن اس کے باوجود ان کی نوعیت میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ اسلام نے اخلاقی تربیت اور قانونی مشینری کو کام میں لاکر غلاموں پر ظلم و استبداد کرنے کے سب راستوں کو مسدود کر دیا۔ ان کو حیوانیت کے پست درجے سے اٹھا کر انسانیت کے زمرے میں داخل کیا۔ اہلِ اسلام کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے غلاموں کو بھی وہی غذائیں کھلائیں جو خود کھاتے ہیں اور وہی پہنائیں جو خود پہنتے ہیں اور ان سے ایسا کام نہ لیں جو ان کی طاقت سے باہر ہو اور نبی آخر الزماں کو اس کی اتنی فکر تھی کہ دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے آخری وصیت جو فرمائی وہ الصّلوٰۃ! الصّلوٰۃ !! وما ملکت ایمانکم!!! یعنی نماز اور لونڈی غلام کے حقوق تھے۔ اس کے برعکس اسی معاشی دور میں رومیوں نے غلاموں کو ستم کے ایسے سخت شکنجوں میں کَس رکھا تھا جن کی یاد سے آج بھی جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ سماج کی ایک نہج پر معاشی ساخت میں ایک ہی طرح کے طریق پیداواری کے استعمال میں اور ایک ہی قسم کے ملکیتی تعلقات کی حدود میں رہتے ہوئے اس عظیم اختلاف کی وجہ کوئی معمولی نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے اسباب اور تھے۔ دونوں قوموں کے آدرش (Ideal) میں فرق تھا جن کے حاصل کرنے کے لیے دونوں جدوجہد کر رہی تھیں اور دونوں کی جدوجہد کے راستے بھی بالکل الگ تھے۔
ہر قوم اور ہر فرد کو پورا اختیار حاصل ہے کہ وہ جو نصب العین چاہے اختیار کرے اور جس راہ پر چاہے گامزن ہو۔ دنیا میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ مختلف افراد او اقوام نے ایک سے معاشی حالت میں رہ کر بھی زندگی کی مختلف راہیں اختیار کیں۔ اگر امراء صرف اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے زندہ ہیں تو آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ اشتراکیت کے اولین داعی، مزدوروں کی تحریک کے بڑے بڑے سرگرم کارکن سب کے سب اونچے طبقے س چھٹ کر آئے۔ معاشی ماحول کی اثر آفرینیوں کو فی الحال جانے دیجیے آپ دیکھیں گے کہ بعض اوقات ایک ہی گھر میں پرورش پانے والے اور ایک ہی معلم کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرنے والے بچے متضاد رجحانات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مستثنیات ہیں۔ مگر ان مستثنیات کی اتنی مثالیں ہیں کہ ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ان کے موجود ہوتے ہوئے تاریخ کے متعلق کوئی عالمگیر نظریہ پیش نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ کارل فیڈرن نے اپنی کتاب The Materialist Conception of History میں لکھا ہے۔ ’’یہ مستثنیات ہی انسانی ترقی اور ارتقاء میں سب سے زیادہ اہم ہیں اگر آئیڈیالوجی صرف ماحول ہی کی پیداوار ہے تو سارے انسانوں کے جو ایک ہی ماحول میں رہتے ہیں ان کے حالات و مقاصد بھی لامحالہ ایک ہی ہونے چاہئیں اور ان حالات کے ہوتے ہوئے یہ ناممکن ہے کہ ایک ہی طبقہ سے، ایک ہی طرح کے لوگوں سے،ایک ہی خاندان کے افراد سے، بہنوں اور بھائیوں کے پہلو بہ پہلو زبردست انقلابی مفکرین پیدا ہوں‘‘۔ اسی کتاب میں ایک اور جگہ لکھتا ہے کہ:
’’انسان بلاشبہ ماحول سے متاثر ہوتا ہے۔ مگر اس کے اثر کی نوعیت کا تعین مشکل ہے۔ ماحول کے فرد پر اثرات کا زیادہ انحصار فرد کی شخصیت پر ہوتا ہے مختلف انسان ایک ہی قسم کے واقعات سے مختلف قسم کے اثرات قبول کرتے ہیں۔ بعض لوگوں پر معمولی حادثات کا زبردست ردّعمل ہوتا ہے اور بعض پر اسی قسم کے حالات خفیف سے خفیف اثر بھی نہیں ڈالتے۔
ایسے انسانوں کا وجود جنہوں نے اپنی نسل کو نئے نئے خیالات بخشے جنہوں نے نہایت نازک حالات میں قوم کی رہنمائی کی۔ اس وقت کے معاشی حالات کا رہینِ منت نہیں ہے۔ اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ یہ پیداواری قوتوں کی ترقی کا نتیجہ ہے یا معاشی ماحول کا تقاضا کہ کانٹ، نیوٹن، روسیو، گوئٹے اور نپولین پیدا ہوئے جن کا اثر اقطاعِ عالم میں مدتوں رہا۔ تو اس شخص کو یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ ان لوگوں کی ایک خاص وقت میں پیدائش کی کیا وجہ تھی۔ یہ ثابت کیے بغیر مارکس کی مادی تعبیر درست نہیں ہو سکتی۔
( ’’اسلام کا فلسفۂ تاریخ‘‘ سے اقتباس)
Leave a Reply