
انیس فروری ۲۰۰۱ء کو ترکی کے ۱۰ویں صدر احمد نجدت سیزر نے قومی سلامتی کے ایک اجلاس کے دوران وزیراعظم کے سامنے ترک آئین کی کاپی لہراتے ہوئے آئین میں شامل اپنے اختیارات پر اصرار کیا، جواب میں حکومت نے ترک صدر کو یاد دلایا کہ حقیقت میں وہ صرف صدر ہیں جنہیں انہوں نے ہی منتخب کیا ہے، اس واقعہ کے ایک گھنٹے کے اندر شدید معاشی بحران نے جنم لیا، سود کی شرح میں ۸۰۰۰ فیصد اضافہ ہوا، اسٹاک ایکسچینج مارکیٹ ۵ء۱۴ فیصد تک گر گئی، فوری طورپر مرکزی بینک کے ذخائر ۶ء۷؍ارب ڈالر کم ہوگئے۔ مہنگائی کا طوفان آگیا اور عوام کی قوت خرید ڈرامائی طور پر ختم ہوگئی۔ صدر اور وزیراعظم کا تعلق بائیں بازو سے ہونے کے باوجود دونوں رہنماؤں کی متضاد سیاست ملک میں بدانتظامی کا سبب تھی، جس کا نتیجہ معاشی بحران کی صورت میں نکلا، یہ صرف معاشی بحران ہی نہیں بلکہ حقیقت میں پورے نظام کا بحران تھا، یہ ترکی کی سیاسی تاریخ کا منفرد بحران تھا جس کے بہت سنگین نتائج تھے، نوے کی دہائی کے آغاز میں صدر سلمان ڈیمرل اور وزیراعظم ترگت اوزال کے درمیان ہونے والی لڑائی میں دونوں کا اپنا کردار تھا، صدر اور وزیراعظم کے درمیان تصادم کی مثالیں جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کے دور میں بھی ملتی ہیں۔ ۱۹۳۷ء میں مصطفیٰ کمال کی موت سے ایک سال قبل وزیراعظم عصمت انونو صدر سے تعلقات خراب ہونے پر مستعفی ہوگئے تھے، اگرچہ ترکی میں آئینی ترمیم کے لیے ہونے والی ووٹنگ پر بحث کو صدر طیب ایردوان کی شخصیت سے جوڑ کر ان ترمیم کی اہمیت کم کی جارہی ہے، حقیقت میں تجویز کردہ آئینی ترامیم حکومتی امور چلانے میں درپیش مسائل کو حل کرنے کی کوشش ہے، جن مسائل نے ترکی کو دہائیوں سے یرغمال بنا کر رکھا ہے، اب ترکی کو جمہوری عمل کے ذریعے کسی ایک بات کا انتخاب کرنا ہے، ترک پارلیمان پہلے ہی تجویز کردہ آئینی ترمیم نافذ کرنے کی منظوری دے چکی ہے اور اب ریفرنڈم میں ترک عوام کی جانب سے آئینی ترمیم کی توثیق کا انتظار کیا جارہا ہے، ترکی کے لیے پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام میں منتقل ہونا ایک جمہوری عمل ہے، ماضی میں ترک سیاست میں صدر اور وزیراعظم کے درمیان کئی بار لڑائی دیکھنے میں آئی، اس دور میں لاحاصل اتحاد پر اتحاد قائم کرنے کے ساتھ ملک کا قیمتی وقت اور وسائل بھی برباد کیے گئے۔ کمزور سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد ایک ماہ کے اندر تحلیل ہوجاتا تھا، سیاسی جمود اور غیر ضروری انتخابات کا انعقاد بھی معیشت پر بوجھ تھا، گزشتہ ۱۵ برسوں میں میری نسل کے تمام نوجوانوں نے ترکی میں بڑی تبدیلیاں دیکھی ہیں، ان برسوں میں ہماری زندگیوں میں آنے والی بہتری اور قوم کو حاصل کامیابیوں پر ہماری نسل کو فخر ہے، ہمیں مستقبل میں مزید بہتری کی امید بھی ہے، ۱۵ سال پہلے کرد شہریوں کا سرکاری سطح پر اپنی زبان استعمال کرنا غیر قانونی تھا، وہ اپنی زبان اسکولوں میں نہیں پڑھا سکتے تھے اور نہ ہی عدالتوں میں اپنی زبان میں گواہی دے سکتے تھے، کرد ثقافت کے عوامی سطح پر اظہار پر پابندی لگا دی گئی تھی، یہاں تک کرد خود اپنی قومی شناخت سے انکار کرتے تھے، مگر گزشتہ ۱۵ برسوں میں ہونے والی وسیع اصلاحات کے بعد اب کرد زبان اور ثقافت ترکی کی قانونی، سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کا لازمی حصہ ہے۔ یہ ساری بہتری ایک عوامی سطح پر مقبول قیادت اور مضبوط حکومت کی وجہ ہی سے ممکن ہوسکی، جو زبردست ویژن بھی رکھتی ہے اور خوشحالی کا لمبا سفر جاری رکھنے کے لیے جس کی ترکی کو ضرورت بھی ہے۔
گزشتہ ۱۵ سالوں میں وسیع اصلاحات کے علاوہ فوج اور سویلین کے درمیان تعلقات کو ریگولیٹ کرنا اہم قدم تھا، اس سے قبل فوج کو ترکی کی سیاست میں مکمل غلبہ حاصل تھا، مگر پھر مسلسل انتخابات کرائے گئے اور بہت سی اصلاحات کی گئیں، اداروں نے جمہوری اقدار کو اپنا لیا، جمہوری اداروں سے فوج کا غلبہ کافی حد تک ختم ہوگیا ہے، سپریم کورٹ کی صرف چند نشستوں پر پرانے دور کی باقیات بچی ہیں، جن کو بھی آئین میں ترمیم کے ساتھ جلد ختم کیا جاسکتا ہے، گزشتہ ۱۵ برسوں میں ہم نے سیاسی اور اقتصادی میدان میں بہت زیادہ ترقی کی، جس نے ماضی کے کرپٹ نظام کا پول کھو ل دیا، ترکی اُن چند نیٹو ممالک میں شامل ہے جہاں گزشتہ دو دہائیوں میں اقتصادی ترقی کی شرح انتہائی بلند رہی، اس دوران ریاست نے عوام پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کے بجائے لوگوں کی خدمت کی نئی مثال قائم کی، اس کے ساتھ جمہوریت، آزادی اور شخصی آزادی کو فروغ حاصل ہوا، آئینی ترمیم کے لیے ہونے والے ریفرنڈم کی وجہ کیا ہے اور آگے کیا ہوگا؟ سب سے پہلے ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے کہ کیا ہم ایک ایسا آئین چاہتے ہیں جو بغاوت کے بعد فوج نے تیار کیا تھا یا ہم عوام کے منتخب نمائندوں کی طرف سے بنائے گئے آئین کو پسند کریں، ادارے اب بھی اس حکم نامے کے پابند ہیں، جس کے ذریعے ۲۰۰۷ء میں حکمراں جماعت کے صدارتی امیدوار کا انتخاب روکنے کی کوشش کی گئی، یہ ریفرنڈم ترک سیاست کے مستقبل کی قسمت کے لیے فیصلہ کن ہوگا، جس کے بعد صدر کو اکثریت کے ووٹ کے ذریعے منتخب کیا جائے گا۔
۱۰؍اگست ۲۰۱۴ء کو ترک عوام نے پہلی بار مقبول ووٹ سے صدر کا انتخاب کیا، مگر اس تبدیلی نے نیا ابہام پیدا کیا، اب عوام صدر اور وزیراعظم دونوں کا انتخاب کرتے ہیں اور دونوں کو حکومت کرنے کا ایک جیسا قانونی جواز حاصل ہے، اگر صدر اور وزیراعظم کا تعلق ایک ہی جماعت سے ہوا تو بھی یہ مستقبل میں اختلافات کا نسخہ ہے، اس نئی آئینی ترمیم کا مقصد ریاست کے دو اعلیٰ ترین عہدوں کے درمیان تصادم کو روکنا ہے، ایک ایسا نظام جس میں انتظامیہ، عدلیہ اور پارلیمنٹ مکمل طور پر الگ ہو، مجوزہ ترمیم کے تحت مستقبل میں صدر ہر ۵ برس بعد ووٹر کا سامنا کرے گا اور امریکا کی طرح صرف دو بار صدر منتخب ہوسکے گا، پارلیمنٹ کو صدر کے خلاف کسی بھی جرم کے شبے میں تحقیقات شروع کرنے کا اختیار حاصل ہوگا، اس وقت صدر کو کسی بھی عدالتی کارروائی کے خلاف مکمل آئینی تحفظ حاصل ہے، ملک کے صدر سمیت کسی بھی شخص کو قانون سے بالاتر ہونا چاہیے، موجودہ قانون کو منسوخ کرنے کے لیے ترمیم نمبر ۹ کے الفاظ ہیں کہ ’’جمہوریہ کے صدر کے دستخط سے جاری حکم اور فیصلے کے خلاف کسی بھی عدالت میں اپیل نہیں کی جاسکے گی‘‘ تجویز کردہ ترمیم کے الفاظ ہیں ’’صدر کے خلاف کسی بھی جرم کے الزام میں تحقیقات شروع کرنے کے لیے گرینڈ نیشنل اسمبلی کی جانب سے واضح اکثریت سے منظوری دیا جانا ضروری ہے، تحقیقات کا آغاز ہونے کی صورت میں، پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کی متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ۱۵ رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جو صدر سے تحقیقات کرے گی۔ گرینڈ نیشنل اسمبلی کے ارکان خفیہ رائے شماری کے ذریعے دو تہائی اکثریت سے صدر کو سپریم کورٹ بھیجنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں‘‘، صدارتی اختیارات کو مندرجہ ذیل پابندیوں سے محدود کیاگیا ہے، ’’آئین کے تحت بنیادی حقوق، ذاتی حقوق، فرائض اور سیاسی حقوق کو صدارتی حکم نامے کے ذریعے پابند نہیں کیا جاسکتا، اگر صدارتی حکم نامے اور قانون میں کوئی تضاد ہوگا تو قانون کو ترجیح دی جائے گی، اگر گرینڈ نیشنل اسمبلی نے کسی معاملے پر کوئی قانون منظور کرلیا تو صدارتی حکم نامہ نافذ نہیں ہوگا‘‘ قانون سازی کا اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے پاس رہنے کو یقینی بنایا گیا ہے، موجودہ پارلیمنٹ کے ارکان کی تعداد ۵۵۰ ہے جو بڑھ کر ۶۰۰ ہوجائے گی، اس کے ساتھ ہی پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے کے لیے عمر کی حد میں بھی کمی کی تجویز ہے، پارلیمنٹ کا رکن بننے کے لیے عمر کی حد ۲۵ برس سے کم ہوکر ۱۸برس ہوجائے گی، جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ تجویز کردہ آئینی ترمیم سول اور ملٹری تعلقات کو بھی ریگولیٹ کرے گی اور غیر جمہوری فوجی قواعد و ضوابط کو تبدیل کر دیا جائے گا۔
ترکی نیٹو کا واحد رکن ملک ہے جہاں فوجی افسران سپریم کورٹ میں خدمات انجام دیتے ہیں، آئین میں ترمیم کے بعد فوج کی سپریم کورٹ میں نشستیں ختم ہوجائیں گی، فوج کا دائرہ اختیار بھی ریگولیٹ کیا جائے گا، یعنی فوجی عدالتوں کا دائرہ اختیار سول عدالتوں کو منتقل کر دیا جائے گا، سپریم ملٹری کونسل کے فیصلوں پر عدالتوں کو نظر ثانی کا اختیار حاصل ہوگا، ترک مسلح افواج کا آڈٹ ریاست کے سپروائزری بورڈ سے کرایا جائے گا، فی الحال سپروائزری بورڈ مسلح افواج کو چھوڑ کر سارے سرکاری اداروں کا آڈٹ کرنے کا اختیار رکھتا ہے، عدلیہ کے حوالے سے آئینی ترمیم میں ججوں اور پراسیکیوٹرز کی نئی مشترکہ اعلیٰ کونسل تشکیل دینے کی تجویز دی گئی ہے، نئی اعلیٰ کونسل ۱۳ ممبران پر مشتمل ہوگی، کونسل کے ۴؍ارکان صدر اور ۷؍ارکان کو پارلیمنٹ کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، وزیر قانون کونسل کے سربراہ اور وزارت قانون کے انڈر سیکرٹری کونسل کے مستقل رکن ہوں گے، نئی کونسل کی ساخت یورپی ممالک میں موجود اپنے ہی جیسے اداروں کی طرح تشکیل دی گئی ہے، مثال کے طور پر برطانیہ میں کونسل کے تمام اراکین کو وزیر قانون کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے، اسپین میں تمام اراکین کو پارلیمنٹ کی تجویز کے بعد بادشاہ کی جانب سے مقرر کیا جاتاہے جبکہ سویڈن میں تمام اراکین کو حکومت کی جانب سے مقرر کیا جاتا ہے، ججوں اور پراسیکیوٹرز کی کونسل کا انتظامی ادارہ ہونے پر توقع کی جاتی ہے کہ اس کے تمام ممبران کی تقرریوں کا اختیار منتخب حکومت کے پاس ہو۔ تجویز کی گئی آئینی ترمیم ترکی کے مستقبل کی مجموعی سمت کا پتا دیتی ہے، ترکی ایک ایسے ملک میں تبدیل ہو جائے گا جہاں ہر شخص سیاسی جماعت بنا سکتا ہے، پارلیمانی انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے اور ملک کا صدر منتخب ہوسکتا ہے۔ ترک عوام اب مزید کوئی فوجی بغاوت برداشت نہیں کریں گے اور نصف آبادی کے ساتھ دوسرے درجے جیسے شہریوں کا سلوک مسترد کر دیں گے، یہاں ابھی اور بہت سی اصلاحات کی جانا باقی ہیں مگر اس ترمیم سے ایک بہتر آئین کی راہ ہموار ہوگئی، جو عوامی ضرورتوں اور خواہشات سے ہم آہنگ ہوگا، کیا ہم نے کبھی متفقہ حمایت کے ساتھ ایک مکمل آئین تشکیل دیا ہے، جو کام کبھی تاریخ میں دوسری قومیں نہیں کر سکیں، ہم بھی نہیں کر سکیں گے۔ افسوس کہ بہتری کی گنجائش اب بھی موجود ہے اور اس کے لیے ہم انتھک محنت کرتے رہیں گے، جمہوریت محض ایک امکان نہیں ہے بلکہ یہ لوگوں کی قابلیت کو آزاد رکھنے کا ایک بہترین طریقہ ہے، یہ امن کی بہترین ضامن ہے، یہ خوشحالی حاصل کرنے کا یقینی راستہ ہے، دنیا میں کسی بھی دو ممالک میں جمہوریت کے ایک جیسا ماڈل موجود نہیں ہے، ترکی کا نظام ترکی کے لیے منفرد ہو جائے گا، جیسے امریکا کا نظام امریکا کے لیے منفرد ہے اور سویڈش نظام سویڈن کے لیے، وغیرہ وغیرہ۔ ترکی کا موجودہ نظام جمود اور بحرانوں کا سبب ہے، ہم کئی مرتبہ نظام کی اصلاح کرنے کا جائزہ لے چکے ہیں، مگر ہم پر ایک ایسا صدارتی نظام واضح ہوچکا ہے جس کے تحت صدر کو اکثریت کے ووٹ سے منتخب کیا جائے گا، طاقتور گروپوں کو ایک امیدوار نامزد کرنے کے لیے ایک دوسرے سے سمجھوتا کرنا پڑے گا اور اس امیدوار کی جیت کے لیے ۵۰ فیصد سے زیادہ عوامی ووٹ کی حمایت حاصل کی جا سکے گی، پارلیمنٹ جہاں پارٹیوں کے درمیان ساتھ چلنے کی روایت موجود نہیں، جس کا نتیجہ ڈیڈ لاک کی صورت میں نکلتا ہے اور وہ اپنی اس ہٹ دھرمی کے ساتھ عوام کو کچھ بھی دینے میں ناکام رہتے ہیں، ترقی یافتہ ممالک کو پارلیمانی نظام اس خطرناک صورتحال سے محفوظ نہیں رکھتا۔
بلجیم میں سیاسی جماعتیں ۱۱۔۲۰۱۰ء کے دوران ڈیڑھ برس تک ایک اتحاد قائم کرنے میں ناکام رہیں اور اس بحران کے دوران ایک عبوری حکومت کام کرتی رہی، ایسی صورتحال کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں برداشت نہیں کی جاسکتی ہے، ترکی میں منتخب حکام کی ذمہ داری ہے کہ عوام پر حکومت عوام کے ذریعے کے نظریہ پر اس کی روح کے مطابق عمل کریں۔
ہم امید اور جوش کے ساتھ آگے کی طرف دیکھ رہے ہیں، جہاں ترکی گزشتہ ۱۵ سال کے دوران بڑی مشکل سے حاصل کامیابیوں کا سفر جاری رکھے گا، یہ ریفرنڈم اس راستے کا سنگ بنیاد بن جائے گا، یہ سب ترکی، ہمارے عوام کی مرضی، ہماری جمہوریت کے لیے خواہش، انتخابات کے ذریعے منتخب قائدین کا احتساب، قانونی عمل اور شفافیت کے بارے میں ہے۔
(مضمون نگار ترکی کے ایوان صدر میں محکمۂ خارجہ تعلقات کی سربراہ ہیں)
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“‘Turkey’s referendum: A democratic quest”. (“aljazeera.com”. April 10, 2017)
معلوماتی اور قابل غور