
واشنگٹن کے بروکنگز انسٹی ٹیوٹ نے چند ماہ قبل ڈاکٹر اسٹیفن کوہن کی ۳۶۷ صفحات پر مشتمل کتاب ’’پاکستان کا تصور‘‘ شائع کی ہے‘ جو شروع کرتے ہی قاری کی مکمل توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر کوہن نے اس کتاب میں جہاں ایک طرف پاکستان کے تصور پر گہری نظر ڈالی ہے‘ وہاں دوسری طرف ریاستِ پاکستان پر بھی۔ تاہم شاید اس میں اہم ترین اس کے دو آخری ابواب ہیں جو پاکستان کے مستقبل اور امریکا کے پاس اس سلسلے میں کیا راستے ہیں‘ پر مشتمل ہیں۔
پاکستان کے تصور کا عہد ۱۹۴۰ء کی دہائی کا تھا‘ جب ہندوستانی مسلمانوں کو اپنے تحفظ کے لیے ایک ایسے وطن کی ضرورت محسوس ہوئی جہاں وہ اپنی ثقافتی اور ’’تہذیبی‘‘ قسمت کا تعین کر سکیں۔
بطورِ ریاست پاکستان ایک فوجی ریاست کے طور پر ابھرا‘ جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور جس کی نشوونما کے دوران ایک ناہموار معاشی ترقی‘ سیاسی انتشار اور فرقہ ورانہ تشدد کا خاصہ رہی ہے۔
جہاں تک مستقبل کا تعلق ہے تو مصنف یہ سوال اٹھاتا دکھائی دیتا ہے کہ ’’آیا (اس ریاست کی) ناکامی ایک طاقتور امکان ہے اور اگر ہے تو کیا پاکستان آہستہ آہستہ ٹوٹے گا یا اچانک دھڑام سے گر پڑے گا۔ آیا یہ ایک غیرقانونی ریاست میں بدل کر دنیا بھر کے لیے ایک خطرہ بن جائے گا یا یہ ایک ایسی ریاست میں تبدیل ہو جائے گا جو اپنے اور اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ پُرامن طور پر رہ سکے؟‘‘
پاکستان کے تصور میں برطانوی ہندوستان کے مسلمانوں کے جداگانہ تشخص میں ایک عنصر اس ہندوستانی ثقافت کا تھا جس کا مطلب تھا کہ یہ جنوب ایشیائی مسلم مملکتوں کی توسیع تھی جس میں جہاں برطانوی راج کے کچھ اجزا شامل تھے۔ وہاں اس کا مرکزی ایشیائی ریاستوں اور مسلم دنیا سے تعلق شامل تھا یعنی اس کی طرزِ حکومت جمہوری‘ روشن خیال اور ترقی پسند ہو گی۔
ڈاکٹر کوہن کے الفاظ میں پاکستان کی تحریک میں شامل کسی بھی فرد نے یہ ’’خواب تک نہ دیکھا تھا کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے سخت دشمن بن جائیں گے اور پاکستان پر حکمرانی فوج کی ہو گی‘‘۔
بطورِ ریاست پاکستان جناح کے تصور سے بہت مختلف بنا دیا گیا۔ اگر جناح آج زندہ ہوتے تو پاکستان کے ابھرنے والے حکمران طبقات جو فوج‘ نوکر شاہی اور وڈیرہ شاہی کے گٹھ جوڑ پر مشتمل ہے اور جس پر فوج کی سیاسی طاقت‘ اسلام پسندوں کا غیرمتناسب اثر‘ مشرقی حصے کا علیحدہ ہو جانا اور لڑکھڑاتی معیشت کو دیکھ کر ان کا دل ٹوٹ جاتا۔
’’کشمیر پر پاکستان کی پچاس برس سے زیادہ لمبی رٹ نے بطورِ ریاست اس کے امکانات کو بہت نقصان پہنچایا‘‘۔ کشمیر پر پاکستان کے پاس ایک فوجی لائحہ عمل تو موجود رہا لیکن سیاسی لائحہ عمل کبھی نہ تھا۔
کتاب میں مصنف نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کیسے ۱۹۵۳ء سے فوج نے اپنی سیاسی طاقت کی توسیع کی اور وزراے اعظم اور صدور کی برطرفیوں کا ذریعہ بنی۔ فوج کی توسیع پسندی کو روکنے کے لیے بھٹو نے کئی اقدامات کیے اور پاکستان کا جوہری پروگرام دراصل فوج کے اس دعوے کی اہمیت کم کرنا تھا کہ فوج ہی پاکستان کا اصل دفاع ہے۔ مشرقی پاکستان میں فوج کے کردار پر لکھی جانے والی حمودالرحمن کمیشن رپورٹ کا مقصد فوج کی رسوائی تھا۔ اس کمیشن نے جو سفارشات پیش کی تھیں‘ ان میں ان جرنیلوں پر مقدمات چلانا بھی شامل تھا جن پر بذریعہ بغاوت ایوب کی حکومت کی برطرفی کے الزامات شامل تھے۔
فوج پر قابو پانا
’’فوج کی توسیع پسندی کو روکنے کے لیے بھٹو نے کئی اقدامات کیے اور پاکستان کا جوہری پروگرام دراصل فوج کے اس دعوے کی اہمیت کم کرنا تھا کہ فوج ہی پاکستان کا اصل دفاع ہے‘‘۔
فیڈرل سکیورٹی فورس کے قیام کا مقصد سول معاملات میں فوج کی مداخلت کے امکانات کو کم کرنا تھا۔ فوج کے اس دعوے کا مقابلہ کہ ’’فوج دشمن کے خلاف ملک کا واحد دفاع ہے‘ علاقائی سطح پر‘ چین کے ساتھ ایک مدبرانہ اتحاد کی نئی راہ‘ ڈھونڈھ کر کیا۔ پاکستان کا امریکا پر دفاعی انحصار اور اس سے فوجی تعلقات کم کرنے کے لیے بھٹو نے پاکستان کے تصور کو ایک ’’غیرجانبدار ملک‘‘ کے طور پر آگے بڑھا کر کیا۔ بھٹو نے سی ایس پی کے ادارے کو ختم کیا تاکہ حکومتی اداروں میں پنجاب اور فوج پسند عناصر کا اثر و نفوذ کم کیا جاسکے۔
تاہم یہ تمام اقدامات فوج کے اثر و نفوذ کو کم نہ کر سکے اور اسے پھانسی کی سزا سے بچانے میں بھی ناکام رہے۔
پاکستان کی امریکی حمایت کی ایک بڑی وجہ علاقائی مفادات تھے جس کی وجہ سے اس نے ہر فوجی حکومت کو سہارا دیا‘ خواہ وہ ایوب‘ یحییٰ اور ضیاء کی رہی ہو یا اب مشرف کی۔
۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۹ء کی دہائی میں چار انتخابات ہوئے اور ان پر عوام کی مایوسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر انتخابات پر ووٹوں کی تعداد کم ہوتی گئی۔ پاکستانی عوام جمہوریت کے نام پر تھوڑی سی بہتر حکومت پر بھی تیار تھے انہیں دونوں میں سے کچھ نہ ملا۔
تاہم ڈاکٹر کوہن نے جو بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے جنوبی ایشیائی شعبے کے سربراہ ہیں اور انتہائی محترم ’’تھنک ٹینک‘‘ سمجھے جاتے ہیں‘ فوج کو کئی کار ہائے نمایاں کے لیے سراہا ہے۔ وہ پاکستان کو ایک ایسی ریاست کہتے ہیں جو صرف ایک ہی ٹانگ پر کھڑی ہے اور یہ ٹانگ فوج ہے۔ ان کے مطابق پاکستان میں فوج ہی واحد اہم ترین سیاسی قوت ہے۔ پاکستان میں یہ ایک مقبول محاورہ ہے کہ ملک کا سربراہ بننے کے لیے تین کا کرم ضروری ہے اور وہ ہیں اﷲ‘ آرمی اور امریکا۔ ایک اور پاکستانی محاورہ یہ ہے کہ فوج ملکوں کے لیے ہوتی ہے لیکن ہماری فوج کے لیے ملک بنا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی فوج سیاسی قوت کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں ایک وسیع کمرشل اور صنعتی حصے اور زرعی اور شہری جائیداد کی ملک ہے۔ ڈاکٹر کوہن کے الفاظ میں ’’قطعِ نظر اس سے کہ ملک میں کیا ہونا چاہیے‘ فوج ہی یہ حد طے کرتی رہے گی کہ کیا ہو گا‘‘۔
اس لیے وہ ان خدشات کو خواہ مخواہ کی خطرے کی گھنٹی بجانا کہہ کر رد کر دیتے ہیں کہ اگر مشرف نہ رہے یا مار دیے گئے تو علم دشمن اور انتہا پسند کی جماعتیں اقتدار پر قبضہ کر لیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس صورت میں کوئی اور جرنیل ان کی جگہ لے لے گا اور مُلّا اس کے آگے سر جھکاتے رہیں گے۔
ڈاکٹر کوہن کا کہنا ہے کہ ’’ایک ایسی جمہوریت جس میں فوج پر سول اداروں کا مکمل اختیار ہو‘ اس وقت تک ناممکن ہے جب تک پاکستان کی علاقائی صورتحال کا پلڑا کسی ایسی سمت میں نہ جھک جائے کہ فوج ریاست کی سرپرستی کے کردار سے پیچھے ہٹ جائے‘‘۔ ۱۹۷۱ء کی جنگ میں انڈیا کے ہاتھوں فوج کی شکست نے ایسے ہی حالات کو جنم دیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے پاس اس وقت سنہری موقع تھا کہ وہ سورمائوں کی اس اونچی ذات کو نیچے اس کے مقام تک جھکا لاتے اور اس وقت فوج اپنی اس قسمت پر شاکر ہونے کو تیار تھی۔ لیکن بھٹو نے بھارت کے ساتھ ہزار سالہ جنگ کا اعلان کرتے ہوئے دفاعی بجٹ میں تین گنا اضافہ کر دیا۔
بعد میں فوج پر قابو پانے اور اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے وہ تمام اقدا مات جن کا ذکر اوپر آیا ہے‘ صرف پھانسی کے تختے تک ان کا راستہ ہموار کرنے کے کام ہی آسکے۔
مستقبل قریب کا پاکستان
’’پاکستان ایک ایسی قومی ریاست رہے گا جو ایک کمزور جمہوریت اور ایک فیاض مطلق العنانی کے درمیان سر پٹکتی رہے گی‘‘۔
مستقبل بعید میں معاشی مواقع کی کمی‘ شرحِ پیدائش اور نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ‘ شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی‘ ایک ناکام ہو چکا تعلیمی نظام اور علاقائی طور پر ایک غیردوستانہ فضا میں پاکستان کے پاس صرف ایک بہت بڑی غیرتعلیم یافتہ اور جوان آبادی رہ جائے گی جسے نہ تو سیاسی طور پر محرک کرنا ممکن ہو گا اور نہ ہی اس کے پاس معاشی مواقع ہوں گے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ امریکا کے پاس کیا راستہ رہ جاتا ہے تو اسٹیفن کوہن نے کئی سفارشات پیش کی ہیں۔ ان کے مطابق امریکی پالیسی میں پاکستانی عوام کی بہبود کے لیے اقدامات ہونے چاہییں نہ کہ صرف فوج کے لیے تاکہ عوام پاک امریکی دوستی کے فوائد دیکھ اور محسوس کر سکیں۔ امریکا کو پاکستان کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے تاکہ پاکستان عالمی طور پر ایک مقابلے کی طاقت رکھنے والی معیشت میں بدل سکے۔
تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ اس وقت امداد کا انتہائی مختصر حصہ تعلیم کے لیے مختص ہے۔ یہ یقینی بنانے کے لیے کہ پاکستان امداد کا ایک بڑا حصہ تعلیم کے لیے مختص کرے‘ امریکی فوجی امداد تعلیم سے مشروط کرنی چاہیے۔ مذہبی مدارس پر نجی خیراتی اداروں کی گرفت کمزور کرنے کی ضرورت ہے۔ فوج کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے تاکہ وہ انتہا پسند جماعتوں سے اپنے تعلقات ختم کرے۔
اس کے علاوہ بھی مصنف نے بہت سی سفارشات پیش کی ہیں‘ جن کا مختصراً تزکرہ بھی یہاں ممکن نہیں ہے۔
میں نے ابھی اس ضخیم کتاب کو ختم کیا ہے اور اس کے نتیجے میں مجھ پر ایک مایوسی کی فضا طاری ہو گئی ہے۔ میں یہ سوچے بغیر نہیں رہ پارہا ہوں کہ کہیں محترم اور عالم ڈاکٹر کوہن نے ایسا تو نہیں کیا کہ پاکستان کے بارے میں ذرا سی بھی اچھی باتیں ہیں‘ انہیں کوئی جگہ نہ دی اور سفید و سیاہ کے درمیان کے مقامات کو ذرا زیادہ ہی گہرا کر دیا ہو۔ یہ انتہائی بے وقوفی کی بات ہو گی کہ میں ان کے تمام دلائل کو ان کے یہودی پس منظر سے منسلک کر ڈالوں۔ یقینا ان جیسا عالم اور ممتاز مصنف صرف باریک بینی سے غیرجانبدار رہنے کو ہی ترجیح دے گا۔ شاید میری مایوسی کا ذریعہ اپنی پیدائش کی جگہ اور اپنے دیس سے وابستگی اور اس کے مستقبل کا پُراعتماد تصور ہے۔
(بحوالہ بی بی سی ڈاٹ کام)
Leave a Reply