
تھائی لینڈ زرخیز سرزمین‘ گھنے جنگلات‘ بلند پہاڑ‘ خوبصورت نہروں اور کئی بہتے دریائوں پر مشتمل ملک ہے‘ اس کا پرانا نام ’’سیام‘‘ تھا لیکن ۱۹۳۹ء کو سرکاری طور پر اس کا نام تھائی لینڈ تجویز ہوا۔ یہ ملک ایشیا کے جنوب میں واقع ہے‘ رقبے کے لحاظ سے ۵۱۳۱۱۵ مربع کلو میٹر ہے‘ اس کا دارالحکومت بینکاک ہے جو تھائی لینڈ کا مصروف ترین اور سب سے بڑا شہر ہے۔ تھائی لینڈ ۷۰ سے زائد صوبوں پر مشتمل ہے جب کہ ہر صوبہ کے ۶۰۰ ضلع ہوتے ہیں اور ہر ضلع کے ۶۰۰ یونٹ ہوتے ہیں جس کو وہ لوگ ’’ٹیمبون‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ان صوبوں میں سے ہر ایک کا ایک حاکم ہوتا ہے جو گورنر اور ناظمِ اعلیٰ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان ناظمین کا انتخاب وزارتِ داخلہ کی جانب سے کیا جاتا ہے‘ تاہم اس انتخاب میں عوام کا سب سے زیادہ رول ہوتا ہے۔ تھائی لینڈ وہ واحد ملک ہے جس پر استعماری طاقتوں کا قبضہ نہیں ہوا‘ تھائی لینڈ کی آبادی اس وقت چھ کروڑ بیس لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ جس میں سے ۷۵ فیصد آبادی دیہاتوں میں اور ۲۵ فیصد شہروں میں رہتی ہے۔ دارالحکومت بینکاک میں چھ ملین سے زائد افراد رہائش پذیر ہیں۔ تھائی لینڈ میں اکثریت تھائی لینڈیوں کی ہے جو چین کے جنوبی علاقے سے قدیم زمانے میں آکر آباد ہوئی ہے۔ باقی ان لوگوں کی ہے جو مختلف اوقات میں مختلف ملکوں سے تھائی لینڈ کی طرف آئے جن میں برما‘ ملائیشیا‘ کمبوڈیا اور ویت نام شامل ہیں۔ تھائی لینڈ کے دارالحکومت بینکاک میں یورپ‘ انڈیا‘ جاپان کے بھی بہت سارے لوگ رہتے ہیں۔ تاہم تھائی لینڈ میں مسلمانوں کی موجودہ تعداد ۶۰ لاکھ سے متجاوز ہے جو تھائی لینڈ کے جنوبی صوبوں میں رہتے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت اس وقت ناریثوت‘ پتانی‘ وتانی میں واقع ہے۔
پتانی سلطان احمد شاہ صغیر کے زمانے میں ایک مستقل اسلامی ریاست تھی جس کی بنیاد ۱۳۵۰ء میں رکھی گئی تھی۔ پِتانی نے ملقا کے ساتھ ۱۶۴۴ء کو اتحاد کیا لیکن یہ اتحاد اندرونی خلفشار کی وجہ سے زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکا۔ چنانچہ پرتگالیوں نے ملقا پر قبضہ کر لیا تو پتانی تنہا ہو کر رہ گیا جس نے بعد میں اپنے استقلال و آزادی کا اعلان کیا۔ مگر تھائی لینڈ نے اس آزادی سے بھرپور فائدہ اٹھا کر سلطنت پتانی پر کئی ناکام حملے کیے اور آخرکار ۱۷۸۶ء کو اس پر قبضہ جما لیا۔ ۱۸۰۸ء سے لے کر ۱۹۰۲ء تک کئی تحریکوں نے آزادی کی آواز بلند کی لیکن انہیں کوئی بڑی اور لمبی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ چنانچہ ۱۹۰۹ء کو برطانیہ اور تھائی لینڈ کے درمیان اس بات پر اتفاق ہوا کہ صوبہ کلنٹن اور پارلیس برطانیہ کے زیرِ نگیں رہیں گے اور پتانی پر تھائی لینڈ کا تسلط رہے گا۔ چنانچہ اب تک اس معاہدے پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔
اس وقت تھائی لینڈ میں کئی مذاہب کے پیروکار ہیں جن میں بدھ مت‘ عیسائی‘ ہندو‘ یہودی اور چین کے کینفاشی شامل ہیں۔ لیکن اکثریت بدھ مت کے ماننے والوں کی ہے۔ تھائی لینڈ ایشیا کے مشرقی جنوب کے ممالک میں سب سے زیادہ مضبوط اقتصادی حیثیت کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ استعماری طاقتوں سے بھی اب تک محفوظ ملک رہا ہے۔
تھائی لینڈ کے مسلمانوں کی حالتِ زار کے بیان سے پہلے مناسب ہے کہ ان اسباب پر ایک نظر ڈالی جائے جن کی وجہ سے تھائی لینڈ میں فسادات اور قتل و غارتگری کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔ ۱۹۷۵ء کو ویت نام کی جنگ‘ اپنے آخری مراحل میں داخل ہو کر اختتام پذیر ہوئی تو تقریباً ۱۰ لاکھ افراد اس جنگ سے متاثر ہو کر تھائی لینڈ میں پناہ گزیں ہوئے‘ ان پناہ گزینوں میں کمبوڈی‘ لائوس اور ویت نام کے لوگ شامل تھے۔ اقوامِ متحدہ‘ ہلال احمر اور دوسرے اداروں نے تھائی لینڈ میں موجود ان پناہ گزینوں کو خوراک و پوشاک اور دوسری آسائشیں مہیا کرتے وقت یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ انہیں دوبارہ اپنے اپنے ملکوں میں بھیج دیا جائے گا لیکن آج تک پورے تیس سال گزرنے کے باوجود ان کو اپنے ملک کی طرف نہیں بھیجا گیا۔ چنانچہ قومی فسادات اور مذہبی منافرتیں اکثر ان پناہ گزینوں کی وجہ سے رونما ہوتی ہیں جو بعد میں اندرونی خلفشار اور چپقلش کی صورت اختیار کر لیتی ہیں جن کے نتیجے میں مسلمان ان کے تیر و تفننگ کا ہدف قرار پاتے ہیں۔
پچھلے کئی ماہ سے تھائی لینڈ کے مسلمانوں کی حالت کافی خستہ ہے۔ تھائی حکومت مسلمانوں کو ہر قسم کی فسادات کی جڑ سمجھتی ہے اور آئے روز ان پر ظلم کے پہاڑ توڑتی ہے۔ وہاں کی حکومت نے اسلامی تنظیموں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ اپریل ۲۰۰۴ء میں چھ مسلم رہنمائوں کو تھائی حکومت نے اس لیے جیل بھیج دیا تھا کہ حکومت کو ان پر شبہ تھا کہ یہ لوگ تھائی لینڈ کے جنوب میں واقع مسلمانوں کی بعض ’’دہشت گرد اسلامی تنظیموں‘‘ کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں نے مختلف صوبوں میں مظاہرے اور احتجاج کا ایک سلسلہ شروع کر دیا مگر ۲۲ اپریل ۲۰۰۴ء کو بدقسمتی سے تھائی حکومت امن پولیس کے ہاتھوں ۸۵ مسلمان ناریثوریٹ میں شہید ہوئے اور اسی طرح ۸۷ مسلمان دم گھٹنے سے شہید ہوئے جن کو مظاہرے کے دوران پولیس نے گرفتار کر کے بکتر بند گاڑیوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح ڈال دیا تھا۔ تھائی حکومت کے ہاتھوں شہید ہونے والے مسلمانوں کی تعداد ۲۰۰۴ء کے آخری سات ماہ میں ۵۰۰ سے زائد ہے اور اسی طرح اتانی میں ہونے والے فسادات کے نتیجے میں امن پولیس کے ہاتھوں ۳۲ مسلمان شہید ہوئے جب کہ انہی مظاہروں اور احتجاجوں سے پکڑے جانے والوں کی تعداد ۱۲۰۰ سے زائد ہے۔ جن میں ۹۰۰ کو رہا کر دیا ہے اور ۳۰۰ بدستور جیلوں میں باقی ہیں۔ جن کے بارے میں تفتیش جاری ہے تفتیش و تحقیق مکمل ہونے کے بعد ان کو رہا کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
تھائی حکومت کی جانب سے ایک زبردست مہم یہ چلائی جارہی ہے کہ مسلم اکثریتی صوبوں کو مسلم اقلیتی صوبوں میں تبدیل کر دیا جائے جس کا آغاز تھائی حکومت نے کر دیا چنانچہ بدھ مت کے پیروکاروں کو جنوب میں واقع مسلم اکثریتی صوبے ناریثویٹ اور پتانی میں آباد کرنا شروع کر دیا ہے اور اکا دکا بدھ مت سے وابستہ افراد کو آباد کیا جارہا ہے اور اسی طرح جن صوبوں میں مسلمانوں کی اقلیت ہے ان صوبوں میں مسلمانوں کو منتقل کیا جارہا ہے۔ اس طرح ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلم اکثریتی علاقے کو مسلم اقلیتی علاقے میں تبدیل کر کے ان کے اسلامی تشخص‘ ان کی مذہبی آزادی اور دیگر حقوق کو پامال کر کے حکومت اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ تھائی لینڈ کے مسلمانوں نے یہ خطرہ بھانپ لیا ہے اور وہ کسی طرح بھی اس کام کے لیے تیار نہیں‘ جب کہ حکومت مسلمانوں کو سخت اذیت دے کر دبائو میں رکھنا چاہتی ہے۔ تھائی حکومت کی طرف سے مسلمانوں پر ایک الزام یہ ہے کہ مسلمان‘ تھائی لینڈ کے جنوبی صوبوں کو جو ملائیشیا کے ساتھ ملے ہوئے ہیں‘ مستقل ملک کی شکل میں حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں‘ حکومت یہ خطرہ محسوس کرتی ہے کہ کہیں اس تحریک نے زور پکڑ لیا تو تھائی حکومت خطرے میں پڑ سکتی ہے اس لیے تھائی لینڈ کی حکومت مسلم تنظیموں کو کچلنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔
۲۶ اپریل ۲۰۰۴ء بروز جمعہ صوبہ لینذی جہاں مسلم آبادی کی اکثریت ہے‘ میں ایک بم دھماکہ ہوا جس میں ۲۰ مسلمان شہید ہوئے‘ مسلمان ابھی اپنے مردوں کو دفن سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ ایک اور بم دھماکہ ہوا جس میں ۱۲ افراد شدید زخمی ہوئے۔ ایک ہی مذہب کے پیروکاروں سے یہ سلوک اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ ساری کارستانیاں حکومت کا اپنا شاخسانہ ہیں۔ تھائی حکومت کی اسلام دشمنی کا اس سے واضح ثبوت اور کیا ہو گا کہ آج کل میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ اس سے تھائی مسلمانوں میں خوف و ہراس کی ایک لہر دوڑ رہی ہے اور وہ اپنے آپ کو تھائی لینڈ میں محفوظ نہیں سمجھتے جبکہ تھائی لینڈ حکومت کے قانون کی دفعہ نمبر۹ میں اس بات کا صراحت کے ساتھ ذکر ہے کہ تمام مذاہب کے پیروکار اپنے مذہبی مراسم کی ادائیگی میں آزاد ہیں اور ان پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے اور شہری حقوق و دیگر انسانی حقوق میں سب یکساں برابر ہیں۔
ان قوانین پر عمل ان اقلیتوں کے بارے میں ہوتا ہے جن کی پشت پناہی کرنے والے ممالک اور لوگ موجود ہیں۔ امتِ مسلمہ کا تو کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ جہاںجہاں مسلم اقلیتیں ہیں وہاں وہ ظلم و ستم اور جور و استبداد کا شکار ہیں۔ قانون‘ میڈیا‘ ذرائع ابلاغ ان اقلیتوں کے بارے میں حرکت میں آجاتے ہیں جن کا اسلام سے تعلق نہیں ہوتا‘ یا نام نہاد اسلام اور خود ساختہ مذہب جس کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا‘ تھائی لینڈ کی مجلس اسلامی کے صدر ’’ساوید سومال یاسیک‘‘ نے مسلمانوں کو پرسکون رہنے کی تلقین کے ساتھ حکومتی سطح پر ان حادثات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور اس امر کا بھی مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اور امن پولیس مسلمانوں کے بارے میں اپنا رویہ درست کریں اور ان پچاس مدارس و مساجد کو کھول دیں جو پچھلے سات ماہ سے کے دوران بند کر دیے گئے ہیں۔ مزید یہ کہا ہے کہ اگر حکومت امن استحکام کے بارے میں مخلص ہے تو ان بدھ متوں کو لگام دیں جو مساجد و معابد اور گرجا گھروں پر حملہ کرتے ہیں جن میں مسلم اور دیگر اقلیتیں ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھتی ہیں اور پھر خوف و ہراس اور بدامنی کی فضا قائم ہوتی ہے جو فسادات اور حادثات کا سبب بنتی ہے۔ بہرحال ۲۸ اپریل ۲۰۰۴ء تھائی مسلمانوں کے لیے ایک قیامت سے کم نہ تھا۔ تاہم قانونِ فطرت میںدیر ہے اندھیر نہیں چنانچہ جنوبی ایشیا کے حالیہ طوفان و زلزلے کے نتیجے میں لاکھوں افراد مارے گئے‘ ہزاروں بے گھر ہو گئے۔ مرنے والوں میں شاذ و نادر ہی کوئی مسلمان ہو گا ورنہ سارے غیرمسلم ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد تھائی لینڈ کے بدھ متوں کی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے نئے سال کے آغاز پر ان مظلوم مسلمانوں کا ایسا زبردست انتقام لیا کہ دنیا انگشتِ بدنداں رہ گئی اور یقینا تدبیر کند بندہ تقدیر زند خندہ۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’الفاروق‘‘۔ کراچی)
Leave a Reply