
ایک ایسے زمانے میں جہاں بازاروں سے لے کر دفتروں‘ کلبوں اور تفریح گاہوں میں اور تماشا گاہوں سے لے کر کھیل کے میدان تک میں عورت کے نسوانی حسن کی نمائش کو روشن خیالی اور ترقی کی علامت قرار دیا جاتا ہو‘ اور ایک ایسے معاشرہ میں جہاں مرد تو سر سے پائوں تک لباس میں ڈھکا رہتا ہو مزید کوٹ اور ٹائی استعمال کرتا ہو اور عورت کے لیے تقریباً غیرشائستہ لباس کو اس کی زینت سمجھا جاتا ہو کسی عورت کو یہ مشورہ دینا کہ اس کا بہترین مقام اس کا گھر ہے یقینا دقیانوسی‘ رجعت پسندی اور پچھڑے پن کی بات سمجھی جائے گی اور عجب نہیں کہ اسے مسلمانوں کے فرسودہ اخلاق کی بازیافت کہہ کر مسترد کر دیا جائے۔
مگر یہ مشورہ کسی ازکارِ رفتہ معلم اخلاق یا دقیانوسی انسان کا نہیں بلکہ اس وقت مغربی دنیا کی مشہور فلمی اداکارہ کیٹ ہڈسن کا ہے‘ فلمی دنیا میں اداکاری اور جسم کی نمائش کا طویل کیریئر کرنے کے بعد وہ اس نتیجہ تک پہنچی ہے۔
“I think the greatest thing when you are a female who is always out and about… is to remember that your place is the home” (Hindustan time, Delhi 23-07-04)
’’میرا خیال ہے کہ سب سے بڑی چیز ایک ایسی عورت کے لیے جو ہمیشہ باہر پھرتی ہے اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا بہترین مقام اس کا گھر ہے‘‘۔
’’برطانیہ میں دیے گئے اپنے حالیہ انٹرویو میں انہوں نے عورتوں کو یہ مشورہ دینے کے ساتھ اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ وہ فرض شناس بیوی اور مشفق ماں بن کر زندگی گزارنا چاہتی ہے‘‘۔
آج کی دنیا میں جوان لڑکے اور لڑکیاں جس طرح فلمی ستاروں پر جان چھڑکتے ہیں ان کی تصویریں سجا کر رکھتے ہیں‘ ان کے نقشِ قدم پر چلنے اور ان کا رول اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور ان سے ملاقات کرنے کی حسرت پالتے رہتے ہیں‘ ایسی پرکشش اور چمک دمک کی دنیا کی کسی اداکارہ کی یہ خواہش کہ وہ فرض شناس بیوی اور مشفق ماں بننا چاہتی ہے اور عورتوں کو یہ مشورہ دینا کہ وہ شمعِ محفل بننے کے بجائے گھر کی زینت بننے کی کوشش کریں‘ میڈیا اور مغربی مزاج کی مخالفت کو دعوت دینا ہے‘ آج کی دنیا اسے رجعت پسندی سے تعبیر نہ کرے تو اور کیا کرے! میڈیا نے کیا بھی یہی‘ ہڈسن کا انٹرویو شائع کرنے کے ساتھ اس پر Old fashioned view (دقیانوسی خیال) کی پھبتی کسی اور نسوانی فطرت کی آواز کی حیثیت کم کر دی‘ مزید یہ کہ انٹرویو کے ساتھ اس کی نہایت غیرشائستہ تصویر شائع کر کے دنیا کو یہ بتایا کہ اس پرکشش ماڈلنگ کے ساتھ یہ فرسودہ خیال میل نہیں کھاتا‘ نئے زمانہ کا تقاضا کچھ اور ہے۔
وہ ہوس پرست طبقہ اور آوارہ مزاج معاشرہ جو عورت کے فطری منصب و مقام کو نظرانداز کر کے اس کی جنسیت کو ابھارتا ہو اور اس سے منصبِ مادری چھین کر گرل فرینڈ اور کال گرل بننے کی راہ دکھاتا ہو‘ اسے گھر سے نکال کر ہوٹلوں‘ کلبوں‘ تفریح گاہوں میں‘ فلم کے پردہ پر ٹی وی اور انٹرنیٹ کے شیشہ پر اور پبلک مقامات پر عریاں کر کے لاتا ہو اور اس سے لطف اندوز ہوتا ہو وہ کیسے سمجھے کہ ایک عورت کی سچی امنگ کیا ہے اس کی خواہشوں اور تمنائوں کی حقیقی دنیا کیا ہے؟ اور جس عورت کو اس نے ناچنے گانے اور سامانِ جنس بننے پر مجبور کیا ہے وہ کس اندرونی کرب اور نفسیاتی الجھن میں مبتلا ہے‘ وہ اس کے جسمانی حسن و جمال کو دیکھتا ہے مگر اس کی روح کی آواز سننے سے قاصر ہے بقول شاعر:
اس دور کی یہ ناچتی گاتی ہوئی تہذیب
کیا جانیے کس کرب کا اظہار کرے ہے
رقص و سرود‘ عیش و نشاط‘ شراب و شباب کی ہنگامی دنیا میں عورت جب تک پھنسی رہتی ہے اس وقت تک اسے اپنی حیثیت کا خیال نہیں آتا اپنی عصمت کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں ہوتا اور نہ اپنے مقصدِ زندگی کی پاکیزگی کا احساس ہوتا ہے مگر جب کبھی اس کا شعور بیدار ہوتا ہے‘ اس کی نسوانیت جاگتی ہے تو اسے اپنی حقیقت اور حیثیت کا احساس بھی ہوتا ہے اور وہ مصنوعی زندگی سے حقیقی زندگی کی طرف لوٹنا چاہتی ہے اپنی فطرت کی پکار کو سنتی ہے‘ اداکاری اور جنسی بے راہ روی کے بجائے‘ فرض شناسی اور سعادت مند خاندانی زندگی گزارنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے‘ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس مصنوعی جال سے نکلنے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے اور ہوس پرست معاشرہ اسے جنسی غلامی سے آزاد ہونے کا کتنا حق دیتا ہے۔
یہ فلمی دنیا کا ہی حال نہیں‘ ملازمت اور سماجی و فوجی خدمت تک میں عورت سے اس کی نسوانیت چھین کر اس پر عریانیت مسلط کی گئی ہے اور امومت کی ذمہ داری سے ہٹا کر بے راہ روی کی عادت لگا دی گئی ہے‘ ایک وقت تک تو عورت نئی دنیا کے منافع حاصل کرنے کے شوق میں اپنی اس زندگی سے لطف اندوز ہوتی ہے مگر جب اس کو حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ اس کا جنسی استحصال ہوتا ہے اور ہوس پرست عناصر کی دست درازی کا اسے مقابلہ کرنا پڑتا ہے تو اس کا نقطۂ نظر بھی ہڈسن کی طرح حقیقت پسند اور معروضی ہو جاتا ہے۔
عورتوں کو آزادی اور مساوات کے نام پر گھر سے باہر نکال کر بازار بلکہ جنگ کے میدان میں لانے میں یورپ کے ساتھ امریکا کا بڑا رول ہے۔ امریکی فوج میں دو لاکھ سے زیادہ عورتیں شامل ہیں۔ فوجی خدمات تو ان کا سرکاری اور ملکی فریضہ ہے مگر اس سے کہیں زیادہ فوجی مردوں اور آفیسروں کی جنسی خدمات بجالانے پر مجبور ہیں‘ اس مجبوری نے ان کو جن نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا کر دیا ہے اس کا اندازہ ایک سابق امریکی فوجی خاتون ماریان بڈا کی داستانِ زندگی کے اس اظہار سے لگایا جاسکتا ہے۔
’’پہلے جب میں امریکی جھنڈے پر نظر ڈالتی تھی تو یہ مجھے سرخ‘ سفید اور نیلا دکھائی دیتا تھا‘ مگر اب اس پر صرف خون کے دھبے دیکھتی ہوں۔ سرخ رنگ اس خون کی علامت ہے جو میرے بدن سے بہا‘ نیلا رنگ ان چوٹوں کی نمائندگی کرتا ہے جو میرے جسم نے سہیں اور سفید رنگ میرے خوف زدہ چہرہ کا ہے‘ میں اپنے ملک کے لیے ماری پیٹی گئی اور میری عزت لوٹی گئی اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا ہے‘‘۔
ماریان بڈا کی دردناک کہانی آزادیٔ نسواں کی تہذیب پر بدنما داغ ہے مگر یہ انوکھا واقعہ نہیں‘ امریکا کے لوواسٹی میں سابق فوجیوں کے میڈیکل سنٹر کی ایک انکوائری ۲۰۰۳ء سے پتا چلتا ہے کہ جن ۵۵۸ عورتوں کا انٹرویو لیا گیا ان میں سے ۲۸ فیصد نے بتایا کہ فوجی ملازمت کے دوران اس کی عصمت دری کی گئی یا اس کی کوشش کی گئی۔
یہ حال ان عورتوں کا ہے جنہوں نے اپنے جنسی استحصال پر لب کشائی کی ورنہ پنٹاگن کا ۱۹۸۸ء کا سروے یہ بتاتا ہے کہ فوج میں مردوں کے ہاتھ جنسی بدسلوکی کا نشانہ بننے والی ۹۰ فیصد خواتین متعلقہ حکام کو اپنی مظلومیت کی اطلاع مختلف اسباب کی وجہ سے نہیں دیتیں۔
امریکی معاشرہ اور مغربی دنیا نے عورت سے اس کی نسوانیت اور غیرت اس حد تک چھین لی ہے کہ عراق کے مظلوم شہریوں کو جب امریکی ابو غریب جیل میں اذیت دیتے ہیں تو اذیت کی شکل نہایت شرمناک ہوتی ہے (جس کی تفصیلات میڈیا میں آچکی ہیں)۔ مساوات اور آزادیٔ نسواں کے دلفریب نعرے اپنی جگہ اور نعرہ لگانے والوں کی ہولناکی اور شہوت پرستی کے کارنامے اپنی جگہ‘ ان خوش نما نعروں نے عورتوں کو گھروں سے تو اٹھا لیا مگر میدانِ کارزار میں لاکر ان کا بری طرح استحصال کیا اور نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا کر دیا ایسے میں اگر ان کو گھر کے تقدس کا خیال آئے‘ اپنی نسوانیت اور عصمت کا احساس جاگے تو یہ رجعت پسندی نہیں حقیقت پسندی ہے‘ دقیانوسیت نہیں انسانی فطرت ہے اور جب فطرت سے بغاوت کی جائے گی تو دیر یا سویر اس کا خمیازہ ضرور بھگتنا ہو گا۔
عورتوں کے جنسی استحصال کے لیے آپ کو میدانِ جنگ میں جانے کی ضرورت نہیں مخلوط تعلیم کے جو ادارے خود ہمارے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اسکول‘ کالج‘ انسٹی ٹیوٹ اور یونیورسٹی کی نام پر وہاں کچی عمر سے ہی لڑکیوں سے نسوانیت ترک کر کے عریانیت کی راہ پر لگا دیا جاتا ہے‘ یہ اعلان کہ ’’لڑکے اور لڑکیوں میں کوئی فرق نہیں‘‘ بظاہر کتنی ہی معصوم اور بے ضرر آواز کیوں نہ ہو مگر اس نے خاندان میں لڑکیوں کی پیدائش کی ناگواری کو آج تک کم نہیں کیا اور نہ بیٹوں کی طرح ماں باپ کی جائیداد میں بیٹیوں کو حصہ دلایا‘ کالجوں میں شرم و حیا کے احساس کو ضرور ختم کیا اور جنسیت کی حدوں کو حیوانیت سے ضرور ملا دیا۔ جس بے راہ روی اور آوارگی کا مشاہدہ عام طور سے ہوتا رہتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ دلاور فگار کا طنز آج حقیقت میں تبدیل ہو چکا ہے۔
عام ہو گی عاشقی کالج کے عرض و طول میں
لیلیٰ و مجنوں نظر آئیں گے ہر اسکول میں
تعلیم گاہوں کا یہ سبق ان کو حقیقی زندگی اور اس کے تقاضوں سے جس طرح دور کرتا ہے اور رومان بھری زندگی میں جس طرح داخل کرتا ہے اس کا براہِ راست اثر یہ ہوتا ہے کہ ملک میں اخلاق باختگی عام ہوتی ہے‘ رضاکارانہ بدکاری کے ساتھ جبری بدکاری عام ہوتی ہے‘ رقابت کے لیے قتل ہوتا ہے‘ امن و انتظام کے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور پولیس آفیسر کو کہنا پڑتا ہے کہ ’’اگر لڑکیوں کا لباس ٹھیک کر دیا جائے تو امن و انتظام کے بگاڑ میں کمی آسکتی ہے‘‘۔
یہ لڑکیاں جنہوں نے یہ تعلیم پائی ہو اور ایسے ماحول میں زندگی گزاری ہو ان کو ہوٹل کے شب گزیدہ کمرے اچھے لگیں گے‘ مساج پارلر میں جی لگے گا اس کے مقابلہ میں چادر اور چار دیواری کی نام سے نفرت ہو گی‘ ان کو گھر قید خانہ لگے گا‘ عفت و عصمت رجعت پسندی لگے گی۔ فرض شناس بیوی بننا اسے بوجھ معلوم ہو گا اور امومت کا تقدس معیوب لگے گا۔ علامہ اقبال نے بلاوجہ تو نہیں کہا تھا:
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت
ہے حضرت انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
عملی زندگی میں اس تعلیم و تہذیب کے اثرات کیا ہیں اس کی ایک تفصیل ہندوستان کے کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ ہندوستان ٹائمز دہلی ۹ مئی ۲۰۰۴ء کی اشاعت میں دیکھی جاسکتی ہے‘ مارکیٹ ریسرچ ایجنسی کے سروے رپورٹ اپریل ۲۰۰۴ء دہلی کے خوشحال طبقہ سے تعلق رکھنے والی ۲۵ تا ۳۵ سال کی ۵۰۳ خواتین کے انٹرویوز پر مشتمل ہے‘ یہ عورتیں جس بے باکی سے اپنے جنسی احساسات اور جنسی تجربات کا اظہار کرتی ہیں اس سے محسوس ہوتا ہی کہ انہوں نے فرض شناس بیوی اور مشفق ماں کے کردار کو ٹھکرا کر باہر کی چمک دمک کو زندگی کا حاصل سمجھ لیا ہے۔ اس تناظر میں ہڈسن کا مشورہ جب میری نظروں سے گزرا تو مجھے ایسا لگا کہ جیسے قرآن کی روشنی اس کے دل میں اتر گئی ہو اور وہ الہامی ہدایت کے الفاظ دہرا رہی ہو جو محمد عربیؐ پر نازل ہوئے تھے یعنی:
وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَیَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی (الاحزاب:۳۳)
’’ان عورتوں سے کہو کہ تم اپنے گھروں میں وقار سے رہو اور سابق زمانہ جاہلیت کی سج دھج نہ دکھاتی پھرو‘‘۔
انسانوں کے پیدا کرنے والے خدائے پاک نے انسان کی معاشرتی پاکیزگی کا جو انتظام کیا ہے اس میں مرف و عورت کے دائرہ کار کی تعین کو بڑا دخل ہے۔ عورتیں اگر گھر کی ذمہ داری نبھائیں بیوی کے کردار اور ماں کی عظمت کو محسوس کریں تو مردوں کو باہر کی دنیا کی تعمیر و ترقی کے انتظامات کے لیے یکسو اور فارغ کر سکتی ہیں۔ مگر جب وہ اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو کر سج دھج کر باہر نکلتی ہیں تو تعمیر کا عمل رکتا ہے تخریب کا عمل شروع ہوتا ہے اور معاشرہ میں فساد کا زہر سرایت کرتا ہے‘ حضرت عبداﷲ ابن مسعودؓ کی روایت کے مطابق رسول اﷲﷺ نے فرمایا: ’’عورت قابلِ مستور ہے جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو گھورتا ہے اور جب وہ اپنے گھر میں ہوتی ہے تو اﷲ کی رحمت سے قریب ہوتی ہے‘‘۔ (ترمذی)
عورت کی معاشی کفالت مردوں کے ذمہ ہے۔ اس لیے اسے تلاشِ معاش کے لیے بھٹکنے کی ضرورت نہیں اور اگر اسے معاشی کفالت حاصل نہ ہو تو ضرورتِ زندگی پوری کرنے کے لیے باہر جاسکتی ہے‘ مگر ضرورت کے لیے باہر جانے اور فیشن کے لیے باہر نکلنے میں بڑا فرق ہے‘ ایک جگہ ضرورت کی تکمیل ہے اور دوسری جگہ ہوس کی تسکین ہے‘ ایک جگہ ذمہ داری کا احساس ہے دوسری جگہ ذمہ داری سے فرار ہے‘ اسی طرح ذمہ داروں اور محرم کے ساتھ باہر نکلنے اور آشنا کے ساتھ باہر نکلنے کے مطلب میں بڑا فرق ہے۔
اسلام نے ضرورت کے وقت خواتین کو فوجی خدمات انجام دینے سے بھی روکا نہیں ہے مگر ان پر دفاع اور جنگی امور کی ذمہ داری نہیں ڈالی ہے۔ یہ ذمہ داری مردوں کو سونپی ہے۔ مردوں کو اگر اپنے گھر کی طرف سے اطمینان حاصل ہو جائے تو وہ دفاعی خدمات زیادہ بہتر طریقہ سے انجام دے سکتے ہیں‘ حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ عورتوں نے ایک مرتبہ رسول اﷲﷺ سے عرض کیا کہ ساری فضیلت مردوں کو حاصل ہے۔ مرد جہاد کرتے ہیں اور بڑے بڑے کام انجام دیتے ہیں‘ ہمیں بھی موقع دیجیے کہ ہمیں مجاہدین کے برابر اجر مل سکے‘ تو آپ نے فرمایا: ’’تم کو گھر بیٹھے مجاہدین کے برابر اجر ملے گا‘‘۔
وہ معاشرہ جو عورتوں کو گھر کا سکون اور خاندان کا وقار عطا کرتا ہو اور ان کو گھر بیٹھے فوجی خدمات انجام دینے والے افراد کے برابر اجر و احترام کا مستحق سمجھتا ہو اس کی عظمت کو وہ معاشرہ کہاں پاسکتا ہے۔ جو عورتوں کو گھروں سے نکال کر میدان میں لاتا ہو اور اس کے حسن کی نمائش کرتا ہو۔
مضمون نگار مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ناظمِ دینیات ہیں۔
(بشکریہ: پندرہ روزہ ’’تعمیرِ حیات‘‘۔ لکھنؤ)
Leave a Reply