
فلسطینیوں پر قیامت بیت گئی اور یہاں ہماری محفلیں شگوفہ بنی رہیں۔ یہ ہمیں کیا ہو گیا ہے؟ بستی میں ایسی بے حسی تو کبھی نہ تھی۔ درست کہ ہم آج کمزور ہیں اور فلسطینیوں کی عملی مدد سے قاصر ہیں۔ لیکن ہم اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ یہ دکھ امانت کی طرح سنبھال کر رکھیں اور نسلوں کو وراثت میں دے جائیں۔ کیا عجب ہماری نسلیں ہماری طرح بے بس نہ ہوں۔
وقت کا موسم بدل بھی تو سکتا ہے۔ ہم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ موسموں کے بدلنے تک اپنے زخموں کو تازہ رکھیں۔ ان سے رستے لہو کو جمنے نہ دیں۔ بھلے وقتوں کی بات ہے ابھی روشن خیالی کی مسند مسخروں کے ہاتھ میں نہیں آئی تھی۔ ہمارا ادیب دائیں اور بائیں کی تقسیم سے بے نیاز ہو کر یہ امانت نسلوں تک پہنچا رہا تھا۔
اقبال، فیض، انتظار حسین، حبیب جالب، احمد ندیم قاسمی، ابن انشاء، احمد فراز، رئیس امروہوی، ن م راشد، مستنصر حسین تارڑ، قرۃ العین حیدر، قدرت اللہ شہاب، مظہر الاسلام، ادا جعفری، یوسف ظفر، منظور عارف، ضمیر جعفری، خاطر غزنوی، محمود شام، نذیر قیصر، شورش ملک، سلطان رشک، طاہر حنفی، بلقیس محمود۔۔۔ کتنے ہی نام ہیں جنہوں نے اپنے افسانوں اور نظموں میں اس دکھ کو آئندہ نسلوں کے لیے امانت کے طور پر محفوظ کر دیا۔ یہ مگر گزرے دنوں کی بات ہے۔
اب فلسطین سے دھواں اٹھتا ہے تو ایک مستنصر حسین تارڑ کا قلم نوحے لکھتا ہے۔ باقی ادیب کیا ہوئے؟ قلم ٹوٹ گئے، سیاہی خشک ہوگئی یا احساس نے دم توڑ دیا؟ برسوں پہلے انتظار حسین کا افسانہ ’’شرم الحرم‘‘ پڑھا تھا۔ کچھ فقرے آج بھی دل میں ترازو ہیں۔ ’’بیت المقدس میں کون ہے؟ بیت المقدس میں تو میں ہوں۔ سب ہیں۔ کوئی نہیں ہے۔ بچے کمہار کے بنائے پتلے کوزوں کی طرح توڑے گئے، کنواریاں کنویں میں گرتے ہوئے ڈول کی رسی کی مانند لرزتی ہیں۔ ان کی پوشاکیں لیر لیر ہیں۔ بال کھلے ہیں۔ انہیں تو آفتاب نے بھی کھلے سر نہیں دیکھا تھا۔ عرب کے بہادر بیٹے بلندو بالا کھجوروں کی مانند میدانوں میں پڑے ہیں۔ صحرا کی ہواؤں نے ان پر بین کیے‘‘۔
انتظار حسین ہی کے افسانے ’’کانے دجال‘‘ کو میں نے کتنی ہی بار پڑھا۔ یہ پیراگراف ہر دفعہ خون رلاتا ہے۔ ’’پلنگ پہ بیٹھی اماں جی چھالیاں کاٹتے رونے لگیں۔ انہوں نے سروتا تھالی میں رکھا اور آنچل سے آنسو پونچھنے لگیں۔ ابا جان کی آواز بھر آئی تھی مگر ضبط کر گئے۔ اپنے پروقار لہجے میں شروع ہو گئے: آنحضورؐ دریاؤں، پہاڑوں، صحراؤں، سے گزرتے چلے گئے۔ مسجد اقصیٰ میں جاکر قیام کیا۔ حضرت جبریلؑ نے عرض کیا یا حضرتؐ تشریف لے چلیے، آپؐ نے پوچھا کہاں؟ بولے کہ یا حضرتؐ زمین کا سفر تمام ہوا۔ یہ منزل آخر تھی۔ اب عالم بالا کا سفر درپیش ہے۔ تب حضورؐ بلند ہوئے اور بلند ہوتے چلے گئے۔۔۔۔۔
ابا جان کا سر جھک گیا۔ پھر انہوں نے ٹھنڈا سانس بھرا۔ بولے ’’جہاں ہمارے حضورؐ بلند ہوئے تھے، وہاں ہم پست ہو گئے‘‘۔
لڑکپن جوانی میں بدلا اور جوانی ڈھل چلی، کنپٹیوں کے بال اب سفید ہو رہے ہیں اور عائشہ اب چہچہاتی ہے کہ بابا آپ تو بڈھے ہو گئے۔ لیکن یہ فقرہ آج بھی نیزے کی انی کی طرح وجود میں پیوست ہے ’’جہاں ہمارے حضورؐ بلند ہوئے تھے، وہاں ہم پست ہو گئے‘‘۔ عشروں پہلے بھی یہ فقرہ پڑھا تو آگے پڑھا نہ گیا۔ آج بھی یہاں پہنچتا ہوں تو آنکھوں میں دھند اتر آتی ہے اور افسانہ ایک طرف رکھ دیتا ہوں۔
منیر نیازی والا معاملہ درپیش ہوتا ہے: ’’اس کے بعد اک لمبی چُپ اور تیز ہوا کا شور‘‘۔ لمحہ موجود کی روشن خیالی کا تو سارا بانکپن ہی مسلمانوں پر غرانے اور غراتے رہنے میں ہے۔ میں مگر بھلے وقتوں کی بات کر رہا ہوں۔ جب روشن خیالی کی مسند ابھی مسخروں کے ہاتھ نہیں آئی تھی۔ تب فیض احمد فیض نے فلسطینی مجاہدوں کے لیے ایک ترانہ لکھا تو قرآن کی آیت کو عنوان بنا دیا: ’’لا خوف علیھم‘‘۔
ابن انشاء کی دیوارِ گریہ پڑھیے، فیض کی سرِ وادیِ سینا کو دیکھیے، ادا جعفری کی مسجد اقصیٰ پر نگاہ ڈالیے، منظور عارف کے ’آئینے کے داغ‘ دیکھیے، احمد فراز کے ’بیروت‘ کو دیکھیے، رئیس امروہوی کا ’فدیہ‘ اور محمود شام کی ’بنت اقصیٰ‘ دیکھیے، آپ کو سطر سطر یہ دکھ تازہ ملے گا۔ انہوں نے اس دکھ کو اگلی نسلوں تک امانت کے طور پر پہنچایا۔
اس امانت میں صرف درد کا احساس ہی نہیں وقت کے موسموں کے بدلنے کی آس بھی ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کے ’’خانہ بدوش‘‘ کا آخری پیراگراف پڑھیے: ’’میں سینکڑوں فلسطینیوں سے مل چکا تھا۔ مگر احمد ایک مختلف انسان تھا۔ وہ حقارت سے اسرائیل کا ذکر کرتا تھا بلکہ ایک سپاٹ اور کاروباری انداز میں۔ وطن اس کے لیے ایک اغوا شدہ بچہ تھا جو جذباتی ہونے سے نہیں مل سکتا تھا۔ اس کی تلاش میں اس کے نقش نہیں بھولنے تھے اور ایک سرد منصوبہ بندی سے خرکار کیمپ تک پہنچنا تھا‘‘۔ یہی نقش ہم بھولتے جارہے ہیں۔ یہ نقش کیسے یاد رہتے ہیں؟ ماؤں کی لوریاں انہیں تازہ رکھتی ہیں، نصاب تعلیم تذکیر کا کام کرتا ہے، ادیب اور شاعر کا قلم اسے سنوارتا رہتا ہے۔ ماؤں کے پاس اب وقت نہیں، باپ کی جانے بلا، فلسطین کیا ہے؟ نصاب تعلیم اجنبی ہو چکا، اور ادیب و شاعر گونگے ہو چکے۔
ایک یلغار ہے جس نے سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ فلسطین کی بات کرنا اب دقیانوسی رویہ ہے۔ اب تو مطالعہ پاکستان بھی مسخروں کے مزاح کا عنوان بن چکا۔ مسلمانوں کے دکھ پر رونا اب انتہا پسندی بن چکا۔ بیانیہ اب وہی ہے جو مغرب سے آتا ہے اور مسلمانوں کے حقوق انسانی نہیں ہوتے۔ ہم نے اپنے نصاب کو جانے کن کن فضولیات سے بھر رکھا ہے۔ کیا اس میں فلسطین کے محمود درویش کی دو نظمیں ہم شامل نہیں کر سکتے۔
کبھی آپ محمود درویش کو پڑھ کر تو دیکھیے۔ میں انگریزی ادب کا طالب علم ہوں اور ورڈزورتھ، کیٹس، بائرن، شیلے، ییٹس، براؤننگ، ہارڈی، جان ڈن، شیکسپیئر، ملٹن سمیت کتنوں کو پڑھ رکھا ہے لیکن جو بات محمود درویش میں ہے وہ ان میں کہاں۔ محمود درویش، نزاد قبانی، سمیع قاسم، فوزی اسمر، حنا ابوحنا، توفیق زیاد، توفیق فیاض، امین حبیبی، ایک کہکشاں آباد ہے ہمیں جس کا علم ہی نہیں۔ سمیع قاسم کی نظم ’’ارم‘‘ تو کمال ہے۔ ابدا علی ھذا الطریق، رایا تنا بصر الضریر۔ ہمیشہ سے اس راستے پر ہمارے پرچم اندھوں کے لیے بصارت بنے ہیں۔
محمود درویش کہتا: ’’ویشتمنا اعادینا، ھلا! ھمج ہم، عرب۔ نعم عرب‘‘۔ ہمارے دشمن آوازے کستے ہیں، یہ عرب ہیں، یہ اجڈ ہیں اور وحشی۔ ہاں سن رکھو ہم عرب ہیں۔ درویش کے ’’انا شید کوبا‘‘ کا تو جواب نہیں۔
ذدا نزاد قبانی کی یہ نظم دیکھیے: ’’آل اسرائیل! ایسا اترانا بھی کیا؟ گھڑی کی سوئیاں آج رک گئیں تو کیا ہوا کل یہ پھر سے چل پڑیں گی۔ زمین کے چھن جانے کا غم نہیں باز کے پر بھی جھڑ جایا کرتے ہیں۔ طویل تشنگی کا بھی ڈر نہیں کہ پانی ہمیشہ چٹانوں کی تہہ میں ہوتا ہے۔ تم نے فوجوں کو ہرا دیا لیکن تم شعور کوشکست نہیں دے سکے۔ تم نے درختوں کی چوٹیاں کاٹ ڈالیں جڑیں مگر باقی ہیں‘‘۔ ہم آج بے بس سہی، مگر جڑیں تو باقی ہیں۔ ان جڑوں کی آبیاری تو ہم کر ہی سکتے ہیں۔ ہم اپنے دکھوں کا مداوا نہیں کر سکتے لیکن ہم ان دکھوں کو سنبھال کر تو رکھ سکتے ہیں۔ ہم اس امانت کو اگلی نسل کو تو سونپ سکتے ہیں۔ کیا عجب ہماری نسلیں ہماری طرح بے بس نہ ہوں۔ وقت کا موسم بدل بھی تو سکتا ہے۔
محمود درویش نے کہا تھا: ’’اے میرے وطن میری زنجیروں نے مجھے عقاب کی سختی اور رجائی کی نرمی سکھائی معلوم نہ تھا ہماری کھال کے نیچے طوفان جنم لیں گے اور دریاؤں کا وصل ہوگا انہوں نے مجھے کوٹھڑی میں قید کیا میرے دل نے وہاں مشعلیں فروزاں کر دیں انہوں نے دیوار پر میرا نمبر لکھا لیکن دیواریں مرغزار ہو گئیں انہوں نے میرے جلاد کی تصویر بنائی روشن زلفوں سے اسے چھپا لیا میں نے شکست کو اٹھا کر پٹخ دیا اور فاتحین نے تو صرف زلزلوں کو جگایا ہے‘‘۔ ہم کیسے بھول جائیں ’’جہاں ہمارے حضورؐ بلند ہوئے تھے، وہاں ہم پست ہو گئے‘‘۔
یہ دکھ ہماری اگلی نسل کی امانت ہے۔ آپ کے آنگن میں بچے کھیل رہے ہوں گے۔ افطار کے بعد انہیں بلایے، پاس بٹھایے اور یہ دکھ ان کی رگ جاں میں انڈیل دیجیے کہ ’’جہاں ہمارے حضورؐ بلند ہوئے تھے، وہاں ہم پست ہو گئے‘‘۔
(بحوالہ: ’’ہم سب ڈاٹ کام ڈاٹ پی کے‘‘۔ ۱۹؍مئی ۲۰۱۸ء)
جناب آصف محمود صاحب. جذبات بھی اہم ہوتے ہیں لیکن فرقہ وارانہ سوچ سے بلند ہو کر ہی عملیت پسندی اختیار کی جا سکتی ہے.