
عالمی سطح پر اثاثوں یعنی مجموعی دولت میں گزشتہ دس برسوں کے دوران کم و بیش ۶۸ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اور اضافے میں امریکی کردار کم و بیش تین چوتھائی کا ہے۔ اس وقت دنیا بھر کی دولت یا اثاثوں کی مالیت کم و بیش ۲۴۱ ہزار ارب ڈالر ہے۔ یہ سب کچھ کریڈٹ سوئس نے ’’ورلڈ ویلتھ رپورٹ‘‘ میں بتایا ہے۔
اس وقت دنیا کی دولت ۵۱۶۰۰ ڈالر کی انتہائی بلند سطح پر پہنچ چکی ہے مگر محض دولت کی بنیاد پر خوش حالی کی پیمائش نہیں کی جاسکتی۔ اس وقت دنیا بھر میں امیر ترین ۱۰؍فیصد افراد ۸۶فیصد دولت کے حامل ہیں یا اس پر متصرف ہیں۔ صرف ایک فیصد امیر ترین افراد کے ہاتھوں میں دنیا کی ۴۶ فیصد دولت ہے۔
ورلڈ ویلتھ رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ عالمی سطح پر ۲۰۱۸ء تک دولت میں کم و بیش ۴۰ فیصد تک اضافہ ہوگا اور یہ ۳۳۴ ہزار ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ جائے گی۔
دنیا کی امیر ترین اقوام کا تعلق شمالی امریکا، مغربی یورپ، ایشیا بحرالکاہل اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے ہے۔ ان اقوام کی فی کس دولت ایک لاکھ ڈالر تک ہے۔
سوئٹزرلینڈ کی دولت ۵ لاکھ ۱۳؍ہزار ڈالر فی کس، آسٹریلیا کی دولت ۴ لاکھ ۳ ہزار ڈالر فی کس، ناروے کی دولت ۳ لاکھ ۸۰ ہزار ڈالر فی کس اور لگسمبرگ کی دولت ۳لاکھ ۱۵؍ہزار ڈالر فی کس ہے۔
دنیا کی دو تہائی (پختہ عمر کی) آبادی کے پاس اثاثوں کی مالیت ۱۰؍ہزار ڈالر فی کس سے بھی کم ہے۔ دنیا کی یہ دو تہائی آبادی عالمگیر دولت کے صرف ۳ فیصد پر متصرف ہے۔
۲۰۱۲ء کے وسط سے اب تک دنیا بھر میں ملینئرز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اب یہ تعداد ۲۰ لاکھ تک جاپہنچی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد امریکیوں کی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس عرصے میں جاپان اپنے ۱۲؍لاکھ ملینئرز سے محروم ہوگیا۔
امریکیوں کی دولت میں اضافے کے دو بنیادی اسباب یا عوامل ہیں۔ ایک طرف تو املاک کی قیمتیں بڑھیں اور دوسری طرف ایکویٹی مارکیٹ میں تیزی آنے سے استحکام پیدا ہوا۔ ان دونوں عوامل کا اثر مجموعی طور پر پوری معیشت پر مرتب ہوا، جس کے نتیجے میں عام آدمی کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوا۔
جاپان میں مرکزی بینک نے سخت زری پالیسی اختیار کی ہے، جس کے نتیجے میں اس سال ڈالر کے مقابلے میں شرحِ مبادلہ ۲۲ فیصد گرنے سے قومی دولت میں مجموعی طور پر ۵۸۰۰ ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی۔ یعنی جاپان کی مجموعی دولت میں ۲۰ فیصد تک کمی آئی۔
چین نے چند عشروں کے دوران غیر معمولی رفتار سے ترقی کی ہے۔ اس وقت وہ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں انتہائی مستحکم پوزیشن رکھتا ہے۔ مگر مجموعی طور پر وہ غیر معمولی زری استحکام کا حامل اب تک نہیں ہوسکا ہے۔ چین کی آبادی عالمی آبادی کا کم و بیش ۲۰ فیصد ہے مگر اب تک وہ عالمی دولت کے صرف ۹ فیصد کا حامل ہوسکا ہے۔
بھارت اور افریقا کا معاملہ ہے کہ ان دونوں کی مجموعی دولت سے ان کی مجموعی آبادی کم و بیش ۱۰؍گنا ہے۔
کریڈٹ سوئس نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ دنیا بھر میں ۹۸۷۰۰؍افراد ایسے ہیں جن کے ذاتی اثاثوں کی مالیت ۵ کروڑ ڈالر سے زائد ہے۔ ان میں سے نصف افراد امریکا میں ہیں۔ اس کے بعد یورپ ہے جہاں امیر ترین افراد میں سے ۲۵ ہزار آباد ہیں۔
برازیل، روس، بھارت اور چین تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتیں ہیں۔ انہیں اصطلاحاً BRIC کہا جاتا ہے۔ ان میں ہر ملک میں ایسے ۵۸۳۰؍افراد ہیں جن کے ذاتی اثاثے ۵کروڑ ڈالر یا اس سے زائد ہیں۔ ان میں ارب پتی افراد کی تعداد ۲۰۰۰ء میں دنیا کے امیر ترین افراد کی تعداد کا ۵ فیصد تھی جو ۲۰۱۰ء تک ۱۹؍فیصد ہوچکی تھی۔ ۲۰۰۰ء سے ۲۰۱۰ء کے دوران صرف چین میں ارب پتی افراد کی تعداد ایک سے ۶۴ پر پہنچ چکی ہے۔ پرانے ترقی یافتہ ممالک (مثلاً فرانس اور جاپان) میں اِسی مدت کے دوران ارب پتی افراد کی تعداد میں کمی واقع ہوئی۔
(“Richest 1 Percent Hold 46 Percent Of The World’s Wealth”… “Reuters”. Oct 9, 2013)
Leave a Reply