
پچھلے برس شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والی تحریک پرامن تھی مگر اب وقت کے ساتھ ساتھ درندہ صفت ہوتی جارہی ہے اور بکھرتی جارہی ہے۔ اس دوران ہلاکتیں نو ہزار تک پہنچ گئی ہیں، عالمی برادری کو مدد کے لیے آواز دینے کی پکار بڑھتی جارہی ہے۔ مگر جو طریقۂ کار لیبیا جیسے ملکوں میں کام آیا وہ ضروری نہیں کہ شام میں بھی کارگر ہو۔
ملک کے سیاسی اور فوجی سربراہان نے ہمیشہ اپنی طاقت کے استعمال اور فیصلوں کے اظہار میں جس راز داری سے کام لیا اس سے حکومت کے بارے میں بہت سی غلط فہمیوں نے جنم لیا۔ ہم اس پُرتشدد فسادات کے بارے میں چند غلط فہمیاں دور کرنا چاہیں گے۔
صدر بشارالاسد کا انخلا تشدد کا خاتمہ لائے گا!
شام میں جاری اس تشدد کی لہر کو روکنے کے لیے عالمی کوششیں اس بات پر مرکوز ہیں کہ صدر بشارالاسد اقتدار سے علیحدہ ہو جائیں۔ اگر وہ ہٹ بھی گئے تو شامی فوج کے باغیوں اور عوامی مظاہروں کو طاقت کے ذریعہ سختی سے کچلنے کی موجودہ حکومتی حکمتِ عملی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
علوی اقلیت سے تعلق رکھنے والے فوجی و قومی سلامتی کے اداروں کے افسران صدر کو گھیرے ہوئے ہیں، یہ لوگ پچھلے دو تین دہائیوں سے زبردست مال و دولت کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ اور بشارالاسد کے والد حافظ الاسد کے دَور سے اقتدار پر براجمان ہیں، اس حکومتی گروہ میں خاص کر جو پرانے لوگ ہیں حافظ الاسد سے قریبی تعلق رکھتے تھے۔ بشارالاسد ان میں سے کچھ پر اچھا اثر و رسوخ رکھتے ہیں، مگر پھر بھی یہ کسی ایسے فرد سے تبدیل کیے جاسکتے ہیں جو ان سے زیادہ سختی سے معاملہ کرے اور عالمی دبائو کا سامنا کرے۔
باہر سے حالات کا اندازہ کرنا مشکل ہے!
جب کوئی بھی نظامِ حکومت کئی دہائیوں سے جما ہوا ہو وہ اپنے مخالفین کے ساتھ کیسا برتائو کرے گا، سب کو معلوم ہے۔ ۱۹۸۲ء میں ’’ہما‘‘ (Hama) ایک چھوٹے شہر کو اخوان المسلمون کے لوگوں کو ختم کرنے کی غرض سے تقریباً تباہ کر دیا گیا تھا۔ پھر جب پچھلے برس موجودہ بغاوت شروع ہوئی تو اس بات میں کوئی شک نہ تھا کہ بشارالاسد، اُس کا خاندان اور اس کے علوی مشیران وہی کچھ کریں گے جو اب تک کرتے رہے، ان کا الزام ہے کہ یہ چند لوگ ہیں جو بیرونی اشاروں کی وجہ سے مخالف اور غیر مطمئن ہیں۔ حکومت میڈیا کو کنٹرول کر رہی ہے اور وفادار فوج کی طاقت سے حزب مخالف کو کچل رہی ہے۔
مگر آجکل اندرونی حالات کو چھپانا ۱۹۸۲ء کے مقابلہ میں نہایت مشکل کام ہے کیونکہ انفرادی طور پر بھی شامی اپنے بیرونِ ملک رشتہ داروں سے فون پر بات کرتے ہیں، ویڈیوز اور تصویریں موبائل سے بھیج سکتے ہیں، چند غیر ملکی صحافیوں سے بات چیت کر سکتے ہیں اور عرب لیگ کے معائنہ کاروں سے رابطہ کر سکتے ہیں جن کو اسد حکومت نے شام آنے کی اجازت دی ہے ’’تاکہ وہ دنیا کو بتائیں کہ یہاں سب اچھا ہے‘‘ مگر باغیوں نے جو تصویر کشی کی ہے کہ نہایت وحشت درندگی و ظلم کے ساتھ خانہ تلاشیاں لی جارہی ہیں، مظاہروں کو کچلا جارہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ نہ صرف اتنی بڑی سرحد کو بند کرنا بہت مشکل ہے، اس کے علاوہ انٹرنیٹ کے ہوتے ہوئے اطلاعات کو باہر جانے سے روکنا ناممکن ہے۔
حمص شہر میں بجلی بند کرنا، راستے بند کرنا، گھر گھر تلاشی لینا اور نوجوانوں کو گرفتار کرنا یہ موجودہ نظامِ حکومت کی بوکھلاہٹ اور کمزوری کا اظہار ہے، ان کو بچے کھچے لوگوں کو دہشت زدہ کرنا، اپنی ظالمانہ کارروائیوں کی اطلاع باہر جانے سے روکنے کا کوئی اور راستہ سجھائی نہیں دیتا؟
شام خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے!
اسد کی حکومت ہو، اوباما انتظامیہ ہو یا مغربی لابی، مستقل خانہ جنگی کی پیشگوئی کر رہے ہیں مگر حقیقتاً خانہ جنگی پہلے ہی شروع ہو چکی ہے۔ ’’حمص‘‘ اور ’’ہما‘‘ جیسے شہر حامی اور مخالف کے درمیان تقسیم ہو چکے ہیں، یہاں کے عوام اپنی جان بچانے اِدھر سے اُدھر نقل مکانی کر رہے ہیں۔
بہت سی شہادتیں مل رہی ہیں کہ یہ تقسیم بڑے پیمانے پر ہو چکی ہے ان میں سے کچھ گروہ مسلح بھی ہیں، فرقہ وارانہ بنیاد پر یہ تقسیم علوی، عیسائی اور کردوں کے درمیان ہے۔
کئی خاندان بھی حکومت کے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان تقسیم ہو گئے ہیں۔ یہ خاندان ایک دوسرے کے مخالف راستوں پر دور تک نکل گئے ہیں۔ جیسا کہ خانہ جنگیوں میں ہوتا ہے۔ لبنان اور بوسنیا میں بھی ایسا ہی ہوا کہ آپس میں نفرتوں اور مار دھاڑ کا بازار گرم ہوا، مارو یا مر جائو کی ایسی فضا بن گئی جس کی شدت قوموں کے درمیان عام جنگوں میں بھی نہیں ہوتی۔ بیرونی مداخلت کو آواز دینے والے اس تحریک کو خانہ جنگی قرار دینا نہیں چاہتے، اگر یہ مخاصمت خانہ جنگی مان لی گئی تو بیرونی طاقتوں کو شریک مداخلت کرنا مشکل ہو جائے گا کیونکہ پھر یہ جنگ پڑوسی ممالک میں بھی پھیل جائے گی۔
لیبیا میں اقتدار کی تبدیلی شام کے لیے نمونہ ہے!
لیبیا کی طرح پہلے انسانی بنیاد پر مدد دینے کے لیے بیرونی دبائو ڈالا جائے گا پھر اس کو پہنچانے والوں کے لیے محفوظ راستہ کی حفاظت کی بات کی جائے گی۔ شاید کہ فضائیہ کے ذریعہ نو فلائی زون کا انتظام کیا جائے گا۔ بہرحال صدر بشارالاسد کی حکومت سب ہتھکنڈوں سے واقف ہے اور اس سے بچنے کی تدابیر کرنے کے لیے تیار ہے۔ ایک یہ کہ ان کا نظام صدر قذافی کے مقابلے میں عوام میں گہری جڑیں رکھتا ہے، دوسرا یہ کہ اُس کی علویوں پر مشتمل وفادار فوجی تنظیمیں بڑے اثر و نفوذ کی حامل ہیں۔ اس کی خفیہ تنظیموں کا مخبری کا نظام بہت وسیع ہے اور کئی دہائیوں سے داخلی شورش سے نمٹنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
شام کو اس سلسلے میں روس سے سفارتی اور دوسری ہر طرح کی مکمل حمایت حاصل ہے، روس شام کو سب سے زیادہ فوجی سازو سامان فراہم کرنے والا ملک ہے۔
عالمی برادری کو مداخلت کرنی چاہیے!
روزانہ کی خبروں اور سماجی اداروں کی تصویر کشی سے شامی شہروں میں منظم تشدد، ہزاروں لوگوں کا قتل اور تباہی کا منظر پیش کیا جارہا ہے، یہ سب کچھ صرفِ نظر کرنا مغربی حکومتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے بس سے باہر ہو گیا ہے۔ مگر تشدد کی اس لہر کو فوری روکنے میں مزید مشکلات کا سامنا ہوگا۔
جیسا کہ قریب کی تاریخ بتاتی ہے کہ برائی اور اس کی حکومت کو روکنے کے لیے جو بھی قدم اٹھایا جاتا ہے تو جن شہروں کو بچانا مقصود ہوتا ہے وہیں زیادہ ہلاکتوں کا خدشہ یقینی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ۳۰ برس پہلے روسی مداخلت میں افغانستان میں لاکھوں افغانیوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔
اوباما انتظامیہ ایک بہتر حل نکال رہی ہے کہ اسد حکومت کے خلاف ایسی تادیبی پابندیاں لگائی جائیں جو ایک عرصہ میں شام کی معیشت کو تباہ کر دیں، اس کے ساتھ سفری پابندیاں لگائی جائیں، امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا کہنا ہے کہ صدر بشارالاسد جنگی مجرم کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔
(ترجمہ: قاضی طارق)
(“Five myths about Syria”… “Washington Post”. March 15th, 2012)
Leave a Reply