جیسا کہ دونوں کوریا‘ امریکا‘ چین‘ جاپان اور روس ایک سال سے زائد کی مدت میں شش فریقی گفتگوکے پہلے رائونڈ کی تیاری کر رہے ہیں‘ شمالی کوریا کو جوہری ہتھیار سے غیرمسلح کیے جانے کے مرکزی مسئلے پر پیش رفت کی امید ہو چلی ہے۔ جنوبی کوریا نے شمالی کوریا کو عظیم مقدار میں بجلی فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے‘ اس شرط پر کہ پیانگ یانگ اپنا جوہری پروگرام ترک کر دے۔ امریکی خفیہ ایجنسی کے ایک سرسری اندازے کے مطابق اس وقت شمالی کوریا کے پاس ۸ جوہری بم ہیں۔ امریکا نے مراعات کے حوالے سے شاید ہی کوئی متعین بات کی ہو لیکن وہ جنوبی کوریا کی پیشکش کے سبب ایک طرح کا اطمینان محسوس کرتا ہے۔ اس نے شمالی کوریا کو سلامتی کے حوالے سے یقین دہانیاں کرائی ہیں بشرطیکہ وہ این پی ٹی کے جوہری عدم پھیلائو کے نکات کو تسلیم کر لے اور اسی نوعیت کا معاہدہ وہ امریکا اور جنوبی کوریا کے ساتھ بھی کر لے۔ دیر سے ہی سہی‘ امریکی صدر جارج بش نے بھی کیم جونگ دوم کی حکومت کے خلاف دشمنی کے اظہار میں کمی کا عندیہ دیا ہے۔ ان سب کے باوجود کسی بریک تھرو کے لیے مشکلات اب بھی موجود ہیں۔ شمالی کوریا کے مسائل محض بجلی تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس سے ماورا ہیں۔ پہلی بات تو یہی ہے کہ ۸۰ کی دہائی کے مقابلے میں اس کی معیشت تقریباً آدھی رہ گئی ہے۔ یہ صورتحال اس امر کو مشتبہ بنا دیتی ہے کہ وہ مول تول کے سب سے بہترین ہتھیار یعنی جوہری ہتھیار پر Bargaining کرتے ہوئے جنوبی کوریا کی پیشکش سے فائدہ اٹھا سکے گا جو کہ ایک فراخدلانہ اور سنجیدہ پیشکش ہے لیکن یہ اسٹالینی ریاست کی ضرورتوں کے صرف ایک پہلو کی جانب توجہ مبذول کرتی ہے۔ علاوہ ازیں پیانگ یانگ کو شاید یہ بھی شک ہے کہ وہ اس ڈیل میں کوئی بڑی قیمت چکا سکے گا‘ خواہ یہ بارگیننگ کی صورت میں ہو یا آخر میں جوہری عدم توسیع سے انکار کی صورت میں ہو۔ لہٰذا شمالی کوریا جنوبی کوریا کی بیشتر تجاویز سے متفق ہو سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ کچھ مزید فوائد کا مطالبہ کرے گا اور یورینیم افزودگی کو ازسرِ نو شروع کرنے کے اپنے پروگرام پر اصرار کرے گا (خاص طور سے ایسی صورت میں جبکہ بیجنگ اور سیئول امریکی انٹیلی جینس سے مطمئن نہیں ہیں کہ شمالی کوریا اس طرح کا کوئی منصوبہ بھی رکھتا ہے)۔ بہرحال چین اور جنوبی کوریا ممکن ہے شمالی کوریا کے جوہری اسلحوں کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہ دیکھتے ہوں لیکن وہ اس کے ساتھ گزارہ کرنے کے عادی ہو گئے ہیں اور وہ اس پر کہ جزیرہ جنگ کی لپیٹ میں آئے اور عدم استحکام سے دوچار ہو جائے‘ شمالی کوریا کے جوہری ہتھیار کو ترجیح دیں گے چونکہ امریکا کی جانب سے فوجی کارروائی کے امکانات بہت زیادہ محدود ہیں‘ اس لیے کہ شمالی کوریا میں اسٹرائک کے لیے مناسب مقامات کی کمی ہے یا اس وجہ سے کہ امریکی افواج افغانستان اور عراق میں مصروف ہیں یا اس وجہ سے کہ سیئول کسی جنگ میں حصہ لینے کے لیے آمادہ نہیں ہے‘ شمالی کوریا گفتگو کے ناکام ہونے کی صورت میں کسی حملے کے خوف سے بے پروا ہے۔ نہ ہی یہ کسی اقتصادی ردِعمل کے خوف سے ہراساں معلوم ہوتا ہے۔ ٹوکیو ممکن ہے کہ اپنی جانب سے کچھ نئی پابندیاں شمالی کوریا پر عائد کرنے پر غور کر رہا ہو مثلاً جاپان میں رہنے والے شمالی کوریا کے باشندوں پر شمالی کوریا رقوم بھیجنے کی پابندی لیکن چین اور جنوبی کوریا اس قسم کی پابندی عائد نہیں کریں گے۔ گفتگو کی جو بنیادی ایپروچ ہے‘ اس سے اب بھی کوئی ایسی سوچ غائب ہے جو باور کراتا ہو کہ اصل مسئلہ شمالی کوریا کی حکومت کی نوعیت ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بش انتظامیہ اس بات سے اتفاق کرے گی کہ جوہری بحران کی بنیادی وجہ کیم دوم کی اسٹالینی حکومت ہے۔ لیکن بش اس حکومت کو بدلنے کے حوالے سے اپنے غیرحقیقت پسندانہ نظریات پر قائم ہیں‘ بجائے اس کے کہ وہ قدرے عملیت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے اس حکومت کو اہم اسٹرکچرل تبدیلی کے لیے ابھارتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شمالی کوریا اس راہ پر آگے بڑھے جس پر پچھلے پچیس سالوں سے ویتنام اور چین گامزن ہیں یعنی اقتصادیات اور سیاسیات کو بتدریج آزاد کرتے ہوئے‘ اپنی افواج میں کمی کرتے ہوئے نیز حقوقِ انسانی کا ریکارڈ بہتر بناتے ہوئے۔ یہ تمام کام بہت ہی اچھے طریقے سے کمیونسٹ سسٹم کے دائرے میں رہتے ہوئے کیے جاسکتے ہیں۔ اگر پیانگ یانگ اس حوالے سے اپنی قوتِ ارادی ثابت کرتا ہے تو بین الاقوامی برادری بجلی معاہدہ اور سلامتی کی یقین دہانیوں سے آگے جاسکتی ہے اور اسے شش فریقی مذاکرات کے دیگر پانچ شرکاء‘ یورپی یونین اور ورلڈ بینک کی جانب سے ایک وسیع تر ترقیاتی پیکیج کی صورت میں امدادی پیشکش ہو سکتی ہے نیز امریکا کی جانب سے تجارتی پابندیاں اٹھائی جاسکتی ہیں۔ یقینا اس قسم کی اصلاحات کے لیے کیم کو آمادہ کرنا بہت ہی مشکل کام ہو گا۔ رومانیہ کی مثال ان پر بھی صادق آتی ہے یعنی کیم کو خوف ہو گا کہ کہیں وہ اسی بھیانک انجام سے دوچار نہ ہوں‘ جس کا سامنا Ceausescu کو ہوا اور یہ کہ اگر وہ اصلاحات کا سلسلہ شروع کرتے ہیں تو وہ اس کو کنٹرول نہیں کر سکیں گے۔ اسی وجہ سے اسٹرکچرل ریفارم کو فروغ دینے کی کسی بھی کوشش کے لیے تعاون کی شرط کے ساتھ بڑے بڑے فوائد کی لالچ ہی کافی نہیں ہو گی بلکہ عدم تعاون کی صورت میں کثیر الطرفہ پابندیوں کی دھمکی بھی ضروری ہے۔ موجودہ صورتحال کو کسی صورت باقی نہیں رہنے دینا چاہیے۔ کیم کو مجبور کیا جانا چاہیے کہ وہ یا تو تعاون کا راستہ اختیار کریں یا تصادم کا خطرہ مول لیں‘ جس کے نتیجے میں ان کے ملک کی گردن کے اطراف میں اقتصادی پابندیوں کا پھندا جکڑ دیا جائے گا۔ اسے یہ اجازت ہرگز نہیں دینا چاہیے کہ وہ بغیر کسی اہلیت کے ہی (Muddling through) اپنا مقصد حاصل کر لے۔ یہ وہ محاورہ ہے جسے انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کے Marcus Noland نے دس سال قبل استعمال کیا تھا۔ جنوبی کوریا کی جانب سے گفتگو کی تجویز کی کچھ حدود و قیود ہیں لیکن پھر بھی ایک محتاط پُرامیدی کی گنجائش باقی رہتی ہے۔
سیئول کی جانب سے بجلی کی پیشکش یقینا ایک بہت بڑی ترغیب ہے۔ پیانگ یانگ کو یہ ادراک کرنا چاہیے کہ اگر وہ ان عظیم مراعات کو ٹھکرانے پر مصر رہتا ہے تو وہ ممالک بھی جو اس وقت تصادم سے خوفزدہ ہیں‘ روز افزوں مشکلات کے پیشِ نظر امریکی شدت پسندوں سے سوال کریں گے کہ کیوں انہوں نے شمالی کوریا کے خلاف جبر کا راستہ ترک کر دیا؟
نوٹ: مضمون نگار بروکنگز انسٹی ٹیوشن میں سینئر فیلو ہیں اور کتاب “Crisis on the Korean Penninsula: How to Deal with a Nuclear North Korea کے Co-author ہیں۔
(بشکریہ: امریکی ہفت روزہ میگزین ’’ٹائم‘‘۔ شمارہ۔ ۲۵ جولائی ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply