
وہ دنیا کے مختلف حصوں میں سیاسی اور سماجی انقلاب کے لیے جدوجہد کرنے والے اسلامی تحریکوں کے کارکنان کو چند نکات پر غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں کہ:
۱۔ کیا وہ اپنے موجودہ راستے پر چلتے ہوئے معاشرے میں سیاسی اور سماجی انقلاب برپا کر سکتے ہیں؟
۲۔ کیا ان کی جدوجہد کا موجودہ طریقہ کار نبی اکرمصلی اﷲ علیہ وسلم کے طریقہ کار سے ہم آہنگ ہے؟
۳۔ کیا وہ اپنے اپنے ملکوں اور عالمی سطح پر ایک حقیقی اسلامی انقلاب کے امکانات کو بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں؟
۴۔ موجودہ حالات میں کیا وہ اندرونی رکاوٹوں اور بیرونی چیلنجز سے نمٹ سکتے ہیں؟
وہ لکھتے ہیں کہ اس وقت بہت سے ملکوں میں مسلمان غلامی اور مصیبت کی زندگی گزار رہے ہیں‘ انہیں سیاسی آزادی اور معاشی خودمختاری سے محروم رکھا جارہا ہے۔ وہ ان لوگوں کے ظلم و ستم کا شکار ہیں‘ جو حکمرانوں کی صورت میں ان پر مسلط ہیں۔ یہ حکمران اپنے غیرملکی آقائوں کے جوتے چاٹ رہے ہیں جبکہ اپنے عوام کو پوری بے رحمی کے ساتھ کچلنے میں مصروف ہیں۔ عالمِ اسلام پر مسلط حکمران اپنے عوام کو گلا گھونٹ کر مار ڈالنے کے در پے ہیں۔ لوگوں کی آزادی اور عزتِ نفس کے ساتھ زندگی گزارنے کی خواہش بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ حکمت یار کا سوال ہے کہ کیا ایسے حالات میں توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ مظلوم و مقہور قومیں بڑی قربانیاں دینے اور اپنے دشمنوں کے خلاف انقلاب کا راستہ اختیار کرنے پر تیار ہو جائیں گی؟
ماضی میں اسلامی دنیا پر نوآبادیاتی نظام والے مسلط رہے ہیں لیکن جب عوام نے ان کی فوجوں کو بزورِ قوت مسلمان علاقوں سے انخلا پر مجبور کر دیا تو انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کے بعد یہاں ان کی کٹھ پتلیاں ہی حکمرانی کریں جو ان کے مفادات کی نگہبان ہوں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کریں:
۱۔ انہوں نے ان ملکوں میں اس انداز میں فوجوں کی تنظیم کی کہ ان کا مسلط کردہ نظام ہمیشہ قائم رہے۔ فوجیں ہمیشہ اس نظام کا دفاع کرتی رہیں اور قومی تحریکوں سے برسرِ پیکار ہیں۔
۲۔ نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم اس انداز سے ترتیب دیا گیا کہ نوجوان نسل کی برین واشنگ ہو‘ ان کے دماغ سے احساسِ آزادی اور عزتِ نفس جڑ سے اکھاڑ پھینک دی جائے۔ جبکہ ان کے ذہنوں کے اندر غلامی کا احساس ڈال دیا جائے جس کے ذریعے وہ اپنے غیرملکی آقائوں کی نقالی پر فخر محسوس کرتے رہیں۔
۳۔ ان ملکوں کے جغرافیائی نقشے اس طرح ترتیب دیے گئے کہ وہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہمیشہ کے لیے سرحدی تنازعات میں الجھے رہیں۔ جغرافیائی تقسیم میں اس بات کا بھرپور خیال رکھا گیا کہ آزادی سے محبت کرنے والی اقوام کو بھی تقسیم کر دیا جائے۔ مثلاً کرد اور پختون جو نوآبادیاتی حکمرانوں کے خلاف جنگوں میں اپنا لوہا منوا چکے تھے‘ ایسی اقوام کو ان کے حقِ حکمرانی سے محروم کر دیا گیا۔
۴۔ ایسی اقلیت کو حکومت میں رکھا گیا جو اپنے غیرملکی محسنوں کی حمایت سے اقتدار سے چمٹی رہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی تحریک مسلمانوں کے ان نقشوں کی ازسرِ نو ترتیب کی ضرورت پر قائل ہو سکتی ہے‘ جو نوآبادیاتی طاقتوں نے من مانی کرتے ہوئے غلط انداز میں تیار کیے تھے؟ بالخصوص ایک ایسے وقت میں کیا یہ کام ہو سکتا ہے کہ جب مغرب کی پروپیگنڈا مشینیں تسلسل کے ساتھ قومیت کے ہسٹریا کا باجا بجا رہی ہیں‘ لوگوں کو لسانی‘ علاقائی اور نسلی عصبیت میں مبتلا کر رہی ہیں۔ ایک ہی علاقے کے لوگوں کو ایک دوسرے سے برسرِ پیکار کرنے کے لیے مشتعل کر رہی ہیں تاکہ کوئی فرد بھی نوآبادیاتی نظام کی کھینچی ہوئی نام نہاد مقدس سرحدوں کے بارے میں انگلی نہ اٹھا سکے اور ایک عظیم اسلامی قوم اور امت بننے کے بارے میں نہ سوچ سکے۔
حکمت یار مضمون میں ان سوالات پر بھی تفصیل سے بحث کرتے ہیں کہ اب تک اسلامی تحریکیں ابتدائی کامیابیوں کے باوجود آخر کیوں مکمل انقلاب لانے میں ناکام رہی ہیں؟ آخر کیوں مجاہدین دشمن فوج کو اپنے پیارے وطن سے نکال باہر کرنے کے باوجود اسلامی حکومت قائم کرنے میں ناکام رہے؟ اور ناکامی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ اسلامی تحریک پر؟ مسلم اقوام پر؟ یا پھر دشمن ہی اس قدر قوی ہے کہ وہ ہمیں منزل کی طرف بڑھنے سے روک دیتا ہے؟ ہم اپنے کامیاب تجربات کو ناکامی کا شکار ہونے سے کیسے روک سکتے ہیں؟
ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں کسی بھی اسلامی تحریک کی جدوجہد کا نبی کریمصلی اﷲ علیہ وسلم کی روایات کی روشنی میں جائزہ لینا ہو گا۔ کیا مندرجہ ذیل چار مراحل اس کی جدوجہد میں آتے ہیں؟
۱۔ کسی بھی اسلامی تحریک کا پہلا مرحلہ حضور اکرمصلی اﷲ علیہ وسلم کے دورِ مکہ سے مشابہ ہو گا۔ اس دور میں اسلامی تحریک کو ستایا گیا‘ کارکنان پر ظلم و جور کے پہاڑ توڑے گئے‘ ان کا بائیکاٹ کیا گیا‘ ان پر پابندی عائد کی گئی‘ اس وقت کے حکمرانوں نے انہیں جلاوطن کر دیا لیکن اسلامی تحریک نے کسی قسم کی مفاہمت سے انکار کر دیا۔ آج کی اسلامی تحریکوں کو بھی اپنی جدوجہد جاری رکھنا ہو گی۔ چاہے علانیہ طور پر یا خفیہ انداز میں اور اپنی بنیادی خصوصیات کو برقرار رکھنا ہو گا یہ موجودہ نظام کے سیاسی نظریاتی اور سماجی اداروں کے خلاف مکمل بغاوت کے لیے ضروری ہے۔ ظالم حکمرانوں سے محدود نوعیت کی تحریک چلانے کے لیے لائسنس حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ظالم حکمرانوں کے بتائے ہوئے دائروں میں رہ کر تحریک چلائی جائے کہ کہیں وہ اشتعال میں نہ آجائیں۔
۲۔ جو تحریک حضور اکرمصلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے اصولوں پر سودے بازی کرنے سے انکار کر دے‘ اسے ہجرت کے مرحلے سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ اسلامی انقلاب کے لیے ٹھیک ٹھیک انداز میں جدوجہد کرنے والوں کو اس مرحلے سے ضرور گزرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے۔
۳۔ اس جدوجہد کا تیسرا مرحلہ عسکری مزاحمت پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب ایک بیس کیمپ میسر آجائے۔ حضور اکرمصلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلح جہاد اس وقت شروع کیا جب ان کو مدینہ بستی کی صورت میں ایک بیس کیمپ مل گیا پھر آپصلی اﷲ علیہ وسلم نے فوراً چھوٹی چھوٹی گوریلا کارروائیاں شروع کر دیں تاکہ دشمن کی حاکمیت کو برباد کر دیا جائے‘ اس کا امن وسکون تباہ کر دیا جائے جو اس کے اقتدار کو تقویت پہنچاتا تھا۔ کھلی لڑائیوں اور جنگوں کا مرحلہ بعد میں آیا۔
درحقیقت گوریلا جدوجہد ’’اسٹیٹس‘‘ کو تباہ کرتی ہے‘ ظالم حکمرانوں کے اقتدار کو کمزور کر دیتی ہے۔ اس کے بعد لوگوں کو طلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا موقع ملتا ہے اور ایک قومی تحریک کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ اسی طرح گوریلا جدوجہد کے نتیجے میں ظالم حکمران اپنی معاشی اور تجارتی اغراض کے لیے مناسب تحفظ سے محروم ہو جاتے ہیں۔ دراصل یہ اغراض ان کے اقتدار کی ابدیت کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔
کوئی بھی حکمران گوریلا جدوجہد کو ظالمانہ ہتھکنڈوں کے ذریعے زیادہ دیر تک روک نہیں سکتا۔ اس لیے کوئی بھی فرد آسانی سے یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ گوریلا جدوجہد کسی ظالم کا تخت الٹانے کا آسان طریقہ ہے۔ نبی اکرمصلی اﷲ علیہ وسلم کی جنگی حکمت عملی کا اگر قریب سے جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ آپصلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلے چھوٹی چھوٹی گوریلا لڑائیاں لڑیاں اور اس کے بعد وہ عالمی قوتوں کے لیے چیلنج بنے۔
۴۔ بعض اہم معاملات مثلاً معاشی اصلاحات وغیرہ کو بھی مکمل فتح یا مرکز پر غلبے تک ملتوی کر دینا چاہیے۔ حضور اکرمصلی اﷲ علیہ وسلم نے ریاست مدینہ کی تشکیل کے بعد ہی ایسے معاملات کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا۔
نوآبادیاتی دور کی باقیات کا خاتمہ
اس وقت بھی عالمِ اسلام کے اکثر ممالک میں نوآبادیاتی دور کی باقیات حکمرانی کر رہی ہیں۔ یہ حکمران چاہے خاندانی نظامِ حکومت چلا رہے ہوں یا فرقوں اور نسل کی بنیاد پر حکومت کر رہے ہوں۔ بہت سے معاملات میں ان حکمرانوں نے اپنے مخالفین کو ہر قسم کے اسلامی اور انسانی حقوق سے محروم رکھا ہوا ہے۔ بالخصوص اپنے نظریاتی مخالفین مثلاً سنیوں اور شیعوں کو۔ ان ملکوں کے عوام بھرپور کوششوں اور بے پناہ قربانیوں کے باوجود اپنے اوپر مسلط ظالم حکومتوں کو گرانے میں ناکام رہے ہیں۔
بلاشبہ عالمِ اسلام میں جاری سیاسی اور سماجی نظام دراصل غیرملکیوں کا مسلط کردہ ہے اور اس کے ذریعے صلیبیوں اور یہودیوں کے مفادات پورے ہو رہے ہیں۔ عالمِ اسلام کے اندر قائم جغرافیائی سرحدیں اور لوگوں کی تقسیم غیرفطری ہے۔ اس طرح لوگوں کو مستقل طور پر کئی حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ مثلاً پختونوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ بلوچیوں کو تین حصوں اور کردوں کو چار حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ اس وقت اسلامی دنیا اپنی زندگی کے ایک اذیت ناک دور سے گزر رہی ہے۔ اس دنیا میں باشعور لوگوں کی اکثریت‘ چاہے وہ فوج میں ہو‘ سول اداروں میں یا پھر عام افراد ہوں‘ اپنے حکمرانوں سے شدید نفرت کرتی ہے۔ وہ لوگوں کو محبوس کرنے والی ڈکٹیٹر شپ سے نفرت کرتی ہے‘ کرپشن اور طبقاتی نظام سے نفرت کرتی ہے۔ لوگ انسانیت کو ذلیل کر دینے والی غربت اور غیرملکی طاقتوں کی باج گزاری سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ تبدیلی چاہتے ہیں۔ ان کو اسلامی نظام کے علاوہ کوئی متبادل بھی نظر نہیں آتا۔ چنانچہ وہ فطری طور پر اسلامی تحریکوں کے پیروکاروں کا ساتھ دیتے ہیں۔ اسلامی جماعتوں کو اس موقع سے دونوں ہاتھوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اپنی توجہ فوج اور تعلیمی اداروں ہی کی طرف مرکوز کرنی چاہیے۔ بلاشبہ آرمی کے ذریعے تبدیلی آسان کام ہے لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ آرمی کے افسران اسلامی جماعتوں کے ساتھ رابطے رکھتے ہیں۔ وہ تذبذب کا شکار ہوتے ہیں اور اکثر سوالات اٹھاتے رہتے ہیں۔ دراصل اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی تربیت ایک مخصوص نہج پر ہوتی ہے۔ وہ خاصے تابع فرمان ہوتے ہیں‘ نسبتاً سخت مزاج رکھنے والے ہوتے ہیں بالخصوص اپنے ماتحتوں کے ساتھ خاصی سختی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دوسری طرف یہی تربیت یافتہ فوجی جب حکمران بنتے ہیں‘ اگر ان کا تعلق غیرملکی آقائوں سے ہو تو وہ ان کی تابعداری میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ وہ اپنی ہی قوم کو بری طرح کچلنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر فوجی بغاوتوں کی بات کی جائے تو پھر مندرجہ ذیل پر غور کرنا ضروری ہوتا ہے:
۱۔ ایسی فوجی بغاوتیں ہمیشہ اس ملک میں کامیاب ہوتی ہیں جہاں کی فوج کا حجم محدود ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ چند ممالک کو چھوڑ کر باقی تمام اسلامی ملکوں میں فوجی بغاوتیں کامیاب ہو سکتی ہیں۔
۲۔ کسی فوجی انقلاب کی کامیابی کے لیے ضروری نہیں ہے کہ اس میں فوجی افسران یا فوجیوں کی بڑی تعداد شریک ہو۔ اس میں خطرہ ہوتا ہے کہ فوجیوں کی بڑی پیمانے پر شرکت سے بہت سے راز افشا ہو جائیں گے‘ یوں انقلاب ناکامی پر منتج ہو گا۔ کامیاب بغاوت کے لیے آرمر ڈویژن کی چند رجمنٹس‘ کمانڈوز اور ان کے ساتھ ایئر فورس کے کچھ فعال لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ایئر فورس کو حکمرانوں کے دفاع کے لیے روک سکیں۔ رن وے پر رکاوٹ کھڑی کرنے کے لیے چند ٹینک کافی ہوں گے۔ یوں انقلاب کامیابی سے ہم کنار ہو جائے گا۔ اگر ان کے ساتھ کچھ ایسے لوگ جائیں جو اعلیٰ افسران کو ٹھکانے لگا سکیں تو انقلاب کی کامیابی کی مکمل ضمانت دی جاسکتی ہے۔
۳۔ اگر اسلامی دنیا میں بپا ہونے والے فوجی انقلابوں کا قریب سے مطالعہ کریں بالخصوص افغانستان کے انقلاب کا‘ جب دائود اور کمیونسٹوں نے اپریل ۱۹۷۸ء میں انقلاب بپا کیا تھا تو واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ انقلاب میں فعال لوگ جنرل نہیں تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے ک ہ انقلاب کی کامیابی میں نچلے درجے کے چند افسران نے کردار ادا کیا تھا جو مختلف کلیدی جگہوں اور خطوں میں موجود تھے۔
افغان جِہاد کی خصوصیات
افغان جہاد کے بعد بہت سی جہادی تحریکیں سامنے آئیں لیکن انہوں نے افغان مجاہدین کے تجربات سے استفادہ نہیں کیا۔ ان میں سے کوئی بھی جدوجہد کر کے افغان مجاہدین جتنی کامیابیاں حاصل نہ کر سکی۔ میں یہاں افغان جہاد کی کچھ خصوصیات کا تفصیل سے تذکرہ کروں گا جن کی بدولت ہم نے عظیم الشان فتح حاصل کی:
۱۔ افغان جہاد ایک ایسی پارٹی نے شروع کیا تھا جس کی ترجیح جہاد تھی‘ جس کے ہاں بہترین نظم و ضبط اور جس کی مضبوط تنظیم کی وجہ اس کی نوجوانوں کے اندر گہری جڑیں تھیں۔ اس تنظیم نے یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات کے اندر بھی کامیابی حاصل کی تھی۔ اس تنظیم نے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے مظاہرے بھی کیے۔
۲۔ اس کے اثرات افواج کے اندر بھی تھے۔ بے شمار فوجی اس کے ارکان تھے۔ اس نے کئی مرتبہ ظالم حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی مگر بہت سی وجوہات کی بنا پر ناکام رہی۔ تاہم ان مسلمان فوجی افسران نے جہاد کے دوران زبردست خدمات سرانجام دیں اور انہوں نے مجاہدین کی خاطر کئی چھوٹی چھوٹی کامیاب بغاوتیں بھی کیں۔
۳۔ کمیونسٹ اقتدار کے خاتمے کی بعد پارٹی نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ اس کے ساتھ ہی پارٹی نے دو ہمسایہ ممالک میں بیس کیمپ حاصل کر لیے جس کے بعد افغان جہاد کو بین الاقوامی حمایت اور پہچان مل گئی۔ افغانستان میں اسلامی تحریک جو ایک یونیورسٹی سے شروع ہوئی تھی‘ کو جلد ہی مسجد اور فوج کے اندر سے بھی حمایت مل گئی۔ یہ معاملہ ایران کی طرح تھا۔ ایران اور افغانستان کے تجربات نے ثابت کیا کہ جب ایک بار ظالم کا تختہ الٹ جاتا ہے اور لوگ باہر نکل آتے ہیں تو طاقت اپنے آپ علماے کرام کے ہاتھ میں آجاتی ہے کیونکہ مساجد کی وجہ سے ان کو عوامی رہنما کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس مرحلے پر کوئی دوسرا گروہ ان کی قیادت کو چیلنج کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔
۴۔ کمیونزم کے انہدام کے بعد نوآبادیاتی حکمرانوں کو چیلنج کرنے والی صرف اسلامی تحریکیں ہی رہ گئی ہیں۔ اس سے پہلے مغربی نوآبادیاتی طاقتیں جن کمیونسٹ اور نیشنلسٹ تنظیموں کو اپنا دشمن سمجھتی تھیں‘ ان تنظیموں اور گروہوں کی پشت پناہی سویت یونین اور چین کر رہے تھے۔ لیکن اسلامی تحریکوں کو کسی کی پشت پناہی حاصل نہیں تھی۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد پورا مغرب نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مسلمانوں کے خلاف لڑائی میں ایک ہو چکا ہے۔ اب دونوں کمیونسٹ طاقتیں روس اور چین بھی اس لڑائی میں مکمل طور پر مغرب کا ساتھ دے رہی ہیں۔ وہ خود بھی چیچنیا اور مشرقی ترکستان کی اسلامی تحریکوں کے خلاف ظالمانہ اِقدامات کر رہی ہیں۔ لیکن ان تمام تر رکاوٹوں کے باوجود آج اسلامی تحریک کو ایسے وسیع ذرائع میسر آچکے ہیں جو اس سے پہلے اسے حاصل نہیں تھے۔ اب اس کے پاس مخلص‘ بااعتماد‘ عالم فاضل اور جانثار ارکان موجود ہیں جو ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اسلامی تحریک کو اب ملکی سرحدوں سے باہر بھی حمایت ملتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ان وسائل کو یا ان میں کچھ وسائل کو عقل مندی سے استعمال کر لیا جائے تو تحریک عظیم الشان کامیابیاں حاصل کر لے گی۔ لیکن بدقسمتی سے ان وسائل کو مناسب انداز میں استعمال نہیں کیا جارہا ہے۔ اس لیے مطلوبہ نتائج بھی حاصل نہیں ہو رہے ہیں۔
آج اسلامی تحریک کے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں وہ کون سا ملک ہے جہاں نسبتاً کم وقت‘ تھوڑی انرجی اور کوشش سے مطلوبہ نتائج حاصل کر کے اسلامی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ اس ملک کا انتخاب کر کے ساری کوششوں کا محور و مرکز ہی ملک ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ افغانستان ہی وہ آئیڈیل ملک ہے جہاں امریکیوں کو شکستِ فاش دینے کے لیے سارے وسائل مہیا ہیں۔ اسٹراٹیجک اعتبار سے‘ دنیا کے کسی دوسرے حصے میں افغانستان سے بہتر کوئی ملک نہیں ہے۔ افغان ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ وہ جنگوں کے عادی ہیں۔ انہیں ایک نام نہاد سپر پاور کے خلاف کامیاب جنگ کا تجربہ بھی ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک سپر پاور ان کے ملک سے نکل بھاگنے پر مجبور ہوئی۔ افغان سمجھتے ہیں کہ امریکی روسیوں کی نسبت خاصے کمزور اور کم حوصلہ ہیں۔ اس ملک کی جغرافیائی خصوصیات بھی شاندار ہیں۔ بلند و بالا پہاڑ‘ تنگ وادیاں‘ گہری ندیاں اور نالے‘ گھنے جنگلات۔۔۔ یہ ساری چیزیں اس ملک کو گوریلا جنگ کے لیے مثالی بنا دیتی ہیں۔ آج اسلام کے خلاف صلیبی جنگ کا آغاز بھی اسی ملک سے ہوا ہے اور امت کی تقدیر بھی اسی جنگ سے بندھی ہوئی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دشمن یہاں کی دلدل میں اتر چکا ہے اور اب اسے شکست کا سامنا ہے۔ امریکا کا انجام روس سے کم تر نہیں ہو سکتا۔ اﷲ تعالیٰ اس امت کو آج کے فرعونوں سے ضرور نجات دلائے گا۔ ان شاء اﷲ!
یہ بدقسمتی ہے کہ آج بعض نام نہاد اسلامی گروہ اپنی تمام قوت اور وسائل اصل دشمن اور غیرملکی طاقتوں کی پروردہ کرپٹ حکومتوں کے خلاف استعمال کرنے کے بجائے ایسی سرگرمیوں میں ضائع کر رہے ہیں جن کا انہیں یا اسلام کو کوئی فائدہ نہیں۔ یہ گروہ فرقہ وارانہ فسادات میں الجھے ہوئے ہیں یا پھر اپنے ہی ہم وطنوں کو مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس طرح سرگرمیوں میں بعض اوقات انہیں بہت بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر ان سے احتراز کیا جائے تو ان کی یہی قوت معاشرے میں ایک بڑا انقلاب بپا کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
دشمن کے ساتھ جنگ‘ مگر کیسے؟
افغانستان کے موجودہ حالات میں‘ دشمن کے ساتھ دو بدو لڑائی ہمارے مفاد میں نہیں ہے۔ اس لڑائی میں وہی افغان قتل ہوں گے جو امریکا نے چند ڈالروں کے عوض اپنی حفاظت کے لیے کرائے پر حاصل کر رکھے ہیں اور جنہیں وہ ہمیشہ صفِ اول میں رکھتا ہے۔ ان افغان اتحادی فوجیوں کے قتل سے امریکا کو کچھ خاص نقصان نہیں ہو گا۔ اس کی بجائے جنگی منصوبے اس طرح تیار ہونے چاہییں کہ ان میں صرف اصل دشمن ہی نشانہ بنے اور تمام وسائل اور انرجی اسے ہی نیست و نابود کرنے پر خرچ ہو۔ اس کے لیے ’’ضرب لگائو اور بھاگ جائو‘‘ کی حکمت عملی کے تحت امریکی فوجی قافلوں پر اچانک حملے سود مند ثابت ہوں گے۔ دوبدو جنگ کے لیے جس بڑے پیمانے پر وسائل کی ضرورت ہوتی ہے وہ فی الحال مجاہدین کے پاس نہیں ہیں۔ اس لیے ایسی حکمتِ عملی پر غور کرنا چاہیے جو ان کی کارکردگی کو بہتر کرے۔ ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف بننے والا عالمی اتحاد بہت جلد ٹوٹنے والا ہے‘ کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ امریکا کے سارے اتحادی ’’فرینڈ لی فائرنگ‘‘ کے نام پر امریکا کے ہاتھوں اپنا نقصان کرواتے رہیں۔ اپنے اتحادیوں کا نقصان کرتے رہنا اب امریکیوں کی عادت بن چکی ہے۔ یہ صورتحال دنیا میں امریکا کی زیادتیوں کے خلاف ایک نیا مشترکہ محاذ تیار کرے گا۔ اس کی ابتدا ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں اکثر ممالک امریکا کے خلاف موقف اختیار کرتے ہیں۔ عراق پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے سلامتی کونسل میں امریکا کو تنہائی کا سامنا کرنا پڑا تھا‘ جس کے بعد دنیا کے ہر حصے میں عظیم الشان مظاہروں اور اجتماعات میں عراق پر امریکی حملے کی شدید مذمت ہوئی تھی۔ اگر (افغانستان اور عراق) امریکا کی خلاف مزاحمت میں مزید شدت پیدا ہوئی یا کم از کم اس نے موجودہ انداز برقرار رکھا تو اس سے پوری دنیا میں فرسٹریشن میں اضافہ ہو گا یوں امریکا کے منصوبہ ساز اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
عسکری منصوبے اس طرح بننے چاہییں کہ کارروائی کا اختیار مجاہد ہی کے پاس ہونا چاہیے۔ دشمن کو ان کے خلاف کارروائی کا موقع ہی نہ ملے اس حوالے سے مقام‘ وقت اور طریقہ۔۔۔ تینوں چیزیں نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ دشمن بلیک آئوٹ پالیسی پر کاربند رہتا ہے۔ وہ مجاہدین کے حملوں کی تصدیق نہیں کرتا۔ اگروہ تصدیق کرنے پر مجبور ہو جائے تو وہ ہلاکتیں کم بتاتا ہے۔ اگر امریکی انتظامیہ پالیسی اختیار کرتی تو امریکا میں جنگ مخالف رائے عامہ میں وسعت پیدا ہو جائے گا۔ بدقسمتی سے مجاہدین اپنے کامیاب آپریشنز کی ویڈیو فلمیں بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ امریکی ہلاکتوں کو دنیا میں دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔ مجاہد کو صحیح پروپیگنڈا پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ اس طرح ان کے آپریشنز کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔ ان کو دشمن کے خلاف صرف اسلحی جنگ ہی نہیں لڑنی چاہیے بلکہ نفسیاتی جنگ پر بھی بھرپور توجہ دینا ہو گی کیونکہ نفسیاتی جنگ کو آج کے حالات میں اسلحی جنگ سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
امریکیوں کو شکست دینا اور کابل کے حکمرانوں کو گرانا کیوں آسان ہے؟
کابل کی موجودہ حکومت غیرملکی طاقتوں پر انحصار کرتی ہے اور ان کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی۔ یہ غیرملکی آقائوں کے بغیر چند دن بھی زندہ نہیں رہے گی۔ افغانستان میں موجود غیرملکی فوجیوں کی تعداد یہاں آنے والی سوویت فوجیوں سے کہیں کم ہے۔ امریکی فوجیوں کا شہروں پر کنٹرول ہے نہ ہی شاہراہیں ان کے اختیار میں ہیں۔ کوئی فرد بھی امریکی فوجیوں اور ان کے اتحادیوں کو آسانی سے نشانہ بنا سکتا ہے اور کہیں بھی ان پر حملہ کیا جاسکتا ہے۔
مغربی فوجی بالخصوص امریکی فوجیوں کے پاس حوصلے اور ہمت کی بہت زیادہ کمی ہے۔ ان کے پاس روسی فوجیوں کی نسبت کم عسکری تجربہ ہے۔ اگر ان کی ہلاکتیں موجودہ شرح سے کچھ مزید بڑھ جائیں اور ان کے نقصانات کو میڈیا میں مکمل کوریج مل جائے تو وہ افغانستان سے رخصت ہونے میں ذرا سی دیر بھی نہیں لگائیں گے۔ اس لیے ہماری توجہ امریکا کا زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچانے پر مرکوز ہونی چاہیے۔ ہمیں باقی اہداف کو ثانوی حیثیت دینی چاہیے‘ غیرضروری تقسیم سے بچنا چاہیے۔ اپنے وسائل اور قوت کو ضائع ہونے سے بچانا چاہیے۔ افغانستان میں امریکیوں کو صرف ایک کامیابی حاصل ہوئی۔ وہ ہے طالبان حکومت کا خاتمہ۔ لیکن وہ خود یہاں اپنی علمداری قائم کرنے میں ناکام رہے‘ ایک مضبوط مرکزی حکومت نہ قائم کر سکے اور لوگوں کو تحفظ اور سکون فراہم نہ کر سکے۔ وسطی ایشیا سے گیس پائپ لائن حاصل کرنا امریکیوں کا ایک بڑا خواب تھا لیکن وہ اس کی تعبیر کی طرف ذرا سا بھی نہیں بڑھ سکے۔ اس کے علاوہ وہ افغانستان کے آزاد منش لوگوں کی مزاحمت کو کچلنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔ وہ افیون کی کاشت پر کنٹرول نہ پاسکے‘ مجاہدین کے ہاتھوں امریکی فوجی ہلاک ہو رہے ہیں لیکن وہ یہ ہلاکتیں نہ روک سکے۔ امریکیوں کی خدمت کرنے والے مختلف افغان گروہ آپس میں خونریز لڑائیاں کرتے رہے لیکن امریکی اس پر بھی کنٹرول حاصل نہ کر سکے۔ یہ ساری باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ امریکیوں کا زیادہ دیر تک افغانستان میں قیام ناممکن ہے۔ کسی بھی گوریلا جنگ کا بڑا مقصد ایسا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے کہ جہاں حکمراں گروہ‘ ان کے غیرملکی آقا پوری قوم پر عدم اعتماد کا مظاہرہ کریں‘ وہ ہر فرد سے خوفزدہ رہیں اور کسی فرد پر بھی اعتماد نہ کریں۔ ایک موثر مہم چلانے کی ضرورت ہے جس میں دکھا دیا جائے کہ پوری قوم غیرملکی فوجوں اور ان کی پروردہ حکومت کی مخالفت کر رہی ہے۔ گوریلا جنگ کا یہ بنیادی مقصد ہوتا ہے کہ دشمن اور مقبوضہ قوم کے درمیان نفرت اور بداعتمادی پیدا کر دی جائے۔ دشمن کسی طرح بھی پراپیگنڈہ مشین کا رخ ایک خاص گروہ یا چند خاص گروہوں کی طرف رکھتا ہے اور ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ حکومت کے مخالفین کے خلاف اس کی لڑائی جائز ہے۔ وہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ مخالفین کو نیست و نابود کرنا قوم کے مفاد میں ہے اور اس کو مکمل فتح تک جاری رہنا چاہیے۔
ان حالات میں مجاہدین اپنی کارروائیاں مختلف گروہوں میں رہ کر کرتے رہیں تاکہ دشمن کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ فلاں گروہ ہی یہ کام کر رہا ہے۔ مجاہدین کو چاہیے کہ وہ ایک عام آدمی کی نمائندگی کرتے ہوئے صرف اپنے ملک کی آزادی‘ اپنے ملک کی سالمیت اور اپنی اقدار کے تحفظ کی خاطر جنگ لڑیں۔ ان کو تمام مجاہد گروہوں کا احترام کرنا چاہیے اور متحد ہونے کی خواہش کو زندہ رکھنا چاہیے۔ اس طرح قوم اور حکومت نواز عناصر میں یہ احساس پیدا ہو گا کہ حکومت کے خلاف دشمنی کا محاذ بہت وسیع و عریض ہے اور افغانوں کی اکثریت غیرملکی فوجوں سے نفرت کرتی ہے اور ان کے جلد انخلا کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ہمیں اس حوالے سے بہت ہوشیار رہنا ہو گا کہ ایسے جہادی گروہ پیدا نہ ہو سکیں جو جہاد کے مقاصد کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمارے دشمنوں نے افغانستان میں بہت سے جہادی گروہ پیدا کر کے مجاہدین کے لیے ایک بڑا مسئلہ پیدا کر دیا تھا۔ یہ کام اسلام دشمنوں کے کہنے پر ہی ہوا تھا۔ پھر انہی گروہوں نے روسیوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ پیدا کر دیا تھا۔ یہ کام اسلام دشمنوں کے کہنے پر ہی ہوا تھا۔ پھر انہی گروہوں نے روسیوں کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے اور اب یہ اپنی قوم کے خلاف امریکیوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ مجاہدین کو اپنے سلوگن منتخب کرتے ہوئے بہت زیادہ ہوشیاری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ایسے نعرے لگانے سے پرہیز کرنا ہو گا جس سے قوم متنفر ہو جائے اور دشمن مجاہدین کے خلاف کامیاب پروپیگنڈہ کرنے کا موقع مل جائے۔ اسلام‘ آزادی‘ خودمختاری‘ تحفظ‘ انصاف‘ قومی یکجہتی‘ غیرملکی فوجوں کا انخلاء‘ قوم کی پسندیدہ ایک مضبوط مرکزی حکومت‘ ظالم حکمرانوں کا خاتمہ‘ عوام کے حقوق کے لیے جنگ اور معاشرے کے محروم طبقوں کی خدمت۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو مجاہدین کے نعروں کی صورت اختیار کریں۔ ہماری کامیابی کا راز اسی میں ہے کہ ہم دشمن کو اس طرح زیادہ نقصان پہنچائیں کہ اس میں ہمارا نقصان بالکل نہ ہو یا اگر ہو تو بہت کم ہو۔ اس طرح مجاہدین اور عوام کا مورال بلند ہو گا اور دشمنوں کا مورال کم ہو گا۔ مجاہدین کی کامیابی اسی میں ہے کہ دشمن کو معلوم نہ ہو کہ مجاہدین نے کب‘ کہاں اور کیسے حملہ کرنا ہے۔ کارروائی شروع کرنے کا موقع ہمیشہ مجاہدین کے ہاتھ میں ہو کسی ایسی جنگ یا کارروائی سے بچنا چاہیے جس کا قبل از وقت تعین نہیں کرنا چاہیے۔ یہ فضول کوشش ہوتی ہے۔ ان کو مناسب وقت تک ملتوی کرنا چاہیی۔ بصورت دیگر ان کے منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ جہاں تک حکومت سازی کا تعلق ہے تو یہ کہنا ضروری ہے کہ ہمیں ایسی اسلامی حکومت تشکیل دینی چاہیے جو لوگوں کی منتخب کردہ ہو۔ یہ ایسے افراد پر مشتمل ہونی چاہیے جو نیک‘ باصلاحیت اور دیانت دار ہوں اور لوگوں کی خدمت کریں‘ ناانصافی‘ کرپشن‘ امتیاز اور اقربا پروری کا قلع قمع کریں۔ مناسب وقت سے پہلے حکومت کی تشکیل سے بہت سے حساس معاملات پیش آتے ہیں۔ اگر متعین کردہ حکومتی افراد میں سے کوئی دشمن کے خلاف لرتے ہوئے ہلاک ہو جائے تو مجاہدین کے مورال پر برا اثر پڑتا ہے۔
طالبان کی ناکامی کے اسباب
طالبان کو افغانستان میں ایک سنہری موقع ملا تھا۔ وہ بہت سے اہم کام کر سکتے تھے لیکن بدقسمتی سے انہوں نے بعض بڑی غلطیاں کیں:
۱۔ انہوں نے غیرملکی طاقتوں کی تحریک پر حزب اسلامی کے ساتھ لڑائی شروع کر دی حالانکہ حزب اسلامی افغانستان میں سب سے پہلی اور بڑی اسلامی تحریک تھی اور افغانستان میں جہاد کے دوران ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی۔ طالبان کو چاہیے تھ اکہ وہ حزب اسلامی کے ساتھ تعاون کرتے اور اس کے ساتھ مل کر اسلام کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرتے۔ لیکن بدقسمتی سے وہ دوستوں اور دشمنوں کو پہچاننے اور ان میں فرق کرنے میں ناکام رہے اور اپنے فطری حلیفوں کے ساتھ لڑائی شروع کر دی۔ اس طرح انہوں نے اسلام کے مفادات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
۲۔ انہوں نے کمیونسٹ جنرل مالک پر اعتماد کیا اور اس کے ساتھ ایک معاہدہ کر کے شمال میں ہزاروں مسلمان مجاہدین کو بھیج دیا۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے انہیں کنویں میں پھینک دیا جائے۔ اسی طرح ایک فاش غلطی یہ کی کہ دوستم پر اعتماد کیا اور وہاں بھی مجاہدین نے ہتھیار ڈال دیے۔ ان دونوں جنرلوں نے ان ہزاروں مجاہدین کا قتلِ عام کر دیا۔ ان دونوں واقعات میں کم از کم دس ہزار طالبان کو قتل کر دیا گیا۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ ان کے بل بوتے پر پورے ملک پر حکمرانی کی جاسکتی تھی اور ان سے بہت بڑے کام لیے جاسکتے تھے۔
۳۔ طالبان نے پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں پر اندھا دھند اعتماد کیا۔ ان لوگوں کو اپنے درمیان کام کرنے کی کھلی آزادی دی۔ وہ پورے ملک میں آزادانہ گھومتی پھرتی رہی۔ بالآخر یہی پاکستانی خفیہ ایجنسی امریکا کے ساتھ مل گئی اور انہیں مکمل معلومات فراہم کیں۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘۔ حیدرآباد دکن۔ شمارہ۔ ۹ مارچ ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply