
کچھ غیر متوقع امور کی وجہ سے صومالیہ ایک بار پھر میڈیا کی سرخیوں میں ہے‘ ۱۹۹۱ء میں فوجی انتظامیہ کے زوال کے بعد پہلی بار ایک ہی طاقتور جنگی گروپ نے اس کے دارالحکومت موغادیشو پر قبضہ کرلیا تھا۔ ۱۹۹۱ء میں آزادی کے خود ساختہ علمبرداروں نے جو مختلف طبقات پر مشتمل تھے‘ دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے ملک پر قابض حکومت کو کامیابی کے ساتھ شکست دینے کے بعد اپنی سنگینیوں کا رخ ان لوگوں کی طرف کردیا جن کے بارے میں وہ’’ڈکٹیٹر شپ‘‘ کے خلاف جدوجہد میں نمائندگی کا دعویٰ کرتے تھی۔ اس کے بعد ۱۵ سال وہ گروپ تنہا ہی جنت موعودہ کا نمونہ پیش کرتا رہا۔ یہ گروپ قتل‘ عورتوں کے ساتھ زیادتی اور بلاامتیاز سرکاری و نجی ملکیت و سرمایہ کی لوٹ کھسوٹ اور تباہی و بربادی کی مہم چلاتے رہے‘ انہوں نے ملک اور اس کے شہریوں کو کسی بھی قسم کی باقاعدہ انتظامیہ سے محروم رکھا‘ جس کے نتیجہ میں صومالیہ کو ۱۵ سال تک بغیر کسی مرکزی حکومت کے رہنا پڑا۔ جنگی گروپوں نے فورسز کا استعمال آپس میں ایک دوسرے کے خلاف اور عوام کے خلاف بھی کیا جس سے ملک کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا‘ انہوں نے خود اپنے لیے بندرگاہیں اور ہوائی اڈے بنالیے اور ٹیکس جمع کیے‘ اس طرح حکومت کی قیمت پر خود کو مالدار و سرمایہ دار بنالیا۔ ان کی نظر میں کسی باقاعدہ حکومتی نظام کا مطلب ان کے ذاتی مفادات کے لیے خطرہ تھا۔ انہوں نے دس سال تک کسی حکومت کے نہ رہنے کے بعد ۲۰۰۰ء میں پڑوس ہی میں جبوتی میں عبوری طور پر قائم ہونے والی حکومت کو بھی کام کرنے نہیں دیا۔ جنگجو لوگ ’’موجودہ‘‘ حکومت میں خود ہی وزیر بن گئے لیکن اس کے ساتھ کام کرنے کے لیے کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
لاقانونیت اور جنگجوئوں کی طرف سے بلیک میلنگ نیز بڑے پیمانہ پر غنڈہ گردی اور دانشوروں کے قتل و بے قصور لوگوں کے اغواء سے پیدا ہونے والی اس سنگین صورتحال میں اسلامک کورٹس ابھر کر سامنے آئے‘ انہوں نے قاتلوں اور چوروں کو پکڑنا اور انہیں اسلامی شریعت کے مطابق سزا دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے وہ سب کچھ کیا جو کسی حکومت کو کرنا چاہیے۔ صومالیہ کے لیے اسلامی قانون یا شریعت کوئی نئی بات نہیں تھی۔ صومالی جمہوریہ کے پہلے آئین کے آرٹیکل ۔۱ کے پیرگراف ۳ میں کہا گیا ہے کہ ’’اسلام اس مملکت کا مذہب ہے۔ ۱۹۶۰ء میں جمہوریت کے قیام کے بعد سے سول قوانین کے ساتھ ساتھ عدالتیں شرعی قوانین پر بھی عمل پیرا ہیں۔ اس دوران دونوں قسم کے قوانین میں کبھی بھی کوئی تصادم نہیں ہوا۔
نااُمیدی اور مایوسی کے احساس نے ان اسلامی عدالتوں کو سامنے آنے کا موقع فراہم کیا‘ جب اقوام متحدہ اور افریقی یونین دونوں نے صومالیہ کے لوگوں کے استحصال کو نظرانداز کردیا‘ تو صومالیہ ہی کے کچھ لوگوں نے مقامی تاجروں کی مدد سے عوام کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دینے کی غرض سے ان عدالتوں کو قائم کیا۔ ان اسلامی عدالتوں نے امن پسند قانون کی عملداری بحال کی۔ کوئی نہیں جانتا کہ سی آئی اے اس وقت کیا سوچتا تھا جب اس نے ان ’’سیکولر وار لارڈز‘‘ قرار دیے جانے والے مرتے گھوڑوں کے ساتھ اتحاد کرکے سب کچھ کرایا تھا۔ صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں جن ہزاروں لوگوں نے حال ہی میں مظاہرہ کیا تھا‘ وہ امریکا کے خلاف نہیں ہیں۔ تاہم وہ امریکا کی طرف سے ان عناصر کے احیاء اور بحالی کی کوششوں کو مسترد کررہے تھے جو ملک اور اس کے باشندوں کا گزشتہ ۱۵ سال سے گلا گھونٹ رہے تھے۔۱۹۹۰ء کی دہائی کے اوائل میں موغادیشو میں ایک لڑائی میں کچھ امریکی سپاہی مارے گئے تھے۔
عام صومالی عوام کو اس کے لیے قصور وار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ البتہ جب کوئی صومالیہ میں اسلام کو نشانہ بناتا ہے‘ تو اس کا مطلب یہی لیا جائے گا کہ وہ پوری قوم کو نشانہ بنارہا ہے۔
موصالیہ میں فوجی حکومت کے زوال کے دس سال بعد پڑوسی ملک جبوتی میں اگست ۲۰۰۰ء میں ایک عبوری قومی حکومت تشکیل دی گئی لیکن امریکا یا یورپی یونین کسی نے بھی اس کی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ افریقی یونین نے اسے نیم دلی کے ساتھ مدد کی پیشکش کی۔ اس کی تین سالہ مدت کے خاتمہ پر اکتوبر ۲۰۰۴ء میں ایک نئی عبوری وفاقی حکومت نیروبی کینیا میں امریکا سمیت ہر ایک کی بھرپور حمایت سے قائم کی گئی لیکن وہ جو کچھ کرسکتی تھی اس میں اس کے ساتھ کسی باہمی رابطہ یا تعاون کے بجائے امریکا نے باغی وزیروں یا جنگجوئوں کے ساتھ ہاتھ ملانے کو ترجیح دی۔ صومالیہ کے باشندوں کی نظر میں اس کا مطلب ان کے خلاف اعلانِ جنگ تھا۔ اس سلسلہ میں یہ بات واضح نہیں ہے کہ یہ محض کوئی اتفاق تھا یا یہ صومالیہ کو اپنی حکومت بنانے نہ دینے کی ایک سوچی سمجھی کوشش تھی۔۲۰۰۰ء میں جبوتی میں پہلی حکومت کے قیام کے وقت سے ہی مختلف حلقے ایک مستقل مہم چلارہے ہیں کہ امریکا کے ذہن نشین یہ بات کردیں کہ صومالیہ القاعدہ کے دہشت گردوں کا اڈہ ہے حالانکہ اس دعویٰ کی تصدیق و توثیق کے لیے کسی کے پا س کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔ یہ حقیقت کہ امریکا نے اس وقت صومالیہ میں ان لوگوں کے ساتھ جنہیں وہ ’’سیکولر وار لارڈز‘‘ قرار دیتا ہے تعاون کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ اس امر کا مظہر ہے کہ سابقہ تمام الزامات بے بنیاد تھے۔ حقائق کے ساتھ اس امر کی بھی تصدیق ہوگئی ہے کہ صدر جارج بش نے صومالیہ کے حالیہ واقعات کے سلسلہ میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’دنیا میں جہاں بھی کوئی عدم استحکام کی صورتحال پید اہوتی ہے‘ ہمیں تشویش ہوتی ہے صومالیہ میں بھی عدم استحکام کی پوزیشن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سب سے پہلی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ صومالیہ القاعدہ کے لیے محفوظ اڈہ نہ بن جائے… کوئی ایسا مقام نہ بن جائے جہاں سے دہشت گرد منصوبہ بندی کرسکیں۔‘‘
اس کے لیے وہاں ایک ایسی حکومت کا ہونا ضروری ہے جو اس کی سرزمین اور بحری سرحدوں کو کنٹرول کرسکے اور اندرونی سیکورٹی قائم رکھ سکے۔ ۱۵ سال تک بغیر کسی مرکزی حکومت کے رہنے کے بعد صومالی عوام نے یہ امید قائم کی تھی کہ ان کی تعمیری سرگرمیوں کے لیے مدد و حمایت حاصل ہوتی نظر آئے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ دنیا میں یہ واحد ملک ہے جس کے وارلارڈز بین الاقوامی مارکیٹ میں کوئی مقام رکھتے ہیں انہیں اقوام متحدہ اور افریقی یونین میں عزت کا مقام حاصل ہے۔ سیر الیوں‘ آئیووری کاسٹ اور لائبریا وغیرہ میں وارلارڈز اور غاصب و دست درازی کرنے والوں کی مذمت کی گئی اور انہیں بین الاقوامی کورٹ آف جسٹس لے جایا گیا۔
سب سے پہلے صومالیہ کی تاریخ کو سمجھنا چاہیے‘ یہ ۱۰۰ فیصد مسلم آبادی والا ملک ہے۔ صومالی عوام انتہائی روادار ہیں۔ سوائے اس ’’انقلابی دور‘‘ کے جب حکومت نے اسکول کی طالبات کو ایک مخصوص قسم کا لباس پہننے کا حکم دیا۔
انٹیلی جنس سروسز میں اس قدر ذہین اور ہوشیار افسران کی موجودگی کے باوجود امریکا صومالی باشندوں کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے۔ پہلے ا س نے صومالیائی عوام کے خلاف کارروائی کے لیے علاقائی ایجنٹوں کو استعمال کیا۔ جو صومالی شہریوں کے خلاف کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے باوجود صومالی شہریوں کے خلاف مستقل زیادتی کی جارہی ہے۔ ایسے بھی الزامات ہیں جن میں پوری صومالی قوم کو بنیاد پرست اور دہشت گرد قرار دیا گیا لیکن یہ تمام کوششیں ناکام ہوگئیں۔ کیونکہ یہ تمام الزامات بالکل بے بنیاد تھے۔
آخر میں ایک دلچسپ خط کا ذکر کرنا بہتر ہوگا‘ جو میں نے نیشنل آرکائیوز آف انڈیا نئی دہلی کے شعبہ خارجہ امور میں پڑھا جس پر ۴ مارچ ۱۸۷۰ء کی تاریخ درج ہے‘ یہ عدن میں برطانیہ کے سیاسی اسسٹنٹ منیجر جنرل سرای کے رسل کا بمبئی میں حکومت کے سیکریٹری کے نام ہے جس میں کہا گیا ہے میں نے بربیرا میں ایک مقامی شخص سے سنا ہے کہ مصری حکومت کے حاکم نے بندوق‘ سپاہی اور ٹینسٹ جمع کرلئے ہیں اور ان سب کو بربیرا میں پہنچا دیا ہے اور اس کی نیت بربیرا اور بوہار کے ساحلِ سمندر کے علاقہ پر اپنی حکومت کے لیے قبضہ کرنے کی ہے۔‘‘ جنرل نے بتایا کہ ’’بحری جہاز (سند) پیرم کو ریلیف سے واپس لے آیا ہے اور اسے پھر پیر کے روز بربیرا پہنچایا جائے گا تاکہ حالات پر نظر رکھے اور اگر ممکن ہو تو قبائلیوں کو اپنے ملک میں مسلم حکومت قائم کرنے سے روکے‘‘ کیا آج صومالیہ میں بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے؟‘‘
(مضمون نگار صومالی سفیر برائے بھارت ہیں)
(ایشین ایج سے ترجمہ)
Leave a Reply