عراق میں صہیونی سلطنت کے قیام کا منصوبہ

مصر سے شائع ہونے والے ایک دینی ماہنامہ التوحید‘ القاہرہ نے اپنے اداریہ میں اختتامِ رمضان (نومبر ۲۰۰۳ء) کو ریاض (سعودی عرب) کے رہائشی کمپلیکس المحیّا میں بم دھماکے کے پیچھے امریکا و یہود کی خفیہ سازش دیکھی‘ پھر اسرائیلی اخبار معاریف کے مفتیٔ مصر ڈاکٹر علی جمعہ اور شیخ الازہر ڈاکٹر محمد سعید طنطاوی کے خلاف دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کے الزامات اور فرانس وجرمنی میں اسلام کے خلاف مہم پر تنقید کی‘ اس کے بعد ایک ایسے موضوع پر اظہارِخیال کیا جس کی شاید اب تک کوئی خبر ہماری دینی یا غیر دینی صحافت میں شائع نہیں ہوئی۔ یعنی نیل سے فرات تک عظیم تراسرائیلی سلطنت کے قیام کے لیے عراقی اراضی کی یہودیوں کے ہاتھوں خرید و فروخت۔ اداریہ کے اس جز کا عنوان ہے ’’عراق میں دوسری نئی یہودی سلطنت کے قیام کے لیے امریکی صہیونی منصوبہ‘‘ مدیر اعلیٰ کا خیال ہے کہ ’’اس منصوبہ کی صدائے بازگشت سرکاری حلقوں اور وسائل ابلاغ عامہ میں سنی جانے کے باوجود عرب حکام بدستور غفلت کی نیند سورہے ہیں۔‘‘ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد فلسطین کی مقدس سرزمین پر برطانیہ کی نگرانی میں دھونس دھاندلی کے ساتھ خرید وفروخت اور جابرانہ قبضہ کے بعد پہلی یہودی سلطنت کے قیام کے پسِ منظر میں اب عالمی سامراج کے یکتا دعویدار امریکا کی نگرانی میں دوسری یہودی حکومت کے قیام کا سازشی منصوبہ کوئی بعید بات نہیں ہے۔ امت کے فکر مند حلقوں کی اطلاع اور سوچ بچار کے لیے اس ادارتی نوٹ کا ترجمہ پیش ہے:

… رمضان کے مبارک ایام بھی گزر گئے جبکہ ہر طرف سازشوں کے جال بنے جارہے ہیں۔ سرزمین عراق پر ایک خفیہ سازش جاری ہے جس کا ظاہری پہلو تو فقط اسلام اور مسلمانوں سے بغض و نفرت رکھنے والے دشمن کا عراق پر قبضہ ہے‘ جبکہ درپردہ تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دراصل دوسری یہودی سلطنت کے قیام کا صہیونی۔ امریکی سازشی منصوبہ ہے جو اس مرتبہ عراق کی سرزمین پر نافذ کیاجارہا ہے تاکہ نیل سے فرات تک عظیم تر اسرائیلی سلطنت کے قیام کے ذریعہ قدیم صہیونی خواب کی تعبیر پوری ہو۔

اس منصوبہ کی خبروں کو واشنگٹن کی طرف سے چھپانے کے باوجود اس کی تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب بات صرف الماریوں میں بند منصوبوں یا ہزاروں کلو میٹر دور واشنگٹن یا نیویارک میں چند دبائو ڈالنے والی صہیونی جماعتوں کی تجاویز تک محدود نہیں رہی‘ بلکہ فی الوقت وہ ایک مکمل منصوبہ کی شکل میں قابض امریکی افواج کی بالفعل شرکت سے سرزمینِ عراق پر عملاً نافذ کی جارہی ہے‘ وہاں دبائو ڈالنے والی یہودی جماعتیں عراق کے بدترین اقتصادی حالات سے فائدہ اٹھا کر اس منصوبہ کو نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہیں جس کو امریکی و اسرائیلی ماہرین نے وضع کیا ہے‘ اور اس کی تنفیذ شخصی طور پر دہشت گرد اسرائیلی وزیراعظم شارون کی نگرانی میں جاری ہے‘ یہ پور امنصوبہ کئی سطحوں پر زیرِ عمل ہے:

(۱) اس سازشی منصوبہ کی ابتدا شمالی عراق میں جائیدادوں اور گھروں کی خرید وفروخت کے لیے ان کے عراقی مالکوں کو بڑے مالی فوائد کی پیشکش سے ہوئی ہے‘ اس کا مقصد پہلے کردی سلطنت کا قیام پھر اس پر یہودی ٹھپہ لگانے کا منصوبہ ہے جس کی نگرانی خود شارون کررہا ہے‘ اس کام کے لیے اسرائیلی موساد کے پانچ سو ساٹھ جاسوس امریکی ناموں اور پاسپورٹوں سے عراق میں داخل ہوچکے ہیں۔ امریکی سی آئی اے نے ان کے داخلہ پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا‘ صرف تعداد میں اضافہ کی وجہ پوچھی تو اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے عراق میں امن و امان کے تقاضوں کا بہانہ بنایا اور اس کو امریکی انتظامیہ نے قبول کرلیا‘ یہ اسرائیلی جاسوس امریکی وزارتِ دفاع پینٹاگون کے فوجی افسران کی وردی پہنتے ہیں۔ یہ بھی توقع ہے کہ عراق کی متعینہ علاقوں میں اسرائیل مزید چار سو جاسوس بھیجے گا جن کا بنیادی کام یہ ہوگا کہ وہ عراق کے اجتماعی‘ اقتصادی‘ سیاسی حالات کی معلوماتی رپورٹیں پیش کریں‘ فی الوقت یہ جاسوس عراقی اراضی کی ملکیت‘ مالکوں کی اصل‘ ان کی سماجی حیثیت‘ خاندانی حالات اور امن و امان کی دشواریوں کی معلومات جمع کرنے کا اہم ترین کام انجام دے رہے ہیں۔

(۲) اسرائیلی شہری کارکنوں کا ایک گروہ بھی عراق کے اندر کام کررہا ہے‘ اس کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ وہ امریکی جاسوسی محکمہ کے تابع ہے لیکن بعد میں واضح ہوا کہ وہ اسرائیلی جاسوسی محکمہ کے تحت ہے‘ اس گروہ میں امریکی یہودیوں کے علاوہ اسرائیلی تاجر اور فوجی سامل ہیں او ریہ گروہ عراق کے فوجی و شہری دونوں انتظامی اداروں سے مستحکم تعاون رکھتا ہے‘ اس کا نشانہ قابلِ خرید عراقی اراضی کی معلومات‘ ان کی بدامنی کے علاقوں سے دوری کا پتہ لگانا اور خرید و فروخت کے معاملات طے کرنا ہے۔

(۳) صہیونی وزیراعظم کے دفتر اور عراق میں امریکی شہری انتظامیہ کے صدر کے دفتر کے درمیان خفیہ تعاون۔

(۴) اس منصوبہ کے کارکن عراقی باشندوں کو اپنے گھر اور اراضی بیچنے کا لالچ دیتے ہیں اور عراق کے دوردراز مقامات یا عراق سے باہر ان کو ہجرت پر آمادہ کرتے ہیں‘ لالچ کے لیے بڑی مالی رقوم یا رقم کے ساتھ دیگر علاقوں میں گھر کی پیشکش بھی کرتے ہیں‘ ان اراضی کو خریدنے والے عراقی یہودی یا عرب یہودی شہریت کے حامل امریکی یہودی یا اسرائیلی جاسوسی محکمہ موساد کے غیرملکی یا فلسطینی ایجنٹ ہوسکتے ہیں۔ معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ موساد نے ۱۹۴۸ء کے ایک سو فلسطینیوں کو اس کام کے لیے آمادہ کیا‘ اور انہوں نے عراقی اراضی اور جائیدادوں کی خرید و فروخت میں عملاً حصہ لیا۔

اطلاعات یہ بھی ہیں کہ تقریباً ۴۵ ایکڑ اراضی اور ۱۸۳رہائشی فلیٹ اور گھروں کی خرید کے لیے اسرائیلی گفتگوکررہے ہیں‘ یہ ان علاقوں میں سے ہیں جو نہر فرات سے قریب ہونے کی وجہ سے ممتاز ہیں‘ ان ممتاز علاقوں کے مالک یہودی اور امریکی ہوں گے جن میں بیشتر تاجر ہوں گے اور بنیادی طور پر ان کا تعلق صہیونی دبائو ڈالنے والی جماعتوں میں ایباک سے ہوگا‘ انہوں نے عراق میں اراضی و جائیداد خریدنے کے لیے تقریباً ایک سو ملین (دس کروڑ) ڈالر مخصوص کیے ہیں‘ جبکہ اسرائیلی وزیراعظم شارون نے تین سو ملین (تیس کروڑ)ڈالر کی خطیر رقم خاص کی ہے۔ یہ بڑی بڑی رقمیں اس بات کی علامت ہیں کہ شمالی عراق میں اس خرید و فروخت کا مقصد نیل سے فرات تک اسرائیلی سلطنت کے قدیم خواب کی تکمیل کرنا ہے۔

اداریہ کے آخر میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے کہ ’’امریکی قبضہ کے خلاف عراق کی مزاحمتی طاقت نے اہل ملک کو اس سازشی منصوبہ سے آگاہ کرتے ہوئے غیرملکیوں کے ہاتھ عراقی اراضی کی فروخت سے منع کیا ہے۔‘‘اور اس نے قابض امریکی افواج اور ان کے اتحادیوں کے خلاف عملی کارروائی کرتے ہوئے ’’کرکوک میں اسرائیلی جاسوسی ادارہ موساد کے صدر مقام پر حملہ کرکے اس کو تباہ کردیا ہے‘ اس کامیاب حملے میں سینکڑوں افراد مرے اور زخمی ہوئے جن کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ راتوں رات امریکی فوجی اڈہ میں منتقل کیا گیا۔‘‘ نیز اس صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ ’’اسرائیلی سازشی منصوبہ کی سرکاری حلقوں اور ابلاغ میں صدائے بازگشت گونجنے اور ہر ایک کے اس احساس کے باوجود کہ ہم ایک نئے بالفور معاہدہ کے سامنے کھڑے ہیں‘ جس میں ایک غیرملک (امریکا) ایک غیر مستحق (اسرائیل) سے لین دین کا معاملہ کررہا ہے‘ مگر ہمارے عرب حکام غفلت کی نیند میں مست ہیں‘ کیا ہم کسی اور سانحے کے بعد جاگیں گے؟‘‘

یہ بالکل وہی منظر نامہ معلوم ہوتا ہے جو برطانوی انقلاب کے دوران فلسطینی اراضی کی یہودیوں کے ہاتھوں خرید و فروخت سے شروع ہوکر فلسطین میں صہیونی یہودی سلطنت کے قیام پر منتج ہوا تھا‘ باخبر حلقوں کو اندازہ ہوگا کہ امریکی۔ اسرائیلی اتحاد ۱۹۴۸ء کے نکالے ہوئے بے گھر بے در فلسطینی مہاجرین کے بسانے کے لیے پاس پڑوس کے جن عرب ممالک پر امریکا و اسرائیل کی نظر بد پڑتی رہی ہے ان میں عراق کا نام بھی بار بار آتا رہا ہے‘ نیز اسرائیل کے ہاتھوں عراقی ایٹمی تنصیبات کی تباہی اور امریکا کی سربراہی میں عراق کے خلاف دونوں حالیہ جنگوں کا اصل محرک اور ربط و تعلق مستقبل میں اسرائیل کے تحفظ اور مغربی ایشیا کی تشکیلِ جدید کے امریکی تصور سے بہت گہرا ہے۔

(بشکریہ: ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: جون ۲۰۰۶ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*