
عرب دنیا میں اسلام نواز جماعتوں کی اور آمر حکومتیں اس وقت کو اپنی غلطیوں کے ازالے کے لیے بروئے کار لاسکتی ہیں یا پھر عوامی سطح پر بیداری کی نئی لہر کا انتظار کریں۔
مراکش میں حال ہی میں منعقدہ انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (جے ڈی پی) کو غیر معمولی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کے نتیجے میں پارلیمان میں اُس کی نشستیں صرف ۱۲ رہ گئی ہیں جبکہ ۲۰۱۶ء کے عام انتخابات میں یہ تعداد ۱۲۵ تھی۔ اس کی مرکزی لبرل حریف نیشنل ریلی آف انڈیپنڈنٹس (آئی این آر) کی ۹۷ نشستیں ہیں جبکہ آتھنٹیسٹی اینڈ مارڈرنٹی پارٹی (پی اے ایم) کی ۸۲ نشستیں ہیں۔ پارلیمان میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی دونوں بڑی جماعتیں مراکش کے شاہی محل سے قربت رکھتی ہیں۔ شاہِ مراکش کے والد، شاہ حسن ثانی، کے برادرِ نسبتی نے آئی این آر قائم کی، جبکہ شاہ محمد چہارم کے ہم جماعت اور مشیر فواد علی الحما نے پی اے ایم قائم کی۔
یہ سب کچھ راشد غنوشی کی قیادت میں کام کرنے والی اعتدال پسند اسلامی جماعت النہضہ کے خلاف تیونس کے صدر قیس سعید کی قیادت میں برپا کی جانے والی بغاوت کے دو ماہ بعد ہوا ہے۔ مراکش کے برعکس تیونس میں صدر قیس سعید نے وزیر اعظم ہشام المشیشی کو برطرف کیا، منتخب پارلیمنٹ کو تاحکمِ ثانی معطل کیا، منتظمہ اور استغاثہ کے اختیارات خود حاصل کیے اور اہم عہدوں پر اپنے وفاداروں کو تعینات کیا۔ یہ سب کچھ کرنے پر تیونس کے صدر کو مغربی جمہوریتوں کی طرف سے برائے نام تنقید یا دباؤ کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ گزشتہ ہفتے لیبیا کے سابق آمر حکمران معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام نے ۲۴ دسمبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ شام کا معاملہ یہ ہے کہ عوام کے خلاف ایک عشرے سے بھی زائد مدت تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد بشار الاسد نے خاصے تفاخر کے ساتھ مضحکہ خیز حد تک جعلی انتخابات میں ۱ء۹۵ فیصد کی حد تک کامیابی کا اعلان کیا۔ یہ ’’فتح‘‘ انہیں ۲۰۲۸ء تک اقتدار میں رہنے کی اجازت دے رہی ہے۔ اور تب تک اپنے بیٹے حافظ کو اقتدار کے لیے تیار کرچکے ہوں گے۔
مصر میں اخوان المسلمون کے خلاف کریک ڈاؤن کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ مصر کی عدالتیں اخوان کے رہنماؤں اور ارکان کے خلاف سزائے موت کے فیصلے جاری کر رہی ہیں۔ گزشتہ جولائی میں پارلیمان نے ایک قانون کی منظوری دی، جس کے تحت اخوان سے تعلق رکھنے والے کسی بھی سرکاری ملازم کو برطرف کیا جاسکتا ہے۔
ان رجحانات سے دو باتوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ایک تو یہ کہ عرب دنیا میں اسلام نواز سیاسی جماعتوں کو سانس لینے، سیامیں شریک ہونے اور اقتدار حاصل کرنے کا موقع دینے والے عہد کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ مراکش میں اعتدال پسند اسلامی جماعت جے ڈی پی کی شکست عرب دنیا میں ’’سیاسی اسلام‘‘ کے زوال کی علامت ہے۔ دوسرے یہ کہ عرب دنیا میں آمرانہ حکومتیں نہ صرف یہ کہ قائم ہیں بلکہ زیادہ طاقتور ہوکر خوب پنپ رہی ہیں۔ یہ حکومتیں واپس آکر وہ سب کچھ دوبارہ حاصل کرنے والی ہیں، جسے وہ ہمیشہ اپنی ذاتی جاگیر قرار دیتی رہی ہیں۔ پچاس سال سے بھی زائد مدت کے دوران گہری جڑیں رکھنے والی آمریت نے بدعنوانی، جبر، وسائل پر قبضے اور بیرونی امداد کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو چیلنج کرنے والوں اور جمہوریت کو متبادل کے طور پر متعارف کرانے کی خواہش رکھنے والوں سے نمٹنے کا ہنر جانتے ہیں۔ آمریت کی مختلف شکلوں پر مشتمل عرب دنیا کی حکومتوں نے اپنے مخالفین، ناقدین اور حریفوں سے نمٹنے کے لیے متعدد ہتھکنڈے اور حکمت ہائے عملی اپنائی ہیں۔ انہوں نے ایک ایسا منحوس دائرہ تشکیل دیا ہے، جس سے نکلنا تقریباً ناممکن ہے۔
آمریت پر مشتمل ان حکومتوں سے متفق ہونا بھی اُتنا ہی مشکل ہے، جتنا اِن سے اختلاف کرنا۔ یہی سبب ہے کہ عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر کے پیدا ہونے کے محض ایک عشرے بعد آمروں کی حکومتیں اسلام نواز جماعتوں سے نمٹنے میں کسی نہ کسی طور کامیاب ہو ہی گئی ہیں۔
یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اسلام نواز جماعتیں جامع نوعیت کی تھیں۔ عرب دنیا کی دیگر سیاسی جماعتوں سے موازنہ کیا جائے تو اسلامی جماعتیں زیادہ منظم اور بہتر رابطوں کی حامل ہیں مگر یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ عرب دنیا کی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ان جماعتوں کو بھی ایک طویل مدت تک جبر و استبداد کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کے نتیجے میں اِن میں مختلف کمزوریاں پیدا ہوچکی ہیں۔ بعض اسلامی جماعتوں نے سنجیدگی، دیانت اور اخلاص کے ساتھ دیے گئے مشوروں کو نظر انداز کرکے سنگین غلطیاں کیں جبکہ دوسری بہت سی اسلامی جماعتوں نے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے سیاسی ہتھکنڈوں، علاقائی اور بین الاقوامی سیاسی حالات سے متعلق بہتر فہم و شعور کا مظاہرہ کیا۔ اس کے باوجود یہ اسلامی جماعتیں بھی اپنے وجود کو ڈھنگ سے برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہیں۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب امریکا میں بھی تبدیلی کی لہر چل پڑی ہے اور علاقائی ممالک میں نئے تعلقات اور نئے اتحاد سامنے آرہے ہیں۔ ابھی کل تک جو ممالک (مصر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ترکی، قطر) ایک دوسرے کو بالکل برداشت نہیں کرتے تھے وہ اب ایک دوسرے کے نزدیک آرہے ہیں، ہم آہنگی پیدا کی جارہی ہے اور مل کر کام کرنے کو ترجیح دی جارہی ہے۔ یہ ممالک تعلقات معمول پر لانے کے لیے مختلف مواقع سے استفادہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سیاسی تبدیلیاں نئی جغرافیائی، اسٹریٹجک، علاقائی اور عالمی حقیقتوں کی مظہر ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ اخوان کے مستقبل کے حوالے سے بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔
ایک مدت تک عرب دنیا کی حکومتوں نے ایسا بیانیہ اپنایا جس میں اخوان کو خطے کے استحکام اور خوش حالی کے لیے سب سے بڑے چیلنج، علاقائی ممالک کی سلامتی اور مغربی مفادات کے لیے بڑے خطرے کے روپ میں پیش کیا گیا۔
اگر عرب دنیا کی حکومتوں کی منطق کو درست تسلیم کرلیا جائے تو اب جبکہ اسلام پسندوں کی حکومتیں نہیں رہیں، عرب ممالک میں معاملات بہت بہتر ہو جانے چاہئیں۔ نہیں، بالکل نہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ عرب دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ اخوان نہیں بلکہ خود عرب حکومتیں اور اُن کے غیر ملکی حامی و مددگار ہیں۔
سیاست، معیشت اور سلامتی کے حوالے سے تمام اشاریوں کا جائزہ لیجیے تب بھی اور آزادی، روزگار کی کیفیت اور مخالفین کے خلاف کارروائیوں کے حوالے سے جائزہ لیجیے تب بھی، جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے وہ سابق حکومتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ برا ہے اور اگر یہی کچھ ہوتا رہا تو مستقبل میں اس سے زیادہ خرابیوں کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ اب کیا ہونے والا ہے، اِس کا اندازہ لگانے کے لیے عرب دنیا کو ایسا پریشر ککر سمجھیے جس کا والو کام نہیں کر رہا۔ اگر اِسے ٹھیک نہ کیا جائے تو نقطۂ کھولاؤ پر پہنچنے کے بعد یہ پھر پھٹ جائے گا۔ عرب دنیا کی حکومتیں یا اسلامی جماعتیں اگر ماضی سے کوئی سبق سیکھنا چاہتی ہیں، درستی کے لیے راہ نمائی چاہتی ہیں اور معاملات کو درست کرنے کے موڈ میں ہیں تو ایسا کرنے کا بہترین وقت یہی ہے۔ بصورتِ دیگر عرب دنیا میں عوامی بیداری کی ایک اور لہر کے لیے تیار رہیے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The rise and decline of political Islam in the Arab world: What’s next?” (“trtworld.com”. Sep. 12, 2021)
Leave a Reply