فطانی (Patani) تھائی لینڈ کے جنوب میں واقع ہے‘ جہاں اسلام بارہویں صدی عیسوی کے آخر میں عرب‘ ہندی اور ملاوی تاجروں کی کوششوں سے پھیلا۔ فطانی کے باشندے ملاوی النسل تھے اور اسلامی حکومت کے زیرِ سایہ زندگی بسر کر رہے تھے کہ تھائی لینڈ کی بدھ حکومت نے اس پر حملہ کر کے اسے تھائی لینڈ کا حصہ بنا لیا۔ فطانی چار بڑے شہروں پر مشتمل ریاست تھی۔ جالا‘ ستول‘ نارتیوات اور فطانی۔ فطانی پر تھائی لینڈ کے قبضہ کے بعد مسلمان تمام تھائی لینڈ میں پھیل گئے ہیں۔ شمال‘ مشرق‘ مشرقی تھائی لینڈ۔ ابوتیا اور بنکاک میں خصوصاً کیونکہ مذکورہ بالا چاروں اسلامی شہر تھائی لینڈ کے توسیع پسندانہ عزائم کا شکار ہو گئے۔ فطانی مسلمان ملاوی النسل ہونے کی وجہ سے ملاوی زبان بولتے ہیں‘ وہ اپنے ملاوی ہونے پر فخر کرتے ہیں کہ انہوں نے پہلے یورپی استعمار کا پھر جاپان کا اور پھر امریکی استعمار کا اور سب سے بڑھ کر بدھ استعمار کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔
تعلیمی تحریک اور بدھ استعمار کا مقابلہ
مسلمانوں نے اپنے آپ کو بدھ معاشرے میں ضم ہونے سے اور شمال کے توسیع پسندانہ عزائم سے بچانے کے لیے دینی تعلیم کے فروغ کا سہارا لیا اور اس دینی تعلیم کی اساس ظاہر ہے لغۃ القرآن یعنی عربی زبان کی تدریس اور قرآنِ مجید کی تعلیم ہے۔ یہ دینی مدارس جہاں ایک طرف عربی زبان کی تدریس اور قرآنِ کریم کی تعلیم کے مراکز کا کام دے رہے ہیں تو دوسری طرف بدھ مت کے سیلاب اور طوفان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ جیسے دنیا میں ہنود و یہود اور امریکا و روس عالمِ اسلام‘ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف متحد و مستعد ہو گئے ہیں‘ اسی طرح تھائی لینڈ کے بدھ پیروکار فطانی کے مسلمانوں اور اسلامی تہذیب و تمدن کو مٹانے کے درپے ہیں۔ فطانی کے یہ اسلامی مدارس اسی طرح بدھ مت کے سیلاب کے مقابلے میں سد سکندری کا فریضہ انجام دے رہے ہیں جیسے برصغیر ہند۔پاک میں قائم ہزاروں دینی مدارس مغربی تہذیب و تمدن کے سیلاب کے آگے ایک مضبوط بند کا کام دے رہے ہیں۔ لڑکیوں کے لیے علیحدہ مدارس ہیں۔ ان مدارس کی تفصیل یوں ہے:
(۱) مدرسہ دعوتِ اسلامیہ بوکیت۔ یہ ۱۳۹۴ھ بمطابق ۱۹۷۴ء میں بوکیت کے مقام پر قائم ہوا۔ (۲)صوبہ نارتیوات کا مدرسہ اسلامیہ جو ناریت روبہ کے شہر میں ۱۳۸۸ھ بمطابق ۱۹۶۸ء میں قائم ہوا۔ (۳)مدرسہ الہدایۃ الاسلامیہ جس کی بنیاد ۱۹۸۴ء میں رکھی گئی۔ (۴)محمدی انسٹی ٹیوٹ جس کا سنگِ بنیاد ۱۳۹۲ھ بمطابق ۱۹۷۲ء میں فطانی میں رکھا گیا۔ (۵)اسلامی انسٹی ٹیوٹ جس کا ۱۳۸۳ھ میں فطانی میں افتتاح ہوا۔ (۶)مدرسہ دارالامان کا ۱۹۸۵ء میں اجرا ہوا‘ جس میں حفظِ قرآن کا اہتمام ہے۔ (۷)روضہ الاطفال الاسلامیہ جو ۱۴۰۴ھ بمطابق ۱۹۸۴ء میں قائم کیا گیا۔ (۸)الاصلاح انسٹی ٹیوٹ جو جالا کی مجلس الدین الاسلامی نے ۱۳۸۹ھ میں قائم کیا۔ یہ تھائی لینڈ کی حکومت سے تسلیم شدہ (Recongnized) ہے۔ (۹)التربیۃ والدعوۃ انسٹی ٹیوٹ یہ ۱۹۷۵ء میں قائم ہوا۔
مشہور مساجد
فطانی کے طول و عرض میں کئی مساجد بھی تعمیر کی گئی ہیں۔ نارتیوات کی مسجد تقویٰ‘ کمبوغ کی مسجد وسطیٰ‘ مسجد دارالعبادۃ اور مسجد فراجم بحواد جسے اسلامی حکومت نے ۱۹۸۳ء میں تعمیر کیا تھا۔ مسجد دارالاسلام سب سے قدیم مسجد ہے‘ جسے ۴۰ سال قبل تعمیر کیا گیا تھا۔ بعض مساجد کویت کے مشہور فلاحی ادارے International Organisation for Islamic Charity‘ بیت الزکوٰۃ‘ جمعیت برائے احیاء تہذیب اسلامی اور جمعیت برائے اجتماعی اصلاح کے تعاون اور صرف کثیر سے تعمیر کی گئی ہیں اور بعض مساجد وہاں کے مخیر مسلمانوں نے اپنے مصارف سے تعمیر کی ہیں مثلاً مسجد روضۃ الجنۃ جو ۱۹۸۴ء میں ۲۸ ملین ’’بات‘‘ (تھائی لینڈ کا سکہ) کے صرف کثیر سے (جو فطانی کے مسلمانوں نے جمع کیا) تعمیر ہوئی۔ یہ تاریخی مسجد فطانی جنوبی تھائی لینڈ میں ہے۔
اسلامی تنظیمیں
تمام تھائی لینڈ میں عموماً اور جنوبی تھائی لینڈ میں خصوصاً مسلمانوں نے بہت سی اسلامی جماعتیں اور تنظیمیں قائم کر رکھی ہیں‘ جن کا نصب العین اسلامی تہذیب و تمدن کی بقا و ارتقا اور اسلامی ثقافت کا فروغ ہے۔ ان میں سے بعض علمی اور تعلیمی میدان میں سرگرمِ عمل ہیں۔ بعض دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دے رہی ہیں اور بعض دیگر فلاح و بہبود کے امور پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ یہ سب بدھ مت کے سیلاب میں اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے میں کوشاں ہیں۔ بعض ان میں اسلامی فطانی ریاست کی آزادی کی بحالی کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہی ہیں‘ جن میں سے نمایاں یہ ہیں:
(۱)اتحاد الطلبۃ المسلمین (۲)الانصار السنۃ المحمدیہ (۳)جمعیۃ الشبان المسلمین (نوجوان مسلمانوں کی تنظیم)
مسلم فطانی ریاست کی آزادی کے لیے یہ تنظیمیں کام کر رہی ہیں:
(۱)الجمعیۃ الثوریۃ الوطنیۃ فطانی (۲)متحدہ تنظیم برائے آزادی فطانی (۳)تنظیم اسلامی (۴)جمعیت برائے استقلال فطانی۔
تھائی لینڈ کی حکومت نے مسلمانوں کے اکثریتی علاقے نارتیوات میں گوتم بدھ کی ایک بہت بڑی مورتی بنا کر نصب کی ہے‘ جس پر ۲۵۰۰ ملین بات صرف ہوئے ہیں۔ یہاں دس لاکھ مسلمان آباد ہیں۔
پل شہدا:
الصیادینی کے گائوں میں جہاں مسلمانوں اور بودھوں کی ملی جلی آبادی ہے‘ جو اُن پانچ شہدا کی یاد میں تعمیر کیا گیا ہے جنہوں نے مسلمانوں کے حقوق کی مدافعت میں بودھ فوج کے مقابلے میں جامِ شہادت نوش کیا۔
فطانی کرۂ ارض کے نقشہ پر ایک ایسی گمشدہ اسلامی ریاست ہے‘ جس سے اکثر مسلمان بھی واقف نہیں ہیں لیکن اگر آپ وہاں جائیں تو یہ دیکھ کر حیران و ششدر رہ جائیں گے کہ ان اولوالعزم مسلمانوں نے بدھ مت کے لائو لشکر اور سیلابِ بلاخیز کے مقابلے میں جو انہیں مٹانے پر تلا ہوا ہے‘ اپنی بے بضاعتی اور بے کسی کے باوجود اپنے آپ کو کیسے زندہ رکھا ہے اور جو اسلامی تشخص کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ شرک و بت پرستی کے گڑھ میں شمعِ توحید کو فروزاں رکھے ہوئے ہیں اور اقبال کے اس شعر کا مصدا ہیں:
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں لا الٰہ الا اﷲ
(عربی مجلہ ’’المجتمع‘‘ سے ماخوذ)
Leave a Reply