
بھارت میں احتجاجی سیاستدانوں اور ذہن ساز رہنمائوں نے پاکستان کے بابائے قوم کے خلاف اپنا روایتی الزام واپس لے لیا ہے۔ بہتوں نے بھاریتہ جنتا پارٹی کے صدر شری لال کرشن ایڈوانی کو قائداعظم کی ان کے سیکولر خیالات کی وجہ سے تعریف کرنے پر اپنی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے‘ اس لیے کہ ان لوگوں کے خیال میں قائداعظم ایک فرقہ پرست رہنما تھے جو بھارت کی ناخوشگوار تقسیم کے ذمہ دار ہیں۔ آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ چندرا بابو نائیڈو نے ناقدین سے علیحدگی اختیار کی اور شری ایڈوانی کے بیانات کی تائید کرتے ہوئے قائداعظم کو ’’مجاہدِ آزادی‘‘ سے تعبیر کیا اور کہا کہ بھارت کے لوگوں کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے۔ بلاشبہ قائداعظم کی تعریف میں ایڈوانی کے بیان پر بھارت میں ردِعمل اس تاریخی غلط بیانی کا نتیجہ ہے جس پر قائداعظم سے متعلق بھارت کی اجتماعی سوچ کی بنیاد رہی ہے۔ آزاد ہندوستان کو بھارت کی تقسیم کی توجیہہ کے لیے ایک ویلین (Villain) کی ضرورت تھی۔ اس پہلو سے جناح صاحب کا انتخاب بھارت کے لیے بہت آسان اور مفید تھا۔ اگرچہ تاریخی حقائق حتیٰ کہ جنہیں غیرپاکستانی مورخین نے بھی بیان کیے ہیں‘ کی رو سے پاکستان کو معرضِ وجود میں لانے کا ذمہ دار عامل کوئی اور ہے اور وہ مذہب نہیں سیاست ہے۔ کانگریس کی تنگ نظر اور بے لچک سیاست نے ’’ہندو مسلم اتحاد کے سفیر‘‘ یہ خطاب انڈین نیشنل کانگریس میں صرف جناح صاحب کے لیے مخصوص تھا‘ کو غیرموثر اور معذور بنا کر رکھ دیا تھا۔ پہلی بڑی سیاسی غلطی ۱۹۲۸ء میں کی گئی۔ اسی سال جو نہرو رپورٹ تیار ہوئی وہ دراصل مسلمانوں کی تاریخ میں Turning Point تھا۔ نہرو رپورٹ تیار کرنے والی کمیٹی نے مرکزی قانون ساز اسمبلی میں مسلمانوں کو ایک تہائی نمائندگی دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اگرچہ مسلمانوں کی آبادی صرف ۲۵ فیصد تھی لیکن ایک تہائی نمائندگی سے یہ امر یقینی ہو جاتا کہ قانون ساز اسمبلی مسلمانوں کے مفاد کے خلاف کوئی قانون منظور نہیں کر سکتی ہے۔ جناح صاحب تو مشترک حلقہ ہائے انتخاب قبول کرنے کو تیار تھے۔ بشرطیکہ ایک تہائی نمائندگی کے مطالبہ کو تسلیم کر لیا جائے۔ کانگریس نے جناح صاحب سے صرف زبانی وعدوں کا سلسلہ جاری رکھا تھا لیکن ان کی خواہش کے علی الرغم انہیں کوئی ٹھوس آئینی ضمانتیں فراہم نہیں کی گئیں۔ کانگریس اور مسلم لیگ کے اتحاد میں شگاف پڑ گیا جب برطانوی پارلیمنٹ نے ۱۹۳۵ء میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ منظور کر لیا۔ اس ایکٹ نے ایک وفاقی سسٹم کی منظوری دی تھی جس کی رو سے گیارہ صوبوں کو قابلِ ذکر خود اختیاری کی ضمانت فراہم کی گئی تھی‘ جن میں مسلم اکثریتی چار صوبے بنگال‘ پنجاب‘ سندھ اور سرحد بھی شامل تھے۔ جب پہلا انتخاب ۱۹۳۷ء میں منعقد ہوا تو چھ صوبوں میں کانگریس کو اکثریت حاصل ہوئی اور یہ آسام میں واحد سب سے بڑی پارٹی قرار پائی۔ سیاسی دھڑے بندی کی وجہ سے مسلم لیگ کی کارکردگی چار مسلم اکثریتی صوبوں میں بہت خراب رہی۔ چنانچہ اس نے تجویز پیش کی کہ ان صوبوں میں جہاں اس نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے‘ یعنی جہاں دوسرے نمبر کی مضبوط حریف ثابت ہوئی ہے مسلم لیگ اور کانگریس کی مخلوط حکومت بنائی جائے۔ اس کے برعکس کانگریس کا مسلم لیگ سے یہ مطالبہ ہوا کہ مسلم لیگ کانگریس میں ضم ہوجائے۔ کانگریس نے مسلمانوں کی شرکتِ اقتدار کے مطالبے سے انکار کر دیا۔ اس حقیقت سے انکار کرتے ہوئے کہ ہندو اور مسلمانوں میں واضح فرق موجود نہیں ہے حالانکہ بے شمار شواہد ایسے موجود تھے جو یہ ثبوت پیش کر رہے تھے کہ ہندو مسلم ایک قوم نہیں ہیں۔ H.V. Hodgson نے اپنی کتاب The Great Divide میں دو قوموں کے مابین فطری تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی پالیسی کا کامیاب ہونا ممکن نہیں ہے‘ جب تک محکوم منقسم ہونے کے لیے تیار نہ ہو۔ برطانوی ہندو مسلم اختلاف کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے لیے کوشاں ہو سکتے تھے لیکن انہوں نے اس اختلاف کو جنم نہیں دیا۔ انہوں نے دنیا کے نقشے پر ہندوستان کی تاریخ رقم نہیں کی اور نہ ہی یہ ان کے باہمی تصادم کی روایات کے موجد ہیں اور نہ ہی انہوں نے فسادات کو ہوا دی جو ہندو اور مسلمانوں کے مابین وقفے وقفے سے پھوٹ پڑتے تھے‘ دیہاتوں اور شہروں میں‘‘۔
کانگریس قیادت اگر دانستہ نہیں تو سادہ لوحی کی بنا پر مسلمانوں کے سیاسی حقوق کو نظرانداز کر بیٹھی۔ ۱۹۳۹ء میں گاندھی جی نے ایک مسلم نامہ نگار کو لکھا کہ ’’کیوں بھارت ایک قوم نہیں ہے؟ کیا یہ مغلوں کے زمانے میں ایک قوم نہیں تھی؟ کیا ہندوستان دو قوموں کا مرکب ہے؟ جواب نہیں ہے۔ برطانوی حکومت سے پہلے بھارت کوئی ایک قومی ریاست نہیں تھی اور نہ ہی کسی مرکزی ریاست کے زیرِ انتظام یہ ایک متحدہ ملک تھا۔ بھارت میں مغربی حکومت اور آئینی حکومت کے اس تناظر میں جناح صاحب نے مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کا مطالبہ کیا تھا۔ معاشرتی بقاے باہمی جس کے خواہشمند گاندھی جی تھے‘ وہ تب ممکن ہوتا جب ہندو اکثریت مسلم اقلیت کو ان کے حقوق دینے کے لیے آمادہ ہوتی۔ کانگریس کی گنجائش نہ پیدا کرنے والی پالیسی کانگریس اور لیگ کے مابین ۹۱۶ء میں طے پاے لکھنؤ معاہدے سے بھی متصادم رہی۔ یہ معاہدہ تاکید کرتا تھا کہ بھارت کے مسلمانوں کو مرکزی حکومت میں ایک تہائی اکثریت نمائندگی دی جانی چاہیے اور تمام قوموں کے لیے علیحدہ حلقہ ہائے انتخاب ہونا چاہیے تاآنکہ کوئی قوم خود متحدہ حلقہ ہائے انتخاب کا مطالبہ نہ کرے۔ یہی معاہدہ ۱۹۱۹ء کے Montagu-Chelmsford Reforms کی بنیاد تھا جو اس بات کا پہلا اعتراف کہ متحدہ ہندوستان میں اپنے واضح سیاسی حقوق کے ساتھ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہے۔ لیکن کانگریس قیادت نے یہ غلط خیال کر لیا کہ مسلم لیگ اور مسلمانوں کا اپنے سیاسی حقوق حاصل کرنے کے حوالے سے عزم وقت کے ساتھ ماند پڑ جائے گا اور پھر مسلم لیگ کو ایک نمائندہ سیاسی قوت کے طور پر نظرانداز کر دینا ممکن ہو سکے گا۔ کانگریس کی پالیسی کی یہ تبدیلی کانگریس لیگ اتحاد کے خاتمے اور بالآخر پاکستان کے قیام پر منتج ہوئی۔ مسلمانوں میں سیاسی شعور کی بیداری کا براہِ راست تعلق کانگریس کی جانب سے مسلمانوں کو ان کے سیاسی حقوق دیے جانے کے حوالے سے انکار سے ہے۔ ۱۹۴۵ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے نتائج نے ثابت کر دیا کہ عوام پر جناح صاحب کی گرفت ہے۔ مسلم حلقہ ہائے انتخاب میں مسلم لیگ کو ۶ء۸۶ فیصد ووٹ حاصل ہوئے جبکہ کانگریس کو غیرمسلم علاقوں سے ۳ء۹۱ فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ اقلیت کی حقوق سے انکار پر تعمیر شدہ نہرو کی سیکولرازم نے درحقیقت فرقہ ورانہ سیاست کے بیج بوئے۔ کانگریس مسلمانوں کے ساتھ شراکت میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔ وہ انہیں اپنے اندر جذب کرنا چاہتی تھی۔ انڈین سول سرونٹ Penderel Moon نے اپنی کتاب Divide & Quit میں لکھا ہے ’’کانگریس صرف ان مسلمانوں کے ساتھ شرکتِ اقتدار کے لیے تیار تھی جو اس ہندو اکثریت کی تنظیم میں اپنے آپ کو ضم کر دینے کے لیے تیار تھے۔ انہوں نے مسلم لیگ کو شراکت کی نہیں بلکہ انضمام کی پیش کش کی تھی۔ یہ مہلک غلطی ثابت ہوئی اور یہی پاکستان کے قیام کی اصل وجہ بھی بنی۔ لیکن جس صورتحال میں یہ عمل انجام پایا وہ اس کا ایک بہت ہی فطری نتیجہ تھا‘‘۔ بہرحال Moon کا خیال ہے کہ مسلم لیگ کے ساتھ شراکت اقتدر نہ کرنے کا کانگریس پارٹی کا فاتحانہ فیصلہ پارلیمانی سیاست کی روایت کی رو سے بالکل فطری تھا۔ اس رویے نے بھارتی مسلمانوں کے اندر بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان کے رہنمائوں کے اندر بھی یہ خوف بھر دیا کہ یہ ’’بالکل فطری‘‘ رویہ بھارتی مسلمانوں کے مذہبی‘ ثقافتی اور معاشی حقوق غصب کرنے میں کتنی دور تک جاسکتا ہے۔
جناح صاحب کو ان مسلمانوں نے اپنا لیڈر بنایا جو ذہنیت اور مواد میں خالص اور وسیع تر ہندو قومیت کے علم برداروں سے سو سال پیچھے تھے اور جن کی قیادت راجہ رام موہن رائے نے کی تھی۔ چنانچہ نامور مورخ عائشہ جلال درست طور پر لکھتی ہیں کہ ’’اس کے بعد ہی جناح صاحب ہندوستانی مسلمانوں کے تنہا ترجمان بن کر منظرِ سیاست پر نمودار ہوئے۔ اپنے ناقابلِ تزلزل یقین اور آئینیت کی بھرپور قوت کے ساتھ جناح صاحب اپنے عوام کو ایک محفوظ اور سلامتی سے پُر جگہ پر لے جانے کے خواہشمند تھے۔ خواہ یہ جگہ انہیں متحدہ ہندوستان کے اندر میسر آئے یا ایک آزاد ملک کی صورت میں ملے۔ اس لیے کہ ہندو مسلم اتحاد سفیر کے نزدیک جنگ عظیم اول کے بعد سے ہی یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ جب تک مسلمان اپنا الگ راستہ اختیار نہیں کرتے ہیں‘ بھارتی سیاست پر صرف ہندوتو کی مہر لگی رہے گی۔ The Invention of Pakistan (ملاحظہ فرمائیں World Politics Journal Spring 2003) میں Karl E. Meyer لکھتا ہے ’’حقیقتاً جناح کا اختلاف گاندھی کے ساتھ جنگِ عظیم اول کے بعد جستہ جستہ اس وقت سامنے آیا جب گاندھی سیتا گرہ یا عدم تشدد پر مبنی مزاحمت کی جانب مائل ہو گئے اور اس طرح گاندھی نے عوامی حمایت کے حصول کے لیے ہندو مذہب کا اور اپنے شہرۂ آفاق ٹریڈ مارک دھوتی اور چرخہ کا استعمال کیا‘‘۔ چنانچہ جناح صاحب نے عوام میں اپنا مقام مسلمانوں کے لیے سیاسی حقوق کے مطالبے جو کہ ان کی اپنی شناخت کے لیے بھی ضروری تھے‘ کے ذریعہ بنایا۔ لیکن جیسا کہ بھارتی نژاد مورخ سنیل کھلنانی اپنی کتاب “The Idea of India” میں لکھتا ہے کہ ’’جناح نے پہلے متحدہ ہندوستان کے اندر مسلمانوں کو ایک برادری یا قوم بنتے دیکھنا چاہا۔ انہوں نے مسلمانوں کے وجود کو متحدہ اور وفاقی ہندوستان کے اندر ہندو قوم کے دوش بہ دوش دیکھنے کا ادراک کیا۔ کانگریس کے ساتھ ان کے اختلاف کا اصل نکتہ مستقبل کی ریاست کے ڈھانچے سے متعلق تھا۔ جناح وحدانی مرکزی ریاست کی تشکیل کی مخالفت پر پوری طرح مصر تھے‘ جن میں سیاسی نمائندگی کا عمل اس ملک کو عددی اعتبار سے اکثریت رکھنے والی مذہبی برادری کے ہاتھوں میں دے دینے کا عمل تھا‘‘۔ کھلنانی کے خیال میں یوں جناح کا مقصد ’’ایک خالص سیکولر مقصد تھا‘‘۔ اس جائز مطالبے کو تسلیم کرنے سے کانگریس کا انکار انہیں قیامِ پاکستان کی جانب لے گیا۔ بھارتیوں کا یہ الزام ہے کہ قائد نے برطانوی حکومت کے ساتھ مل کر تقسیمِ ہند کی سازش کی تھی۔ حقائق مگر کچھ اور کہانی بیان کرتے ہیں۔ وہ نہرو تھے جنہوں نے وائس رائے مائونٹ بیٹن کے ساتھ بائونڈری کمیشن کی کاوشوں میں ردوبدل کی تھی‘ جس کے سربراہ ایک نامور برطانوی بیرسٹر Sir Cyril Radcheiffe تھے۔ ریڈ کلیف نے اپنی خفیہ رپورٹ کو ضائع کر کے اس امر کو یقینی بنایا کہ تنازعہ مختلف حلقوں میں گردش کرے۔ جیسا کہ Karl E. Meyer اپنی کتاب ’’پاکستان کی ایجاد‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’یہ ۱۹۹۲ء میں ہوا کہ Christopher Beaumont جو کہ ریڈ کلیف کا سابق معاون تھا‘ The Daily Telegraph کو وہ عرضداشت میں جسے اس نے پہلے ہی Oxford میں All Souls College کے حوالے کر دیا تھا۔ Beaumont نے تصدیق کی ہے کہ ’’پاکستان کے نقصان میں سرحدوں کا خفیہ طور سے ازسرِ نو تعین کیا گیا‘‘۔ سرحد میں سب سے اہم تبدیلی فیروزپور کی تھی۔ یہ علاقہ کوئی چار سو مربع میل پر مشتمل تھا۔ اس کو پاکستان سے اس لیے حذف کیا گیا کہ اس کی نہر کا پانی اس پورے آبپاشی کے نظام کو کنٹرول کرتا تھا‘ جس پر بیکانیر کے رجواڑے کے کھیتوں کی آبیاری منحصر تھی۔ یہ پیشگی معلوم ہونے پر کہ فیروزپور پاکستان کے ساتھ مل رہا ہے‘ نہرو نے مہاراجہ بیکانیر کی وائس رائے سے اپیل کی حمایت کی۔ دوسرے کھانے پر وائس رائے مائونٹ بیٹن کے ساتھ ریڈ کلیف کی دوسری اور آخری نجی ملاقات کے بعد چیئرمین ریڈ کلیف نے دبائو کو قبول کرتے ہوئے پنجاب سرحد میں تبدیلی کر دی‘‘۔ بیومونٹ کی عرضداشت اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ واقعہ مائونٹ بیٹن اور نہرو کی شہرت پر دھبے کی علامت ہے اور اگرچہ کچھ کم لیکن ریڈ کلیف کی بدنامی کا بھی سبب ہے‘‘۔
جناح صاحب سے متعلق بھارتی مصنف نیزدسی چودھری نے اپنی خودنوشت سوانح حیات “Thy Hand, Great Anarch” کی دوسری جلد میں لکھتا ہے ’’مجھے اس مرحلے پر ضرور لکھنا چاہیے کہ جناح وہ واحد آدمی تھے جو ہندوستان میں برطانوی سلطنت کے شرمناک انجام (کے ملبے) سے باعزت اور کامیاب باہر آئے۔ انہوں نے کبھی اس کام کو نہیں چھپایا جسے وہ انجام دینا چاہتے تھے‘ کبھی دومعنی بات نہیں کی‘ کبھی مداہنت نہیں کی اور پھر بھی وہ برطانوی حکومت اور انڈین نیشنل کانگریس کو مکمل طور پر شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے وہ کامیابی حاصل کی جسے حاصل کرنے کا وہ ۱۹۴۶ء تک سوچ بھی نہیں سکتے تھے‘‘۔ دوسرے بھارتی دانشور بھی مثلاً مہاراشٹرا کے ایڈووکیٹ جنرل H.M. Seeravi جناح صاحب کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں اور انڈین نیشنل کانگریس کو تقسیم کا ذمہ دار قرار سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب “Partition of India: Legend & Reality” میں سوال اٹھاتے ہیں کہ ’’یہ قدرے افسوسناک ہے کہ جو لوگ ہندوستان کے اتحاد کو سبوتاژ کرنے کے حوالے سے جناح کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں یہ نہیں پوچھتے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک شخص جو ۱۹۳۸ء تک مسئلے کے قومی حل پر اصرار کرتا رہا‘ ۶۱ سال کی عمر میں اچانک فرقہ پرست بن جائے؟ پاکستان کی پرتشدد پیدائش نے بے لچک قائد کو تلخ کام نہیں بنایا۔ حتی کہ خونریز تقسیم کے بعد بھی وہ اپنے اصولوں پر جمے رہے جیسا کہ گیارہ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی Constituent Assembly سے ان کا خطاب اس پر شاہد ہے۔ باوجودیکہ بھارتی جذبات کا جو کہ مسخ شدہ تاریخ سے توانا تھے‘ کا سیل رواں تھا۔ ایسے عالم میں بھی قائد کی قدآور شخصیت اتنی بلند نظر آرہی تھی کہ تاریخ نے شاید ہی کبھی اس کی کوئی مثال پیش کی ہو۔ ان کی دور رس نگاہ میں متحدہ ہندوستان کا بڑا اہم مقام تھا لیکن وہ اس کے ساتھ کانگریس کی قیادت میں ہندو بالادستی کے مسلسل خطرات کو محسوس کر رہے تھے۔ کانگریس نے ان کے خدشات کو درست ثابت کیا۔ جناح کو معلوم تھا کہ تقسیم ناگزیر ہے۔ تقسیم کی اگلی صبح ایسی تلخ ثابت ہوئی‘ جس کا اندازہ جناح نے لگایا تھا۔ وہ اندر اور باہر تحمل‘ رواداری اور ہم آہنگی کے متمنی تھے‘ جسے لوگوں کے خود ساختہ حالات خواہ وہ پاکستان کے اندر کے ہوں یا باہر کے‘ نے ناممکن بنا دیا تھا۔ پاکستان کے اندر عدم سلامتی و تحفظ کا ماحول تھا‘ سیاسی عمل کا گلا گھونٹا جارہا تھا اور ریاستی اداروں پر فوجی بیورو کریسی کا کنٹرول تھا جس نے ملک کو قائد کے عزائم سے بہت دور پھینک دیا۔ کسی دن بھارتی دانشمند نظرثانی شدہ تاریخ کی اشاعت میں اپنے آپ کو محفوظ محسوس کریں گے۔ اس لیے کہ جن حقائق تک وہ رسائی چاہتے ہیں وہ ان سے بہت دور نہیں ہیں۔ یہ جنوبی ایشیا کی ہوائوں میں گردش کر رہے ہیں‘ جیسا کہ شری لال کرشن ایڈوانی نے انکشاف کیا۔ بہرحال پاکستان کو بھی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا پڑے گا جن کے نتیجے میں بنگلہ دیش معرضِ وجود میں آیا اس حقیقت کے باوجود کہ اس میں بھارت کا بھی کردار تھا۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’دی نیوز‘‘۔ کراچی۔ ۱۴ جون ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply