
زندگی کے بام و در کو فتنوں نے اس طرح گھیرا ہے کہ دامن بچا کے نکلنے کی راہ بڑی مشکل سے سجھائی دیتی ہے۔ فتنوں کی اس لمبی فہرست میں مغرب اور ترقی یافتہ قوموں سے ’’مرعوبیت‘‘ کا فتنہ ہمارے نزدیک سرفہرست ہے‘ عام مسلمانوں کو رہنے دیں‘ عالمِ اسلام کے طبقہ اشرافیہ کو بھی رہنے دیں‘ بعض مسلمان مبلغین اور کئی اہلِ علم تک مرعوبیت اور احساسِ کمتری کا شکار نظر آتے ہیں۔ ایمان کمزور ہو تو دل کی زمین میں مرعوبیت کی جڑیں پیوست ہوتی چلی جاتی ہیں‘ مادی ترقی اور ظاہری مناظر کی چکاچوند سے بڑے بڑوں کی آنکھیں خیرہ اور دل فریفتہ ہو جاتے ہیں۔ یوں کہ ان کی فکر و سوچ کے تار اس کے گن گانے اور مسلمانوں کی مادی پستی پر وہ شرمانے لگتے ہیں۔ اپنی تاریخ‘ اپنا طرز‘ اپنی تہذیب‘ اپنی روایات‘ اپنا معاشرتی ڈھب‘ اپنا فلسفۂ حیات اور زندگی گزارنے کا اپنا ڈھنگ کچھ سونا سونا سا لگتا ہے۔۔۔ زبانِ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم سے صدیوں پہلے پیش گوئی ہو گئی تھی کہ ایک دور ایسا بھی آئے گا جس میں کفار کے دلوں سے مسلمانوں کی ہیبت اور خوف نکل جائے گا اور کفار کا رعب مسلمانوں کے دل میں ڈال دیا جائے گا۔ عالمِ اسلام میں یہ وبا پھیلی تو پھیلتی چلی گئی‘ برصغیر تو کچھ زیادہ ہی متاثر رہا۔ اس لیے کہ یہاں مدتوں فرنگیوں کا راج رہا‘ عجیب واقعات پیش آنے لگے‘ شرمناک بھی اور اندوہناک بھی۔ ایک زمانے میں پاکستان کی فٹبال ٹیم کھیلنے کے لیے جاپان گئی تو راتوں رات وہیں غائب ہو گئی۔ سوچا کہ ترقی کی مقدس خاک میں جذب ہونے کے لیے اس سے بہتر موقع پھر کب ملے گا۔
کینیڈا میں پاکستان کے جتنے سفرأ تعینات کیے گئے‘ اکثر نے سفارت کی مدت ختم ہونے کے بعد اپنے ملک آنا گوارا نہیں کیا۔ تعلقات بنانے اور بقیہ زندگی وہاں گزارنے کی ٹھانی۔ ایسے مرعوب لوگ کسی ملک میں سفیر بن کر اپنے وطن‘ اپنی قوم‘ اپنی قدروں اور اپنی ملت کی کیا ترجمانی کر سکیں گے۔ برطانیہ اور امریکا جانے اور وہاں رہنے کا خواب کتنے ہم وطنوں کو بے چین کیے رکھتا ہے‘ بہت سے خود نہیں جاسکے تو اولاد وہاں بھیج کر اپنی محرومی کا کچھ مداوا کر لیتے ہیں‘ یہاں کی کوٹھیوں میں کتنے بوڑھے والدین ہیں‘ جو ڈرائیوروں اور چوکیداروں کے رحم و کرم پر سسک سسک کر جان دے دیتے ہیں۔ تنہائی اور کسمپرسی میں لیکن وہ بے چارگی کی اس کیفیت پر بس اس لیے مطمئن ہوتے ہیں کہ ان کا ایک اکلوتا بیٹا‘ ان کی پیاری بیٹی امریکا یا بر طانیہ پہنچ کر وہاں مقیم ہو گئی ہے اور یوں گویا دنیا میں ان کے آنے کا واحد مقصد پورا ہو گیا۔ اب تنہائی اور بے کسی کے عالم میں سہانی جان جاتی ہے تو جائے۔
انگریزی زبان کا اس قدر اثر ہے کہ کوئی پاکستانی رواں انگلش بولے تو انہیں دیکھ کر بہت سووں کی رال ٹپکنے لگتی ہے۔ پچھلے دنوں ایک دینی مدرسے کے طالب علم نے صدر صاحب کے سامنے طلبہ کنونشن کے موقع پر انگریزی میں تقریر کی تو صدر صاحب اس قدر متاثر ہوئے کہ کئی موقعوں پر انہوں نے اس کا ذکر کیا۔ یہ نہیں کہ طالب علم نے کوئی نئی بات کہہ دی‘ متاثر ہونے کی وجہ صرف یہ تھی کہ ایک دینی مدرسے کا طالب علم رواں انگلش بول سکتا ہے۔ اسے مرعوبیت نہیں تو اور کیا نام دے سکتے ہیں۔ قرآن کریم کا صحیح تلفظ‘ اس کی خوب صورت تلاوت‘ حدیث و فقہ اور اسلامی علوم میں مہارت‘ عربی‘ اردو اور دوسری مقامی زبانوں کی تعلیم اور سب سے بڑھ کر تقویٰ و طہارت‘ پاکیزہ اسلامی زندگی کی تربیت اور اسلامی تشخص کی بقا کی مساعی۔۔۔ متاثر کرنے والی ان میں سے کوئی چیز متاثر نہیں کر سکتی‘ بس ایک رواں انگلش متاثر کر دیتی ہے۔ اس لیے کہ وہ فاتح قوم کی زبان ہے اور اس کی پگڈنڈیاں مادی ترقی کے جادہ عروج سے ملتی ہیں۔
انگریزی زبان کی اہمیت و ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا‘ دین کا کام کرنے والوں کے لیے بھی اور دنیوی ترقی کے متلاشیوں کے لیے بھی‘ اس لیے اسے سیکھنا چاہیے لیکن ضرورت اور مرعوبیت میں بڑا فرق ہے۔ ضرورت کے تحت اسے سیکھنا چاہیے لیکن اس سے اس طرح مرعوب ہونا کہ انگریزی اور دانش مندی‘ انگریزی اور ترقی‘ انگریزی اور تعلیم‘ انگریزی اور علم و تحقیق کو یوں نتھی کر دیا جائے کہ انگریزی جاننے والوں کو پڑھا لکھا اور نہ جاننے والوں کو اَن پڑھ قرار دیا جائے۔ یہ رویہ افسوسناک بھی ہے اور ہماری شرمناک مرعوبیت کا عکاس بھی۔ فرانس‘ جرمن‘ جاپان اور چین نے انگریزی کو بنیاد بنا کر نہیں بلکہ اپنی اپنی زبانوں ہی میں مادی ترقی کی جدید تعلیم کی منزلیں طے کی ہیں۔ گذشتہ دنوں تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان نے نصابِ تعلیم کے حوالے سے ایک مذاکرے میں شرکت کی‘ وزیرِ تعلیم اور دوسرے کئی لوگ بھی موجود تھے۔ عمران خان مدارس اور علما کی حمایت میں بول رہے تھے۔ انہوں نے کئی بار یہ جملہ کہا کہ ’’اس ملک کو مدرسہ کے مولویوں نے نہیں‘ بلکہ پڑھے لکھے لوگوں نے تباہ کیا ہے‘ ہمارے ملک میں جتنے کرپشن کے بڑے واقعات ہوئے ان میں مولوی نہیں‘ آکسفورڈ کے پڑھے لکھے لوگ ملوث تھے‘‘۔ وہ اپنی طرف سے علما کی حمایت میں بول رہے تھے لیکن یہ غلط فہمی ان کے ذہن میں بھی راسخ تھی کہ مدرسہ کا مولوی ’’پڑھا لکھا‘‘ نہیں ہوتا‘ آکسفورڈ کا نصاب اور انگریزی پڑھنے والا ہی ’’پڑھا لکھا‘‘ ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں کتنے انگریزی پڑھنے والے گریجویٹ ہیں‘ جنہیں قرآن کریم پڑھنا نہیں آتا اور جو اسلام کے بنیادی فرائض سے آگاہ نہیں‘ ایسے تمام گریجویٹ شرعی نقطۂ نظر سے ان پڑھ ہی کہلائیں گے اور ایک اسلامی نظریاتی مملکت کے دستور میں ’’ان پڑھوں‘‘ ہی کے زمرے میں وہ آنے چاہییں۔ انگلش سیکھی جائے اور ضرور سیکھی جائے لیکن اس کے بے ہودہ کلچر‘ اس کی بے حیا تہذیب اور اس کی انسانیت سوز ثقافت کے جراثیم سے مسلمانوں کو بچایا جائے کہ ہمارے شاہین اسی راہ سے ’’مغرب کی نسل بیمار‘‘ بنتے ہیں۔
ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ زمانے کی ضرورتوں اور تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے زندگی کو جن اصولوں کا پابند بنانا چاہیے‘ ان کی پابندی قبول کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں‘ نہ حکمران‘ نہ عوام حالانکہ مادی ترقی کے حصول ہی کی غرض سے نہیں بلکہ دینِ اسلام کی نسبت سے بھی دیانت و امانت‘ وقت کی قدر‘ قومی مفاد کی ترجیح و اہمیت‘ خود انحصاری و خود احتسابی‘ ملکی قوانین کی پابندی‘ انسانی حقوق کی رعایت۔۔۔ یہ سب اصول ایک مکمل مسلمان معاشرے کا حصہ ہونے چاہییں۔
بلاشبہ اﷲ کی یہ باغی قومیں اس وقت مادی ترقی کے دورِ عروج سے گزر رہی ہیں۔ ان کی بعض خوبیوں نے انہیں ترقی کی اس منزل پر پہنچایا‘ ان کے ہاں قومی سطح پر غیرمعمولی محنت ہے‘ وقت کی قدر ہے‘ ملکی قوانین کی پاسداری ہے‘ قومی مفاد کی اہمیت ہے‘ تجارت میں نسبتاً دیانت داری ہے‘ جستجو اور کام کی لگن ہے‘ عظیم جنگوں اور کروڑوں افراد کی ہلاکتوں کے بعد ان کے بگڑے ہوئے قومی مزاج نے یہ خوبیاں مسلمانوں کی تاریخ اور اسلام کی تعلیم سے حاصل کیں‘ ان سرکش قوموں کو ان کی ان خوبیوں کا بدل عطا کیا گیا کہ قدرت کسی کی محنت ضائع نہیں کرتی۔۔۔ لیکن اس کروفر‘ اس شان و شکوہ‘ اس تجارت و معیشت‘ اس فراوانیٔ عیش و دولت۔۔۔ ان سب کے باوجود یہ ایک بدنصیب‘ ایک محروم اور ایک بے نوا مخلوق ہیں کہ ان کے کفر کی شب میں ایمان کی سحر نہیں اور ان کے اعمال کی شاخوں کے لیے اسلام کا شجر نہیں۔ رب کعبہ کی قسم! تلخیوں اور مشقتوں میں زندگی گزارنے والا وہ دیہاتی مومن بوڑھا جس کا دل ایمان کی روشنی سے منور اور جس کی زندگی سنتِ نبویؐ سے معطر ہے‘ دنیا کی ساری مادی ترقیاں اس کے ایک دل کا بدل نہیں بن سکتیں۔۔۔ اس لیے ایمان کی سعادت پانے والو! اپنے ایمان کی قدر کرو کہ اس متاعِ بے بہا کا ہاتھ آنا بڑے نصیبوں کی بات ہے۔
(بحوالہ اردوستان ڈاٹ کام)
Leave a Reply