
سیاست میں کوئی مستقل دوست ہوتا ہے نہ کوئی مستقل دشمن۔ یہ کہاوت عام ہے۔ انفرادی سیاست ایسے ہی چلتی ہے۔ مخلوط سیاست کا تو یہ دستور بن گئی ہے۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد حزبِ مخالف سے تُو تُو مَیں مَیں تو جمہوریت کے اصول رہے ہیں‘ یہی پارلیمنٹ کی زندگی ہے۔ مخالف کو دبانا حزبِ مخالف کی چھوٹی سی غلطی کو بھی پہاڑ بنانا اقتدار کے کھیل ہیں۔ ہماری قومی سیاست تو اسی نام سے جانی جاتی ہے۔ اچانک ہندوستان کی مخلوط سیاست میں اہم تبدیلی محسوس ہو رہی ہے۔ سیکولرزم کی کامیابی کے بعد سمجھا جارہا تھا کہ غیرسیکولر نظریات کا مستقبل تاریک ہو گا لیکن اقتدار پر جمی کانگریسی حکومت بار بار ایسے اشارے دے رہی ہے کہ وہ بھاجپا (بھارتیہ جنتا پارٹی) سے ٹکرائو نہیں چاہتی۔ انتقام کی سیاست اس کا مقصد نہیں‘ وہ تو بالکل صاف ستھری سیاست کرنا چاہتی ہے۔ یہ تو بڑی اچھی بات ہے اور اچھی مثال قائم کرنے کی کوشش ہے جسے سراہنا چاہیے۔ اس کوشش میں غیرسیکولر نظریات مستحکم ہوتے ہیں اور پھر دستور اور سیکولرزم پر حرف آنے کے امکانات بڑھتے ہیں تو کیا تشویش کا پیدا ہونا فطری نہیں؟ جب حکومت نے جارج فرنانڈیز کو کلین چٹ دی تو ایک بار پھر سیکولر اقدار لڑکھڑا گئے۔ اس سیاست کے پیچھے ظاہر ہے کہ قومی اور بین الاقوامی ماحول کا دبائو بھی رہا ہو گا ورنہ کانگریس بھی ایسی دودھ کی دھلی نہیں ہے۔
“CAG” کنٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل نے ۱۱ دسمبر ۲۰۰۱ء کو پارلیمنٹ میں رپورٹ پیش کی جس میں NDA حکومت پر ’’بے عملی اور غفلت‘‘ (Inaction & Negligence) کا الزام لگایا۔ آپریشن وجئے یعنی کارگل جنگ کے وقت ہتھیاروں اور دیگر سامان کی خریداری میں جلدی کی گئی اور بعض ہتھیار تو لڑائی ختم ہونے کے بعد وصول ہوئے جو معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ اس میں سپاہیوں کے کفن کے بارے میں استفسار کیے گئے۔ پارلیمنٹ میں ہنگامہ ہوا جارج فرنانڈیز کو گھیرا گیا۔ تہلکہ اسکام نے الگ ڈیفنس سودوں میں رشوت کی پول کھول دی۔ جیہ جیٹلی پردہ پر آئی اور سَمِتا پارٹی سے مستعفی بھی ہوئی۔ جارج فرنانڈیز کو بھی استعفیٰ دینا پڑا۔ بعد میں واجپائی جی کی حکومت نے انہیں دوبارہ وزیرِ دفاع بنایا تو حزبِ مخالف نے شور مچایا کہ جب تک معاملات کی تحقیقات نہ ہو جائیں‘ انہیں بحیثیتِ وزیرِ دفاع وہ قبول نہیں کریں گے۔ پارلیمنٹ میں ان کا مسلسل بائیکاٹ کیا گیا‘ جب بھی وہ تقریر کو اٹھتے کانگریس‘ آر جے ڈی اور دوسری سیکولر جماعتیں واک آئوٹ کر جاتیں۔ سونیا گاندھی نے سابق وزیرِ دفاع جارج فرنانڈیز کو “Corrupt” کہا اور ان کے خلاف مہم چلائی اور ایک تکلیف دہ الزام بھی ان پر لگا کہ وہ سپاہیوں کے کفن چور ہیں۔ یہ بات بہت مشہور بھی ہوئی۔ سپریم کورٹ میں CAG کے اعتراضات کو بنیاد بنا کر NDA حکومت کو بدنام بھی کیا جاسکتا تھا اور قومی تحفظ پر لاپروائی برتنے کا الزام بھی لگایا جاسکتا تھا کیونکہ اسی کارگل جنگ کی وجہ سے ۱۹۹۹ء میں سنگھ پریوار (ہندو فرقہ پرست تنظیم آر ایس ایس اور اس کی ذیلی شاخوں) نے انتخابات جیتے اور اگر جنگ نہ ہوتی تو اس کے جیتنے کے امکانات کم تھے۔ جب وہ اقتدار پر آئی تو جو کچھ ہندوستان کے معاشرے کے ساتھ کیا گیا وہ تو ۲۰۰۴ء کے انتخابات کے نتائج سے ثابت ہو گیا۔ اس کے برخلاف UPA حکومت نے NDA حکومت کو تائید کرتے ہوئے CAG کے ان سارے اعتراضات کو یہ کہہ کر غیرضروری بتایا کہ اس وقت کی حکومت نے ان حالات میں سارے معاملات قانونی اعتبار سے صحیح کیے یعنی Defence Procurement Procedure 1992 کو نافذ کیا۔ جب اس کلین چٹ پر صحافت نے سوالات اٹھائے تو پرنب مکرجی وزیرِ دفاع نے کہا کہ یہ تو حلف نامہ کا ایک حصہ ہے۔ دوسرے حصہ میں ڈیفنس کے پانچ مقدامت کو CBI کے حوالے کیا گیا ہے اور اس پر تحقیقات ہو رہی ہیں اور تہلکہ اسکام پر بھی جانچ ہو رہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کانگریس نے بھاجپا سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا ارادہ ترک کر دیا ہے۔ وزیراعظم من موہن سنگھ نے پہلا انٹرویو آر ایس ایس کے اخبار کو دیا۔ ایڈوانی جی کی تعریف بھی کی۔ ترنگا یاترا میں ویر ساور کر کی تعریف بھی کی‘ انہیں مجاہد آزادی بھی کہا۔ نریندر مودی کے ویزے کا معاملہ آیا تو کھل کر مودی کے ساتھ ہوئے اور یہ کہا کہ منتخب چیف منسٹر سے امریکی رویہ قابلِ اعتراض ہے۔ آخر کانگریس ٹکرائو کی سیاست سے اجتناب کیوں کر رہی ہے؟ کیا واقعی وہ بھاجپا کو موقع دے رہی ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ ہندی بیلٹ میں بھاجپا کے اثرات ختم کرنے کے لیے کانگریس مستعدی سے کام کر رہی ہے۔ بہار کے انتخابات میں کانگریس کی حکمتِ عملی مکمل کامیاب نہیں ہوئی۔ للو پرشاد یادو ابھی طاقت لیے بیٹھے ہیں۔ رام ولاس پاسوان مردِ میدان ثابت نہ ہو سکے لیکن بہار کی معلق اسمبلی نے کانگریسی قائدین کو ایک موقع دیا ہے کہ اقتدار کے لالچ میں سمتا پارٹی کو NDA سے الگ کر دے یعنی جو وار BJP نے کیا تھا وہی وار اب کانگریس کر رہی ہے۔ اگر سمتا پارٹی NDA سے الگ ہوتی ہے تو بھاجپا کا بہار میں بیڑہ غرق ہو گا اور اس کے اثرات اتر پردیش میں بھی پڑیں گے۔ نتیش کمار تو آہستہ آہستہ تیار ہو ہی جائیں گے لیکن سمتا پارٹی کے جارج فرنانڈیز رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
کانگریس کا حلف نامہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جارج فرنانڈیز کو منانے کی ایک ترکیب ہے۔ ان کی سیاسی تصویر دھندلا گئی تھی‘ اس پر سے کارگل اسکام کی گرد نکالنی ضروری تھی۔ حکومت نے وہ کام کر دیا ہے۔ اب شاید جارج فرنانڈیز کو بھی اعتراض نہ ہو اگر سمتا پارٹی NDA سے نکل کر بہار میں رام ولاس پاسوان کے ساتھ غیربھاجپا اور غیر آرجے ڈی حکومت بنا لے۔ کانگریس کی اس حکمتِ عملی سے بھاجپا کے اندرونِ خانہ بڑی گڑبڑ مچی ہے۔ نریندر مودی‘ امریکی ویزے کی سیاست سے ابھرنا چاہتے ہیں۔ ان کے خلاف اٹھے طوفان کو قابو میں کرنا چاہتے ہیں اور گجرات میں ڈنڈی مارچ سے سیکولر نظریات پھیلانے کی کانگریس کی کامیاب ہوتی کوشش سے بھی وہ اپنے مستقبل سے مایوس ہوتے جارہے ہیں۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم کے مصداق بھاجپا اور گجرات سے ان کا پتا صاف ہونے والا ہے۔ ایڈوانی جی نے انہیں کچھ دیر کے لیے ضرور سہارا دیا ہے لیکن زیادہ دیر تک وہ بھی تائید نہیں کر سکیں گے۔ گجرات کے جب ہاتھ سے جانے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں تو نریندر مودی کو گاندھی جی کے نظریات اچھے لگنے لگے۔ سابرمتی آشرم کی بے سروسامانی انہیں کھانے لگی‘ انہوں نے وزیراعظم من موہن سنگھ سے درخواست کی کہ فوراً ۱۵ کروڑ روپے سابرمتی آشرم کے لیے منظور کیے جائیں تاکہ گاندھی جی کی یاد کو زندہ رکھا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ راستہ جس سے ڈنڈی مارچ گزر رہا ہے‘ اسے گاندھی جی سے موسوم کیا جانا چاہیے۔ گاندھی جی کے نام کو مٹانے والے اب انہیں کے نام کا دم بھر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں گاندھی جی کے مجسمے کے مقابل ویر ساورکر کا مجسمہ لگانے کے بعد نریندر مودی نے ایک نئے دور کا آغاز کیا تھا‘ اسے صحیح آزادی سے تعبیر کیا تھا‘ اب وہ سیکولر نظریات کے حامی گاندھی جی کے موئید ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو شاید شیوسینا کے شعلہ بیان سابق رکن پارلیمنٹ سنجے نروپم کی طرح وہ بھی کانگریس میں شامل ہونے کو ترجیح دیں گے؟
ایڈوانی کو نریندر مودی کی تائید کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ سیاسی حالات کی ان تبدیلیوں میں ایک مرتبہ پھر واجپائی جی نے سیات سے سبکدوش ہونے کا اشارہ دیا ہے۔ جب جب سابق وزیراعظم کو محسوس ہوتا ہے کہ انہیں فیصلوں سے دور رکھا جارہا ہے‘ وہ تڑپ کا یہ پتا ضرور کھیلتے ہیں۔ شاید اب کی بار وہ سچ کہہ رہے ہوں مگر سیاست کے دائو پیچ میں اسے پھر ایک مکونہ چڑھانے والی بات ہی سمجھی جائے گی۔ ایڈوانی جی وزیراعظم کی کرسی کے متمنی ہیں اور انہیں یہ احساس بھی کھایا جارہا ہے کہ وہ رام مندر نہ بنا سکے۔ وہ کچھ مایوس بھی نظر آتے ہیں‘ اس لیے انہوں نے اپنے کارکنوں سے کہا کہ حالات کی اس سنگینی میں انہیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ آئندہ انتخابات میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ واجپائی جی اور ایڈوانی جی کے درمیان یہ رسہ کشی بھاجپا کے لیے مزید دشواریاں پیدا کرے گی۔ اگر بھاجپا عوام کے احساسات کو سمجھ لے تو اس کے حیات کے مواقع بن سکتے ہیں۔ سیاسی شطرنج میں مات پر مات سے بہت ممکن ہو کہ واجپائی جی بھی سنجے نروپم کی تقلید کریں کیونکہ ہندوستان کے سیای افق پر چمکنے کی خواہش میں بڑی قوت ہوتی ہے۔
ترقی پذیر ملک سے ترقی یافتہ ملک بننے کے سفر پر گامزن من موہن سنگھ وزارت کو مستقبل میں بہت اہم بین الاقوامی فیصلے کرنے ہیں۔ پاکستان سے کشمیر کے مسئلہ پر بات چیت کرنی ہے۔ چین سے سرحدی تنازعات کو سدھارنا ہے۔ برصغیر میں امن قائم ہو اور یہاں کے لوگ ترقی کریں یہ مغربی ممالک کے مفادات کے خلاف ہے۔ اس لیے ہندو پاک دوستی کے لیے جو اعتماد بحالی کے اقدام کیے جارہے ہیں‘ اس کو نقصانات پہنچانے کے لیے کوشش تیز تر ہو گئی ہیں۔ سری نگر مظفر آباد بس کو لے کر جو دہشٹ مچائی جارہی ہے اس کے پیچھے بین الاقوامی سازش کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کو ایک طرف تو خارجی اعتبار سے ان مشکلات سے نمٹنا اور فیصلہ کرنا ہے اور اگر مشکل فیصلہ کیا جاتا ہے جس میں کچھ لو اور کچھ دو کی بات ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا فیصلہ ہوتا ہے تو قومی سطح پر اسے موضوعِ بحث بنا کر تحریک چلانے کے مواقع نہ ہوں‘ اس کا بھی خیال رکھنا جانا چاہیے۔ یہی ایک ایسی ضرورت شدید ہے جس کی وجہ سے من موہن سنگھ وزارت بھاجپا سے راست تصادم نہیں چاہتی اور کارگل اسکام کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ خود ملک کی سالمیت کے لیے بھی اور مجموعی اعتبار سے برصغیر کے مفادات اور مستقبل کے لیے یہ بہت اچھا اقدام ہے اگر اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ فی الحال ملک میں امن اور استحکام کی ضرورت ہے اور یہی پیشِ نظر ہونا چاہیے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘۔ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply