موجودہ دور میں یوں تو عالمِ اسلام کو بے شمار مسائل درپیش ہیں‘ مگر غور کیا جائے تو ان تمام مسائل کی جڑ اور اصل ہدف ہے مسلمانوں کا فکری طور پر مغرب سے مغلوب ہو جانا۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب گذشتہ دو صدیوں سے پوری دنیا پر نظریاتی و فکری طور پر حاوی و غالب ہو چکا ہے۔ فکری و نظریاتی غلبہ نے اسے عالمی طور پر سیاسی‘ تہذیبی و فکری ہی نہیں بلکہ ہر نوع کا غلبہ و سربلندی عطا کر دی ہے۔ چونکہ انسان کی تمام انفرادی و اجتماعی مسئلے اور ان کے حل کے لیے اولین اساس و بنیاد اس کا نظریہ و فکر ہی ہوتا ہے۔ یعنی وہ کس نظریہ سے اپنے مسائل کو دیکھتا اور اس کا حل چاہتا ہے‘ خدا پرستی کی راہ سے یا مادہ پرستی کی راہ سے۔ اگر وہ خدا‘ آخرت اور رسالت کا قائل ہے تو اس کا ذہن مسائل کا حل اسی عقیدے اور ایمان کی روشنی میں دریافت کرے گا اور اگر وہ ظاہری آنکھوں سے نظر نہ آنے والی اس ماورا دنیا کی کسی حقیقت کا قائل نہیں تو اس کی سوچ و فکر اور مسائل کے حل کا راستہ بالکل علیحدہ ہو گا۔ موجودہ دور میں اس کا نام سیکولر طرزِ فکر ہے۔ بیسویں صدی کا مغربی نظریہ مادی فکر کا علم بردار ہے اور اس کا پرجوش داعی ہے۔ وہ یہی مادی نظریہ فکر ہے جس کی بنیادی سوچ خدا اور آخرت فراموشی ہے۔ مغرب کے اس فکر نظریہ کی جڑیں اس کی تاریخ‘ کلچر و تمدن میں پیوست ہیں۔
یورپ کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں کے عوام ہزار سال سے ظلم و قہر کی چکی میں پیسے جاتے رہے ہیں۔ ان کا استحصال کرنے میں یہاں کے حکمرانوں اور مذہبی طبقہ میں شراکت داری رہی‘ یورپ کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ دونوں طبقے ہمیشہ عوام کے استحصال میں شامل رہے۔ سولہویں صدی عیسوی میں جب یہاں کے عوام بیدار ہونا شروع ہوئے اور یہاں علم و سائنس کا دور شروع ہوا تو معرب کے ظالمانہ استحصالی نظام کے یہ دونوں شراکت دار یعنی حکمراں اور مذہبی رہنما اسے اپنے مفادات کے خلاف سمجھ کر علم و سائنس کی مخالفت میں کمربستہ ہو گئے اور انہوں نے ظلم و جبر اور لرزہ خیز مظالم کے ذریعے علم و سائنس کی راہ روکنی چاہی۔ اس کے لیے انہوں نے احتساب کی عدالتیں قائم کیں اور خالصتاً علمی و سائنسی نظریت کی بنا پر بیس ہزار انسانوں کو زندہ جلا دیا گیا اور تین لاکھ کے قریب علم و تحقیق کے متوالوں کو اذیب ناک سزائیں دی گئیں۔
یورپ میں مذہب و سائنس کی یہ خونریز کش مکش تقریباً چار سو سال تک جاری رہی۔ بالآخر علم اور سائنس کی فتح ہوئی اور مذہب نے شکست کھائی۔ اس کش مکش میں مذہبی گروہ یعنی پوپ اور پادریوں کا رول انتہائی گھنائونا و بدبختانہ اور علم دشمنی کا رہا۔ انہوں نے عوام کے بجائے شہنشاہوں اور جاگیرداروں اور علم کے بجائے جہالت کا ساتھ دیا۔ مذہبی طبقہ کے اس ناعاقبت اندیشانہ رویہ کی وجہ سے یورپ کے عوام کے دلوں میں حکمرانی اور جاگیرداری کے ساتھ ساتھ نفسِ مذہب کے خلاف بھی نفرت و بغض جاگزیں ہو گیا۔ چرچ کے یہ وہی مظالم ہیں‘ جن کی معافی آج یورپ کے پادری مغربی عوام سے مانگ رہے ہیں۔ اس طویل کش مکش کے نتیجے میں مذہب کو سائنس اور علم کے مقابلے کے لیے جو ہزیمت و شکست اٹھانی پڑی‘ اس نے مذہب کے متعلق نقطۂ نظر یکسر تبدیل کر دیا۔ اب مغرب میں یہ بات طے کر دی گئی ہے کہ مذہب انسان کی نجی (پرائیویٹ) معاملہ ہے اور اس کا دائرۂ کار محض عقائد و عبادات تک محدود ہے۔ یعنی نجی طور پر انسان جو چاہے عقیدہ رکھے اور جس طرح چاہے پوجا پاٹ کرے‘ مذہب کی عمل داری چرچ کے باہر انسان کے تمام انفرادی و اجتماعی مسائل و معاملات سب عقل سے طے ہوں گے‘ خواہ سیاسی ‘ معاشی‘ تعلیمی‘ معاشرتی‘ تمدنی ہوں یا نظم و نسق و قانون سے متعلق ہوں‘ مذہب کو ان میں مداخلت کی اجازت نہیں۔
مذہب کو زندگی کے اہم اور اجتماعی مسائل سے بے دخل کر دینے کی اس فکر کا نام سیکولرزم ہے جس پر تقریباً گذشتہ چار سو سال سے مغرب گامزن ہے۔ بیسویں صدی میں عالمی بساط پر بھی مذہب کو زندی کے عملی مسائل سے بے دخل کرنے کے بعد مغرب نے اپنا ہدف اور نصب العین بنا لیا ہے۔ کیونکہ دنیا میں سیکولر فکر کے حاوی کرنے کے پس پردہ مغرب کو باقی دنیا پر فکری بالادستی کے ساتھ اسے علمی‘ معاشی‘ غلبہ ازخود حاصل ہو جاتا ہے۔ فکری غلبہ اقوامِ عالم کے دل و دماغ پر کنٹرول کا سب سے آسان اور بے خطا نسخہ ہے۔ اسے مغرب نے دنیا بھر میں سیکولر فکر اور اپنے تمدن کے نفاذ کو انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ جس طرح ایک مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی کرتی ہے اور حضرت محمد رسول اﷲﷺ کے بعد اب دنیائے انسانیت کی دنیوی و اخروی فلاح صرف آپ کی اتباع میں ہے اور ایک مسلمان کی زندگی کا بنیادی مقصد ہی اسلام کے اس فکر و نظریہ (توحید و رسالت) کو غالب و حاوی کرتا ہے۔ بلکہ اسی طرح مغرب اپنے سیکولر نظریۂ فکر کو ایک نظامِ زندگی ہی نہیں بلکہ مقصود قرار دیتا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ انسانی فلاح و بہبود کے لیے عقلِ انسانی جو بہت بہتر اور اعلیٰ سے اعلیٰ نظام وضع کر سکتی تھی وہ مغرب نے سیکولر فکر اور نظامِ حیات کی صورت میں دنیا کو پیش کر دیا ہے۔
اب سیکولرزم کے ذریعے انسانی عقل اور فکر کی تکمیل ہو گئی ہے۔ لہٰذا اب دنیا کی تقدیر سیکولرازم سے وابستہ ہے۔ دنیا کی جو قوم یا ملک مغرب کے پیش کردہ اس نظامِ فکر حیات سے گریز کرے گا‘ مغرب کا اس کے ساتھ اعلانِ جہاد ہے اور مغرب اس سے دنیا میں باعزت جینے کا حق بھی چھین لے گا۔
(بشکریہ: ’’دارالسلام‘‘۔ نئی دہلی۔ دسمبر ۲۰۰۴ء)
Leave a Reply