عقیدہ کے انکار پر مبنی جدید تہذیب نے انسانی زندگی کے ہر میدان میں جو زہریلے بیج بوئے ہیں‘ ان میں سے ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ ’’عقیدہ‘‘ کو چیلنج کیا جاسکتا ہے مگر سائنس کو چیلنج نہیں کیا جاکتا۔ حالانکہ سائنسی اصول‘ ایجادات اور انکشافات سب بدلنے والی چیزیں ہیں اور بدلتی رہتی ہیں اور حقیقی قرآنی سائنسی مزاج تو ایسا ہی ہونا چاہیے جو کہ نسلِ انسانی کو مسلسل تحقیق‘ جستجو‘ تفکر اور تدبر میں لگائے رکھے۔ مگر اس کو ’’العلم‘‘ کے ’’عقیدہ‘‘ کا درجہ نہ دے۔ کیونکہ بدلنے والا علم ازلی و ابدی حقائق کے معاملہ میں رہنمائی سے قاصر ہے۔ پچھلے تین سو برسوں میں سائنسی تحقیق کے نام پر جس طرح عوام کا استحصال کیا گیا وہ اس سے برا ہی ہے جتنا الزام مذہب یا دیگر نظریات پر لگایا گیا ہے کہ انہوں نے عقیدہ کی طاقت کا غلط استعمال کیا اور عوام کو گمراہ کر کے فوائد بٹورے۔ یہی کام سائنس اور ٹیکنالوجی کے نام پر بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ سائنس وہی مانی جاتی ہے جو انڈسٹری کو فائدہ پہنچائے مگر وہ ریسرچ جو انڈسٹری کو فائدہ نہ پہنچائے وہ کبھی بھی شاہ سرخیوں میں نہیں آپاتی۔ سائنس کے نام پر بہت سے جھوٹ پھیلائے گئے‘ اپنے کاروباری مقاصد حاصل کیے گئے‘ ڈبہ کا دودھ بیچنے کے لیے ماں کی صحت کے نام پر جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا‘ کیمیائی کھادوں کو بیچنے کے لیے قدرتی کھاد کو غیرسائنسی بتایا گیا وقتاً فوقتاً خطرناک قسم کی ٹیکنالوجی کو مفید بتا کر معاشرہ کو لوٹا گیا‘ خطرناک ادویہ کو ریسرچ ادویہ بتا کر پوری پوری نسل کو تباہ کیا گیا اور نیو کلیائی اور کیمیاوی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی کے ذریعہ انسانوں کی ’’خدمات‘‘ کا سائنسی ریکارڈ پہلی و دوسری جنگِ عظیم (ہیرو شیما‘ ناگا ساکی) اور ویتنام جنگ میں استعمال کیے گئے جو امریکی کیمیاوی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کے نشانات اب بھی بعض ممالک میں محفوظ ہیں۔ بڑے بڑے باندھ بنا کر زمینوں کو بنجر کر دیا گیا۔ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو جس بھی نوعیت کی صلاحیت اور طاقت دی ہے اگر وہ خدا بیزاری اور اﷲ کے آگے جوابدہی کے احساس سے عاری ہے تو وہ انسانیت کی خدمت نہیں کر سکتی۔ اگر جزوی فائدہ ہو گا بھی تو نقصان بہت بڑا ہو گا۔ پچھلے پچاس برسوں میں خاص طور پر ٹیکنالوجی کی ترقی کے نتیجہ میں طرح طرح کے آلات و مشینری وجود میں آرہی ہیں جن کو انتہائی زبردست پروپیگنڈہ کے بل بوتے پر دلکش بتا کر پیش کیا جاتا ہے‘ بعد میں پتا چلتا ہے کہ یہ ایجاد یا آلہ تو بہت نقصان دہ تھا۔ مگر اس وقت تک جو نقصان ہونا ہوتا ہے‘ وہ ہو چکا ہوتا ہے۔ حال کے دنوں میں ٹی وی‘ کمپیوٹر اور موبائل فون اور موٹر گاڑیاں ان چند آلات و مشینوں میں سے ہیں‘ جن کی کھپت بے اندازہ بڑھی ہے۔ ٹی وی اور کمپیوٹر کے زیادہ استعمال پر مستقلاً اب اطلاعات آرہی ہیں کہ اس کے کیا کیا مضر اثرات‘ تابکاری اثرات انسانی جسموں پر پڑ رہے ہیں۔ آج موبائل فون کے کثرتِ استعمال کے مضمرات پر غور کرنا مقصود ہے۔
ٹاٹا میموریل ہسپتال ممبئی کے ماہر ڈاکٹر راکیش جلالی جو دماغی رسولیوں کے ماہر ہیں‘ انہوں نے بتایا کہ نومبر ۲۰۰۴ء میں سویڈن کے کیرونکا انسٹی ٹیوٹ سے جاری شدہ رپورٹ کے مطابق اگر آپ دس سال سے زائد عرصہ سے موبائل فون کا استعمال کر رہے ہیں تو آپ قوتِ سماعت سے متعلق عصب Acoustic Nerve میں ٹیومر رسولی ہونے کا خطرہ دوسروں کے مقابلہ میں دوگنا ہو جاتا ہے۔ اس بیماری میں قوتِ سماعت اور چہرہ کے عضلات کے افعال متاثر ہو جاتے ہیں۔ سویڈن کی ہی ایک اور تحقیق جو ۲۰۰۱ء میں شائع ہوئی ہے‘ کے مطابق جو لوگ موبائل فون استعمال کرتے ہیں‘ ان کے دماغ میں رسولی ہونے کی شرح عام انسانوں سے ڈھائی گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔ سائنسدان جارج لیولیس کارلو کا دعویٰ ہے کہ ان کے چھ سال کے وسیع تجزیہ کے نتائج بتاتے ہیں کہ سیل فون کے تابکاری اثرات کے نتیجہ میں دماغ میں خوردبینی مرکزے پیدا ہو جاتے ہیں جو کینسر کی ابتدا کے لیے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ کارلو نے اپنی تحقیقات سے فون انڈسٹری اور یو ایس ایف ڈی اے کو آگاہ کراتے ہوئے سیل فون کے ایسے اشتہارات پر پابندی لگانے کی سفارش کی تھی جس کے ذریعہ نوجوانوں کو خریدار بننے پر راغب کیا جاتا ہے۔ مگر امریکی سرکار نے ان کی سفارش خارج کر دی۔
ڈاکٹر راس ایڈی جو ریڈیولوجیکل تابکاری کے حیاتیاتی اثرات کے کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ماہر ہیں‘ کہتے ہیں کہ ’’سیل فون جو مائیکرو وویوز پیدا کرتے ہیں ان کے انسانی سر کے قریب ہونے کی وجہ سے یہ لہریں دماغ کے افعال میں سیدھی مداخلت کرتی ہیں۔ سیل فون استعمال کرنے والوں کے نیند کے اوقات میں تبدیلی نوٹ کی گئی ہے۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن کے ڈاکٹر نریندر سنگھ اور ہنری لائی کی تحقیق جو ۲۰۰۴ء میں منظرِ عام پر آئی ہے کے مطابق کم سطح کے برقی مقناطیسی اثرات کے تحت دماغ کے خلیات اور ڈی این اے کو نقصان پہنچتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں دماغ کے ایسے امراض ہوتے ہیں جس کا علاج فی الحال ناممکن ہے‘‘۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق ’’کچھ دہائیوں کے مستقل استعمال کے بعد سیل فون استعمال کرنے والوں کی پوری نسل درمیانی عمر تک پہنچتے پہنچتے اس کے اثراتِ بد سے متاثر ہو جائے گی۔ ہنگری کے سائنسدانوں کے سروے ۲۰۰۴ء کے مطابق پینٹ کے پیچھے کی جیبوں میں فون رکھنے والوں کے کِرمِ منویہ میں تیس فیصد کی کمی آگئی ہے۔ (ٹائمز آف انڈیا‘ ۳۰ اکتوبر ۲۰۰۴ء اور ہندوستان ٹائمز ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۴ء)
جہاں تک موبائل فون کے مضر اثرات کی بات ہے اس پر برسوں سے کام کر رہی سیل فون کمپنی کے اعلیٰ انتظامی افسر اودے کے گھوش کا کہنا ہے کہ ہم نے برسوں سے اس موضوع پر لاکھوں ڈالر خرچ کر کے کام کیا ہے۔ ہم نے جانوروں‘ چوزوں اور چوہوں پر تجربات کیے ہیں اور ہمارے نتائج ۵۵ فیصد تک مستقل ہیں۔ ان میں وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلی نہیں ہوئی وہ یہ کہ سیل فون کے تابکاری کے اثرات یقینی طور پر انسانوں کے لیے مضر ہیں۔ اس سے حافظہ کمزور ہو سکتا ہے‘ قوتِ فکر متاثر ہو سکتی ہے‘ برتائو میں تبدیلی ہو سکتی ہے‘ دماغ کی نشوونما رک سکتی ہے اور افعال متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہ سب جانوروں میں یقینی طور پر محسوس کیا گیا ہے۔ کیونکہ جانوروں پر کیے گئے تجربات کے نتائج کم و بیش انسانوں پر بھی عموماً یکساں ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پھر دنیا بھر کے صحت سے متعلق ادارے کیوں چپ ہیں اور اقوامِ متحدہ کا ادارہ برائے صحت WHO کیوں خاموش ہے؟ مسٹر گھوش کہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ حکومتیں اور سرکاری ادارہ سیل فون کے کثرتِ استعمال کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ خاص طور سے بچوں اور نوعمروں کو منع کر رہے ہیں۔ مگر وہ ٹیلی کمیونی کیشن صنعت کی طرح یہ نہیں اعتراف کر سکتے کہ یہ عام طور سے خطرناک ہے۔ حکومتوں کو سگریٹ پر یہ وارننگ لکھنے پر کہ تمباکو نقصان دہ ہے اس سے کینسر ہو سکتا ہے۔ دو سو سال لگے ہیں۔ کیا ہم سیل فون کے معاملہ میں بھی اگلے ۲۰۰ سال انتظار کر سکتے ہیں کہ جب تک یہ قطعی طور پر ثابت ہو ہم (یعنی حکومتیں) احتیاطی وارننگ جاری نہیں کریں گے؟ یہ سائنس کے عقلیت پسند اور حقیقت پسند ہونے کے کھوکھلے دعویٰ کی ادنیٰ مثال ہے (ٹائمز آف انڈیا ۱۵ نومبر ۲۰۰۴ء)۔ اس لیے سائنس کے نام پر ہر نئی چیز کو فوری قبول کر لینا یا رد کر دینا خود سب سے بڑا غیرسائنسی فعل ہے۔ سائنس کے نام پر پروپیگنڈہ کے بل پر صنعت کار عام انسانوں کا جو استحصال کر رہے ہیں‘ اس کے خلاف عوامی شعور بیدار کرنا پوری انسانیت کی خدمت ہے۔ اس کام میں ہر انسانیت دوست کو شامل ہونا چاہیے۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘۔ نئی دہلی)
Leave a Reply