
گذشتہ ہفتے عالمی بینک کے سربراہ کے لیے اپنی نامزدگی کے ساتھ ہی Paul Wolfowitz (امریکی نائب وزیرِ دفاع) نے بیرونی تشویش و عدم اعتماد کو اپنے واضح بیان کے ذریعہ دور کرنے کی کوشش کی۔ نیوز ویک کے نمائندے لیلی ویمائوتھ کے ساتھ اپنے انٹرویو میں انہوں نے امکانات سے بھرپور اپنی نئی ذمہ داری کے سلسلے میں اظہارِ خیال کیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے امریکا کی عراق پالیسی تشکیل دینے کے حوالے سے اپنے ماضی اور حال کے کردار پر بھی روشنی ڈالی۔ انٹرویو کا اقتباس درج ذیل ہے:
س: عالمی بینک کے ایک اچھے سربراہ ثابت ہونے سے متعلق آپ یورپی ممالک کو کس طرح مطمئن کریں گے؟
ج: میں یورپی ممالک کو یہ بتائوں گا کہ میں کیوں ایک اچھا سربراہ ثابت ہو سکتا ہوں لیکن میں ان کی آرا اور ان کے خیالات کو بھی سننا چاہتا ہوں اور بینک سے متعلق ان کی توقعات کو بہتر طور پر سمجھنا چاہتا ہوں۔
س: لیکن اس سوال کا جواب دیجیے کہ آپ بینک کے لیے کیونکر مفید ہوں گے؟
ج: بینک کے مشن پر میرا بھرپور اعتماد ہے۔ میرا خیال ہے کہ غربت کو کم کرنا اور معاشی ترقی کی راہ ہموار کرنا اُن اہم کاموں میں سے ایک ہے جس کے ذریعہ ہم اپنی اولاد اور اولاد کی اولاد کے لیے ایک بہتر دنیا ورثے میں چھوڑ سکتے ہیں۔
س: لوگوں کی ایک بڑی تعداد آپ کا واشنگٹن میں مقیم رہنا اور کابینہ میں موجود رہنا اچھا خیال کرتی ہے‘ بجائے اس کے کہ آپ عالمی بینک میں جائیں؟
ج: میرا خیال ہے کہ یہ ناقابلِ یقین حد تک ایک اہم ذمہ داری ہے نیز صدر کے مقصد اور ہمارے وہ تمام اہداف جن کا مقصد دنیا میں آزادی کے دائرے کو وسیع کرنا ہیء کی دو جہتیں ہیں‘ ایک سیاسی اور دوسری اقتصادی۔ یہ اگرچہ ایک دوسرے کے ساتھ گہرائی سے مربوط نہیں ہیں‘ تاہم ایک دوسرے کو معاونت ضرور کرتی ہیں۔
س: آپ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ آپ بینک کا استعمال بش انتظامیہ کے فلسفے کو توانائی بخشنے کے لیے کریں گے کہ دنیا کے چاروں طرف جمہوریت کو نافذ کیا جائے۔
ج: نہیں! بلکہ میرا خیال ہے کہ جب بینک اپنے مشن کو پورا کرے گا یعنی غربت کا خاتمہ اور معاشی ترقی کا فروغ تو اس کی وجہ سے دنیا میں لوگوں کا آزادی اور جمہوریت سے متعلق اپنا ہدف حاصل کرنا آسان ہو جائے گا۔
س: کیا آپ اپنے زیرِ قیادت بینک کا ایک مختلف نقشہ دیکھتے ہیں‘ اُس نقشے کے برعکس جو آپ کے پیش رو James Wolfensohn کے زیرِ قیادت تھا؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو پھر کیسے؟
ج: میرا خیال ہے کہ مماثلت کے مقابلے میں اختلاف کی اہمیت کم ہے۔ اگر مجھے یہ ذمہ داری ملتی ہے تو میں ۱۸۴ ممالک کے سامنے جوابدہ رہوں گا جو کہ بینک کے اراکین ہیں۔ پھر مجھے ضرورت ہو گی کہ میں ان ممالک کے ایجنڈا کے حوالے سے بہت واضح سوچ کا حامل رہوں۔
س: یورپی ممالک میں آپ کا سب سے بڑا حریف کون ہے‘ فرانس؟
ج: میں یہ کہنا چاہوں گا کہ مجموعی طور سے یورپی ممالک کا ردِعمل بہت تعمیری رہا ہے۔ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ اگر میری نامزدگی منظور ہو گئی تو ہم ان کی تشویشوں کا صحیح ادراک کریں‘ جن میں سے ایک تشویش بینک کی افریقہ میں کارگزاری کے حوالے سے ان کی ترجیح ہے۔ مجھے افریقہ کے لیے بینک کی اہمیت کا پورا احساس ہے۔
س: ایک تشویش یہ بھی ہے کہ بینک امریکا کا ایک ادارہ ہو گا جو مزید ’’عالمی یک طرفہ پن‘‘ (Unilateralism) پر مبنی پالیسی کا حامل ہو گا؟
ج: ان کے ساتھ جو میری گفتگو ہوئی ہے اس کی روشنی میں میرا خیال ہے کہ وہ اس حوالے سے زیادہ پریشان نہیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس حقیقت کا ادراک کر لیں گے کہ میں اپنی شہرت کے برعکس کسی یکطرفہ پالیسی کا حامل نہیں ہوں۔
س: یہ کہا جاتا ہے کہ وزیرِ دفاع رمز فیلڈ کے ساتھ آپ کے تعلقات روز بروز کشیدہ ہوتے جارہے تھے؟
ج: یہ بکواس ہے۔
س: یہ وجہ نہیں ہے آپ کے وہاں سے ہٹنے کی؟
ج: نہیں! میرا خیال ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کے حوالے سے بہت شاندار اور زبردست کارنامے انجام دیے ہیں۔ مجھے ان کے ساتھ کام کرنے پر فخر ہے اور ان کا معاون بننا میرے لیے اعزاز ہے۔
س: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ لبنان میں ہو رہا ہے یا عراق میں حالیہ ووٹنگ جو ہوئی ہے وہ عراق میں آپ کی پالیسی کی تصدیق ہے؟
ج: مجھے معلوم ہے کہ لوگ الفاظ کا استعمال بہت کرتے ہیں اور میں نہیں کرتا۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اب بھی بہت کچھ کرنا ہے۔ اگر لوگ سچائی کے متعلق بات کرنا چاہتے ہیں تو انہیں تھوڑا انتظار کرنا چاہیے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ میرا ہمیشہ سے یہ یقین رہا ہے اور اب تک یقین ہے کہ عوام کا اپنی خواہش اور اپنے رہنمائوں کے انتخاب میں آزاد ہونا دنیا میں ایک طاقتور ترین قوت کا حامل ہونا ہے۔ یہ کوئی فرضی بات نہیں ہے۔ میرا یقین ہے کہ حقیقت پسندی کا تقاضا یہی ہے کہ اس بات کا پتا لگایا جائے کہ عوام کی طاقت ہمارے ساتھ کیسے ہو سکتی ہے۔ اس لیے کہ ان مقاصد کے ساتھ ہم عوام کے فطری حلیف ہیں۔
س: عراق جنگ کی منصوبہ بندی سے متعلق کیا آپ کو اپنی کسی غلطی کا اعتراف ہے؟ آپ کی نظر میں فاش اور کلیدی غلطی کیا تھی‘ فوج کا ختم کر دیا جانا؟
ج: انگشت نمائی کا ایک طویل سلسلہ جاری ہے۔ دشواریوں کے سامنے آنے کے بعد یہ سوال کہ کیا غلطیاں ہوئیں تو ان کی شناخت ایک طویل المدت مشقت ہے۔ مگر یہ خیال کہ کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی‘ بالکل ایک غلط خیال ہے۔
س: آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ جنگ کے بعد رونما ہونے والے اثرات و نتائج کی پہلے سے منصوبہ بندی کر لی گئی تھی؟
ج: عام خیال یہ ہے کہ جنگ کے بعد کے مرحلے کی کوئی پلاننگ نہیں تھی مگر حقیقی مسئلہ یہ ہے کہ جنگ ختم نہیں ہوئی ہے اور ایک دشمن ہنوز میدان میں ہے جو نئے عراق کے ظہور میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ لیکن ۳۰ جون عراق کے انتخاب کی تاریخ کو ان عناصر عراقی عوام کے ذریعہ حیران کن شکست نصیب ہوئی۔ میرا خیال ہے کہ لوگوں کو اس پر متعجب نہیں ہونا چاہیے کہ وہ حکومت جو ۳۵ سالوں سے عراقی معاشرے میں سرایت کیے ہوئی تھی اور جس نے عوام کو بری طرح ڈرایا دھمکایا‘ اذیتیں دیں اور قتل کیا وہ محض اس وجہ سے اپنے دعوی حکومت سے دستبردار ہو جائے گی کہ اسے ۹ اپریل ۲۰۰۳ء کو بغداد سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔
س: لیکن آپ کے خیال میں کیا غلطیاں ہوئی تھیں؟ اس لیے کہ ہم نے کہا کہ ہم عام تباہی پھیلانے والے اسلحوں کی تلاش میں جارہے ہیں جبکہ اس قسم کا کوئی اسلحہ دریافت نہیں ہوا لہٰذا غلطیاں ہوئیں۔ یہ صحیح ہے نا؟
ج: لیکن بعض عظیم کامیابی بھی ملی اور میرے خیال میں اگر لوگ اس مشقت (غلطیوں کی تلاش کی مشقت) کے عمل سے گزرنا ہی چاہتے ہیں تو انہیں پہلے اندازہ کرنا چاہیے اور مثبت نتائج کو منفی نتائج پر فوقیت دینی چاہیے اور اگر مقصد سبق حاصل کرنا ہے تاکہ اس جنگ کا اختتام جیت پر ہو تو میں کہوں گا کہ آپ اس پر غور کریں کہ وہ لوگ جنہوں نے اس ملک کے عوام کی ۳۵ سالوں تک توہین کرتے رہے‘ انہیں طرح طرح کی اذیتیں دیتے رہے کیونکر اس قدر سخت جان ثابت ہوئے۔ یہی وہ نکتہ جہاں مسئلے کی شناخت ہو سکتی ہے۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘۔ ۴ اپریل ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply