
آج ایک طرف یہ حالت ہے کہ جنوبی ہند کی ریاستوں خاص طور پر کیرالا اور کرناٹک میں مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے ’’لَوجہاد‘‘ (Love Jehad) کا پروپیگنڈا زور شور سے ہورہا ہے اس جھوٹے اور مذموم پروپیگنڈا کا مقصد مسلمانوں کو بدنام کرنے کے علاوہ یہ بھی ہے کہ اس طرح اپنے طور پر اسلام قبول کرنے کے عمل کو روکا جائے۔ بتایا جاتا ہے کہ ’’اس پروگرام کے تحت مسلمان لڑکے ہندو لڑکیوں کو اپنے عشق کے جھوٹے جال میں پھانس کر ان کو شادی کا لالچ دے کر یا ان سے شادی کرکے ان کو مسلمان بنارہے ہیں‘‘۔گوکہ تحقیقات سے یہ باتیں غلط ثابت ہوئی ہیں لیکن پروپیگنڈا حقائق کے سہارے نہیں چلتا ہے بلکہ پروپیگنڈے کی گاڑی کا ایندھن ہی جھوٹ اور فریب ہے۔ اشاعتی ذرائع ابلاغ (پرنٹ میڈیا) اور ٹیلی ویژن تو آج کس طرح قابو سے باہر اس کا احوال پریس کونسل کے صدر جسٹس مارکنڈے کاٹجو کئی مرتبہ بیان کرچکے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مذہب تبدیل کرکے یا مذہب تبدیل کیے بغیر، غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کرنے والی مسلمان لڑکیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ویسے غیر مسلم بھی مشرف بہ اسلام ہورہے ہیں لیکن غیر مسلموں سے شادیاں کرنے والے مسلمانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جو بہرحال تشویشناک ہے۔
دوسری طرف مشرف بہ اسلام ہونے والوں سے خود ہمارا سلوک مناسب نہیں ہے جس طرح زندگی کے ہر میدان میں ہم میں نظم و ضبط، منصوبہ بندی اور تنظیم کا فقدان ہے، اسی طرح اسلامی معاشرہ میں داخل ہونے والے افراد کے لیے ہمارے پاس کوئی نظم نہیں ہے۔ وقتی جوش و خروش کا مظاہرہ تو ہم کرتے ہیں، لیکن کسی قسم کی طویل المیعاد منصوبہ بندی اور نظم کا فقدان ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کولکتہ میں مسلمان ہونے والی دو لڑکیوں کو اتنی پریشانی نہ ہوتی۔
کولکتہ سے ملی خبر گوکہ اب پرانی ہوچکی ہے، لیکن اس کا ذکر بہرحال ضروری ہے۔ کیونکہ بات تازہ خبر یا باسی خبر کی نہیں، بلکہ ہمارے سماج اور خاص طور پر مسلمانوں کے رویہ کی ہے، جو بہرحال اصلاح و تبدیلی کا متقاضی ہے۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں پر بنیادی حقوق کے تحت ملنے والی تمام آزادیاں شہریوں کو حاصل ہیں۔ ہر ہندوستانی آزاد ہے کہ وہ جو مذہب چاہے اختیار کرے یا جو عقیدہ چاہے اپنائے۔ ہندوستانی شہری اپنا عقیدہ اور مذہب بدلتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر مذہب اسلام میں داخل ہونے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ مختلف مذاہب سے وابستہ لوگ آئے دن مشرف بہ اسلام ہوتے رہتے ہیں۔ مسلمان اس سلسلے میں کسی جبر و زیادتی تو بہت دور کی بات ہے، ترغیب و تحریص، بلکہ افہام و تفہیم سے بھی کام نہیں لیتے۔ بلکہ وہ دوسرے مذاہب کو ترک کرکے مشرف بہ اسلام ہونے والوں کی مدد کرنے سے قاصر ہیں یا روایتی بے حسی، تساہل اور کسی حدتک ڈر اور خوف کے سبب اس قسم کی بات سوچتے بھی نہیں ہیں۔
کولکتہ میں دو غریب لڑکیاں اسلام قبول کرلیتی ہیں۔ اسلام قبول کرنے کی سزا میں اپنوں ہی کے مظالم کا شکار ہوئیں۔ ان غریب ونادار بہنوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا تھا۔ ان کے پڑوسیوں نے ان پر بڑا ظلم کیا۔ ان کو بری طرح مارا پیٹا، ہراساں کیا اور ڈرایا دھمکایا۔ ان دو بالغ بہنوں نے چھ ماہ کے وقفہ سے علی الاعلان اسلام قبول کیا ۔ درجہ اول مجسٹریٹ سے تبدیلی مذہب اور تبدیلی نام کی سند حاصل کی۔ ان کے پڑوسیوں نے اس پر ناراض ہوکر ان پر تشدد کیا۔ ایک بہن کو اسپتال جانا پڑا۔ بتایا جاتا ہے کہ ان پر مظالم کرنے والوں کی پشت پناہی ایک مقامی کونسلر کررہے تھے۔ کمال کی بات تو یہ ہے کہ مسلم دوست، بلکہ مسلم نواز وزیراعلیٰ بنگال ممتابنرجی کے دورِحکومت میں یہ حال ہے کہ جب پولیس سے اس ظلم کی شکایت کی گئی تو اس تحریری شکایت کو پولیس نے پھاڑ دیا اور کوئی کارروائی نہیں کی۔ ممکن ہے کہ پولیس نے کوئی کارروائی کی بھی ہو، لیکن ان بہنوں کی حفاظت اور ان کو مارپیٹ کرنے والوں کو گرفتار کرنا پولیس کی ذمہ داری تھی جو اس نے پوری نہیں کی۔
پولیس نے اگر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی تو مسلم جماعتوں اور تنظیموں نے بھی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی، حالانکہ اخوتِ اسلامی کا اولین تقاضہ تھا کہ مسلمان ان کی مدد پہلے کرتے!
اس مسئلہ پر آگے بڑھنے سے قبل ایک اور ذکر ضروری ہے۔ یہ ذکر آسام کی ایک رکن اسمبلی رومی ناتھ کا ہے جو مشرف بہ اسلام ہوکر روبینہ بن گئیں اور اپنے پہلے شوہر کو چھوڑکر ایک دوسرے مسلمان سے شادی کرلی۔ ان خاتون پر اصل اعتراض تو تبدیلی مذہب کا ہے، لیکن اپنے سابقہ شوہر سے طلاق لیے بغیر شادی کرنا تو بہانہ ہے۔ ورنہ سارے ملک میں عیاشی اور بدچلنی کا زور ہے۔ اس کے پس منظر میں صرف روبینہ کے معاملے پر اتنی توجہ دینا کہ ان کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا جائے محض ’’زعفرانی ایجنڈا‘‘ پر عمل درآمد ہے۔ (’’زعفرانی ایجنڈا‘‘ سے مراد ہندو انتہا پسند ٹولے کا ایجنڈا ہے) روبینہ بہرحال سیاست سے تعلق رکھتی ہیں۔ مسلمان سیاسی،مذہبی اور سماجی رہنمائوں کو روبینہ کی مدد کرنی چاہیے تھی۔ افہام و تفہیم کے ذریعہ ان کے قبولِ اسلام کے بعد ایمان پر قائم رہنے کی تلقین بھی ضروری ہے۔ ورنہ ہریانہ کے ایک نامور سیاست داں کے صاحبزادے کا معاملہ ہو سکتا ہے، جنہوں نے دوسری شادی کی خاطر اسلام قبول کیا تھا۔ ان کی دوسری بیوی بھی مسلمان ہوگئی تھیں لیکن جلد ہی انہوں نے اپنے موقف کو بدل دیا، بدنامی تو اسلام کی ہوئی۔ اس قسم کی باتوں کے تدارک کا ہمارے پاس کوئی انتظام نہیں ہے۔ ایسے مسائل افہام و تفہیم کے متقاضی ہیں، لیکن ہمارے پاس ایسا کوئی باقاعدہ نظم نہیں ہے۔
اوپر دو نومسلم لڑکیوں کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ سارا مسئلہ یا اہمیت کولکتہ کی ان دو بہنوں کی نہیں ہے ۔ کولکتہ کی نومسلم لڑکیاں بلاشبہ ہر قسم کی اخلاقی اور مادی مدد کی مستحق ہیں۔ مالی طور پر مضبوط گھرانوں کے نو مسلم اس قسم کے مسائل سے دوچار نہیں ہوتے ہیں، جس قسم کے مسائل سے غریب و نادار اور سماجی طور پر کم حیثیت گھرانوں کے نو مسلم ہوتے ہیں۔ ان کی مدد کے لیے ہم کو ایک مستحکم، مضبوط اور مربوط نظام قائم کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں سیاست میں مقام و مرتبہ کے حامل مسلمانوں کی ذمہ داریاں کچھ زیادہ ہیں، لیکن ان کا احساس ان کو بالکل نہیں ہے ۔ کولکتہ کی دو نومسلم بہنوں کو زدوکوب کرنے والوں کی پشت پناہی ایک کونسلر کرسکتا ہے تو ان کو قانون کے ہاتھوں پکڑوایا بھی جاسکتا ہے ۔
مغربی بنگال کی ریاستی کابینہ میں مسلمان وزیروں کی خاصی تعداد ہے۔ ریاستی اسمبلی میں مسلم ارکان بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ لیکن پتا نہیں مسلم قیادت سے ان کو کوئی مدد ملی یا نہیں؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز میں نو مسلموں کی کسی بھی طرح مدد کرنے کے لیے کوئی اجتماعی نظام موجود نہیں ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین نے خود کو سیاست کی حدتک محدود کرلیا ہے۔ مذہبی رہنما اور علمائے کرام کے نزدیک بھی ملت کی سماجی ضروریات کی زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ سماجی خدمات کے ادارے اول تو مسلمانوں میں بہت کم، بلکہ برائے نام ہیں، اور جو ہیں وہ ایسے معاملات میں ڈر، خوف اور مرعوبیت کے شکار ہیں۔ کسی نومسلم کی مدد کو سیاست اور سماجی خدمات (حد تو یہ ہے کہ مذہبی خدمات) سے وابستہ اصحاب بھی اپنے سیکولرازم اور اپنی سیکولر شبیہ اور تصور کے لیے خطرناک سمجھتے ہیں۔
نومسلم عام طور پر دینی مسائل و احکامات کے علاوہ، ایمان کی پختگی اور روحِ اسلام کو سمجھنے میں مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ اپنے سابقہ مذہب سے کٹ جانے کی وجہ سے ’’اکیلے‘‘ پڑجاتے ہیں۔ خاندانی جائیداد اور ذرائع آمدنی سے محرومی کے باعث بے یارومددگار ہوتے ہیں۔ ہم ایسے اور دیگر مسائل سے اجتناب یا پہلوتہی نہیں کرسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کون کرے؟ کیسے کرے اور کیا کیا کرنا ہے؟ ان مسائل کے حل کے لیے اجتماعی طور پر یکسوئی بہت ضروری ہے۔
☼☼☼
Leave a Reply