پوپ جان پال دوم جن کا گذشتہ ہفتے ایک طویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا‘ ایک مختلف آدمی تھے۔ پولینڈ نژاد جون پال دوم گذشتہ ربع صدی کی جلیل القدر اور ممتاز شخصیات میں سے ایک تھے۔ کوئی بھی باخبر انسان مذاہب کے مابین مفاہمت کو فروغ دینے کی اُن کی کوششوں سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا اور نہ ہی محتاجوں اور محروموں کے لیے جو ان کی خدمات رہی ہیں‘ ان کو فراموش کر سکتا ہے۔ وہ ایک محترم مذہبی رہنما تھے‘ جنہوں نے عیسائیت کے ماورا بھی مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے مابین مکالمے کی حوصلہ افزائی کی۔ یہ ۱۹۶۷ء کی بات ہے کہ پہلی بار ویٹیکن کو یہ احساس ہوا دوسرے مذاہب کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ تمام دنیا کے عیسائی مذہبی رہنما چھ ماہ کے لیے ویٹیکن میں جمع ہوئے اور اپنے مذہب کے اصول و فروعات کا باریک بینی سے جائزہ لیا تاکہ اس میں ایسی اصلاحات کی جائیں جس سے یہ مذہب وقت اور زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکے۔ اس کے بہت ہی اہم ایجنڈوں میں دوسرے مذاہب بشمول اسلام کے ساتھ مکالمہ و گفتگو کا ایجنڈا تھا۔ اس کے بعد ہی سے عیسائیت میں مذہبی بنیادوں پر مکالمہ و گفتگو ایک روایت بن گئی۔ ۲۰ویں صدی میں اونچی سطح پر جو اجلاس ہوئے اس کے سبب مسیحیت کی نظریاتی بنیادیں مستحکم ہوئیں۔ اپنی پاپائیت کے ۲۶ سالہ دور میں آنجہانی جان پال نے ۱۹۶۷ء کے تاریخی اجتماع کے فیصلوں کو نافذ کیا‘ بالخصوص اس فیصلے کو جو دوسرے مذاہب کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے سلسلے کو جاری رکھنے کے حوالے سے متعلق تھا۔ وہ جانتے تھے کہ مذاہب‘ قطع نظر اس سے کہ ان کی سمت کیا ہے‘ کے دشمن مشترک ہیں۔ لہٰذا بغیر تعاون اور مفاہمت کے روحانیت کا زوال سے دوچار ہونا یقینی ہے۔ پوری دنیا میں روحانیت اور معنویت کے بحران کا ادراک کرتے ہوئے پوپ جان پال نے مغربی معاشروں میں مذہب سے لاتعلقی کے رجحان کو کم کرنے کی بہت کوشش کی۔ سیاسی و معاشرتی نقطۂ نظر سے بھی ویٹیکن کی تاریخ میں پوپ کی شخصیت غیرمعمولی تھی۔ مسیحیت کی دو ہزار سالہ تاریخ میں صرف تین پاپائے اعظم ایسے رہے ہیں جو اپنے منصبِ جلیلہ پر ۲۶ سال سے زیادہ عرصے تک جلوہ افروز رہے۔
پوپ جان پال ایک بہت ہی متحرک اور فعال شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں تقریباً سو غیرملکی دورے کیے۔ یورپ سے کمیونزم کے خاتمے میں ان کا اہم کردار ہے۔ انہوں نے مارکس کے خدا بیزار فلسفے کی بھرپور طریقے سے نفی کی۔ اتنا ہی نہیں جان پال نے سرمایہ داری کے نازیبا اظہار کی شدید مخالفت کی اور آج کے مادی و غیرعادلانہ معاشرے میں الٰہی اقدار کو فروغ دیے جانے پر تاکید کی۔ وہ اپنے عالمی امن اور عدل کے ہدف سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ مقبوضہ فلسطین کا دورہ ان کا ایک اہم دورہ تھا۔ ستم رسیدہ فلسطینی ان کے اس دورے کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے‘ جس میں کہ انہوں نے مسلم رہنمائوں سے گفتگو کی تھی۔ اگر بعض سخت گیر کیتھولکس اس خیال کے حامی رہے ہیں کہ کلیسا کی فطرتِ مقدسہ کے پیشِ نظر جان پال کو بہت زیادہ دورے نہیں کرنے چاہیے تھے لیکن پوپ اپنے موقف کو بجاطور سے درست سمجھتے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ مذہب تیزی سے روبہ زوال ہے اور وہ اپنے غیرملکی دوروں کے ذریعہ ہی مذاہب کے مابین مفاہمت و رواداری کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اب دنیا نئے پوپ کے نام سننے کی منتظر ہے۔ پوپ کا انتخاب ہمیشہ سے ہی لوگوں کی خاص توجہ کا مرکز رہا ہے۔ ۸۰ سال سے کم عمر کے کارڈنیلز تمام براعظموں سے سمٹ کر Sistine Chapel میں جمع ہوتے ہیں۔ انتخابی کارروائی انتہائی صیغہ راز میں انجام پاتی ہے۔ ۲ بیلٹ ہر صبح کو لیے جاتے ہیں اور دو ہر سہ پہر کو تاآنکہ ایک کامیاب اور مکمل ووٹنگ انجام پذیر نہ ہو جائے۔ ہر ووٹنگ سیشن کے بعد بیلٹس نذرِ آتش کر دیے جاتے ہیں۔ اگر ووٹنگ نامکمل رہتی ہے تو بیلٹ پیپر میں کوئی ایسی کیمیائی شے مَل دی جاتی ہے‘ جس سے جلنے کے بعد کالا دھواں اٹھتا ہے۔ جب ویٹیکن پیلس سے اس طرح کا دھواں اٹھتا ہے تو سینٹ پیٹر اسکوائر میں جمع اژدھام کے لیے یہ پیغام ہوتا ہے کہ کلیسا ہنوز پاپ کے بغیر ہے۔ پھر جب انتخابی کالج بالآخر حتمی نتیجے پر پہنچ جاتا ہے تو بیلٹز پھر جلائے جاتے ہیں اور سفید دھواں اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ انتخاب مکمل اور کامیاب ہو گیا۔ اس کے بعد کارڈینلز کے ڈین ویٹیکن کی بالکونی پر نمودار ہوتے ہیں اور لاطینی زبان میں باآوازِ بلند اعلان کرتے ہیں کہ ’’اب ہم ایک پوپ کے زیرِ سایہ ہیں‘‘۔ پھر نئے پاپائے اعظم جلوہ افروز ہوتے ہیں اور اپنے دیدار کے منتظر ہجوم کو تہنیت و تبریک پیش کرتے ہیں۔
ہم امید کرتے ہیں کہ نئے پوپ ان اعلیٰ و ارفع رہنما اصولوں پر عمل کو جاری رکھیں گے جو ان کے پیش رو چھوڑ گئے ہیں اور انہی کی مانند یہ دنیا کو امن‘ دوستی‘ رواداری اور مذہبیت کی جانب لے جائیں گے۔
(بشکریہ: ’’ایران ڈیلی‘‘)
Leave a Reply