
بارک اوباما اور جان میک کین کا خارجہ پالیسی کے مسئلے پر جو سب سے زیادہ واضح اور شدید اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ آیا امریکا کو ایرانی صدر احمد نژاد یا وینزویلا کے ہوگوشاویز جیسے مشکل اور ناپسندیدہ رہنمائوں سے بات کرنی چاہیے یا نہیں۔ تین صدارتی مباحث میں سے ہر ایک میں میک کین نے اوباما کو نومشق قرار دیتے ہوئے زیادہ اہمیت کے قابل نہیں سمجھا کیونکہ اوباما ان مخالفین سے امریکا کی براہِ راست گفتگو کے حق میں دلائل دیتے ہیں۔ نائب صدور کے درمیان مباحث میں تو سارا پالن مزید آگے چلی گئیں۔ انھوں نے اوباما پر ’’خراب فیصلے کا الزام لگایا۔۔۔۔۔ جو کہ خطرناک ہے‘‘۔ ان کی اپنی معتدل خارجہ پالیسی کے اسناد کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ایک مضحکہ خیز الزام تھا۔ کیا میک کین اور پالن اپنے اس نقطۂ نظر میں درست ہیں کہ امریکا کو اپنے دشمنوں کے ساتھ گفتگو سے گریز کرنا چاہیے۔ ترقی کے آرزومند ایک سفارتکار کی حیثیت سے میں ریپبلکن اور ڈیمو کریٹک دونوں ادوار میں جو کہ ۲۷ سالوں پر محیط ہے اس مسئلے سے دوچار رہا۔ ممکن ہے یہی وجہ رہی ہو اوباما کے خلاف ریپبلکن کے اس حملے کے پیچھے موجود منطق و حکمت کی تلاش میں میرے سرگرداں رہنے کی۔ مجھے یقین ہے کہ سینئر سفارت کاروں کی جنہوں نے کارٹر سے بش تک کے ادوار میں اپنی خدمات انجام دی ہیں اگر رائے شماری کرائی جائے تو ان میں بڑی اکثریت ایسے لوگوں کی سامنے آئے گی جو درج ذیل مؤقف سے متفق ہوں گے۔
’’یقینا ہمیں اپنے سخت مخالفین سے گفتگو کرنی چاہیے جب وقت اس کی اجازت دیتا ہو اور یہ ہمارے مفاد میں ہو‘‘۔
اس سے بھی زیادہ چیلنجنگ اور اہم سوال بالخصوص میک کین و پالن ٹکٹ کے لیے جو کہ پہلے کے برعکس ہے یہ ہے کیا یہ اعلان کرنا واقعتا اچھا ہے کہ ہم کبھی ان رہنمائوں سے بات چیت نہیں کریں گے؟ کیا یہ واقعتا ہمارے طویل المیعاد مفاد میں ے کہ ہم مشرقِ وسطیٰ کے ایک اہم ترین اور طاقتور ترین ملک ایران سے یا اپنے ایک اہم تیل سپلائر وینزویلا سے گفتگو کا دروازہ بند کر لیں؟ پانچ دہائیوں پر محیط سرد جنگ کے دوران جب امریکی کہیں زیادہ Manichacan تصورِ جہانی کے حامل تھے ہم نے وقتاً فوقتاً گفتگو کا دروازہ بند کیا خاص طور سے شمالی کوریا کے Kim II Sung یا البانیہ کے خون آشام اور پاگل مردِ آہن (Enver Hoxha) جیسے مشکل رہنمائوں سے اپنے تعلقات منقطع کیے۔ لیکن اس عرصے کے بیشتر حصوں میں حتیٰ کہ سرد جنگ دور کے ہمارے سخت ترین صدور نے بھی مثلاً Dwight Eisenhower، John Kennedy، Richard Nixonاور Ronald Reagan کہ جن میں سے کسی پر کمزور اور کندۂ ناتراش ہونے کا الزام عائد نہیں کیا گیا، فیصلہ کیا کہ اپنے مخالفین کے ساتھ بیٹھنا امریکا کے لیے اچھا ہے۔
ان تمام نے سوویت یونین کے رہنمائوں سے بات کیا جبکہ یہ رہنما آج کے احمد نژاد اور ہوگوشاویز کے مقابلے میں امریکا کی بقاء کے لیے زیادہ خطرناک تھے۔ جان ایف کینیڈی جوہری آزمائش پر پابندی کے معاہدے (Nuclear Test Ban Treaty) پر اپنے حریف نیکیتا خروشچیف سے گفتگو کی۔ یہ گفتگو ٹھیک ایک سال بعد ہوئی جبکہ کیوبا میزائل بحران کے دوران دو بھیانک جوہری المیہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ شاید اس سے بھی زیادہ ڈرامائی وہ منظر تھا جب نکسن جو کہ اپنے وقت کے عظیم ترین کمیونسٹ مخالف جہادی تصور کیے جاتے تھے ۱۹۷۲ء میں چین پہنچ گئے تاکہ مائوزے تنگ کے ساتھ اپنے ۲۰ سالہ خراب تعلقات کو استوار کریں کہ تعلقات کی یہ خرابی اب امریکا کے حق میں نہیں تھی۔ سرد جنگ کے ان تمام صدور نے خارجہ پالیسی سے متعلق اس کہاوت کو گلے لگا لیا تھا جسے ہمارے زمانے کے ایک انتہائی تجربہ کار اور سخت گیر رہنما اسرائیلی وزیراعظم یزتاک رابن نے اپنے موقف میں منعکس کیا۔ یعنی انھوں نے یاسر عرفات کے ساتھ اپنی گفتگو کا دفاع یہ کہہ کر کیا کہ ’’آپ دوستوں کے ساتھ امن قائم نہیں کرتے ہیں تو گویا آپ انتہائی ناپسندیدہ دشمنوں کے ساتھ امن قائم کر یں گے‘‘۔ اب امریکا کو کیونکر دنیا سے مختلف انداز میں معاملات کرنے چاہییں؟ خاص طور سے اس وقت؟ جیسا کہ امریکیوں نے بہت ڈرامائی انداز میں گیارہ ستمبر سے اور دوبارہ اس خزاں میں شروع ہونے والے مالیاتی بحران کے دوران جو سبق سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ ہم تیزی سے مائل بہ ارتباط دنیا میں سانس لے رہے ہیں جہاں خطرات کسی بھی وقت اور کسی بھی عظیم فاصلے سے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ اور جب دوسرے مثلاً چین، بھارت، برازیل دنیا میں ہمارے اقتدار میں شراکت کے لیے توانا اور مضبوط ہو رہے ہوں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکا دوستوں اور دشمنوں سے یکساں گفت و شنید کے لیے زیادہ وقت دے، کم نہ دے۔ امریکیوں کو جس حقیقی نکتے کو درک کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ تمام عالمی چیلنجوں کی کھیپ جو مالیاتی بازاروں کے اتھل پتھل، ماحولیاتی تبدیلی اور دہشت گردی پر مشتمل ہے کا مداوا نہیں کیا جا سکتا ہے اس طرح کہ امریکا دنیا میں تنہا اقدام کرے۔ بجائے اس کے کہ ہم تنہائی کی طرف باز گشت کریں جیسا کہ ہم نے اپنی تاریخ میں ہمیشہ کیا ہے یا تنہا اقدام کریں جیسا کہ یکطرفیت کے حامل لوگوں (Unilaterlists) کا موقف ماضی میں رہا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسی قومی حکمتِ عملی وضع کریں جس کے ذریعہ ہم باقی دنیا کے ساتھ حسن ارتباط پیدا کر سکیں۔ سادہ زبان میں کہیے کہ ہم جس قدر دوست بنا سکیں یہ ہماری ضرورت ہے۔ ہمیں اس پر بھی مزید تخلیقی انداز میں سوچنا چاہیے کہ ہم کس طرح اپنے مخالفین کی قوت کو حسن سفارت کاری کے ذریعہ نہ کہ محض اسلحوں کی قوت کے ذریعہ کُند کر سکتے ہیں۔ اپنے مخالفین سے بات کرنا کوئی تفریحی خیال نہیں ہے اور نہ ہی یہ بحران میں کامیابی کا حتمی نسخہ ہے۔ لیکن یہ ایک بھونڈی، احمقانہ اور غلط بات ہے کہ مذاکرات کمزوری اور خوشامد کے مظہر ہیں۔ اکثر و بیشتر مذاکرات نے اپنے آپ کو کسی ملک کے استحکام اور خود اعتمادی کی علامت ثابت کیا ہے۔ امریکا کی سب سے عظیم مگر سب سے نظرانداز شدہ جو قوت رہی ہے وہ درحقیقت اس کی قوتِ سفارت کاری رہی ہے۔ ستمبر میں کونڈولیزا رائس کا لیبیا کا دورہ ۵۰ سالوں کے عرصے میں کسی امریکی وزیر خارجہ کا پہلا دورہ تھا۔ یہ دورہ سالوں کی سوچ بچار اور دانستہ سفارت کاری کا نتیجہ تھا۔ جس کا مقصد لیبیا کی قیادت کو اس بات کے لیے آمادہ کرنا تھا کہ عام تباہی کے اسلحوں سے باز آ جائے اور دہشت گردی ترک کر دے۔ انھیں یہ کامیابی نہیں ملتی اگر وہ لیبیا سے گفتگو سے انکار کر دیتیں۔ اس میں شک نہیں ایک کامیاب سفارت کاری کو ایک مضبوط فوج اور سراغ رساں ایجنسیوں کی پشت پناہی کی ضرورت ہے تاکہ وہ ہماری جنگ لڑ سکے اور القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہوں کا قلع قمع کر سکے۔ لیکن ہمیں اپنے مخالفین کو مستقل یہ پیغام دیتے رہنا چاہیے کہ ہمارے پاس دوسری راہیں بھی ہیں بشمول ممکنہ قوت کے استعمال کی راہ اگر مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہم نے دنیا کے بہت سے مسائل کا بار جنرلوں اور خفیہ ایجنسیوں کے شانوں پر رکھ دیا ہے۔ جبکہ سفارت کاری جو کہ اپنے مخالفین کو آمادہ کرنے، شیشے میں اتارنے اور دھمکیوں کے ذریعہ دبائو میں لینے کی صلاحیت کا نام ہے، بعض اوقات بہت ہی بہتر اور مؤثر ذریعہ ہوتی ہے اپنے اہداف کو حاصل کرنے کا۔ ہم کو اپنی اس صلاحیت پر اعتماد کرنے کی ضرورت ہے کہ جس کے ذریعہ ہم خطرناک حکومتوں کو مذاکرات کی میز پر اور عالمی رائے عامہ کی عدالت میں پچھاڑ سکتے ہیں۔ ایران اس کی ایک مثال ہے۔ اس کی سخت گیر مذہبی حکومت آج مشرق وسطیٰ کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے۔ یہ خطے کے بیشتر دہشت گرد گروہوں کو وسائل اور اسلحے فراہم کرتی ہے جو ہم پر، اسرائیل پر، ہمارے معتدل عرب دوستوں پر گولیاں برساتے ہیں۔اس نے عراق اور افغانستان میں ہماری کوششوں کو پیچیدگی سے دوچار کر دیا ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ایران جوہری اسلحہ سازی کی صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے جس سے مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا۔
امریکی فوجی قوت کے استعمال کے عدم امکان کے پیشِ نظر کیا یہ آئندہ امریکی صدر کے لیے بہتر نہیں ہے کہ وہ ایرانی قیادت کو مذاکرات کی پیش کش کریں؟ یہاں منطق نظر آتی ہے۔ اگر مذاکرات کامیابی پر ختم ہوتے ہیں تو ہم نے امریکا کو ایک ممکنہ تیسری تباہ کن جنگ عظیم سے گویا روک لیا کیونکہ یہ جنگ ایک ایسے ہنگام زدہ خطے میں وقوع پذیر ہوتی جو مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا سے مربوط ہے۔ لیکن اگر مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں ہمارے پاس روس اور چین کو آمادہ کرنے کے لیے بہترین جواز ہو گا کہ وہ ایران کے خلاف مزید سخت اقتصادی پابندیوں کی قرار داد پر دستخط کریں۔ اگر ہم سفارت کاری کو پہلے آزمانے سے انکار بھی کرتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ ایران کے ساتھ جنگ ایک شدید اقدام ہو گا۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آئندہ صدر کو فوراً ہی احمدی نژاد کے ساتھ بیٹھ جانا چاہیے۔ ہمیں نچلی سطح پر رابطوں کا آغاز کرنا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آیا اس لائن پر پیش رفت کرنا ہمارے صدر کے شایانِ شان ہے بھی کہ نہیں۔ اگر ہم ایرانی حکومت سے بات کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں فوجی اقدام کی دھمکی سے دستبردار ہو جانا چاہیے تاکہ مذاکرات کے امکان کو مزید تقویت حاصل ہو۔ ہم حتمی طو سے چاہیں گے کہ روس اور چین کی طرح کے دوسرے با اثر ممالک بھی گفتگو کی میز پر ہمارے ساتھ شامل ہوں تاکہ تہران پر زیادہ سے زیادہ دبائو ڈالا جا سکے۔ لیکن امریکا کے پاس ایران کے ساتھ اہم مسائل پر گفتگو کے لیے نکات کا کوئی معنی خیز مجموعہ نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم انقلابِ امام خمینی کے بعد ایران سے ۳۰ سالہ اجنبیت و علیحدگی سے دوچار ہیں۔ اس کا اندازہ لگانے کے لیے کہ ہم نے کس قدر اپنے آپ کو تنہائی سے دوچار کر لیا ہے ذرا اس نکتے پر غور کیجیے کہ میں بش انتظامیہ میں تین سالوں تک ایران پر ایک اہم شخص کے طور پر رہا لیکن مجھے کسی ایرانی سے کبھی ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ بہت زیادہ کریڈٹ جاتا ہے وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس کو کہ انھوں نے ایرانی حکام کے ساتھ کثیر الطرفہ مذاکرات میں گزشتہ موسم گرما میں میرے جانشین کی شرکت کو ممکن بنایا۔ یہ ایک بہت ہی اچھا پہلا قدم ہے۔ لیکن آئندہ صدر کو چاہیے کہ وہ سینئر ایرانی حکام کے ساتھ قدرے پائیدار مذاکرات کا سلسلہ شروع کریں۔
اگر ہم ایران سے مذارات کرنا نہیں چاہتے ہیں تو ہمارے پاس صرف ایک امکان رہ جاتا ہے اور وہ ہے فوجی اقدام کا۔
آئندہ امریکی صدر کے پاس مشرقِ وسطیٰ میں بحالی امن کے لیے بہت کم موقع ہو گا اگر وہ نیوکلیئر مسئلے پر مذاکرات کے ذریعہ ایران کی باٹم لائن کی شناخت نہیں کر پاتے ہیں۔ اسی طرح شام اور اسرائیل کے مابین امن معاہدہ ممکن نہیں ہو سکے گا اگر ہم اُن مذاکرات کی حمایت نہیں کرتے ہیں جو ان ممالک کے درمیان جاری ہیں۔ افغانستان میں بھی صدر کو نئی مشکلات کا سامنا ہو گا یہ تقریباً ویسی ہی ہو گی جیسی کہ عراق میں شورش سے قبل تھیں۔ عراق میں جنرل پیٹروس کی حکمتِ عملی کی ایک خوبی یہ تھی کہ انھوں نے اپنے پرانے کٹّر دشمنوں یعنی سُنّی جنگجوئوں سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی اور انھیں پھر سے اپنے ساتھ ملا لینے کی چال چلی۔ اب بعض لوگوں کا یہ مشورہ ہے کہ ٹھیک یہی حکمتِ عملی ہمیں طالبان کے لوگوں کے ساتھ بھی اختیار کرنا چاہیے۔ جبکہ ہمیں القائدہ، شدت پسندوں یا طالبان قیادت کے ساتھ بیٹھنے میں مطلقاً کوئی دلچسپی نہیں ہونی چاہیے۔ کیا یہ مفید ہو سکتا ہے ہم کارکن سطح کے طالبان حامیوں کو آمادہ کریں کہ وہ مسلح جدوجہد ترک کر دیں اور ایک جمہوری افغانستان کے لیے کام کریں؟ اگرچہ یہ بظاہر ایک منطقی ہدف معلوم ہوتا ہے لیکن کچھ ہی عرصے میں بہت ہی پریشان کن ثابت ہو سکتا ہے۔ ہم اُس وقت زیادہ فائدے میں رہیں گے جب ہم ایک عظیم تر فوج اور سیاسی قوت کی تعمیر کر لیں اور دیہاتوں میں رہنے والے افغان باشندوں کی سیکوریٹی کو افزودہ کر لیں۔ مخالفین کے ساتھ ہماری گفتگو ہمیشہ ہمارے تمام مسائل کا حل ثابت نہیں ہو گی خصوصاً افغانستان جیسے پیچیدہ ترین ماحول میں۔ ابھی ہمیں بہت دور تک جانا ہے قبل اس کے کہ وہاں ہماری حکمت عملی ایک طویل المیعاد حل کا جزو نہ بن جائے۔ امریکا کوایک پیچیدہ اورمشکل جغرافیائی و سیاسی صورتحال کا سامنا ہے۔ آئندہ صدر کو چاہیے کہ وہ زیادہ تخلیقی انداز میں اور زیادہ جرأت مندی سے اپنے مفادات کے دفاع کے لیے قدم اٹھائیں، سفارت کاری کو بطور کلیدی اسلحہ قومی تدابیر میں پھر سے ایک نئی حیثیت دیتے ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی سفارتی عملہ کو جو افرادی قوت کی کمی اور فراہمیٔ رقوم کی کمی کا شکار رہا ہے پھر سے توانا کیا جائے۔ یقینا نئے صدر مکاّر اور ضدی دشمنوں کے خلاف طاقت کے استعمال کا اپنا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ لیکن انھیں اکثر یہ احساس ہو گا کہ مذاکرات، تبادلہ خیال، باہمی گفت و شنید ملک کے دفاع، بحرانوں کے خاتمہ اور بعض اوقات حتمی امن کے بیج بونے کے بہترین طریقے ہیں۔
نوٹ: برنس انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ برائے سیاسی امور رہے ہیں جو امریکی سفارت کاری میں اعلیٰ ترین منصب ہے۔ ماہ اپریل میں ریٹائرڈ ہونے کے بعد موصوف اب ہارورڈ کے کینڈی اسکول آف گورنمنٹ میں پروفیسر ہیں۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’نیوز ویک‘‘۔ ۳ نومبر ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply