
دو سال قبل جب ایران نے اپنے سول جوہری پروگرام سے متعلق تنازعہ پر یورپ سے رجوع کیا تو اس سے یورپ کے لئے بھی ایک موقع پیدا ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے یورپ اپنا عالمی اثر و رسوخ کھو چکا تھا۔ یہاں یورپ کو ایک موقع ہاتھ آیا کہ وہ ایک بین الاقوامی مسئلے کو حل کرنے کے لئے نسبتاً فعال کردار ادا کرے۔ یہ بہت ہی مناسب موقع تھا جس کے ذریعہ ایران اور یورپ مسئلے کا حل نکال سکتے تھے بلکہ ایک بے مثال مفاہمت کی داغ بیل ڈال سکتے تھے۔ اس موقع سے ایک ایسا اتحاد سامنے آسکتا تھا جو خطے اور بین الاقوامی سلامتی کے مفاد میں ہوتا۔ مغرب کے ذریعہ ایران پر مسلط کردہ غیر منصفانہ پابندیوں کے پیش نظر ایران کو توانائی کے مختلف ذرائع اور سرچشموں کی تلاش کی طرف متوجہ ہونا پڑا چنانچہ جوہری توانائی ایران کی ایک ایسی ضرورت تھی جس کو مغرب نے ۱۹۷۹ء کے انقلاب سے بہت پہلے تسلیم کیا تھا۔ لیکن بعد میں ظاہر ہوا کہ مغرب اس سمت میں ایران کی پیش رفت کو روکنا چاہتا ہے۔ مغرب نے ایران کی ایٹمی ٹیکنالوجی تک رسائی‘ جس کا مقصد سول پروگرام کے لئے پاور پلانٹ کی تعمیر تھا‘ پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگا دیا۔ برٹش پیٹرولیم کے ایک تازہ تخمینہ کے مطابق اگر ایران موجودہ رفتار سے تیل خرچ کرتا رہا تو ۲۰۲۴ء تک یہ نوبت آجائے گی کہ اسے تیل درآمد کرنا پڑے گا۔ اس بات سے توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش کی ایران کی جائز خواہش اچھی طرح نمایاں ہوتی ہے۔ اسی بناء پر ایران اور نام نہاد EU3 (برطانیہ‘ فرانس اور جرمنی) تنازعہ کو جسے امریکا کے تعصب نے ہوا دی تھی کو حل کرنے کے لئے مل کر کام کرنے پر رضامند ہوئے۔ پیرس معاہدے کی بنیاد کی دو جہتیں تھیں ۔ ایک یہ کہ ایران یورپ کو یقین دہانی کرائے گا کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے اور دوسری جانب یورپ ایران کے ساتھ سیاسی‘ اقتصادی اور جوہری میدانوں میں اپنا تعاون بڑھائے گا نیز ایران کی سلامتی کی اسے ٹھوس ضمانتیں فراہم کرنی ہوں گی۔ دو جانبہ بحالیٔ اعتماد کی خاطر ایران نے رضاکارانہ طور پر اپنے جوہری پروگرام کو عارضی طور پر معطل کردیا اور ساتھ ہی اس نے ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی IAEA کو معائنے کی اجازت دے دی جو بہرحال دخل اندازی سے پُر ہوتی ہے۔ دونوں فریق نے ایسی ضمانتوں کو مشخص کرنے پر توجہ دی جو دونوں کے لئے قابل قبول ہوں اس کے باوجود کہ انہیں ان ضمانتوں کی تشخیص اور انہیں حتمی شکل دینے کے واسطے بعض تکنیکی مہارت سے استفادہ کی خاطر IAEA سے بھی رجوع کرنا تھا۔ جوں جوں گفتگو میں پیش رفت ہو رہی تھی امریکا اس خیال سے پریشان ہورہا تھا کہ اسے سارے معاملے میں پیچھے چھوڑ دیا جائے گا چنانچہ وہ متحرک ہوا۔ امریکا کی نئی وزیر خارجہ کا اس سال کے اوائل میں یورپ کے مختلف دارالحکومتوں کا دورہ اور جوہری عدم توسیع کے معاہدے کی شرائط کے تحت ایران کو پرامن جوہری توانائی تک رسائی دینے سے ان کاکھلا انکار EU3 پر اثر انداز ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس کے بعد یورپ نے اپنا لہجہ بدل لیا اور امریکی مطالبے کا اعادہ کیا کہ ایران اپنی تمام جوہری سرگرمیوں کو ترک کردے اگرچہ انہیں یہ معلوم تھا کہ یہ مطالبہ نہ NPT کے تحت جائز ہے اور نہ یہ ایران کے لئے قابل قبول ہوگا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایران نے اپنے آپ کو ایک مشکل حالت میں پایا اور اسے یہ شک لاحق ہوا کہ اس حوالے سے EU3 اور امریکا کے مابین کوئی ڈیل ہوچکی ہے۔ ایران کو یہ احساس ہوا کہ اس نے اپنی جوہری سرگرمیوں کو رضاکارانہ طور سے معطل کرکے اپنے دو سال ضائع کئے جس کے نتیجے میں اسے کچھ حاصل ہونے کے بجائے NPT کے فراہم کردہ جائز حقوق کے حوالے سے اسے دھوکا دیا گیا۔ لیکن پھر بھی ایران نے گفتگوکا سلسلہ ختم نہیں کیا بلکہ یورپ کے مطالبے کا خیال رکھتے ہوئے اور مزید گفتگو کی خاطر پروگرام کے تدریجی ارتقاء سے متعلق اپنی مرتب کردہ تجویز پیش کی۔ EU3 جس کی امریکا کے ساتھ مفاہمت اب واضح تھی نے اسے قبول نہیں کیا۔ یہ وہ مرحلہ ہے کہ جب EU3 نے پیرس معاہدے کی روح کا احترام کرنے سے انکارکردیا تو ایران نے بھی اپنی سرگرمیوں کے ایک چھوٹے سے حصے کو دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ پیرس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یورپ بھی ایک تجویز سامنے لایا جس میں ایران سے یہ مطالبہ تھا کہ وہ یورینیم افزدوگی کے اپنے تمام حقوق سے دستبردار ہوجائے اور اس کے عوض یورپ کے ساتھ ایران کے وسیع تعلقات کی استواری کے موہوم وعدے کیے گئے تھے۔ جب یہ واضح ہوگیا کہ EU3 امریکا کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے تو ایران کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ وہ اصفہان میں خام یورینیم کو گیس میں تبدیل کرنے (Conversion) کا کام دوبارہ شروع کردے۔ یورپ نے بہت جذباتی ردعمل دیکھایا اور IAEA پر دبائو ڈالا کہ وہ اپنے رکن ممالک کا فوری طور رسے اجلاس بلائے اور ایران سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لے۔ ایران یقینا اس مطالبے کو تسلیم نہیں کرسکتا تھا‘ اس لئے کہ جو کچھ وہ کررہا تھا‘ وہ جائز اور قانونی تھا اور NPT کے تحت اسے جو حقوق حاصل تھے‘ ان کے مطابق تھا۔ جب ہم یہ کہہ رہے تھے کہ ایران نے اپنی سرگرمیوں کو رضاکارانہ طور پر معطل کیا ہے تو اس وقت تضاد زیادہ واضح نہیں ہوسکا۔ اگر یہ رضاکارانہ عمل تھا تو یہ دوسروں کے حکم کا پابند نہیں ہوسکتا ۔ امریکا کے دبائو کے نتیجے میں اب یہ معاملہ دوبارہ متنازعہ ہوگیا ہے۔ EU3 پر یہ دبائو ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اپنی دو سالہ گفتگو کے سلسلے کو ختم کردے جس کے نتیجے میں یورپ کے بین الاقوامی وقار میں اضافہ ہوا تھا۔ یورپ کو بین الاقوامی کردار کا جو ایک سنہری موقع ملا تھا‘ نہ صرف یہ کہ وہ ضائع ہورہا ہے بلکہ ایران کا جوہری تنازعہ ایک ناقابلِ حل تنازعہ کی صورت اختیار کر رہا ہے جس کے نتیجے میں غیرضروری اور غیرمطلوبہ تصادم بھڑک اٹھ سکتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ موقع امریکا ایران بے گانگی اور اختلافات کی بھینٹ چڑھ رہا ہے حالانکہ اس موقع کو تمام فریقوں کے فائدے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت جو سوال پوچھے جانے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ کیا بعد کے مرحلے میں جب یورپ مکمل طور سے منظر سے غائب ہو گا‘ امریکا یورپ کی جگہ لے گا؟ اور کیا یورپ کو نقصان میں رہنے والا خیال کیا جائے گا؟ ایسی صورت میں کیا یہ بات بہتر نہیں ہو گی کہ موقع سے فائدہ اٹھالیا جائے بجائے اس کے کہ اسے ضائع کردیا جائے۔
مضمون نگار برطانیہ میں ایران کے سفیر ہیں
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘۔ ۹ ستمبر ۲۰۰۵ / دی گارجین نیوز سروس)
Leave a Reply