
مصر اور یوکرین کے لیے امریکی منصوبے شدید ناکامی سے دوچار ہیں اور جو کچھ بچ رہا ہے اُسے روس چُن رہا ہے۔
ایک اور ’’انقلاب‘‘ برپا ہوا ہے۔ اس بار فوج نے حکومت کا تختہ نہیں الٹا بلکہ پارلیمنٹ حرکت میں آئی ہے۔ یوکرین کی پارلیمنٹ نے ۲۲ فروری کو منتخب صدر وکٹر یاناکووچ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ وکٹر یانوکووچ نے روس کے ایک شہر میں جلا وطنی کے دوران سیاسی بحران کے حوالے سے کمزوری دکھانے پر معذرت چاہی، مگر تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ ان کی اپنی پارٹی نے انہیں قبول کرنے سے انکار کردیا۔ پارلیمنٹ نے دوسرے اقدام کے طور پر سابق وزیر اعظم اور وکٹر یانوکووچ کے سخت حریف یولیا ٹائموشینکو کو رہا کردیا۔ ان کی رہائی یورپی یونین کی رکنیت کے لیے یوکرین کے سامنے رکھی جانے والی شرائط میں شامل تھی۔
یوکرین میں اتھارٹی کمزور پڑتے ہی پہلے سے خود مختار علاقے کریمیا کا روس کے ساتھ جا ملنا حیرت انگیز نہ تھا۔ کریمیا نے اعلان کیا ہے کہ وہ اب روس کے ساتھ جیے گا۔ خلیج عدن میں نیٹو فورسز کے ساتھ مشقوں میں مصروف یوکرین کے فیریگیٹ ہیٹمین سہیداچنی نے یوکرین کے دارالحکومت خیف سے احکام لینے سے انکار کردیا اور سمفیروپول جاتے ہوئے روسی بحریہ کا پرچم لہرایا۔
روسی افواج نے کریمیا کے تین بحری اڈوں کو گھیر کر یوکرین کے فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا۔ کریمیا کے باشندے ۳۰ مارچ کو ایک ریفرنڈم میں حصہ لیں گے جس میں وہ طے کریں گے کہ یوکرین کے ساتھ رہنا ہے یا روس کے ساتھ۔
یوکرین کی فوج کے بہت سے اعلیٰ افسران نے خیف میں حکومت کی تبدیلی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کریمیا کی خود مختار ریاست کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ یوکرین کے قائم مقام صدر اولیسیندر ٹرچینوف نے یوکرینی بحریہ کے نئے سربراہ ڈینس بیریزووسکی کی جانب سے کریمیا سے وفاداری کے حلف کو مسترد کرتے ہوئے ان کے اس اقدام کو غداری سے تعبیر کیا ہے۔ یوکرین کے قائم مقام وزیر اعظم آرسینی یاٹسینیک نے تو نیول کمانڈر بیریزووسکی کے کریمیا سے وفاداری کے حلف کو جنگ کے اعلان کے مساوی قرار دیا ہے۔ کیا واقعی؟ کیا روسی مداخلت واقع ہوئی ہے؟ یا تحفظ فراہم کرنے کے نام پر مہم جوئی؟
سابق سوویت یونین کی تحلیل کے بعد مغرب نے جو نیا عالمی نظام متعارف کرایا ہے وہ افغانستان، عراق، مصر اور یوکرین پر تھوپا گیا ہے۔ اس نئے عالمی نظام میں کوشش یہ کی گئی ہے کہ تمام (کمزور) ممالک اپنی منڈیاں آزاد معیشت کے اصولوں کے مطابق کام کرنے کے لیے کھول دیں۔ یہ تجارت ڈالر میں ہونی ہے۔ صدر یا وزیر اعظم کمزور ہونا چاہیے۔ سیاسی عدم استحکام یقینی بنایا جانا ہے تاکہ امریکا اور یورپ کے لیے اپنے تمام مقاصد کا حصول ممکن ہو۔ معاملات کو فری میڈیا کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ یہ فری میڈیا نجی ملکیت میں ہیں۔ بیشتر معاملات غیر سرکاری تنظیموں کے ہاتھ میں دے دیے جائیں یعنی کسی بڑی اور فیصلہ کن اتھارٹی کے بجائے چھوٹی چھوٹی خود مختار اکائیوں کو سیاہ و سفید کا مالک بنادیا جائے۔ مغرب جمہوریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتا مگر جب بات مفادات کی ہو تو اسے آمریت بھی قبول ہے، خواہ متعلقہ معاشروں کا کچھ بھی حشر ہو۔
کبھی کبھی چند ایک ریاستیں مغرب کے منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہوجاتی ہیں۔ جنوبی امریکا میں وینزویلا اور ایشیا میں ایران اس کی واضح مثال ہیں۔ وینزویلا کے آں جہانی صدر ہوگو شاویز نے کسی بھی مرحلے پر امریکا کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا مناسب نہ جانا اور مرتے دم تک امریکی سامراج کی مخالفت کی۔ یہی حال ایرانی قیادت کا رہا ہے۔ اس نے سخت معاشی پابندیوں کے باوجود امریکا کی پالیسیوں کو تسلیم کرنے پر رضامندی نہ دکھائی۔
اور جب کبھی کوئی اور طاقت اپنے آپ کو منوانے پر تُل جاتی ہے تو مغرب میں سبھی چیخ اٹھتے ہیں۔ روس نے یوکرین کے معاملے میں طاقت دکھائی تو امریکا اور یورپ میں سبھی چیخ اٹھے۔ میڈیا کی ہیڈ لائنز نے روس کے اقدامات کو انتہائی غلط ٹھہرایا۔ روس پر لازم سا ہوگیا تھا کہ یوکرین میں سیاسی اور معاشی اعتبار سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں پورا خطہ عدم توازن اور عدم استحکام کا شکار ہوسکتا تھا۔ جزیرہ نما کریمیا جغرافیائی طور پر روس سے جڑا ہوا ہے۔ بحیرۂ اسود میں وہ روس کا اہم آؤٹ لیٹ ہے اور یہاں کی آبادی میں روسی نسل کے لوگ بھی نمایاں ہیں۔
یوکرین ہر اعتبار سے روس سے جڑا ہوا ہے۔ کبھی یہ روس کا بڑا بھائی تھا۔ نویں سے تیرہویں صدی عیسوی تک روس، یوکرین اور بیلارُس نے مل کر خطے کے معاملات کو کنٹرول کیا۔ اس کے بعد کی سات صدیاں ملے جلے اثرات کی حامل رہی ہیں۔ تاتاریوں کے حملوں کا سامنا یوکرین کی سرزمین پر کیا گیا اور اسی سرزمین پر روس اور پولینڈ کے درمیان اقتدار و اختیار کی جنگیں بھی ہوئیں۔ روس کی ملکہ کیتھرین دی گریٹ نے ۱۷۶۴ء میں کوساک یوکرین کو ختم کیا اور اس کے بعد ۱۷۷۶ء میں کریمیا خانیٹ کا بھی خاتمہ کیا۔ یوکرین اگرچہ ایک جداگانہ حیثیت کا مالک تھا مگر وہ ریاست کے طور پر اپنی کوئی بات منوانے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ ۱۹۱۷ء میں روسی فیڈریشن کے خاتمے کے بعد ہی وہ خود کو ایک آزاد ریاست کے طور پر منوانے میں کامیاب ہوسکا۔ روس اور پولینڈ کے درمیان ۱۹۷۱ء کے ریگا معاہدے کے تحت یوکرین کے شمالی اور مغربی حصے روس اور پولینڈ کو دے دیے گئے اور اس کے بعد یہ سوویت یونین کا حصہ بن گیا۔ اس کے بعد بھی یوکرین کے معاملات میں درستی دکھائی نہ دی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اسٹالن نے مغربی یوکرین کو سابق سوویت یونین میں شامل کیا، گو کہ یہ علاقہ اس کے لیے تیار نہ تھا اور کے بعد خروشیف نے کریمیا کا تحفہ دیا۔ یہ ۱۹۵۴ء کی بات ہے۔ یوکرین کو ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کی تحلیل کے نتیجے میں آزادی ملی۔ تب سے اب تک یہ امریکا کے ’’پرامن‘‘ عالمی نظام کا حصہ چلا آرہا ہے۔
یورپی یونین نے گزشتہ برس صدر یانوکووچ کو الٹی میٹم دیا کہ وہ یونین کی رکنیت کے لیے لازمی قرار پانے والی شرائط کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرلیں۔ تب سے اب تک یوکرین کا زور علاقائی اتحاد پر رہا ہے۔ یوکرین کے لیڈر اب چاہتے ہیں کہ یوریشیا کی بنیاد پر موجود کسی بھی سیٹ اپ کا حصہ ہوں۔ اس صورت میں یوکرین کی معاشی حالت بہتر بنانے میں زیادہ مدد ملے گی کیونکہ کسی یوریشین ٹریڈ ایگریمنٹ کا حصہ بننے کی صورت میں اسے کسٹمز کے حوالے سے زیادہ مراعات ملیں گی۔
یوکرین دو راہے پر کھڑا ہے۔ اسے جلد از جلد کوئی حتمی فیصلہ کرنا ہے تاکہ اس کے لیے سیاسی اور معاشی مستقبل کی سمت کا تعین ممکن ہو۔ مسلم دنیا میں بھی یوکرین کی پوزیشن خاصی کمزور ہوگئی ہے۔ اگر وہ یورپی یونین سے وابستہ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے تو یقینی طور پر اس کے لیے زیادہ مسائل پیدا ہوں گے کیونکہ اسے لازمی طور پر روس سے اپنا تعلق ختم کرنا پڑے گا اور اس سے ایک قدم آگے جاکر اس کی مخالفت بھی مول لینی پڑے گی۔ جان ہاپکنز سینٹر فار ٹرانس اٹلانٹک ریلیشنز نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ یوکرین کے یورپی یونین کا حصہ بننے کی راہ میں اصل رکاوٹ روس نہیں بلکہ خود یوکرین کے عوام ہیں جو یورپی یونین کی رکنیت نہیں چاہتے۔
روس کے اثرات سے نجات پانے کے لیے دائیں بازو کے قوم پرستوں اور یورپ پرستوں کے درمیان اتحاد لازم تھا۔ ۲۰۰۴ء میں جو سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں ان کے نتیجے میں یورپ کی طرف جھکاؤ رکھنے والے اقتدار میں تو آگئے مگر اس کے نتیجے میں یوکرین کو فائدے سے زیادہ نقصان پہنچا۔ اس کے مسائل میں اضافہ ہوگیا۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ عوام جو کچھ چاہتے تھے وہ حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہ تھا۔ اور حکمرانوں کی خواہش کا عوام ذرا بھی احترام کرنے کو تیار نہ تھے۔ اگر سیاسی تبدیلیوں کے نتیجے میں ۲۰۰۴ء والے حالات ہی پیدا ہوتے تو صرف خرابیاں سامنے آتیں۔ ایسے میں لازم تھا کہ انقلابی نوعیت کی تبدیلیوں کے لیے نئے نازیوں کو سامنے لایا جاتا کیونکہ ان میں غیر معمولی جوش و خروش تھا جو کسی بھی حقیقی تبدیلی کے لیے ناگزیر ہوا کرتا ہے۔ نئے نازی مادرِ وطن یا پدرِ وطن کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار تھے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ یورپ نواز سابق وزیر اعظم ٹائموشینکو اور موجودہ قائم مقام وزیر اعظم یاٹسینیک بھی فادر لینڈ پارٹی کے پرچم تلے جمع ہوگئے جبکہ وہ اس کے لیے انتہائی ناموزوں تھے۔ فریڈم اور فادر لینڈ پارٹی کے غیر مقدس اتحاد میں نئے فاشسٹ اور نئے لبرلز بھی شامل ہوگئے۔ ایسے میں امریکا کے لیے نئے فاشسٹوں کا ساتھ دینے کے سوا چارہ نہ رہا۔ کیا یہ سب مصر، شام اور لیبیا جیسا دکھائی دیتا ہے؟ معروف تجزیہ کار اسرائیل شامیر کاکہنا ہے کہ لبرل عناصر کو جمہوریت کی حمایت کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ شام کی طرف کسی بھی القاعدہ گروپ سے اتحاد کرسکتے ہیں۔ لیبیا میں وہ اسلامی شدت پسندوں سے مل گئے اور مصر میں فوج سے۔ روس اور یوکرین میں اب نئے نازیوں کا یہی حال ہے۔
فریڈم اور فادر لینڈ پارٹی کے حوالے سے یوکرین میں اپوزیشن کچھ بھی کہتی رہے، اب معاملات بہت تبدیل ہوچکے ہیں۔ یورپی یونین کے صدر ہرمن وان رومپائے کا کہنا ہے کہ زمین اور نسل کی بنیاد پر ریاست کے برقرار رہنے کا تصور اب مٹ گیا ہے۔ اب کوئی بھی ملک تنہا برقرار نہیں رہ سکتا۔ اسے لازمی طور پر ایک یا کئی ممالک کے ساتھ مل کر چلنا پڑے گا۔
بیلارُس نے الیگزینڈر لوکاشنکو کی قیادت میں بھی یورپی یونین کی رکنیت کی پیش کش کو شک کی نظر سے دیکھا تھا اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ ۱۹۹۶ء میں بیلارُس نے روس کے ساتھ ایسی کامن ویلتھ کی بنیاد رکھی جو رضاکارانہ نوعیت کی تھی۔ بیلارُس میں بھی اب بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ نئی حکومت میں شامل فریڈم پارٹی (فاشسٹ پڑھیے) کے ارکان، فورسز، تعلیم، صحت اور قومی سلامتی کے معاملات میں اپنی مرضی کی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔ ان میں کمانڈنٹ آف دی یورو میدان تحریک کے آندرے پیروبیف نمایاں ہیں جو قومی سلامتی اور قومی دفاعی کمیٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ علاوہ ازیں ان میں نئے پروسیکیوٹر جنرل اولے ماخنتسکی اور نئے وزیر تعلیم سرہائی کوئٹ بھی شامل ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر مغربی یورپ میں نئے فاشسٹ یقینا حوصلہ پاتے ہوں گے۔
روسی ہارڈ بال
روس میں لبرل عناصر نے ایک مابعد جدید و مطیع ریاست کی حیثیت سے سلطنت کا حصہ بننے کا جو خواب دیکھا تھا، وہ یقینی طور پر اب ہوا میں بکھر گیا ہوگا۔ مگر روس اور یورپ کے تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے کیونکہ ایک طرف تو روس نے چیچنیا کا کنٹرول ختم کرنے سے انکار کیا اور دوسری طرف اوسیشیا اور ابخازیہ پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرلی۔ ساتھ ہی روس نے مشرق وسطیٰ اور دیگر خطوں میں اپنی پوزیشن بہتر طور پر منوانے کی کوشش کرکے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ وہ یورپ کا مطیع رکن بن کر رہنا پسند نہیں کرے گا۔
روس نے شام اور مصر کے معاملے میں مغرب کے خلاف جانے کی جسارت کی ہے۔ اس نے شام کی بندرگاہ طرطوس کو اپنا اڈا بنانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور یوکرین میں صدر یانوکووچ کے برطرف کیے جانے سے ایک ہفتہ قبل مصر سے معاہدہ کیا، جس کے تحت اسے دو ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کرے گا۔
روس نے یوکرین کی سابق حکومتوں سے نرم معاہدوں کے تحت سمفیروپول کی بندرگاہ ۲۰۴۲ء تک استعمال کرنے کی اجازت حاصل کرلی تھی۔ وہ معاہدے اب کچھ وقعت نہیں رکھتے۔ ایسے میں نیٹو کو بحیرۂ اسود میں خود اپنی بندرگاہ استعمال کرنے کے عوض کرایا دینا کچھ مفہوم نہیں رکھتا۔ سمفیروپول اور طرطوس تو سنگِ بنیاد کی طرح ہیں۔ روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگو کہتے ہیںکہ ان کا ملک نیول بیسز کے استعمال کی اجازت حاصل کرنے کے سلسلے میں کیوبا، وینزویلا، نکاراگوا، الجزائر، قبرص، سیشلز، ویتنام اور سنگاپور سے بات چیت کر رہا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یورپ کو نیا کیک کریمیا کے بغیر ملے گا اور یہ کیک کھانے کے قابل بھی نہ ہوگا۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یورپی یونین کے پاس اتنے مالی وسائل نہیں ہیں کہ یوکرین کو اپنا بنانے کے لیے دل کھول کر خرچ کرسکے جیسا کہ اس نے پڑوسی لیٹویا کے معاملے میں کیا تھا۔ یوکرین میں حالات تیزی سے خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اپوزیشن کا لہجہ تلخ سے تلخ تر ہوتا جارہا ہے۔ نئے فاشسٹ، بیرونی تسلط سے شدید نفرت کرنے والے اور یورپ پر مر مٹنے والے چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت قائم ہو اور یوکرین کو یورپی یونین کے دائرے میں داخل کردیا جائے۔ باغی لیڈر الیگزینڈر موزچکو نے اپنے بعض اقدامات کی تحقیقات کے اعلان پر وزیر داخلہ کو قتل کی دھمکی بھی دی ہے۔ کیا آپ کو یہ سب کچھ لیبیا کے معاملات جیسا محسوس نہیں ہو رہا؟
یوکرین میں جو کچھ ہوا وہ بہت حد تک مصر کے معاملات جیسا ہے۔ گزشتہ جولائی میں مصر میں یہی کچھ تو ہوا تھا۔ فرق اگر ہے تو بس یہ کہ مصر میں فوج نے حکومت کا تختہ الٹا اور یوکرین میں پارلیمنٹ نے یہ ’’نیک‘‘ کام کیا۔ یوکرین میں بھی لوگ اسی طرح گھروں سے نکلے جس طور مصر میں نکلے تھے اور بڑے چوراہوں پر جمع ہوکر طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔ یوکرین میں تو ایک شہر کے میئر نے بھی عوام کو حکومت کا تختہ الٹنے میں مدد دی۔ مصر کی طرح یوکرین میں بھی دائیں بازو کے قوم پرستوں نے لبرل عناصر کے ساتھ مل کر تبدیلی کی راہ ہموار کی۔
دونوں ممالک میں تبدیلی کے نتیجے میں صرف خرابی پیدا ہوئی۔ سیاسی اور معاشی بحران نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ روس نے دونوں ہی کے معاملے میں بہت محتاط رویہ اختیار کیا ہے۔ یوکرین کے کیس میں وہ کریمیا کی حد تک کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مابعد دورِ جدید کا استعمار ہمارے سامنے آچکا ہے۔
(کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ایرک وال برگ مشرق وسطیٰ، وسط ایشیا اور روس کے امور کے معروف تجزیہ نگار ہیں۔ یونیورسٹی آف ٹورونٹو اور کیمبرج سے معاشیات میں گریجویشن کی ہے۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے سے مشرق و مغرب کے تعلقات پر لکھتے آئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مشیر، مترجم، مصنف اور لیکچرر کی حیثیت سے سابق سوویت یونین اور روس میں کافی وقت گزارا ہے۔ آج کل مصر کے اخبار ’’الاہرام‘‘ کے علاوہ کاؤنٹر پنچ، گلوبل ریسرچ، الجزیرہ اور ایک ترک ہفت روزہ کے لیے لکھتے ہیں۔ وائس آف دی کیپ ریڈیو کے لیے مبصر کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔)
(“Ukraine and Egypt: A tale of two coups – OPED”… “eurasiareview.com”. March 4, 2014)
Leave a Reply