جو شخص اردو ادبا کی تحریروں اور شعرا کے ان اشعار کا مطالعہ کرے گا جو یورپ کے خلاف ترکی کی لڑائیوں کے دوران کہے گئے تو وہ محسوس کرے گا کہ یہ ادبا ترکی میں رہ رہے ہیں اور ترکی ہی ان کا وطن ہے‘ ترکی کی کامرانیوں اور فتح مندیوں پر ان کے چہرے کھل اٹھتے اور اس کی شکستوں اور ناکامیوں سے ان پر حزن و ملال کے بادل چھا جاتے ہیں‘ نیز وہ محسوس کرے گا کہ برصغیر کے مسلمان کا دل ہر اس واقعہ پر دھڑکتا ہے جو عالمِ اسلام کے کسی بھی حصہ میں رونما ہوتا ہے اور خاص طور پر جب وہ حادثہ کسی عربی‘ ایرانی یا ترکی علاقہ میں پیش آتا ہے تو اس کا حزن و ملال اور شدید ہو جاتا ہے اور اس کی بے چینی مزید بڑھ جاتی ہے۔
علامہ شبلی نعمانی
جنگ بلقان و طرابلس سے متعلق علامہ شبلی نعمانی کی ایک نظم ملاحظہ ہو‘ کہتے ہیں:
مراکش جا چکا‘ فارس گیا‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ
جیتا ہے یہ ٹرکی کا مریضِ سخت جاں کب تک
یہ سیلابِ بلا بلقان سے جو بڑھتا آتا ہے
اسے روکے گا مظلوموں کی آہوں کا دھواں کب تک
کوئی پوچھے کہ اے تہذیبِ انسانی کے استادو یہ ظلم
آرائیاں تا کے یہ حشر انگیزیاں کب تک
یہ مانا تم کو تلواروں کی تیزی آزمانی ہے
ہماری گردنوں پر ہو گا اس کا امتحاں کب تک
کہاں تک لو گے ہم سے انتقامِ فتح ایوبی
دکھائو گے ہمیں جنگِ صلیبی کا سماں کب تک
زوال دولت عثمان‘ زوال شرع و ملت ہے
عزیزو! فکر فرزند و عیال و خانماں کب تک
جو گونج اٹھے گا عالم شورِ ناقوسِ کلیسا سے
تو پھر یہ نغمۂ توحید و گلبانگِ اذاں کب تک
کہیں اڑ کر نہ دامانِ حرم کو بھی یہ چھو آئے
غبارِ کفر کی یہ بے محابا شوخیاں کب تک
حرم کی سمت بھی صید افگنوں کی جب نگاہیں ہیں
تو پھر سمجھو کہ مرغانِ حرم کے آشیاں کب تک
جو ہجرت کر کے بھی جائیں تو شبلی اب کہاں جائیں
کہ اب امن و امان شام و نجد و قیراں کب تک
برصغیر کے مسلمان شعرا کا عربوں‘ ترکوں اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے واقعات سے متاثر ہونا اور ان کے مسائل سے دلچسپی لینا ایک عام اور مشترک بات ہے جس میں اردو کے سارے شعرا شریک ہیں اور یہ رجحان مختلف مواقع پر ظاہر ہوتا ہے‘ اس کی دلیل یہ ہے کہ مسلمان اردو شاعر کا دل ہمیشہ اپنے خطے سے باہر رہنے والے مسلم بھائیوں کے ساتھ وابستہ اور اسلامی جذبہ سے لبریز ہوتا ہے‘ چنانچہ شاعر اسلامی آثار و نقوش کی عظمت کے گن گاتا ہے اور کسی بھی مسلمان ملک میں پیش آنے والے واقعات پر خون کے آنسو روتا ہے‘ خواہ اس کی ملک کی زبان اور اس کا کلچر کچھ بھی ہو۔
علامہ اقبال
یہ عالمی اسلامی جذبہ اس کی طاقتور ترین شکل میں اقبال کے کلام میں دیکھا جاسکتا ہے‘ جنہوں نے امتِ عربیہ کو خطاب کیا‘ مسئلۂ فلسطین کا درماں سوچا‘ اندلس پر آنسو بہائے اور قرطبہ اور جامع قرطبہ کی زیارت کے موقع پر وہ دلکش نظم کہی جو ان کی عمدہ ترین نظموں میں شمار ہوتی ہے‘ نیز وہ اپنے اشعار میں جابجا امام رازی‘ مولانا رومی‘ شیخ ابن عربی‘ حکیم بو علی سینا اور امام غزالی جیسے دانشورانِ اسلام‘ مسلمان فلاسفہ اور مصلحینِ امت کے حوالے دیتے ہیں اور ان کی عظمت کے گن گاتے ہیں۔ اقبال اپنے اندر رسول کریمﷺ کی محبت کا بے پناہ جذبہ بھی رکھتے ہیں‘ جنہیں وہ رسولِ عربی کا لقب دیتے ہیں اور عربی کا لفظ بار بار لاتے ہیں اور اپنے کو مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کرتا ہوا اور وہاں کی فضائوں میں پرواز کرتا ہوا تصور کرتے ہیں۔
اقبال اس بات کو کبھی فراموش نہیں کرتے کہ وہ اصلاً ہندوستانی بلکہ ہندو ہیں اور اپنے اشعار میں اسے بیان کرتے ہیں۔ قرطبہ سے متعلق اپنی نظم میں کہتے ہیں:
کافر ہندی ہوں میں‘ دیکھ مرا ذوق و شوق
دل میں صلاۃ و درود‘ لب پہ صلاۃ و درود
شوق مری لَے میں ہے‘ شوق مری نے میں ہے
نغمۂ اﷲ ھو میرے رگ و پے میں ہے
اقبال اپنا اور مسجد کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
تیری فضا دل فروز‘ میری نوا سینہ سوز
تجھ سے دلوں کا حضور‘ مجھ سے دلوں کی کشود
عرشِ معلی سے کم سینۂ آدم نہیں
گرچہ کف خاک کی حد ہے سپہر کبود
پیکر نوری کو ہے سجدہ میسر تو کیا
اس کو میسر نہیں سوز و گدازِ سجود
مغربی تہذیب پر تنقید
اگرچہ اقبال کی نشوونما اور تعلیم و تربیت مغربی ماحول اور وہاں کی فضائوں میں ہوئی تھی اور انہوں نے مغربی علوم میں کمال پیدا کیا اور مغربی ثقافت و کلچر سے متاثر بھی ہوئے لیکن ان کی اسلامیت غالب آئی اور وہ مغرب کے حلقہ بگوش ہونے کے بجائے اس کے باغی ہوئے اور مغربی تہذیب کو اپنی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کی تنقید و بغاوت کا نقطۂ آغاز اسلامی ملکوں کے تئیں یورپ کے ظالمانہ اور اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ اس کی عداوت پر ان کا ردِعمل تھا۔ اگرچہ اقبال کے دور میں مسلمانوں سے انگریزوں کے انتقام لینے کی آندھی تھم چکی تھی لیکن اقبال کے دل پر ہر اس واقعہ سے چوٹ لگتی تھی جو عالمِ عربی میں پیش آتا اور مغربی تہذیب کے اس خطرہ سے ان کا دل کڑھتا اور بے چین تھا جو اسلامی تہذیب کو لاحق تھا۔ کیونکہ اقبال نے فرنگی تہذیب کی بنیادی کمزوریوں‘ اس کے دبتے ہوئے پہلوئوں اور اس عنصری فساد اور بگاڑ کو دیکھ لیا تھا جو اس کی سرشت اور اس کی طینت میں موجود تھے۔
انہوں نے دیکھا کہ مغربی تہذیب سے متاثر ذہن مذہب اور اخلاقی و روحانی اقدار کے ساتھ کیسا معاملہ کرتا ہے‘ انہوں نے فساد قلب و نظر کو اس تہذیب کی روح کی ناپاکی کا ثمرہ بتایا ہے‘ جس نے اس سے قلب سلیم کی دولت چھین لی۔
فساد قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیرِ پاک و خیالِ بلند و ذوقِ لطیف
آگے کہتے ہیں:
یہ عیش فراواں یہ حکومت یہ تجارت
دل سینۂ بے نور میں محروم تسلی
تاریک ہے افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے
یہ وادیٔ ایمن نہیں شایان تجلی
ہے نزع کی حالات میں یہ تہذیب جواں مرگ
شاید ہوں کلیسا کے یہودی متولی
اکبر حسین الہ آبادی
اکبر حسین الہ آبادی (۱۸۴۶۔۱۹۲۱ء) ان لوگوں میں تھے جنہوں نے ہندوستان میں انگریزوں کا دور عروج اور علومِ جدیدہ کا غلبہ دیکھا تھا‘ جب کہ مغربی تہذیب کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اور متحدہ ہندوستان میں مدرسۃ العلوم (حال مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) کے بانی سرسید احمد خاں کی قیادت میں مغربی تہذیب اور اسلامی ثقافت کے درمیان تال میل پیدا کرنے کی زبردست تحریک چل رہی تھی۔ اکبر الہ آبادی خود بھی سرکاری اسکولوں کے تعلیم یافتہ اور علوم جدیدہ سے واقف تھے۔ عدالتی عہدوں اور مناصب پر بھی فائز رہے‘ انگریزی حکومت نے انہیں خان بہادر کا لقب بھی دیا تھا۔ اکبر اپنے دور کے اردو کے بڑے شعرا میں شمار ہوتے تھے‘ ان کے تین شعری مجموعے ادبی و اسلامی حلقوں سے خراجِ تحسین حاصل کر چکے ہیں اور مشہور ہیں‘ بڑے بڑے ادبا و شعرا ان کے کمال فن کے معترف ہیں اور وہ اردو کی ظریفانہ اصلاحی شاعری کے امام تسلیم کیے جاتے ہیں۔
اکبر الہ آبادی نے مغربی تہذیب کو ترجیح دینے اور مغربی کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے کے رجحان کا سختی سے مقابلہ کیا اور زندگی بھر مغربی تہذیب پر تنقید ان کی شاعری کا موضوع رہا۔ یہاں تک کہ اردو انسائیکلو پیڈیا نے یہ کہتے ہوئے ان پر تنقید کی کہ انہوں نے مغربی تہذیب پر تنقید کرنے میں مبالغہ سے کام لیا ہے‘ حتیٰ کہ انہوں نے ہر اس اصلاحی عمل اور مفید کوشش کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس میں مغربی افکار کے سرایت کر جانے کا خدشہ بھی انہیں محسوس ہوا۔
مغربی تعلیم و تہذیب اور مغربی افکار و خیالات پر تنقید کے سلسلہ میں اکبر الہ آبادی کے چند اشعار ملاحظہ ہوں‘ کہتے ہیں:
مغربی روش پر کیوں نہ آئیں اب قلوب
قوم ان کے ہاتھ میں تعلیم ان کے ہاتھ میں
شیخ مرحوم کا قول اب مجھے یاد آتا ہے
دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے
قابلیت تو بہت بڑھ گئی ماشاء اﷲ
مگر افسوس یہی ہے کہ مسلماں نہ رہے
تعلیم جو دی جاتی ہے ہمیں وہ کیا ہے فقط بازاری ہے
جو عقل سکھائی جاتی ہے وہ کیا ہے فقط سرکاری ہے
تہذیب جدید میں سوائے مادہ پرستی اور ظاہر بینی کے کچھ نہیں‘ کہتے ہیں:
ہم کیا کہیں احباب کیا کار نمایاں کر گئے
بی اے ہوئے‘ نوکر ہوئے‘ پنشن ملی‘ پھر مر گئے
کل مست عیش و ناز تھے ہوٹل کے ہال میں
ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جاکر
جو پوچھا دل سے اس جینے کا کیا مقصود آخر ہے
شکم بولا کہ اس کی بحث کیا خادم تو حاضر ہے
بتائیں آپ سے مرنے کے بعد کیا ہو گا
پلائو کھائیں گے احباب فاتحہ ہو گا
ڈارون کے نظریۂ ارتقائے آدم پر تنقید ملاحظہ ہو:
نیست کس مصروف کار دیں بقلب مطمئن
یک فنا فی الآنر است و یک فنا فی الدارون
ڈارون صاحب حقیقت سے بہت دور تھے
میں نہ مانوں گا کہ آبا آپ کے لنگور تھے
نئی تعلیم کو کیا واسطہ ہے آدمیت سے
جناب ڈارون کو حضرت آدم سے کیا مطلب
سرفرازی ہو اونٹوں کی تو گردن کاٹنے ان کی
اگر بندر کی بن آئے تو فیض ارتقا کہیے
اور انگریزی اقتدار کے بعد قوم کی حالت کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
نئی نئی لگ رہی ہیں آنچیں‘ یہ قوم بے کس پگھل رہی ہے
نہ مغربی ہے‘ نہ مشرقی ہے‘ عجب سانچے میں ڈھل رہی ہے
وزن اب ان کا معین نہیں ہو سکتا کچھ
برف کی طرح مسلمان گھلے جاتے ہیں
اور یہ انداز بھی ملاحظہ ہو:
انہی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں‘ زبان میری ہے بات ان کی
انہی کی محفل سنوارتا ہوں‘ چراغ میرا ہے‘ رات ان کی
فقط میرا ہاتھ چل رہا ہے‘ انہی کا مطلب نکل رہا ہے
انہی کا مضمون‘ انہی کا کاغذ‘ قلم انہی کا‘ دوات ان کی
اکبر الہ آبادی تنقید برائے تنقید کے قائل نہیں تھے‘ بلکہ انہیں مسلمانوں کو ان کی اسلامیت اور دینی غیرت پر قائم رکھنا مقصود تھا‘ چنانچہ فرماتے ہیں کہ تم ترقی جتنی چاہے کرو‘ سب روا ہے‘ بس ایک بات یاد رکھنا کہ اﷲ کو اور اپنی اسلامیت کو فراموش مت کرنا:
تم شوق سے کالج میں پھلو پارک میں پھولو
جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ پہ جھولو
بس ایک سخن بندۂ عاجز کا رہے یاد
اﷲ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
اردو شاعری غیرتِ اسلامی کی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور یہ غیرت مختلف شکلوں میں ظاہر ہوئی ہے‘ کبھی تو مغربی تہذیب پر تنقید کی شکل میں۔ کبھی مسلمانوں کی عظمت رفتہ پر اظہارِ حسرت و افسوس اور تہذیب اسلامی کی تقدیس و ثنا خوانی کی صورت میں۔ کبھی ان مشکلات و مصائب کی تصویر کشی کی شکل میں جن سے مسلمان دوچار تھے اور ہیں اور کبھی تاریخ اسلامی گذشتہ کارناموں کے تذکرہ کی شکل میں۔ اس قبیل کی شاعری میں شیخ عبدالرزاق کلامی کی صمصام الاسلام‘ حفیظ جالندھری کی شاہنامۂ اسلام‘ خواجہ الطاف حسین حالی کی مسدس حالی اور اسلامی تعلیم و تربیت اور مسلمانوں کی پسماندگی و زبوں حالی کی تنقید کے موضوع پر مسلمان شعرا کی نظمیں شامل ہیں۔ نیز اردو ادب کا دامن تعلیم و تربیت‘ تزکیۂ نفس‘ زہد و توکل اور صبر و استقامت کے بیش بہا سرمایہ سے بھی مالا مال ہے اور بڑے بڑے شعرا نے ان موضوعات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔
اردو نثر
جذبۂ اسلامی کو پیش کرنے‘ مسلمانوں کے مسائل سے دلچسپی لینے اور اسلامی بیداری کی عکاسی کرنے میں اردو نثر کا حصہ شعر سے کم نہیں بلکہ بڑھا ہوا ہے‘ کیونکہ نثر کا دامن اشعار سے زیادہ وسیع ہے‘ یہ علم و فن‘ ادب و دعوت اسلامی اور اصلاح معاشرہ سارے پہلوئوں کو محیط ہے۔ اردو زبان نے اپنی نشوونما کے اس مرحلہ پر ایک طویل مسافت طے کی ہے اور وسیع رقبہ پر مشتمل ہے‘ اور بہت سے ایسے علمی و دینی ذخائر اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے جو قدیم اسلامی زبانوں کے ذخیروں کے ساتھ ہمسری کا دعوی رکھتے ہیں۔ بلکہ اردو میں اسلامی موضوعات پر بعض ایسی کتابیں اور مضامین موجود ہیں جن کی نظیر دوسری زبانوں میں نہیں ملتی‘ ان میں تاریخ و سیرت نبوی‘ مشاہیر اسلام و حکماے اسلام کی سیرت اور قرآن و حدیث اور فقہ کے موضوع پر متعدد اسلامی دائرۃ المعارف اور انسائیکلو پیڈیا معرضِ وجود میں آچکے ہیں جو اردو والوں کو دوسری زبانوں سے مستغنی بناتے ہیں‘ نیز دیگر اسلامی زبانوں جیسے فارسی‘ عربی اور ترکی کا سارا سرمایہ اردو زبان میں منتقل کیا جاچکا ہے‘ چنانچہ تحقیق و ریسرچ کا کام کرنے والوں کو اس زبان میں کسی بھی موضوع پر کم مائیگی‘ تہی دامنی یا نقص و کمی کا احساس نہیں ہوتا اور یہ اسلامی اثرات نثر کی تمام اقسام جیسے ناول‘ افسانے‘ حکایات‘ کہانیوں اور ضرب الامثال سب میں پائے جاتے ہیں۔
اردو زبان میں دعوت اسلامی‘ تربیت اسلامی اور اصلاح معاشرہ کے موضوع پر ایک وقیع کتب خانہ وجود میں آچکا ہے اور ابھی تک برابر اردو زبان میں ایسے مصنفین و مولفین پیدا ہوتے جا رہے ہیں جو جدید نسل کی تربیت اور اس میں اسلامی شعور پیدا کرنے کا کام کر رہے ہیں۔
اردو صحافت
اردو نثر کی ترویج و ترقی میں اردو صحافت کا بھی اہم رول ہے جو ہمیشہ ذمہ دار صحافت رہی ہے اور اس میدان میں دینی و اصلاحی صحافت کا قابل ذکر کردار رہا ہے‘ رسالوں اور اخباروں میں لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد سید احمد شہیدؒ کی جماعت مجاہدین اور دینی جذبے کے حامل علما کی طرف منسوب رہی ہے اور اس میدان میں دبستان سید احمد خاں اور ان کے مدرسۃ العلوم سے متعلق افراد بھی شریک ہیں اور خاص طور پر اردو صحافت کو فروغ ہندوستان کی جنگ آزادی‘ خلافت عثمانیہ کے زوال اور انگریزوں کی شہ پر ہندوستان کے مختلف طبقات میں ہونے والی کشمکش اور فرقہ وارانہ فسادات کے دور میں حاصل ہوا۔
مولانا ابوالکلام آزاد
ہندوستانی صحافت میں ہمیں ۱۹۱۲ء کے ان خونریزیوں اور المیوں کی گونج سنائی دیتی ہے جب خلافتِ عثمانیہ یورپ کی ترک تازیوں اور چیرہ دستیوں سے دوچار تھی اور بہت سے محکوم ممالک اس کے اقتدار سے نکل گئے اور ان پر یورپی ممالک کا قبضہ ہو گیا‘ شعرا کی طرح ادبا نے بھی عالمِ اسلام کے ان واقعات کی تصویر کشی دل کھول کر کی اور مغربی تہذیب پر کڑی تنقید کی اور عالمِ اسلامی پر یورپی ظلم و جور کی مذمت کرتے ہوئے مغرب کی سفاکیوں اور چیرہ دستیوں سے پردہ اٹھایا جن پر ادبا نے عالمِ عرب اور افریقہ کے اسلامی ممالک کے مسائل کو پیش کیا‘ ان میں مولانا ابوالکلام آزاد کا نام سرفہرست ہے‘ جو اپنے پرجوش ادب‘ سیال و رواں قلم‘ اپنی ادبی تحریروں اور دلچسپ اسلوب کے لیے مشہور ہیں‘ چنانچہ وہ الہلال کے ۱۳ جولائی ۱۹۱۲ء کے شمارہ میں لکھتے ہیں:
’’مراکش میں عربی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور طرابلس معرضِ خطر میں ہے‘ ایسی حالت میں قدرتی طور پر افریقہ کے عہدِ اسلامی کا ماضی قریب یاد آجاتا ہے‘‘۔
’’طرابلس میں آج جو بازارِ قتال گرم ہے‘ الجزائر پوری ایک صدی تک اس میں مبتلا رہا جو شمالی افریقہ میں سب سے بڑی اسلامی مملکت تھی اور جس کے لیے پہلی صدی ہجری میں عہدِ نبوت کا صحبت یافتہ خون بہایا گیا تھا۔ مسلسل خونریزیاں‘ پیہم عہد شکنانہ سفاکیاں‘ قتل عورات و اطفال‘ احراق منازل و بلدان‘ ہتک مساجد و اشراف اور تمام وحشیانہ اور بربری مظالم جو مسیحی غلبہ و غضب کے لازمی اجزا ہیں‘ فرانس کے ہاتھوں ایک ایک کر کے الجزائر کی نصف کروڑ کی آبادی پر گزرے اور بالآخر جانبر نہ ہو سکا‘‘۔
(الہلال‘ جلد اول‘ ۱۳ جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ۷)
عثمانی مجاہد طرابلس یوز باشی جاوید بک کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’دنیا میں تلوار اور قلم ایک ہاتھ میں کم جمع ہوتے ہیں‘ تلوار کا آہنی قبضہ شاید اس قدر سخت ہے کہ اس کی گرفت کے بعد انگلیوں میں قلم کی گرفت کی صلاحیت باقی نہیں رہتی‘ لیکن سرزمینِ اسلام کے اعجوبہ زار میں کون سی شے تعجب انگیز نہیں؟ تخت حکومت اور بوریائے درویشی‘ گلیم فقر اور خلعت شاہنشاہی‘ محراب عبادت اور ایوانِ سلطانی‘ دبدبہ و سطوت اور عدل و مساوات‘ دولت و تجارت اور توکل و قناعت‘ اشتغال دنیوی اور زہد و عبادت‘ ترقیات مادی اور تصفیۂ روحانی‘ اعتماد نفس و تدبیر اور تفویض اور اعتقاد تقدیر‘ غرض کہ سیکڑوں جذبات و اعمال ہمیشہ باہم مخالف چلے آتے تھے‘ جنہوں نے سب سے اول اس کے جامع اضداد دور خصوصیت میں ایک دوسرے سے معانقہ کیا۔ منجملہ ان کے ایک بہت بڑی خصوصیت یہ ہے کہ تیغ و قلم کی قدیمی مخالفت مٹا کر دونوں کو ایک جگہ جمع کر دیا‘ ممکن ہے کہ دیگر اقوام میں اس کی خال خال مثال ملے‘ لیکن اسلام کی تاریخ اس کی سیکڑوں مثالوں سے لبریز ہے‘‘۔
(الہلال‘ جلد اول‘ ۱۳ جولائی ۱۹۱۲ء‘ صفحہ۱۱۔۱۲)
ایک مقام پر ان لوگوں کا جواب دیتے ہوئے جو مسلمانوں کو یورپ یا ہندوئوں کے اتباع کی تلقین کرتے ہیں‘ لکھتے ہیں:
جب اتباع دین اور اعتصام بحبل اﷲ المتین کی شمعیں خود ان کے یہاں فروزاں ہیں تو ان کو کسی فقیر کے جھونپڑے سے ٹمٹماتا ہوا دیا چرانے کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں نے واضح طور پر لکھا:
’’مسلمانوں کو ہر وہ پالیسی اور ہر وہ عمل جو قرآنی تعلیم پر مبنی نہ ہو گا‘ ان کے لیے کبھی موجب فلاح وفوز نہیں ہو سکتا۔
(الہلال ۱۳ اکتوبر ۱۹۱۲ء)
یہی نہیں بلکہ انہوں نے سختی کے ساتھ لکھا کہ:
’’ہمارا عقیدہ ہے کہ جو مسلمان اپنے کسی عمل اور اعتقاد کے لیے بھی قرآن کے سوا کسی دوسری جماعت یا تعلیم کو اپنا رہنما بنائے وہ مسلم نہیں‘ بلکہ شرک فی صفات اﷲ کی طرح شرک فی صفات القرآن کا مجرم بلکہ مشرک ہو گا‘‘۔
(الہلال ۸ ستمبر ۱۹۱۲ء)
اگر ہم اردو زبان و ادب کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ ناول‘ افسانے‘ ڈرامے اور تاریخ میں اسلامی جذبہ اور دینی و تربیتی عناصر کا کتنا غلبہ ہے اور ہم دیکھیں گے کہ ادبا نے ان ادبی اصناف میں بھی اسلامی مسائل اور مسلمانوں کی زندگی کی مشکلات پیش کی ہیں اور تاریخ اسلامی کی فتح مندیوں اور کامرانیوں کے ساتھ ساتھ اس کی شکستوں اور ہزیمتوں اور اسلامی تاریخ کے پردردو پر اثر واقعات پر بھی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اس طرح بہت سے ادبا نے اسلامی زندگی کی مشکلات اور اسلامی معاشرہ کی راہ میں حائل دشواریوں کو بھی اصلاح کی غرض سے اپنے ناولوں اور قصوں میں جگہ دی ہے‘ مثلاً عبدالحلیم شررکہ ان کا موثر واقعات اور داستانوں کا ایک طویل سلسلہ ہے‘ جن میں انہوں نے زیادہ تر مصائب و مشکلات کی تصویر کشی کی ہے اور ان کی اس طرح کی کتابوں کو بڑی مقبولیت ملی اور شہرت دوام حاصل ہوئی۔
اردو میں تاریخ کی کتابوں نے بھی اسلامی غیرت و حمیت کو مہمیز دینے اور اخلاف کا تعلق اسلاف سے استوار کرنے میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے جو تاریخ کا وظیفہ ہے‘ انگریزی سامراج چاہتا تھا کہ امت کا تعلق اس کے ماضی سے کاٹ دے اور غلط سلط تاریخ پیش کر کے نئی تعلیم یافتہ نسل کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کا بیج بو دے‘ لیکن آفریں ہے اردو تاریخ نویسوں پر کہ انہوں نے ماضی پر ان کا اعتماد بحال کیا اور ان کے آبا و اجداد نے سیاست‘ علم‘ ادب اور فن کے میدانوں میں جو جرأت مندانہ کارنامے انجام دیے تھے۔ ان کی عظمت و تقدیس ان کے دلوں میں پیدا کی‘ ان مورخین کی خصوصیت یہ تھی کہ ان کا اسلامی جذبہ نیز اسلامی رنگ اور قابلِ عبرت و موعظت باتوں کو نمایاں کرنے کی ان کی کوشش موضوع کے ساتھ انصاف کرنے سے مانع نہیں ہوتی تھی‘ چنانچہ وہ لائق عبرت باتوں کی طرف توجہ بھی دلاتے تھے لیکن اس کے باوجود تاریخی پیشکش میں کوتاہی نہیں کرتے تھے اور اپنے موضوع سے ہم آہنگ یہ تاریخ اپنے جذباتی و موثر اسلوب کے نتیجہ میں ایک دلآویز ادبی موضوع بن جاتی‘ اس کے نتیجہ میں قاری عالمی اسلوب سے قریب تر آسان تاریخی اسلوب کی پیشکش سے جذبات کی عکاسی اور قلبی و وجدانی جوش کی طرف منتقل ہوتا جو دلوں کو حیرت زدہ کر دیتا اور جو وجدانی ادب سے قریب تر ہوتا تھا۔
مولانا حکیم سید عبدالحی حسنیؒ
اس اسلوب کے بہترین نمائندے مولانا حکیم سید عبدالحی حسنیؒ اور علامہ شبلی نعمانیؒ تھے‘ قاری ان کی تاریخی تحریروں میں ایسے شاہکار ٹکڑے پاتا ہے جو اپنی تاثیر و دلآویزی میں کسی فنی نثری ٹکڑے سے کم نہیں ہیں‘ بلکہ بعض مرتبہ وہ نثری شاعری کے ٹکڑے معلوم ہوتے ہیں اور یہ رنگ سفر ناموں‘ سیرت و سوانح‘ ملکوں کی تاریخ اور اسلامی ثقافت کی تاریخ نیز دیگر اقسام میں ظاہر ہوتا ہے۔
اسلامی جذبہ کی تاثیر و دلآویزی
اسلامی جذبہ اور اسلامی رنگ اردو زبان کا ایک شعار اور جز لایتجزأ بن گیا تھا‘ جس سے نہ کوئی تاریخی کتاب خالی ہوتی اور نہ سفرنامہ‘ یا ایسا کوئی مضمون جس میں اسلامی دور کے فن تعمیر یا اسلامی دور کے تاریخی آثار مثلاً حوض‘ تالاب‘ باغات‘ سائنسی و علمی جائزے یا فضائی رصد گاہیں اور مناظر فطرت سے متعلق مضامین پیش کیے گئے ہوں اور قاری ان تحریروں میں ان کی کچھ جھلکیاں پاتا اور اگر ان کا تعلق کسی المیے یا کسی تاریخی یادگار کے مٹنے سے ہوتا تو قاری ان کے درد و غم اور حسرت و افسوس میں ڈوبے ہوئے بیان میں اس خسارہ کی تفصیل پاتا جو اس کو پہنچا ہوتا یا عبرت کی جو باتیں ان میں ہوتیں ان سے درسِ عبرت لیتا۔
ہندوستان کے ایک بڑے اسلامی مورخ علامہ سید عبدالحی حسنی جن کی کتاب ہندوستان کے مشاہیر اہلِ کمال کے تذکرہ میں ’’نزھۃ الخواطر وبھجۃ المسامع والنواظر‘‘ اور ’’الھند فی العھد الاسلامی‘‘ (اسلامی علوم و فنون ہندوستان میں) ہے‘ ۱۸۹۴ء میں یعنی ہندوستان پر انگریزوں کے قبضہ کے تقریباً پچاس سال بعد دہلی‘ سہارنپور اور اطراف کے اسلامی آثار‘ علمی اسلامی مراکز اور علما بزرگانِ دین کی زیارت کو نکلے اور اپنے سفر کے تاثرات اور یادداشتیں ’’دہلی اور اس کے اطراف‘‘ کے عنوان سے اردو میں شائع کیں‘ یہ یادداشتیں ان کے بے پناہ بلکہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے اسلامی جذبہ کی عکاسی کرتی ہیں اور ان کے بعض مقامات قاری کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کر دیتے ہیں‘ جب وہ اپنے دردمند قلم اور زخمی دل سے اسلامی آثار کی کہنگی و بے بسی اور ان کی خستہ حالی کا تذکرہ کرتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ سیاسی انقلاب نے ان میں کیا تبدیلیاں کیں اور ان کو کیا سے کیا بنا دیا۔ لیکن اب بھی وہ شاندار دور کی یاد دلاتے ہیں۔
لال قلعہ کی سیر کے وقت ان کا یہ جذبہ چھلک پڑتا ہے اور وہ کہتے ہیں:
’’ہم مسجد سے براہِ راست قلعہ گئے‘ یہ قلعہ بالکل سنگ سرخ کا بنا ہوا ہے‘ اپنی لطافت اور سبکی میں بے نظیر ہے‘ دروازہ پر ایک گورا ٹہل رہا تھا‘ اس نے ٹکٹ لے لیا اور ہم اندر روانہ ہوئے‘ قلعہ کے اندر جانے کے بعد متعدد دروازے اور ڈیوڑھیاں مسلسل ملتی ہیں‘ ان میں اب آج کل گورا بازار ہے‘ اس سے نکل کر پھر بالکل ویران اور غیرآباد ہے‘ کہیں کہیں انگریزی عمارتیں اور بارکیں بنی ہوئی ہیں‘ شاہی عمارتیں باکل متاصل کر دی گئی ہیں‘ ان کے نشانات اب صرف دربار عام کے ایک درجہ سے اور دربار خاص و حمام و مسجد و مثمن برج سے معلوم ہوتے ہیں‘ جن کے دیکھنے سے ایسی عبرت و رقت ہوتی ہے جو کسی طرح بیان میں نہیں آسکتی۔ یہ وہ مکانات ہیں جن میں ہرکس و ناکس کے پہنچنے کی مجال نہ تھی۔
(ترجمہ: اقبال احمد)
(بشکریہ: پندرہ روزہ ’’تعمیرِ حیات‘‘۔ لکھنؤ۔ ۲۵ اپریل ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply