افغانستان سے انخلا کے لیے نیٹو کا پُرخطر منصوبہ

افغانستان پر امریکا کی سربراہی میں لشکر کشی ہر مرحلے پر متنازع اور قابل تنقید رہی ہے۔ یورپ نے بہت جلد اندازہ لگالیا تھا کہ امریکا نے اسے اپنے ساتھ دلدل میں کھینچ لیا ہے۔ فرانس، برطانیہ، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک نے افغانستان سے انخلا کے لیے دباؤ بڑھایا تو امریکا کو ڈیڈ لائن کا اعلان کرنا پڑا۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ انخلا کے معاملے میں عجلت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اور جامع منصوبہ بندی سے اب تک گریز کیا جارہا ہے۔
کسی بھی سربراہ کانفرنس میں ایجنڈے پر کئی نکات ہوسکتے ہیں مگر کسی ایک نکتے ہی پر غیر معمولی توجہ کا ارتکاز ممکن ہے۔ حال ہی میں شکاگو میں منعقدہ نیٹو سربراہ کانفرنس کا ایک ہی ایجنڈا تھا کہ افغانستان سے نیٹو ممالک کی افواج کے انخلا کو زیادہ سے زیادہ محفوظ رکھا جائے۔ سیاسی مصلحت کے تحت اسے ملک کا نظم و نسق افغان فورسز اور افغان حکام کے حوالے کرنا بھی کہہ سکتے ہیں۔
شکاگو کانفرنس میں ویسے تو اور بہت کچھ ایجنڈے پر تھا۔ مثلاً اسمارٹ ڈیفنس یعنی کم خرچ میں زیادہ اور موثر دفاعی حکمت عملی، یورپ کا میزائل ڈیفنس سسٹم اور نئے درخواست گزاروں سے متعلق امور طے کرنا مگر افغانستان سے انخلا ہر اعتبار سے اولین ترجیح تھا۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ نیٹو سربراہ کانفرنس میں اتفاق رائے سے زیادہ اختلافات ابھر کر سامنے آئے۔ نیٹو رسد کے لیے راہداری کے مسئلے پر پاکستان سے معاملات طے نہ ہوسکے۔
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کو ملک میں شدید عدم مقبولیت کا سامنا ہے۔ وہ مختلف قوتوں سے تصادم کی راہ پر گامزن رہے ہیں مگر اس کے باوجود انہیں نیٹو سربراہ کانفرنس میں بلایا گیا۔ وہ آئے مگر ان کی طرف سے پیش کردہ شرائط اس قدر سخت تھیں کہ امریکی صدر براک اوباما نے ان سے باضابطہ ملاقات سے بھی انکار کر دیا۔ نیٹو ممالک کو توقع تھی کہ رسد کی راہداری سے متعلق کوئی معاہدہ طے پا جائے گا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ پاکستان نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے میں ۲۴ فوجیوں کی شہادت پر امریکا سے معافی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ معافی مانگے جانے تک نیٹو رسد کی بحالی ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ پاکستان چاہتا ہے کہ نیٹو رسد کے ہر کنٹینر پر پانچ ہزار ڈالر ادا کیے جائیں جبکہ نیٹو کہتی ہے پہلے فی کنٹینر ڈھائی سو ڈالر دیے جاتے تھے اور اب پانچ سو ڈالر دیے جاسکتے ہیں۔ پاکستان چاہتا ہے کہ ڈرون حملے بند کردیے جائیں مگر امریکا اس کے لیے تیار نہیں کیونکہ القاعدہ کے خلاف لڑائی میں اسے ڈرون حملوں سے غیر معمولی کامیابیاں حاصل ہوئیں اور ہائی ویلیو ٹارگٹس ختم کرنا قدرے آسان ثابت ہوا ہے۔
صدر زرداری کے ہوتے ہوئے سودے بازی کی گنجائش موجود ہے، گو کہ ان کی پوزیشن خاصی کمزور ہوچکی ہے اور امریکا مخالف جذبات بھی پاکستان میں ہائی پچ پر ہیں۔ نیٹو کے لیے اب رسد کا جنوبی (پاکستانی) روٹ کھولنا فوج کے لیے ساز و سامان کی فراہمی سے کہیں بڑھ کر دیگر روٹس پر پڑنے والے دباؤ کو کم کرنے سے متعلق ہے۔
امریکا اور یورپ میں لوگ جنگ سے عاجز آچکے ہیں۔ صدر براک اوباما اور دیگر مغربی راہنما اپنے عوام کو بتانا چاہتے ہیں کہ ایک ایسی جنگ پر جان و مال لٹانے کا سلسلہ ختم ہونے والا ہے جس کا کوئی انجام نظر نہیں آتا۔ ساتھ ہی ساتھ افغان باشندوں کو بھی یقین دلانے کی کوشش کی گئی کہ ۲۰۱۴ء کے بعد بھی عالمی برادری انہیں تنہا نہیں چھوڑے گی، یعنی یہ کہ طالبان کی واپسی کے بارے میں زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان کے چند غیر معاون پڑوسیوں کو یہ پیغام بھی دینا چاہتے تھے کہ ۲۰۱۴ء تک اتحادیوں کے کومبیٹ فوجیوں کی واپسی کے بعد بھی کابل حکومت کی معاونت جاری رہے گی۔
افغان حکومت کو یہ یقین دلانے کی کوشش بھی کی گئی کہ اسے کسی بھی مرحلے پر عسکریت پسندوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جائے گا۔ دس سال تک ہر سال افغان فوج کو پروان چڑھانے اور مستحکم کرنے کے لیے تین ارب ساٹھ کروڑ ڈالر دیے جائیں گے۔ اس میں افغان حکومت کا حصہ پچاس کروڑ ڈالر ہوگا۔ نیٹو کے بعض ارکان کا کہنا ہے کہ افغانستان کو مستحکم رکھنے کے لیے یہ فنڈنگ کافی نہیں مگر فی الحال اس سے زیادہ فنڈنگ ممکن نہیں ہو پارہی۔
نیٹو نے انخلا کا جو منصوبہ تیار کیا ہے وہ اب تک کسی نہ کسی حد تک کامیاب رہا ہے۔ طالبان کو ختم کرنا ممکن نہیں ہوا تاہم ان کی طاقت کو چند خاص علاقوں تک محدود رکھنا ضرور ممکن ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان کو کنٹرول کرنے میں افغان فورسز کس حد تک کامیاب رہتی ہیں۔ خاص طور پر ان کے مضبوط گڑھ قندھار اور ہلمند میں۔ مشرقی افغانستان میں طالبان اور حقانی نیٹ ورک زیادہ مضبوط ہے اور ان صوبوں میں افغان فورسز کی صلاحیت کا حقیقی امتحان ہوگا۔ سینئر افغان سیاست دانوں کو اس حوالے سے اپنی صلاحیتوں پر پورا بھروسا نہیں مگر وہ بھی کیا کریں، کوئی اور راستہ یا منصوبہ بھی تو ہاتھ میں نہیں۔ پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں ۲۰۱۰ء میں ہونے والے اجلاس میں افغانستان کی سکیورٹی، ترقی اور بہتر حکمرانی پر زیادہ توجہ دی گئی تھی۔ شکاگو کانفرنس میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نیٹو ارکان کی افواج کے محفوظ انخلا کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی اور ایسے طریقوں پر غور کیا گیا جن سے انخلا کا عمل زیادہ سے زیادہ آسان اور محفوظ بنایا جاسکتا ہو۔ افغانستان میں تعمیر نو سے متعلق مغربی منصوبوں کے ختم کیے جانے سے معیشت بری طرح متاثر ہوگی۔ ان منصوبوں سے ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ مغربی ممالک نے صوبوں کی سطح پر تعمیر نو کے منصوبے شروع کیے تھے جو اب بھی جاری ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ انہیں کسی نہ کسی طرح لپیٹ دیا جائے گا۔ افغان حکام کو اندیشہ ہے کہ تعمیر نو اور سکیورٹی سے متعلق منصوبوں کی بساط کا یوں بے ڈھنگے طریقے سے لپیٹ دیا جانا غیر معمولی خرابیوں کی راہ ہموار کرے گا۔

(“Nato’s Risky Afghan Endgame”… “Economist”. May 26th, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*